Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, June 27, 2016

ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے

وہی گلیاں تھیں جن میں امام مالکؒ برہنہ پا چلتے تھے۔ تین تہائی رات ایک طرف تھی اور ایک تہائی ایک طرف۔ سبز گنبد سے روشنی پھوٹتی تھی اور چہار دانگ پھیلتی تھی۔ یہی دنیا تھی مگر نہیں! ایک اور دنیا تھی! ہوا اور تھی۔ مٹی مختلف تھی۔ پاؤں کے نیچے زمین نہیں تھی۔ زائر ایک اور جہاں میں تھا۔ پھر ربِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا۔ لفظوں کو حکم ہؤا کہ اس بے زبان گنہگار کے پاس جائیں۔ لفظ آتے گئے اور اپنی اپنی جگہ جُڑتے گئے: 
 مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی
کوئی ایسی لغت! جس میں سناؤں یہ کہانی
یہاں مٹی میں کنکر لعل اور یاقوت کے سب
درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی
اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انہیں کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی
رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت
قیامت کے تلاطم میں وہ کشتی بادبانی
مرے آبِ وضو سے بھیگتی ہے رات اظہارؔ
مری آنکھوں سے کرتے ہیں ستارے دُرفشانی
وطن قیامت کے تلاطم میں ہے! بادبان پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ کاش سمندر میں کوئی مشعلیں ہی پھندک دیتا کہ بادبان روشن ہو جاتے! یہ کشتی سیدھی چل سکتی! اٹھو! جن کی استطاعت ہے جاؤ! پہلے ایک حرم کا طواف کرو۔ پھر دوسرے میں جاؤ۔ سبز گنبد کے سائے تلے کھڑے ہوکر، جہانوں کے مالک کو مدینے کا واسطہ دو۔ مدینہ کی اُن گلیوں کو وسیلہ بناؤ جہاں کفشِ مبارک کا نچلا حصہ پڑتا تھا تو مٹی کا ایک ایک ذرہ ستارا بن جاتا تھا۔ اُس مٹی پر پلکیں بچھاؤ اور وطن کی ہچکولے کھاتی کشتی کی سلامتی کی بھیک مانگو! اور جو مدینہ نہیں جا سکتے، آخری عشرہ آغاز ہو رہا ہے، یہیں گڑ گڑانا شروع ہو جاؤ! یہ دس راتیں غنیمت سمجھو۔ تین پہر ایک طرف ہوتے ہیں اور ایک پہر ایک طرف کہ منادی ہوتی ہے، ہے کوئی طلب کرنے والا؟ ہے کوئی مصیبت زدہ؟    ؎
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں؟
ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے
مصیبت زدہ؟ ہاں! ہم مصیبت زدہ ہیں! ہم سے زیادہ مصیبت زدہ کون ہوگا؟ ہم سے زیادہ پروردگار کی دست گیری کا مستحق کون ہے؟ ہم بہروپیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیںگندم کی نوید سنائی جاتی ہے، ہم تھیلے لیے پہنچتے ہیں تو ہمارے تھیلے جو سے بھر دیے جاتے ہیں! بنی اسرائیل چالیس سال بھٹکتے رہے، ہمیں تو اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو چلا ہے۔ بھٹک رہے ہیں اور ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں خدا کی قسم جن کی بغل میں منزل کا نہیں، لق و دق صحرا کا نقشہ ہے۔ یہ ہمیں اُس صحرا میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں سراب ہیں۔ ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔ سروں کے کاسے ریت میں چمک رہے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی طنابیں ہر طرف بکھری ہیں۔ کیا اب بھی کسی کے بتانے کی، خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ اِس دشتِ وحشت میں مسافروں کا انجام کیا ہوتا ہے! دشت کے اندر آبنائے آئی ہوئی ہے۔ خوف کی آبنائے جس کے دونوں طرف جسموں کے پنچر ہیں!
