سنہری بالوں والی جسٹین گریننگ
(Justine Greening)
دیکھنے میں ایک عام برطانوی خاتونِ خانہ لگتی ہے۔ مگر یہ 47سالہ لیڈی‘ برطانیہ کی سو طاقت ور ترین عورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ لندن بزنس سکول سے ایم بی اے کرنے کے بعد بڑی بڑی کمپنیوں میں فنانس منیجر کے طور پر کام کیا۔ پھر سیاست میں آئی اور کنزر ویٹو پارٹی کی طرف سے 2005ء میں منتخب ایوان کی رکن بنی 2007ء میں خزانے کی شیڈو منسٹر بنی۔ کیا آپ کو معلوم ہے شیڈو
(Shadow)
منسٹر کیا ہوتا ہے؟ برطانیہ اور بہت سے دوسرے جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف باقاعدہ اپنی کابینہ بناتی ہے‘ اسے شیڈو کابینہ کہتے ہیں۔ اگر آپ شیڈو کابینہ میں فرض کیجیے تعلیم کے وزیر ہیں تو یہ امر آپ کے فرائض میں شامل ہے کہ حکومتی پارٹی کے وزیر تعلیم کا محاسبہ کریں۔ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں؟ متبادل تجاویز اور پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔ یوں حزب اختلاف‘ ہر وزیر کا مسلسل محاسبہ کرتی ہے اور اس کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔
2009ء میں گریننگ لندن کی شیڈو منسٹر بنی اس کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو وہ وزیر خزانہ بنائی گئی۔2014ء میں ٹرانسپورٹ کی وزیر بنی۔ 2012ء میں اسے انتہائی اہم وزارت سونپی گئی۔ وہ بین الاقوامی ترقی کی وزیر تعینات ہو گئی۔ اب وہ اس امداد کی انچارج تھی جو برطانیہ پس ماندہ ملکوں کودیتا ہے۔ یوں اس کی رسائی پاکستان کے معاملات تک ہوئی۔
اس بی بی نے پہلی بار ہمارا شان و شوکت والا اونچا طرہ 2013ء میں اتارا اور کیکر پر ٹانگ دیا۔ آگے چل کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ طُرّے کا لفظ ایڈیٹر کی قینچی سے ڈر کر استعمال کیا گیا ہے ورنہ کیکر پر ٹانگا جانے والا کپڑا ہمارے لباس فاخرہ کا ایک اور حصہ تھا! جسٹین گریننگ نے کہا کہ جب برطانوی ٹیکس دہندگان پاکستان کو امداد دیتے ہیں تو پھر ان کا یہ حق ہے کہ وہ اس امدادی رقم کے بدلے میں کارکردگی کی توقع کریں؛ چنانچہ جب برطانوی ٹیکس دہندگان سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کے بالائی طبقات ٹیکس کیوں نہیں ادا کرتے یا انتہائی کم ٹیکس کیوں ادا کرتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں!
برطانوی قومی اسمبلی (دارالعلوام) میں بین الاقوامی امداد کے حوالے سے کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ اس کے سربراہ سر بروس ہیں۔ جب جسٹین گریننگ نے پاکستان کے امرا کے ٹیکس نہ دینے کا معاملہ اٹھایا تو سر بروس نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانیوں کی’’عزت افرائی‘‘ کی!’’برطانیہ پر لازم ہے کہ ایسے ملک کو امداد دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے جہاں امیر ترین طبقات ٹیکس نہیں دیتے۔ ہم برطانیہ کے ٹیکس دہندگان سے رقم لے کر پاکستان کو کہاں تک دیتے جائیں جب کہ ان برطانوی ٹیکس دہندگان کی آمدنی پاکستان کے ان دولت مندوں سے کم ہے جو ٹیکس نہیں ادا کرتے! ‘‘
درمیان میں سر بروس کا ذکر آ گیا۔ بات جسٹین گریننگ کی ہو رہی تھی ۔ جسٹین نے یہ بھی کہا کہ مئی2013ء کے انتخابات نے میاں نواز شریف کو مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ اقتصادی نظام میں اصلاحات لائیں!!پاکستان کے حوالے سے میڈیا میں جسٹین گریننگ کا تذکرہ آندھی کی طرح دوسری بار اس وقت اٹھا جب گزشتہ سال کے آخر میں پنجاب کے وزیر تعلیم نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ اس تصویر کی ‘جس میں وہ خاتون وزیر سے ہاتھ ملا رہے تھے‘ برطانوی میڈیا نے خوب تشہیر کی مگر اس تشہیر کے ساتھ جلی سرخیاں اس قسم کی تھیں۔’’ہم ہر سال پاکستان کو سات سو ملین (ستر کروڑ) پائونڈ تعلیم کے لیے دیتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ پنجاب کے سکولوں کے وزیر کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہیں‘‘برطانوی میڈیا نے اس موقع پر لکھا کہ پنجاب کو 38کروڑ پائونڈ دیئے گئے مگر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کرپشن کے بڑے بڑے کیس پکڑے۔ سندھ میں پانچ ہزار سکولوں اور چالیس ہزار اساتذہ پر فنڈز خرچ کئے گئے جب کہ ان سکولوں اور ان اساتذہ کا وجود ہی کوئی نہ تھا۔ سب کچھ جعلی تھا! پنجاب کے ہائر ایجوکیشن بجٹ میں سے ساڑھے تین کروڑ پائونڈ بالکل ہی غائب پائے گئے!
