کاٹھ کی ہنڈیا چولہے پر کتنی بار چڑھ سکتی ہے؟
آمریت زدہ پنجاب حکومت کاٹھ کی ہنڈیا ہے ۔اس کا انجام قریب ہے!
رسی بہت دراز ہوچکی !اب یہ رسی کھینچی جارہی ہے۔ اس رسی کےساتھ بندھے ہوئے طاقتور افراد، احد چیمہ اور فوا د حسن فواد جیسے طاقت ور افراد، رسی کے ساتھ کھنچے چلے آرہے ہیں !قامتیں دُہری ہورہی ہیں ! بدن کا سارا لہو کھنچ کر چہروں پر آرہا ہے۔
یہ ازل سے ہوتا آرہا ہے۔اقتدار کا عروج انسان کو اندھا کردیتا ہے اور بہرا کردیتا ہے اور گونگا کردیتا ہے۔ اس کا ذہن شل ہوجاتا ہے ،وہ کچھ سننے،سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا ہوا شخص بظاہر طاقت ور ہوتا ہے مگر وہ ایک فالج زدہ اپاہج کی طرح ہوتا ہے۔اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اندھے اقتدار کی سلائی اس کی آنکھوں میں بھر جاتی ہے ۔ پھر اسے اس کے حواری لیے لیے پھرتے ہیں ، ان حواریوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔ اقتدار کا پگھلا ہوا تانبا اس کے کانوں میں پڑتا ہے۔ پھر اس کی سماعت مختل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ وہی کچھ سنتا ہے جو مفادات سنوانا چاہتے ہیں ۔
اللہ اللہ کیا غرور تھا ،سب سے بڑے صوبے کے حکمران اعلی کا !اس نے کبھی کسی کےسوال کا جواب نہیں دیا۔ اگر کوئی پریس کانفرنس ہوتی تو بھی مقرر کردہ مہرے پسندیدہ سوال کرتے۔پھر یہ حکمران چھلاوے کی طرح یہ جاوہ جا۔ صوبائی اسمبلی کو اس نے اتنی اہمیت بھی نہیں دی جتنی شو ہارن کو دی جاتی ہے۔’جتنی لکڑی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو دی جاتی ہے جس کی مدد سے پیٹھ کھجائی جاتی ہے ۔تکبر کسی اسمبلی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ رہی کابینہ! تو وہ کس چڑیا کا نام تھا۔ حکمران قصور جاتا یا شیخؤپورہ ‘یا حافظ آباد’ متعلقہ وزیر کانام کبھی کسی نے نہ سنا۔ کبھی پریس میں نہ آیا۔ ہسپتال ہوتایا کوئی اور ادارہ’ حکمران اعلی اس ادارے کے سربراہ سے براہ راست پوچھ کچھ کرتا۔ کبھی کوئی ایسی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
دیانت اور شفافیت کا نعرہ لگانے والے حکمران اعلی کے دور کی صرف دو مثالیں ہی کافی ہیں ۔دیانت اور شفافیت کا پردہ چاک کرنے کے لیے۔ ماڈل ٹاؤن ہلاکتوں کے معاملے میں جو ٹاپ لیول بیوروکریٹ ملوث تھا اسے عالمی تجارتی ادارے میں سفیر کے عہدے پر متعین کردیا گیا۔ کیوں ؟ کس اصول کے تحت ؟کس قائدے کی رُو سے ؟کس ضابطے کے حساب سے؟ کیا نیب اس تعیناتی کے اندر جھانکے گی؟
ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی کے متعلق چند روز بیشتر جناب روف کلاسرہ نے تفصیل سے لکھا۔ ایم این اے کے ڈیرے پر پولیس نےملزما ن کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپہ مارا ۔دوسرے دن ڈی پی او کو حکم دیا گیا کہ اسی ایم این اے کے ڈیرے پر جاکر کھانا کھاؤ۔ پولیس کے سربراہ نے اس پولیس افسر کو “کھانا کھانے” کے لیے تین گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا اور پھر اس کا وہاں تبادلہ کردیا گیا۔ انگلی لہراکر ‘تقریر کرنے والے حکمران اعلی سے کوئی اس بارے میں پوچھے! کیا یہ ہے وہ دیانت اور شفافیت جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے؟