مدارس کو مین سٹریم میں لانے کی بات؟ مدارس کے طلبہ کی فکر؟؟ بخدا یہ بات بنانے والی بات ہے۔ یہ 
After Thought 
کے سوا کچھ نہیں! اِس کالم نگار جیسے شخص مدارس کے مخالف نہیں ہو سکتے بالکل اس طرح جیسے انسان اپنی میراث کے درپے ہوجائے۔ اس کالم نگار کے جدِ امجد نے ساٹھ سال مسجد کے فرش پر بیٹھ کر ہدایہ، کنزالد قائق، جلالین، سکندرنامہ، مطلعِ انوار اور بہت کچھ اور پڑھایا۔ شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب دُرِمختار اور فتویٰ عالمگیری ان کے بازؤں کی رسائی میں نہ ہو! پھر بزرگوں سے سعدیٔ ثانی کا خطاب پایا۔ اس کالم نگار کے والد، خدا اُن کی لحد کو منور کرے، اُن چند متقدمین میں سے تھے جو جاہلی شاعری پڑھا جانتے تھے۔ مدتوں مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حماسہ، متنبی، سبع معلقات، مقامات حریری پڑھاتے رہے اور عربی انشا سکھاتے رہے۔ جس دن اپنے طلبہ کو اپنی جیب سے چائے نہ پلاتے، بے چین رہتے۔ جسٹس افضل چیمہ مرحوم کہ ان کے نصف صدی پرانے دوست تھے، گھر آئے اور اصرار کر کے رابطہ عالم اسلامی میں مترجم اور ترجمان بنا کر لے گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں سے فارغ ہوئے تو سیدھے مدرسہ پہنچے اور اسی دن تدریس شروع کر دی! ہم جیسے طالب علم تو مدارس میں پڑھانے والوں کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں! اور یہ ہمی جانتے ہیں کہ مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ عمران خان؟ عمران خان کو کیا معلوم کہ مدرسہ کیا ہے اور ان میں پڑھانے اور پڑھنے والے کس حال میں ہیں      ع
توچہ دانی کی درین گرد سواری باشد 
کیا اس کالم نگار نے نصف درجن کالم اِس موضوع پر نہیں لکھے کہ مدارس کے اساتذہ کا استحصال ہو رہا ہے؟ وہاں پڑھنے والے بچوں کا حق، مالکان اور ان کے خاندانوں کے بلند معیارِ زندگی کی نذر ہو رہا ہے؟ تو پھر آپ نے کون سا میکانزم ڈھونڈا ہے جس کے تحت ٹیکس دہندگان کی یہ خطیر رقم طلبہ پر خرچ ہوگی؟ اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس رقم کا آڈٹ کرے گا۔ ذرا بتا دیجیے تا کہ اُس میکانزم کا دوسرے مدارس پر بھی اطلاق ہو! پھر آپ نے صوبے کے ہزاروں مدارس میں وہی چُنا جو غیر ملکیوں کا گڑھ ہے۔ جس کی خاص شہرت ہے؟ آپ کا مقصد نواز نے کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو آپ مفتی رفیع عثمانی ہی سے مشورہ کر لیتے جن کے والد مفتی محمد شفیع تحریکِ پاکستان کے سپاہی رہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم کے تحت پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں شریک رہے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آپ کو تاریخ سے آشنائی ہی نہیں! تاریخِ پاکستان کاؤنٹی کرکٹ سے ذرا مختلف چیز واقع ہوئی ہے۔ آپ کو یہ تک نہیں معلوم کہ جن سے آپ اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے مخالف تھے ورنہ ان سے قائداعظم کو قائداعظم ہی کہلوا دیجیے۔ انہیں بابائے قوم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے لے جا کر دکھا دیجیے۔ آخر یہ لوگ اپنے بزرگوں کی قبروں پر بھی تو جاتے ہی ہیں! 
پھر ایک خاص مدرسہ کا انتخاب پارلیمنٹ نے کیا یا فردِ واحد نے؟ کیا سنی، شیعہ، اہلِ حدیث، بریلوی، تمام مکاتبِ فکر کے علما اور اصحابِ مدارس سے آپ نے مشورہ کیا؟ کیا یہ سارے مسالک کے مدارس ہمارے اپنے مدارس نہیں؟ آپ میں گہرائی ہوتی تو آپ یہ طرفداری، دھڑے بندی والا کام ہر گز ہز گز نہ کرتے! تمام مکاتبِ فکر کے علما سے مشورہ کرتے۔ پشاور سنجیدہ اور دیانت دار علمائے کرام سے الحمد للہ جگمگا رہا ہے جن میں اہلِ حدیث، بریلوی، شیعہ، دیوبندی تمام موجود ہیں! 
