پہلی خوف ناک شکست بھارت نے ہمیں1971ء میں دی۔ غلطیاں ہماری اپنی تھیں، فائدہ اس نے اٹھایا۔ نوے ہزار پاکستانی پنجرے میں بندکر لیے۔ تاریخ نے کبھی یہ تعداد مسلمان قیدیوں کی دیکھی ہی نہ تھی۔ ہم نے خوب خوب واویلا کیا۔ کبھی امریکہ بحری بیڑے کی دھمکیاں دیں، کبھی چین کا ڈراوا دیا۔ مگر ٹائیگر نیازی نے ایک چوہے کی طرح شکست کی دستاویز پر دستخط کیے اور نسل خراب کرنے کی دھمکیاں دینے والے شیر نے ریوالور سکھ جرنیل کی خدمت میں پیش کر دیا۔
دوسری خوف ناک شکست ہمیں مودی دے رہا ہے۔ یہ شکست امورِ خارجہ کے میدان میں ہے۔ شکست نہیں، شکست در شکست در شکست ہے۔ مودی ملک پر ملک فتح کر رہا ہے اور کیے جا رہا ہے۔ مانا وہ مسلمانوںکا قاتل ہے، مگر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ بھارت کے لیے کس قدر اورکیا کچھ کر رہا ہے۔ اس کا ذاتی مفاد کوئی نہیں۔ بزنس ہے نہ بیرون ملک جائیدادیں! دوروں پر جاتا ہے تو اپنے کسی بھائی کو اپنا دم چھلہ نہیں بناتا، نہ ہی اس کی اولاد کسی سیٹھ کے نجی طیارے میں اس کے پیچھے پیچھے دوروں میں ساتھ ہوتی ہے!
2015ء کے دوران مودی 26 ملکوں میں گیا۔ روس سے اس نے جنگی طیاروں کے لیے معاہدہ کیا۔ تیل، کوئلہ، زراعت اور ہیروںکی تجارت پر بات کی۔ سنگاپور جا کر بھارتی تارکینِ وطن سے خطاب کیا۔ ملائیشیا گیا اورکئی شعبوں کے حوالے سے معاہدے کیے۔ برطانیہ گیا اور تین دنوں میں ستائیس معاہدے کیے۔ ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے لے کر دفاعی معاملات تک۔۔۔۔ لشکرِ طیبہ پر واویلا مچانے سے لے کر سائبر سکیورٹی تک۔۔۔۔!! یہ نہیں کہ وہ لندن جا کر اپنی برادری کے چند لوگوں سے مل کر واپس آ جائے! وہ جہاں جاتا ہے، پروٹوکول اور دو طرفہ آداب کے ساتھ جاتا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ بار بار نہیں جاتا نہ ہی ’’نجی دورے‘‘ کرتا ہے!!
2015ء میں امریکہ آیا تو ٹیکنالوجی کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملا۔
اور جگر تھام کر پڑھیے۔ وہ متحدہ عرب امارات گیا جہاں اس کی زبردست پذیرائی کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے جشن منایا کہ تین فتوحات اس دورے میں ہوئیں۔ اوّل: اس نے بقول بھارتی میڈیا کے، متحدہ عرب امارات کو قائل کر لیا کہ دہشت گردی کا مرکز’’کہاں‘‘ ہے! دوم: تجارتی تعلقات کو وسیع ترکیا اور سوم: بھارتی تارکین وطن کے لیے مراعات لیں! جولائی 2015ء میں روس کے شہر اُوفا میں بین الاقوامی کانفرنس سے ہمارے وزیراعظم سیدھے اسلام آباد پہنچے اور ایک ’’انتہائی اہم‘‘ اجلاس کی صدارت کی۔ یہ انتہائی اہم اجلاس لاہور ہوائی اڈے کی مرمت کے بارے میں تھا! آپ کا کیا خیال ہے، اگر معاملہ کراچی یا کوئٹہ یا پشاور کے ہوائی اڈے کی مرمت کا ہوتا تو وزیراعظم اُس کی صدارت بنفس نفیس کرتے؟ بہر طور، مودی اُوفا سے واپس گھر نہیںگیا۔ وہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ایک ایک دارالحکومت گیا۔ تجارت، توانائی اور دفاعی معاملات پر معاہدے کیے۔ ان ملکوں کے طالب علم انڈیا میں جا کر تعلیم حاصل کریںگے! یاد رہے کہ جو شخص جس ملک میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کا اس سے جذباتی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ساری زندگی اُس ملک کے غیر اعلانیہ سفیر کے طور پر اُس سے ذہنی طور پر وابستہ رہتا ہے۔
