رشید احمد پوری قوت سے چیخ رہا تھا گو امریکہ گو۔ اس کے گلے کی رگیں سرخ ہو رہی تھیں‘ ٹوپی دو بار گرتے گرتے بچی تھی۔ جب مقرّرنے جذباتی تقریر کے عین درمیان مطالبہ کیا کہ ڈرون حملے کرنے والے امریکہ کے سفیر کو ملک سے باہر نکال دیا جائے تو جلسہ کے شرکاء میں جیسے بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ چہرے فرطِ جذبات سے سرخ تر ہو گئے۔ نعرے مارتے مارتے آوازیں جیسے تبدیل ہو گئیں۔ گلے رُندھ گئے۔ ایک تال، ایک نے پر ہزاروں کے مجمع نے گو امریکہ گو کا نعرہ اس غضب سے لگایا کہ دیکھنے والے اور سننے والے دم بخود رہ گئے۔
رشید احمد نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد وہ محلے کی تنظیم کے ساتھ مختلف افراد کو جلسے میں آنے کی تلقین کرتا رہا ‘اسی میں دوپہر ہو گئی۔ پھر دریاں بچھانے میں بھی اس کا کردار نمایاں تھا۔ دوبار لاؤڈ سپیکروں کی بیٹریاں تبدیل کرنے اندرونِ شہر گیا۔ عصر کے وقت جلسہ ختم ہؤا تو اس کا انگ انگ دُکھ رہا تھا۔ جلسہ گاہ ہی میں ایک طرف دری پر لیٹ گیا۔
مغرب کے لگ بھگ رشید احمد گھر پہنچا۔ بیوی، خلافِ معمول، مسکرا کر ملی۔ آج اس نے یہ شکوہ بھی نہ کیا کہ چھٹی کا پورا دن باہر گذار آئے ہو، لگتا تھا دل میں کچھ ہے جو کہنا چاہتی ہے۔ رشید نے پانی پیا۔ بیوی نے چائے کی پیالی تپائی پر رکھی۔ اور مسکرا کر پوچھا۔ ’’بجٹ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟‘‘ رشید احمد نے عجیب سا منہ بنایا۔ ’’نیک بخت! کچھ سوچ کر بات کیا کرو۔ میں صبح سے مذہبی جماعتوں کے زیر انتظام ڈرون حملوں کے احتجاجی جلسے میں شریک تھا۔ کان کھجانے کی فرصت نہیں ملی!‘‘
’’میں نے بجٹ کے بارے میں پوچھا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ لنڈے کے کپڑے سستے ہو گئے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے ‘نیچے کی منزل کے دونوں کمروں اور اوپر کے برآمدے کے پردے ہم ابھی تک نہیں بنا سکے۔ دو ہفتے پہلے میں ایتوار بازار سے ہو آئی۔ پرانے پردے بھی خاصے مہنگے تھے۔ پھر چھوٹی کے فراک بھی بنانے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے میں تو ایک عرصے سے جوتے بھی سکینڈ ہینڈ ہی خرید رہی ہوں۔ بستر کی چادریں بھی میموں کے پرانے فراک ادھیڑ کر، ٹکڑے سی کر، بناتی ہوں۔ کل مجھے بازار لے کر چلو! اللہ کرے قیمتیں براے نام نہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں کم ہوئی ہوں!‘‘
یہ ہے ہماری امریکہ سے اور اہلِ مغرب سے اور ان کے اتحادیوں سے مقابلہ کرنے کی حقیقت! اُس مزارع نے زمیندار سے کیا لڑائی کرنی ہے جس کے گھر میں دانے اور جس کے تن پر کپڑا اُسی زمیندار کا دیا ہؤا ہے۔ بجٹ کا اعلان ہؤا ہے۔ روزنامہ دنیا کے مطابق ’’لنڈے کے کپڑوں کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے‘‘ ایک اور اخبار نے خوش خبری دی ہے کہ ’’لنڈے کے کپڑے کی ڈیوٹی 5 فیصد سے تین فیصد کر دی گئی ہے۔‘‘
لنڈے کے یہ کپڑے کہاں سے آتے ہیں؟ سعودی عرب سے؟ مراکش سے یا کسی اور برادر ملک سے؟ نہیں! یہ امریکہ ‘جرمنی ‘کینیڈا ‘فرانس ‘برطانیہ ‘ناروے ‘ڈنمارک ‘سویڈن‘ فن لینڈ اور بلجیم ‘سوئٹزرلینڈ اور ہسپانیہ سے آتے ہیں! یہ اٹلی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آتے ہیں۔
آپ اس ملک کی اقتصادیات کے کھوکھلے اعدادو شمار کا اندازہ لگائیے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 29 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ راولپنڈی کے وسط میں صرف ایک لنڈا بازار تھا جہاں سے لوگ سیکنڈ ہینڈ کپڑے خرید کر سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے تھے۔ اب بیسیوں مقامات پر یہ بازار کھل چکے ہیں۔ ہر ایتوار بازار، ہر جمعہ بازار کا تقریباً ایک چوتھائی یا پانچواں حصہ لنڈا بازار پر مشتمل ہے۔ صدر چھٹی کے دن پورے کا پورا لنڈا بازار میں ڈھل جاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد کی ساری گلیاں ،ساری سڑکیں سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار سے اٹی ہوئی ہیں۔جس ملک میں عشروں سے مردم شماری ہی نہیں ہوئی وہاں ہمیں کبھی بتایا جاتا ہے کہ 29 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے رہ رہے ہیں اور کبھی خوش خبری دی جاتی ہے کہ پچاس فیصد سے اوپر خواندگی کا تناسب ہے۔ کس بنیاد پر؟ مردوں اور عورتوں کی مطلق تعداد ہی معلوم نہیں تو خواندہ اور ناخواندہ کی تعداد کیسے معلوم ہوئی ہے؟