سو، ہمیں کوئی طعنہ نہ دے کہ ہم مدارس کے مخالف ہیں یا یہاں کے طلبہ سے محبت نہیں کرتے! تحدیثِ نعمت کے طور پر۔ بخدا صرف اور صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ ایک بیٹے نے مسجد میں، مدرسہ کے فرش پر بیٹھ کر قرآن پاک حفظ کیا، اب سول سروس میں ہے اور الحمد للہ باپ کی طرح دوپہر کو گھر سے لائی ہوئی سوکھی روٹی سبزی کے ساتھ کھاتا ہے! میں تو اُن قاری صاحب کی خاکِ پا کے برابر نہیں جنہوں نے اسے حفظ کرایا۔ ہم تو اُس قبیلے سے ہیں جہاں اساتذہ کی اولاد کا بھی اساتذہ کے برابر احترام کیا جاتا ہے! گزارش صرف اتنی ہے کہ شیخ سعدی کی بات پر کان دھریے جو اتفاق سے، آپ کی نسبت ذرا زیادہ عقل مند تھے     ؎
ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی!
کین رہ کہ تو می روی، بہ ترکستان است!
علما انبیا کے وارث ہیں! مگر کون سے علما؟ وہ علما جو مراعات اور پروٹوکول اور سرکاری رقوم سے بے نیاز ہو کر، خالص رضائے الٰہی کے لیے، قال اللہ اور قال الرسول میں عمر گزارتے ہیں۔ وہ نہیں جو بالوں میں مصنوعی سیاہی چمکا کر میڈیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں! افسوس ہؤا، کیا وقت آیا ہے اسلام پر! حمزہ علی عباسی دین سے متعارف ہونے کے لیے گیا بھی تو کہاں گیا! ارے بھئی! کسی عالم کے پاس جاتے جہاں علم بھی ہوتا اور برکت بھی! جسٹس تقی عثمانی کے پاس چلے جاتے! مفتی منیب الرحمن کے ہاںحاضر ہو جاتے! ابتسام الٰہی ظہیر کے پاس چلے جاتے! عمار خان ناصر سے ملاقات کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین پڑھنے اور سمجھنے میں عمریںگزار دیں! ان کے نکتۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی علمیت مسلّمہ ہے!
کہانی کے آغاز کی طرف پلٹتے ہیں! ہم نے اونٹوں کی قطار دیکھی اور لدی ہوئی بوریاں! ہم تھیلے لیے پہنچے مگر ارے! یہ گندم نہیں یہ تو جو ہیں! گندم نمائی! اور جو فروشی! نہیں! جناب نہیں! آپ اپنا پاندان اٹھا لیجیے! آپ کا پاندان ہمارے کام کا نہیں! ایک صوبے کے تجربہ ہی سے معلوم ہو گیا کہ یہ فردِ واحد کے فیصلے ہیں۔ پورے ملک کی حکومت ملی تو کیا ہو گا! اتنا ادراک ہی نہیں کہ سارے مسلکوں، سارے مکاتبِ فکر کو ساتھ لے کر چلیں! مرکز میں برسرِ اقتدار آ کر بھی اگر یہی انصاف ہونا ہے اور تحریکِ پاکستان کے ساتھ یہی ’’وفاداری‘‘ نبھائی جانی ہے تو پھر ابھی سے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دنیا شروع کیے دیتے ہیں! حالی نے مسدس کا آغاز ایک درد ناک رباعی سے شروع کیا ہے۔ بُری طرح یاد آرہی ہے:
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی
پس نوشت! ہر کالم نگار کا حلقۂ اثر ہوتا ہے۔ الحمد للہ بھاری اکثریت نے ٹھنڈی سانس بھر کر اتفاق کیا ہے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com