Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, June 20, 2016

اُلجھ گئے ہیں ہمارے نصیب۔۔۔! کیا کہنا۔۔۔!

کہتے ہیں ایک صاحب نے کسی اسرائیلی سے پوچھا کہ اتنے پیچیدہ بارڈر پر تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زمین اسرائیل کی ہے یا عربوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ جو زمین ہری بھری فصلوں سے ڈھکی ہوئی ہوگی وہ اسرائیل کے اندر ہو گی اور جو بنجر و ویران اور غیر کاشت شدہ ہوگی وہ اسرائیل سے باہر ہو گی!
نہ جانے اس میں کتنی صداقت ہے۔ عرب اسرائیل سرحد پر جا کر جگہ جگہ کون پڑتال کرے گا مگر جو کچھ زاہد شنواری نے کہا ہے وہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے زاہد شنواری نے کہا ہے کہ افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے ویزے کا اصرار غلط بات ہے۔ اس سے پاکستان کے اپنے قبائلیوں کا نقصان ہوگا۔ زاہدکی اس دلیل میں وزن ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں زراعت ہے نہ کوئی صنعت! لے دے کے مشرقی افغانستان کے ساتھ تجارت کا سہارا ہے۔ زاہد نے اعداد و شمار سے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ 2010ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم اڑھائی ارب ڈالر تھا جو گھٹ کر ڈیڑھ ارب رہ گیا ہے!
چار عشرے ہو چکے ہیں بلکہ کچھ برس اوپر بھی جب پہلی بار خیبر ایجنسی سے لے کر وزیرستان تک کے قبائلی علاقوں کا سفر کیا۔ طورخم کے تحصیلدار کے ہاں ظہرانہ تھا۔کل کی خبر پڑھ کر ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو تعجب ہوا ہو کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد میں تحصیلدار ہمیشہ سے ایک طاقتور منصب دار رہا ہے۔ اس کے اقتدار کا پھیلائو اتنا ہی ہے جتنا کسی دوسری جگہ کمشنر کا! شنواری گوشت بریاں کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ گز گز لمبی سلاخیں تھیں جن میں بریاں گوشت کے ٹکڑے پروئے ہوئے تھے۔ ساتھ کابل کے سردے تھے! مدتوں بعد پڑھا کہ آگرہ میں مقیم ہو جانے کے بعد بابر کے لیے کابل سے خربوزے آئے۔ خربوزہ کاٹتا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے! پھر تاشقند‘ سمرقند‘ بخارا‘ ترمذ اور خیوا میں بھی خربوزے کھائے۔ افغان خربوزوں سے کئی گنا زیادہ شیریں! لب دوز! تاشقند کی ایک شام تھی۔ ایک تاجکی دوست خربوزے کاٹتا تھا اور فارسی میں سیاست پر بات کرتا جاتا تھا۔ انگور اور آڑوکی دو دو سو‘ اڑھائی اڑھائی سو اقسام اور ہرگھر پھلوں میں تقریباً خودکفیل!
چار عشرے پہلے‘ کچھ برس اوپر‘ قبائلی علاقوں کا پہلا سفر تھا۔ فلک بوس‘ بنجر‘ سیاہ پہاڑ دیکھ کر وحشت ہوتی تھی اور حیرت بھی کہ حملہ آور کیا کچھ عبور کر لیتے تھے۔ پھر قدرت کی بے نیازیوں پر حیرت سے بھی آگے کے جہان کھلتے تھے۔ اتنی ویرانی‘ اتنا بنجرپن اور پھر انہی بے آب و گیاہ گھاٹیوں میں زر کی فراوانی! دنیا بھر کا مال و اسباب مہیا تھا۔ بکتا تھا اور باڑے اور میرن شاہ کے بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا! وہ میرن شاہ پرسکون زمانے کا میرن شاہ تھا! قدرت سے کیا بعید ہے‘ جو لق و دق پہاڑوں میں مال و دولت فراہم کر سکتی ہے‘ وہ دلوں کی زمستاں زدہ شاخوں کو بھی ہرا بھرا کرنے پر قادر ہے! 
زاہد شنواری درست کہتے ہیں کہ قبائلی زراعت اور صنعت دونوں سے محروم ہیں! مگر آہ! یہ اتنا بڑا جرم کس نے کیا‘ کتنا عرصہ کیا اور ظلم کہیے یا نااہلی کہ اب تک کیوں ہو رہا ہے؟ انور شعور نے کہا ہے  ؎
کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمہیں
کیسے ہو تم شعور؟ یہ کیا ہو گیا تمہیں
کیا چاہیے نہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد وفاق اور صوبے (اُس وقت این ڈبلیو ایف پی) کی حکومتیں اولین فرصت میں ان علاقوں کی حالت بدلنے کو ترجیح دیتیں؟ کراچی‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ کے صنعتکاروں کو ترغیب و تحریص دی جاتی کہ وہاں جا کر کارخانے لگائیں۔ زراعت کو ترقی دی جاتی۔ مشینی کیا جاتا۔ کروڑوں اربوں کی رقوم پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے چند ملوک اور خوانین کو ساٹھ ستر سال تک دی جاتی رہیں۔ وہی دولت تعلیم پر لگائی جاتی۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال پھیلا دیا جاتا! سرحد پار کے قبائلیوں اور ہمارے قبائلیوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا۔ سرحد پار کرتے ہی تفاوت کا احساس ہو جاتا۔ جیسے ترمذ میں بیٹھ کر ایک دن اس کالم نگار نے جنوب کی طرف گدلے پانی کی اُس ندی کو دیکھا تاریخ جسے آمو دریا کہتی ہے۔ دریا کے پار افغانستان تھا اور افغانستان کی غربت اور فلاکت! ویرانی اور جنگ و جدل۔ مگر آمو کے دوسری طرف ایک خوبصورت شہر‘ دیدہ زیب عمارتیں‘ کھاتے پیتے لوگ‘ بہت آسائشیں نہ تھیں مگر ایک پرسکون آرام دہ زندگی کا دور دورہ تھا!   ع
بارہا گفتہ ام و بار دگرمی گویم
پھر مطالبہ ہے کہ ملوک اور خوانین میں بانٹی گئی دولت کا کوئی حساب کتاب‘ کوئی اندراج کوئی ریکارڈ کہیں ہے؟ یونہی تو نہیں بڑے شہروں کو چھوڑ کر ’’سمجھ دار‘‘ سول سرونٹ ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لگنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک سیاستدان کے فرزند نے مدتوں پہلے وہاں تعیناتی کرائی۔ مشہور تھا کہ ٹمبر مافیا والے تین لاکھ روزانہ کا حصّہ نکالتے ہیں!
ریاست نے قبائلیوں کے لیے کچھ نہ کیا! کچھ بھی تو نہیں! قبائلیوں کے پاس کیا راستہ بچا؟ سمگلنگ! یا وہ سب کچھ جو خان کرنے کے لیے کہے! یا بندوق اٹھا کر طالبان کے پاس چلے جائیں! پاکستان میں بیٹھے ہوئے رہنما ریموٹ کنٹرول سے افغانوں اور قبائلیوں کو جنگ کا ایندھن بناتے رہے۔ ان رہنمائوں کے اپنے بچے، تو وہ آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ بغل میں دبائے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پھر بزنس کرتے تھے یا آنکھوں کو چندھیانے والی بڑی بڑی ملازمتیں! ان لوگوں نے قبائلیوں کے بچوں کو غلیلوں اور پھر بندوقوں کے خون آشام شغل میں الجھائے رکھا!
اب جب پاکستان بارڈر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو زاہد شنواری جیسے حالات سے آگاہ حضرات درست کہتے ہیں کہ زراعت ہے نہ صنعت نہ تعلیم! آمدورفت پر بھی پابندی لگ گئی تو قبائلی روٹی کیسے کمائے گا اور کیونکر کھائے گا!
الجھے ہوئے مقدر ہیں افغانوں اور قبائلی پاکستانیوں کے!