پھر وہ چین گیا اور چینی کمپنیوں کے ساتھ بائیس ارب ڈالرکے معاملات طے کیے۔ پھر یہ ہندو بچہ فرانس گیا اور 36 لڑاکا جیٹ طیاروں کے لیے درخواست کی! پھر وہ جرمنی گیا اور شور مچایا کہ پوری یونین اور بھارت کے درمیان فری ٹریڈ معاہدہ ہونا چاہیے۔ اس نے کہا کہ بھارتی مصنوعات کی برآمد کے لیے یہ بہت ضروری ہے! شہری ترقی کے لیے جرمنی اور انڈیا نے باہمی ورکنگ گروپ تشکیل دیا، انڈیا اور جرمنی کی یونیورسٹیوں کے درمیان طلبہ کے تبادلوں پر رضا مندی ہوئی! پھر وہ منزلوں پر منزلیں مارتا بحرِاوقیانوس کے اُوپر اُڑتا کینیڈا اترا۔ اس نے کینیڈا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جس کے نتیجہ میں کینیڈا بھارت کو طویل مدت تک یورینیم سپلائی کرے گا! توانائی، تیل اور گیس کے معاہدے اس کے علاوہ تھے! جنوبی کوریا کے دارالحکومت پہنچ کر سات معاہدے طے کیے۔ اب اس ملک کے ساتھ بھارت تجارت کرے گا تو ڈبل ٹیکسیشن نہیں ہوگی!
2015ء نے ہمیں یہ سارے جھٹکے دیے اور رخصت ہو گیا۔ 2016ء آیا تو مودی نے پھر واسکٹ پہنی، زعفران کا قشقہ ماتھے پر لگایا، بتوں کے آگے سجدہ زیر ہوا اور سعودی عرب جا پہنچا۔ یہاں وہ بادشاہ سے ملا۔ وزیر داخلہ اور وزیردفاع سے ملاقات کی۔ بھارتی کمپنی ’’ٹاٹا کنسلٹینسی سروس‘‘ سعودی عرب میں ایک ہزار سعودی خواتین کو آئی ٹی کی تربیت دے رہی ہے۔ مودی نے ان سعودی خواتین کو بھارت آنے کی دعوت دی۔ تیس لاکھ بھارتی سعودی عرب میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ان کے لیے مراعات لیں۔
مگر زور دار چپت مودی نے پاکستان کے سر پر مئی 2016ء میں لگائی جب وہ پاکستان کے اوپر سے ہوتا ایران گیا اور افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ معاہدے کیے۔ چاہ بہار پیش منظر پر چھایا رہا۔ یہ پاکستانی سفارت کاری کی بد قسمت ناکامی تھی کہ لاکھوں افغان جو پاکستان میں کما اورکھا رہے ہیں، ان کے صدر نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور بھارت اور ایران کے ساتھ مل کر خم ٹھونک کر کھڑا ہوگیا۔
بھارت نے دوسری چپت ہمارے سر پر اُس وقت رسید کی جب مودی قطر گیا اور اسے زبردست اور مثالی اہمیت دی گئی۔ قطر اور بھارت کے درمیان سات معاہدے ہوئے۔
تیسری چپت مودی نے ہمارے سر پر تین دن پہلے ماری ہے۔ وہ امریکہ گیا اور آٹھ معاہدے طے کیے۔ ان میں ایک معاہدہ ایسا بھی ہے جس کی رُو سے دونوں ملکوں کی بحریہ خفیہ اطلاعات کا تبادلہ کریںگی۔ معاہدوں کو تو چھوڑیے، اوباما کے اس اعلان پر غورکیجیے جو اس نے مودی کی گود میں بیٹھ کر کیا کہ پاکستان ممبئی اور پٹھانکوٹ کے ملزموں کو کٹہرے میں لائے۔ جو کچھ اس کے علاوہ ہوا اور کہا گیا، اس کی تفصیلات آپ نے 9 جون کے اخبارات میں دیکھ لی ہوںگی!
