کس بد بخت،کس شُہدے شکستے نے کہا تھا کہ دیہی سیاست کے بجائے شہری سیاست کا عمل دخل رائج کرو! جاگیرداروں زمینداروں سرداروں سے جان چھڑاؤ ۔معاملات پڑھے لکھے شہری سیاست دانوں کے سپر د کردو۔ اس بدبخت’اس شُہدے شکستے کو ڈھونڈو۔
اسے پکڑ کر مرغا بناؤ اس کی سرین پر جوتے رسید کرو! تھوڑی سی مزید سفاکی کی گنجائش ہوتو اس عقل کے اندھے سے ناک بھی رگڑواؤ !
کاغذ کے صفحے پر یہ غیظ و غضب ‘یہ غصہ ‘اس لیے نہیں بکھر رہا کہ جاگیرداروں وڈیروں خان زادوں زمینداروں سرداروں سے ہمدردی ہے!نہیں !بالکل نہیں !اس طبقے سے ہمدردی کرنے اور ہمدردی رکھنے سے بہتر ہے کہ آدمی نیلے تھوتھے کا پھکا مار لے یا تنبے کا جوس پی لے! پاکستان کی تاریخ میں بدترین کردار دیہی سیاست کے پرچم برداروں نے ادا کیا۔ مگر اس وقت ہم پڑھنے والوں کو کہیں اور لے جانا چاہتے ہیں !
سب سے بڑا اعتراض جاگیرداروں وڈیروں پر یہی تھا نا کہ پٹواریوں کی پرورش کرتے ہیں !ایک بار ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کو ملنے یہ کالم نگار گیا۔ کوئی کام تھا۔ دروازہ کھول کر اندر قدم رکھ رہا تھا کہ بغلی انتظار گاہ پر نظر پڑی ۔علاقے کا ایک بڑا سیاستدان بڑا نام، ملاقات کے انتظار میں صبر و سکون سے بیٹھا تھا۔
دیہات سے تعلق رکھنے والے سیاست دان پٹواریوں ، تحصیل داروں ،تھانیداروں کے مرہون احسان تھے،اگر پٹؤاری کو ہر ماہ” نذرانہ”دیتے تھے ‘اگر تھانیدار کے گھر میں گائے یا مجسٹریٹ کے گھر میں بھینس بندھواتے تھے تو وزیر بننے کے بعد بھی یہ “روٹین” جاری رہتی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ وزارت آنی جانی ہے مگر علاقے میں مستقل رہنا ہے اور رعب اور دھونس پٹواری اور تھانیدار ہی کے ذریعے قائم رکھنا ہے۔تاہم ان دیہی سیاست دانوں میں رکھ رکھاؤ ضرور تھا۔ یہ فاصلہ رکھتے تھے ۔پٹواری جتنا بھی نک چڑھا ہوتا۔ پٹواری ہی رہتا ! ذاتی دوستی کے حصار کے اندر کبھی نہ داخل ہوتا!