غربت کی لکیر سے نیچے کا پاکستان دیکھنا ہے تو شہر شہر ‘بازار بازار ‘گلی گلی، قصبہ قصبہ، قریہ قریہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے لاکھوں گٹھر کھلتے اور بکتے دیکھو! یہ انہی کی اترن ہے جنہیں اس اسلام کے قلعے میں رات دن گالیاں دے کر گو، گو، کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ سفیروں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کرنے والے ذرا پہلے گلیوں میں آ کر عوام کی حالت تو دیکھیں۔ اِن لیڈروں سے کوئی یہ پوچھے کہ حضور! آپ کے پاس یہ درجنوں پجارو، یہ بیسیوں لینڈ کروزر کہاں سے آتی ہیں؟آپ کے لا تعداد پہریدار، گارڈ، بندوقچی تنخواہیں کہاں سے لے رہے ہیں؟ آپ کا اپنا ذریعۂ معاش کیا ہے؟
جنہوں نے امریکہ کو نکالنا ہوتا ہے وہ گو، امریکہ، گو کے نعرے لگا کر ائر کنڈیشنڈ کمروں میں اور حجروں میں قیمتی قالینوں پر بیٹھ کر دنیا کے بہترین کھانے نہیں کھاتے۔ ایسے ملکوں کے صدر اور وزیراعظم دبئی اور لندن جا کر علاج نہیں کراتے۔ مہاتیر نے اس آئی ایم ایف کو نکالا اس لیے کہ مہاتیر نے اپنا علاج اپنے ملک میں کرایا۔ سنگاپور کے صدر کو امریکی صدر نے فون پر استدعا کی کہ غنڈہ گردی کے جرم میں پکڑے گئے امریکی چھوکرے کو بیدوں کی سزا نہ دی جائے۔ سنگاپور کا صدر نہ مانا اس لیے کہ ان حکمرانوں کا ذاتی مفاد کوئی نہیں۔ سنگاپور کے معمار اور محسن لی نے اپنے بچوں کے نام پر پانامہ میں کمپنیاں نہیں کھولی تھیں۔ اسی نے وصیت کی تھی کہ اس کا واحد ذاتی گھر اس کی موت کے بعد منہدم کر دیا جائے تا کہ اُسے بر قرار رکھنے میں سرکاری پیسہ نہ لگے۔ ان ملکوں نے اپنے عوام کو پہلے کپڑا مہیا کیا۔ رہائش گاہیں فراہم کیں۔ ملازمتیں دیں۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد ان لوگوں نے امریکہ کو بھی ملک سے نکالا۔ آئی ایم ایف کو بھی دروازہ دکھایا اور ورلڈ بینک کی سرداری بھی ختم کی۔ ان ملکوں میں کوئی نان سٹیٹ ایکٹر کلف زدہ کھڑ کھڑاتے ملبوسات پہن کر، اُترن اوڑھے عوام کے ساتھ مذاق نہیں کر سکتا۔
پاکستانی عوام دنیا کی سب سے زیادہ قابلِ رحم مخلوق ہے۔ لوگوں کو پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جا رہا۔ لوکل گورنمنٹ کا وجود ہی نہیں جو پانی مہیا کرے۔ اس پر طرہ یہ کہ بوتلوں میں بند پانی جو لوگ پی رہے ہیں، اس پر مزید ٹیکس لگا کر اور مہنگا کر دیا گیا ہے۔ سریا، سیمنٹ ‘ماربل، تینوں اشیا جو مکان بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، مزید مہنگی کر دی گئی ہیں۔ مطلب واضح ہے کہ جو پہلے ہی محلات کے مالک ہیں، ان کے لیے ایک اور محل بنانا چنداں مشکل نہیں۔ مگر جس نے زندگی بھر کی کمائی سے دو یا تین کمروں کا ٹھکانہ تعمیر کرنا ہے، اسے سریا سیمنٹ اور ماربل کی قیمتوں میں اضافے سے اچھا خاصا دھچکا لگے گا !
تاجروں کی حکومت ہو تو بجٹ تاجروں کے مفاد ہی میں بنے گا۔ پانچ بڑی صنعتوں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان، قالینوں اور آلاتِ جراحی پر عاید 3 تا 5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس یکسر ختم کر دیا گیا ہے۔ ان صنعتوں میں استعمال کی جانے والی بجلی، گیس، کوئلہ، فرنس آئل پر بھی سیلز ٹیکس اُڑا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہی صنعتیں اپنی جو مصنوعات اندرون ملک فروخت کریں گی ان پر اضافی ٹیکس لگا کر انہیں مزید مہنگا کر دیا گیا ہے! یہ اضافی ٹیکس پاکستانی عوام دیں گے۔
انصاف دیکھیے کہ اینٹیں اٹھانے والا مزدور اور محلات کا مالک سیٹھ، دونوں سے موبائل فون پر یکساں شرح سے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ مزدور بیچارہ سو روپے کا کارڈ لیتا ہے۔ اس کا تیس پینتیس فیصد ٹیکس میں کٹ جاتا ہے۔ باقی ستر یا پینسٹھ روپے بچتے ہیں۔ سیٹھ بھی اسی شرح سے ٹیکس دیتا ہے مگر وہ تو پانچ یا اسی ہزار کا کریڈٹ دلواتا ہے۔ یہی اصل انصاف ہے۔ ایک انصاف پسند قصاب بھی یہی کچھ کرتا تھا۔ ایک گدھے کے گوشت میں ایک مرغ کا گوشت ملاتا تھا۔
No comments:
Post a Comment