دوسری طرف ہماری ’’سرگرمی‘‘ دیکھیے۔ نیوکلیئر سپلائی گروپ کی رکنیت کے لیے کوشش کس طرح ہو رہی ہے؟ مشیر خارجہ سرتاج عزیز دوسرے ملکوں کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطے کر رہے ہیں! کبھی ایسے کام دنیا میں ٹیلی فونوں سے بھی ہوئے؟ مگر دوسری طرف مشیر خارجہ ان ملکوں میں جائیں تو وزیرخارجہ کو پروٹو کول نہیں ملے گا۔ کریں توکیا کریں! نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن! وزارت خارجہ کا قلم دان تو وزیراعظم نے اپنی میز پر سجا رکھا ہے! فارسی کا محاورہ ہے’’برائی نہادن چہ سنگ و چہ زر‘‘ رکھنا ہی ہے اور استعمال نہیں کرنا تو ایسے سونے اور پتھر میں کیا فرق ہے! اس قلم دان کا کیا فائدہ جو استعمال ہی نہ ہو!
ہمارے وزیراعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شرمیلے ہیں۔ جگت بازوں کی مجلس پسند فرماتے ہیں۔ گفتگو کا غالب حصہ خور و نوش کے موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا دربار میں شیخ رشید اور مشاہد حسین جیسے ہنسانے والوں کی کرسیاں تختِ شاہی کے نزدیک ہوتی تھیں۔ اب بھی وہ لوگ دائیں بائیں ہیں جو اسمبلی تک میں لچرگفتگو کرتے ہیں اور پنجابی سٹیج ڈراموں کے سکرپٹ نویس جن کے سامنے ہیچ ہیں!
کیا آپ تصورکر سکتے ہیںکہ ہمارے وزیراعظم جرمنی،کوریا، فرانس،کینیڈا اور امریکہ جا کر سربراہوں سے بات کریں گے، مباحثہ کریںگے، پاکستان کا کیس پلیڈ کریںگے اور اپنی نگرانی میں معاہدوں کے مسودے تیار کرائیں گے؟ یہاں تو ترجیحات ہی اور ہیں! اوّلین ترجیح یہ ہے کہ اختیارات خاندان سے باہر نہ نکلیں! دوسری ترجیح یہ ہے کہ پاناما لیکس سے جان چھوٹے۔
مودی دنیا کو فتح کیے جا رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سٹیج پر بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس کا ہر نیا دورہ ہمارے لیے خفت کا نیا سامان لا رہا ہے! کہتے ہیں ایک مغل شہزادہ ہمیشہ محل کے زنان خانے ہی میں رہا! وہیں بچپن وہیں لڑکپن،کنیزوں اور بیگمات کی صحبت میں گزرا یہاں تک کہ نوجوان ہوا۔ ایک دن محل میں کہیں سے سانپ نکل آیا۔ کنیزوں اور بیگمات نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلاؤ۔ شہزادہ بھی پکار رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ!
پس نوشت: چین پاکستان کی پولیس کو 425 گاڑیاں اور 80 ایمبولینس فراہم کر رہا ہے۔ چین سے درخواست ہے کہ ان گاڑیوں کے صحیح استعمال کو بھی یقینی بنائے۔ کہیں حسب معمو ل دال جوتیوں ہی میں نہ بٹ جائے۔
No comments:
Post a Comment