پھر اس ملک کی سیاست نے پلٹا کھایا۔ پلٹا کیا کھایا ‘جمال گوٹے کی پوری پڑیا کھالی! فوجی آمریت نے کسی کونے سے کھینچ کر شریف خاندان کو باہر نکالا، اور اس مقہور، مغضوب اور مظلوم قوم کے سر پر ٹوپی کی طرح پہنا دیا ۔اب وہ ٹوپی بلائے جاں بنی پھرتی ہے ۔اترنے کا نام نہیں لے رہی۔
شریف برادران نے ایسا کام کیا کہ پٹواریوں تھانیداروں تحصیل داروں کی سرپرستی کرنے والے جاگیردار منہ تو خیر دیکھتے رہ گئے،سر بھی پیٹنے لگے۔
ایک سابق پولیس افسر کو سینٹ کا ٹکٹ دے کر نواز شریف نے اپنے آپ کو تجرباتی لیبارٹری میں خود ہی پیش کردیا۔ اپنا طریق واردات آشکارا کردیا۔اپنا مائنڈ سیٹ ‘اپنا طرزِ فکر ‘سب کچھ سامنے میز پر رکھ دیا۔ ایک مرحلہ آتا ہے کہ آدمی خود اپنے آپ کو برہنہ کردیتا ہے ،ایکس پوز کردیتا ہے، ڈھکا چھپا کچھ نہیں رہتا !یہ قدرت کا انتقام لینے کا طریقہ ہے۔
واقفان حال راوی ہیں کہ میاں صاحب پولیس کے افسروں سے ذاتی دوستی کی سطح پر تعلقات رکھتے تھے۔ یوں ان کی سیاست پٹواری اور تھانیدار کی سطح سے “بلند” ہوتی گئی۔ وزیراعلی یا وزیراعظم کا “دوست”بننا کوئی معمولی بات نہیں !یہ ایسا دام تھا جس میں پاؤں الجھا کر افسر کے لیے باہر نکلنا ناممکن تھا۔ اس بلند سطح پر “دوستی” کے بعد کون سا قائدہ اور کون سا ضابطہ؟ قائدے قانون کو میاں صاحب کی ذات پر یہ پولیس افسران وارتے رہے۔ قربان کرتے رہے۔ یوں نیٹ ورک مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔
یوں تو ساری بیوروکریسی کو شریف برادران نے سرطان میں مبتلا کیا مگر جو نگاہِ خاص پولیس پر رہی !بے مثال رہی! اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پولیس حکومت کی جیب میں رہی۔تھانہ کلچر بدلنے کا نعرہ شہباز شریف اتنے طویل عرصہ سے لگا رہے ہیں کہ برس گننے بھی ممکن نہیں ! مگر بچہ بھی جانتا ہے اور پاگل کو بھی معلوم ہے کہ تھانہ کلچر میں ایک رمق کا ہزارواں حصہ بھی تبدیلی نہیں آئی۔ پولیس کے ساتھ ہر حکومت کا عام طور پر،اور شریف برادران کا خاص طور پر ‘غیر تحریری معاہدہ ہے کہ تم ہماری حفاظت کرو، ہمارے خاندان کی حفاظت کرو!ہمارے ذاتی احکام مانو ‘ہماری انگلیوں پر ناچو۔اس کے بدلے میں تمھیں کھلی چھٹی ہے تھانے میں جو مرضی ہے کرو! جتنا چاہے کماؤ! جس کو چاہو مارو،جسے چاہو ،اندر بند کرو!
نیت صاف ہو اور گورننس دیانتداری سے سرانجام دینی ہو تو جیسے ہی پولیس کا سربراہ ریٹائرڈ ہو ‘میرٹ کی بنیاد پر اس کا جانشیں مقرر کردیا جائے۔ گزشتہ سال پنجاب پولیس کا سربراہ ریٹائرڈ ہوا تو کون سا کھیل ہے جو وزیراعلی نے نہیں کھیلا۔طویل عرصہ تک کسی کو تعینات نہیں کیا ۔پھر مسئلہ عدالت میں چلا گیا۔عدالت نے تعیناتی کا حکم دیا۔اب عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ ایسے افسر کو تعینات کیا گیا جو چند ماہ کے بعد ریٹائر ہونے والا تھا۔ جو “پسندیدہ” آئی جی ریٹائر ہوچکا تھا اسے ایک ایسی بلند پایہ پوسٹ پر بٹھا دیا گیا جس کے نفسِ مضمون سے پولیس کا تعلق ہی نہ تھا ۔