ایک مدت سے پنجاب بیورو کریسی کو اس خاندان نے اور اس حکومت نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جی آر او کے محلات ‘گاڑیوں کے فلیٹ ،بیرون ملک تعیناتیاں !ریٹائرمنٹ کے بعد کی امیدیں اور تمنائیں !اس بیوروکریسی نے سمجھا تھا کہ ہیٹ پوش حکمران اعلی ہمیشہ قائم رہے گا! قائم و دائم !مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں ۔دو سال کی چھٹی لے کر بیرون ملک جانے کے لیے پر تولنے والا بیوروکریٹ نیب کے ہتھے چڑھ گیا۔ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
اب ان احمد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے دست ہائے راست کو بچانے کے لیے ساری بیوروکریسی کو سان پر چڑھانے کی کوششیں شروع ہورہی ہیں ۔ صوبے کے چیف سیکرٹری نے احد چیمہ کی گرفتاری کے فوراًبعد افسروں کا اجلاس بلایا اور “احتجاج” کی تجویز سامنے رکھی۔تجویز تھی یا حکم! کہ اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جائے۔نیب نے گرفتار کیوں کیا؟ حساب کتاب کیوں لیا جارہا ہے؟ حساب کتاب اور وہ بھی پنجاب بیوروکریسی سے!
مگر زبردستی بلایا جانے والا یہ اجلاس ناکامی کا شکار ہوا ۔افسروں نے بتا دیا کہ اس اجلاس میں شریک ہونے کے لیے “اعلی “سطح سے فون آئے۔رہا احتجاج اور کام چھوڑنے کا پلان تو’ افسروں کی اکثریت نے اس کی مخالفت کردی۔ کچھ کو کہتے سنا گیا کہ جنہوں نے گاجریں کھائیں ‘ان کے پیٹ میں اگر درد اٹھ رہا ہے تو سب کو کیوں ساتھ ملایا جارہا ہے،کچھ نے عقل سکھانے کی کوشش کی کہ بد حواس ہوکر ادھر ادھر ہاتھ نہ مارو۔ اگر گرفتارشدہ افسر بے قصور ہے تو اس کی مدد قانونی جنگ لڑ کرکرو۔ سب سے قابلِ رحم بیان پنجاب حکومت کے ترجمان کا تھا کہ “ چیمہ صاحب ایک دیانت دار اور فر ض شناس افسر ہیں ۔ ان کے خلاف نیب کا ایکشن بلا جواز ہے”۔ !چلیےمسئلہ ہی حل ہوگیا۔ حکومت کے ترجمان نے فیصلہ سنا دیا۔ کہ افسر دیانت دار ہے اور فرض شناس بھی! اب کسی مقدمے کسی تفتیش کسی آڈٹ کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ! کیا انداز ہے فیصلہ سنانے کا !اور کیا یقین ہے پکڑے جانے والے کی دیانت پر! جھوٹ اور سچ جاننے کا جو طریقہ پنجاب حکومت کے ترجمان نے متعارف کرایا ہے اس کے سامنے تو بلوچستان کے سرداروں کا وہ طریقہ بھی ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے جس میں ملزم کو جلتے انگاروں پر چلایا جاتا تھا ۔اگر اس کے تلوے جھلسنے سے بچ جائیں تو وہ بے گناہ! پنجاب حکومت کے ترجمان نے تو انگارے دہکانے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا! اس کے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا کہ افسر دیانت دار اور فرض شناس ہے،اگر دیانت اور فرض شناسی کے فیصلے پنجاب حکومت کے ترجمان ہی نے کرنے ہیں تو عدالتوں کی کیا ضرورت ہے اور ایف آئی اے او رپولیس کا کیاجواز ہے؟ ملک بھر کے ملزموں کو ترجمان صاحب کے حضور پیش کیا جائے ،دیکھتے جائیں گے’فیصلہ سناتے جائیں گے!