Love-Hate Relationship 
کی عجیب و غریب مثال!
بارڈر کھولیں تو دہشت گردی کا طوفان! بند کریں تو جینوئن تاجروں کو مشکلات! مجید امجد نے کہا تھا  ؎
جو تُم ہو برق نشیمن تو میں نشیمن برق
اُلجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
ریاست کرے تو کیا کرے‘ جائے تو کہاں جائے! باقی سمگلنگ کو چھوڑ دیجیے‘ ایک لمحے کے لیے دہشت گردی کے مسئلے کو بھی ایک طرف رکھ دیجیے‘ دستاویزات کے بغیر ہجوم کو اجازت دے دیں تو صرف کرنسی کی مد میں پاکستانی ریاست کو کروڑوں کا نقصان ہے! جولائی سے لے کر 2015ء کے اکتوبر تک‘ یعنی صرف چار ماہ کے عرصہ میں پاکستانی حکام نے بیس لاکھ ڈالر کی کرنسی پکڑی اور یہ تو سمندر کا صرف ایک قطرہ ہے۔ ہزار سے لے کر تیرہ سو تک ٹریلر روزانہ جا رہے ہوں تو چیکنگ ممکن ہی نہیں رہتی۔ ’’افغانستان ٹو ڈے‘‘ کو ایک سمگلر نے بتایا کہ اس نے چند ماہ میں تیس لاکھ ڈالر سے زیادہ کرنسی کی سمگلنگ کی!
اس وقت پشاور میں تقریباً ساڑھے تین سو منی چینجر ہیں۔ ان میں سے دوسو افغانی ہیں‘ جن کا کاروبار سرحد پار تک پھیلا ہے۔ وہی بات کہ برق نشیمن یا نشیمن برق! رہائی میں نجات نہ قید میں!  ؎
ترکِ تعلقات کا دن بھی عجیب تھا
مر کر رہا ہوئے کہ رہا ہو کے مر گئے
ریاست نے ستر سالوں میں قبائلیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا! زاہد شنواری درست کہتے ہیں‘ تجارت بھی نہ ہوئی تو کیا کریں گے؟ مگر زاہد شنواری جیسے دردمند لوگ قبائلیوں کی حالت بدلنے کے لیے ریاست کی نالائقی کا کفارہ بھی تو ادا کرنے کا سوچیں۔ ایسی تنظیم بنائیں جو قبائلی علاقوں میں کارخانے لگائے اور لگوائے۔ زراعت کو جدید خطوط پر لائے‘ تعلیمی ادارے پھیلائے‘ یہ حضرات صنعتکاروں کو تحفظ فراہم کریں۔ حکومت ٹیکس ہالی ڈے دے تو صنعتکار قبائلی علاقوں کا رُخ کریں! مگر صنعتکار بھی صرف منافع تو نہ دیکھیں! حبّ وطن کے لیے بھی کچھ کر کے دکھائیں! یا دھرتی ماں سے صرف دودھ ہی پینا ہے؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com