یہ ہے ہماری کارکردگی ‘یہ ہے ہماری شہرت اور یہ ہے ہماری عزت! لباس ہمارا کلف زدہ ہے۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں ہیں۔ پجارو پر سوار ہیں مگر مانگ بھیک رہے ہیں! ماں گداگری کر رہی ہے‘ صاحبزادہ گھوڑوں کے سودے کر رہا ہے! کشکول توڑنے کے دعوے تو کیے تھے مگر بھیک مانگ کر مزے اڑانے کی لت پڑ جائے تو کشکول کون توڑتا ہے۔
جسٹین گریننگ ہمارے کشکول میں روٹی کے ٹکڑے ڈالنے کے لیے دو دن قبل اسلام آباد میں تھیں! وزیر اعظم کے دفتر میں ہمارے ارباب اقتدار اور اس برطانوی خاتون وزیر برائے’’بین الاقوامی ترقی‘‘ کے درمیان میٹنگ ہوئی اور ترقیاتی ’’شراکت‘‘ کے معاہدے پر بات چیت ہوئی! شراکت؟جی ہاں! بالکل وہی شراکت جو مالک اور نوکر کے درمیان تھی کہ مالک کھانا کھائے گا اور نوکر برتن دھوئے گا۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ترقیاتی ’’شراکت‘‘ یہ ہے کہ اگلے دس برس بھی برطانیہ بھیک دیتا رہے گا۔ بھیک کو ان اجلاسوں میں ’’امداد‘‘ یا ’’ایڈ پروگرام‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بھیک دینے کا موجودہ معاہدہ جو 2006ء سے لے کر 2016ء تک دس سالہ عرصہ پر محیط تھا آنے والے ستمبر میں ختم ہو جائے گا۔ اس عرصہ میں برطانوی ٹیکس دہندگان نے دو ارب سے زیادہ پائونڈ اہلِ پاکستان کو بھیک میں دیے۔اتنی خطیر رقم برطانیہ نے کسی اور ملک کو نہیں دی۔
مستقبل کا ’’تعاون‘‘ کن شعبوں میں ہو گا؟ وہی جن میں ستر سالوں سے ہو رہا ہے اور تاحال نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ گورننس! غربت کا انسداد! ٹیکس اصلاحات! ور فاٹا کے متاثرین کی بحالی!! لاٹری ہماری یہ نکلی ہے کہ ٹیکس اصلاحات اور گورننس کے ساتھ فاٹا کے متاثرین بھی مل گئے ہیں! زلزلہ یا سیلاب آتا تو اور بھی وارے نیارے ہو جاتے!
ہمارے سیاست دان نجی جیٹ طیاروں میں پھرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اجلاس دبئی میں یوں ہوتے ہیں جیسے دبئی بندر روڈ پر واقع ہو! چیئرمین صاحب پارٹی اراکین کو طلب فرماتے ہیں تو جہازوں کے جہاز اڑانیں بھر کر چل پڑتے ہیں! دوسرا مرکز لندن ہے! طبی معائنہ ہے تو لندن میں ‘آپریشن ہے تو لندن میں‘ جائیداد ہے تو لندن میں‘ کاروبار ہے تو لندن میں! برطانوی کابینہ کے ارکان ہماری سرینوں پر جوتے رسید کر رہے ہیں کہ شرم کرو! برطانوی عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے تمیں امداد دے رہے ہیں جب کہ تمہارے لوگ برطانوی عوام سے کہیں زیادہ دولت مند ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے!!
لیکن ہم چوک پر‘ گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دینے والے ان بے حس‘ بے شرم بھکاریوں کی طرح ہیں جن کے چہروں پر عزت نفس کی ایک رمق بھی نہیں!لوگ انہیں حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مگر وہ مسکراتے رہتے ہیں اور بھیک مانگتے رہتے ہیں!
جسٹین بی بی!! ہمارے کشکول میں سکّے ڈالتی رہو! گزشتہ دس سال کا معاہدہ ستمبر میں ختم ہو گا تو مزید دس سال کے لیے سکّے ڈالنے کا معاہدہ طے ہو جائے گا۔ مزید دس سال!
مزید بیس سال!
مزید تیس سال!
بھیک مانگنے کا کوئی انت نہیں! بھیک کے ان کھنکتے سکوں سے ہم لباس فاخرہ خریدیں گے۔ اونچا طرّہ پہنیں گے اور دبئی اور لندن کا رُخ کریں گے ؎
ان ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے‘ تو ہے کم
No comments:
Post a Comment