اگر اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو حیرت انگیز نتائج نکلیں گے۔ جن افسران کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نوازا گیا’ان میں اکثر پولیس کے نکلیں گے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں جن ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کو کھپایا گیا۔ ان میں سے اچھی خاصی تعداد پولیس سے متعلق نکلے گی! دوران سروس” دوستیاں “ خدمتیں !اور ریٹائرمنٹ کے احسان کی کھیتی پر پھل آنا! رہا ضابطہ قانون یا میرٹ !تو اس پر کیا عمل ہونا تھا! عمل ہوتا تو آج ہالی ووڈ کے اداکار ‘اپنے آ پ کو ہمارے حکمرانوں کے سامنے طفلانِ مکتب نہ سمجھتے۔
جو ذہن پولیس کے ریٹائرڈ افسروں کو اور اسحاق ڈاراور مشاہد حسین سید جیسی شخصیات کو سینٹ کے لیے موزوں سمجھے گا ‘غور کیجیے ‘وہ ذہن کیسا ہوگا؟ اس ذہن کی سطح کیسی ہوگی؟ اس ذہن میں میرٹ کا کیا تصور ہوگا؟ اس ذہن میں ملک اور قوم کی بھلائی کے لیے کیا تصورات ہوں گے؟ ایسے ذہن کا قائداعظم کے ذہن سے موازنہ کیجیے! پھر سوچئے ہم کہاں سے چلے تھے اور کس پاتا ل میں اتر گئے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے سیاست دان جن کی واحد صفت دولت مند ہونا ہے اور جو راؤ انوار اور عابد باکسر جیسے اہلکاروں کے بل بوتے پر حکومت کرتے ہیں اس ملک کی تقدیرکے مالک ہیں ۔کُھل کھیل رہے ہیں ۔ آخر اس ملک کے عوام نے کون سا گناہ کیا ہے؟ زرداری صاحب کی پارٹی اندرون سندھ اور نواز شریف صاحب کی پارٹی وسطی پنجاب کے بل بوتے پر پورے ملک کو یرغمال بنائے بیٹھی ہے!تجوریوں کے دہانے کھلے ہیں ! ہر مال فروختنی ہے !ہر شخص کی قیمت لگائی جارہی ہے۔۔ہر شخص اپنے اوپر for sale کا بورڈ لگا کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔منڈی لگی ہے۔۔کاروبار کا زور ہے۔ دکانداروں اور گاہکوں کا شور ہے!تعلیم ‘قابلیت’ تجربہ’ذہانت کسی گنتی میں نہیں !تجارت اور خالص تجارت! سودا کاری! خالص سودا کاری! ترازو پر باٹ ہیں ! آئیے ۔تُلیے ‘قیمت پائیے۔ یا قیمت ادا کیجیے سینٹ میں بیٹھ جائیے۔
اخبارات کے پہلے صفحات پر ایک تصویر نمایاں ہے۔ایک مشہور مولانا وزیراعظم سے ملاقات کررہے ہیں ۔وزیراعظم جو بھی ہو ‘مولانا اس سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے ملاقات کرتے ہیں ۔ ملاقات بھی ون ٹو ون۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ ان کی پارٹی کے دیگر سینئر رہنما ہوں !
مولانا کو قدرت نے بے پناہ صلاحیت سے نوازا ہے۔مزاج کے تاجر ہیں ۔ ایسی تجارت کرتے ہیں کہ نفع ہی نفع ہوتا ہے ۔ خسارے کا سودا کبھی کیا ہی نہیں !جس مال کی تجارت کرتے ہیں وہ مال ذرا مختلف نوعیت کا ہے!حکومت گرانی ہو ‘حکومت بچانی ہو ‘مال کو یوں آگے پیچھے کرتے ہیں کہ دیکھنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں !ہمیشہ ایسا منصب لیتے ہیں جو مراعات اور سٹیٹس میں بمنزلہ وزیر ہو !اس سے کم نہیں !سبحان اللہ !کیا ذہانت پائی ہے !او رذہانت کا کیا استعمال ہے۔ گتکا کھیلنے کے ماہر ، تیز بارش میں پورے صحن کا چکر لگا آئیں مگر ایک بوند خود پر نہ پڑنے دیں ! حکومت کوئی بھی ہو وہ حکومت کا حصہ ہیں !اپوزیشن کوئی بھی ہو وہ اپوزیشن کا حصہ ہیں !امریکی سفیر سے وزارت عظمٰٰی مانگتے ہیں اور ہر جلسے میں ‘ہر تقریر میں امریکی سازش کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں ؟
نیلامی لگی ہے۔آکشن ہورہا ہے!
منڈی میں رونق ہے
بولی!
قیمت!
ترازو!
باٹ!
ما ل!
مال!
اور مال!
No comments:
Post a Comment