تعمیری منصوبے کے لیے سب سے کم بولی جس کمپنی نے دی تھی اس کا نام میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز تھا۔ قاعدے کی رو سے سب سے کم بولی دینے والی کمپنی کو یہ منصوبہ سونپا جانا تھا۔ مگر شاہی حکم یہ تھا کہ ایک اور کمپنی کو یہ کام دیا جائے اس کمپنی کے ڈانڈے مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر سے جا ملتے ہیں۔اس “انصاف” کو برؤئے کار لانے کے لیے وزیر اعلی نے مبینہ طور پر پنجاب لینڈڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کو حکم دیا کہ سارا منصوبہ ایل ڈی اے کے سپرد کر دیا جائے۔ یوں آخر کار منصوبہ اس کمپنی کو مل ہی گیا جس کی بولی کامیاب ترین بولی نہیں تھی، خزانے کو اس “انصاف” اور اس “شفافیت “سے 71 کروڑروپے کا نجکشن لگا۔ پھر کہا گیا کہ کنسلٹینسی
consultancy
سروسز فلاں کمپنی سے حاصل کی جائیں،اس پر انیس کروڑ لگے جب کہ یہی سروسز نیسپاک کمپنی ساڑھے تین کروڑ روپے میں دینے کو تیار تھی۔ !!ایسی بہت سی تکنیکی” انصاف پسندیاں “جن کا جواب صوبے کی حکومت اور حکمران اعلی کے پاس نہیں !
یہ صرف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا کھیل نہیں ؛اس میں کئی اور مناظر بھی اپنی جھلک دکھائیں گے ۔دانش سکول بنائے گئے ۔سستی روٹی سکیم۔ صاف پانی سکیم اور چھپن کے قریب کمپنیاں جو عملی طور پر پنجاب حکومت کا متبادل تھیں ! متوازی حکومتیں !ان کمپنیوں کے سربراہان بادشاہوں کی طرح حساب کتاب’سوال جواب سے بے نیاز !مکمل بے نیاز!!
سارا کھیل وسطی پنجاب کے حوالے سے کھیلا گیا۔ اس صوبے کے مغربی اور جنوبی اضلاع کی شمولیت کہیں تھی بھی تو برائے نام!!محض اشک شوئی کی خاطر!
ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے۔ بھارتی پنجاب کی بستی جاتی امرا کے مکین بتاتے ہیں کہ یہاں (یعنی انڈیا میں )ان کا کوئی خاص کاروبار نہیں تھا۔سب “اُدھر”جا کر ہوا۔ یہ مکین بتاتے ہیں کہ یہاں سے(یعنی جاتی امرا انڈیا سے) نوجوانوں کو ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے سعودیہ بلایا جاتا تھا۔ ایک مکین یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ یہ لڑکے لاہور جاکر بھی کام کرتے رہے ہیں ۔
جو لوگ سعودیہ عرب رہتے ہیں ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی فیکٹریوں میں کام کرانے کے لیے یہ محب وطن خاندان بھارتیوں کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ اس کی گواہی بے شمار لوگوں نے دی ہے۔ علامہ طاہر القادری کا الزام ہے کہ بھارتی باشندے کچھ “مقامات” پر آکر ٹھہرتے ہیں ۔
ویسے عجیب بات ہے اور کیا خوب:” شکر گزاری” ہے کہ جس ملک نے انہیں زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا یا اس کے باشندے ‘مشرق وسطی میں لگائی گئی فیکٹریوں کے لیے قابل قبول ہی نہیں ! محلات پر مشتمل جو نیا شہر بسایا ‘ا س کا نام بھی بھارت سے درآمد کیا!یہ رویے دیکھ کر ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ۔ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو جھٹک کر پرے نہیں کیا جاسکتا۔ آلو گوشت والی بات تو زبان زدِ عام و خاص ہے پھر مری میں بھارتی بزنس مین سے ملاقات جس میں کسی حکومتی ادارے کی شمولیت نہیں تھی! سفارتی محاذ پر پورا مشرق وسطی اور وسط ایشیا آسانی سے بھارت کے پاس جانے دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پنجاب کے علاوہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے مکمل بے نیازی !ترقیاتی منصوبوں کی بھاری اکثریت پنجاب میں مرتکزہے۔ کیا یہ محض کوتاہ نظری ہے ؟محض میو پیا
Myopia
ہے؟کیا تہہ میں کچھ اور ہے؟
No comments:
Post a Comment