Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, February 28, 2018

چار اشارے ۔بوجھو تو جانیں


میں سمجھا یہ بھی ایک ایسی ہی صبح ہوگی جو اکثر میرے نصیب میں ہوتی ہے۔مرجھائی ہوئی!گھٹی گھٹی! تھکی تھکی۔روح تازگی کو ترستی ہے۔ دل بجھا ہوا۔ ہر خبر یاس کا نیا دروازہ کھولتی ہوئی۔ کاغذ کا اخبار تو شدید مایوسی میں پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ انٹر نیٹ کو کیسے پھینکیں ۔
اندازہ لگائیے!کیا ہورہا ہے اس دیارِ پاک میں !ایک ادارہ رہ گیا تھا ‘سول سروس کا! اسے بھی خود غرض حکمرانوں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پنجاب کی سول سروس تین حصوں میں منقسم ہوکر رہ گئی ہے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کے کچھ درجن ارکان جو شاہی خاندان کے درباری تھے ۔افسر کے بجائے نوکر بن گئے۔ اکثریت تاہم احد چیمہ کو ہیرو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ صوبائی سول سروس کے ارکان ان درباری نوکروں کی چیرہ دستیوں سے پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے۔ وہ بھی کورنش بجا لا نے والوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔
مایوسی کی وجہ سے صرف سول سروس کے ادارے کی تباہی نہیں ‘ اور وجوہ بھی ہیں !شریف برادران کو رضا ربانی کی شکل میں ایک حمایتی مل گیا ہے۔
فرماتے ہیں احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ سول بیوروکریسی ‘ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہیے۔اور یہ کہ نیب کی از سرِ نو تشکیل کی ضرورت ہے! کوئی ان رضا ربانی صاحب سے پوچھے کہ آپ کی پارٹی کی حکومت حال ہی میں پانچ سال رہی ہے۔ بیوروکریسی’ ملٹری اور عدلیہ کااحتساب اس نے کیوں نہیں کیا؟ نیب کی از سرِ نو تشکیل  سے آپ کی حکومت  کو کس نے منع کیا تھا؟ رضا ربانی صاحب نے ایک اور خبر دی ہے۔ایسی خبر کہ دنیا بھر کے خبر رساں ادارے بیہوش ہونے کے قریب ہیں ۔فرمایا ۔” تمام خواتین محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک فلسفہ مانتی ہیں “!پھر اسی سانس میں ایک اور اصطلاح استعمال کی ۔” بینظیر کے نظریہ پر عمل پیرا ہو کر دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔”
بے نظیر بھٹؤ کو ہم تم ایک انسان مانتے تھے۔اب معلوم ہوا وہ فلسفہ تھیں ۔ ایسا فلسفہ جس سے دنیا بھر کے فلسفی بے خبر ہیں۔ کیا  دنیا کی کسی یونیورسٹی میں یہ فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ؟رہا بے نظیر کا نظریہ ،تو رضا ربانی لگے ہاتھوں اس نظریہ سے بھی قوم کو اور دنیا کو آگاہ فرمادیتے۔ اس نظریہ کی ایک شکل تو وہ محل ہے جو موصوفہ دبئی میں چھوڑ گئیں ۔اگر آپ کے پاس انٹر نیٹ ہے تو گوگل پر جائیے او رلکھیے 
Benazir
 Palace in Dubai
پھر کلک کیجیے اور دیکھیے آپ کس دنیا میں پہنچ گئے ہیں ۔یہ دنیا عام دنیا نہیں ۔پرستان ہے! اس میں فانوس ہیں ۔دبیز پردے ہیں ۔ موڑ مڑتی سیڑھیاں ہیں ۔ آنکھوں کو چندھیا دینے والا فرنیچر ہے.طلسمی مسہریاں ہیں ۔سنہری اور نقرئی دروازے ہیں ۔ایک ایک انچ اس محل کا کروڑوں اربوں کا معاملہ ہے اربوں کھربوں کا۔
ایک اور نظریہ بے نظیر بھٹو کا مشہور صحافی انجم نیاز بھی سناتی ہیں ۔ نیویارک کے سب سے مہنگے علاقے میں خریدا ہوا پینٹ ہاؤس (لگژری اپارٹمنٹ) جس کی قیمت سن کر عام پاکستانی شہری شاید بے ہوش ہی ہوجائے۔
یہ تو بے نظیر کے “نظریہ” کے چند مظاہرے ہیں ۔اصل دولت کتنی چھوڑ کر رخصت ہوئیں ‘شاید ورثا کو بھی اندازہ نہ ہو! یہی وہ “نظریہ” ہے جس پہ عمل پیرا ہوکر ‘رضا ربانی صاحب کے بقول ‘دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ سچ فرمایا !اگر دبئی کے محل یا برطانیہ کے سرے محل، یا فرانس کے محل میں ‘یا نیویارک کے پینٹ ہاؤس میں رہیں تو دہشت گرد ی آپ کا کیا بگاڑ لے گی ؟ دہشت گردی تو اس عوام کے درپے ہے جو بازاروں مسجدوں مزاروں گرجاؤں ‘سکولوں اور راستوں میں پائے جاتے ہیں ۔
رضا ربانی صاحب یونیورسٹیوں میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے بھی حامی ہیں ۔ اکثر و بیشتر دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ طلبہ یونینوں پر پابندیاں عائد نہیں ہونی چاہیئں ۔حضرت کا بس چلے تو ہر یونیورسٹی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کو الاٹ کردیں کہ آؤ کھل کھیلو!لاہور اور اسلام آباد کی دو معروف یونیورسٹیاں  تو ایک سیاسی جماعت کی خاکروبی کے فرائض انجام دے ہی رہی ہیں ‘باقی بھی کسی نہ کسی جماعت کی رکھیل بن کر مزے کریں ! رہے ان سیاستدانوں ‘حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے “مالکان” کے اپنے بچے تو وہ بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں !۔
چنانچہ آج بھی اٹھا تو یہی سمجھ  رہا تھا کہ ایک بدنصیب پژمردہ صبح میری قسمت میں ہے۔ مگر آج سب کچھ مختلف تھا۔پہلی  لاٹری تو یہی نکل آئی کہ بیگم صاحبہ نے پیار سے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ اجی! اٹھیے دیکھیے صبح ہوگئی ہے اور کیا ہی خوش خبری ہے وطن عزیز کے لیے’لگتا ہے کہ کالموں میں ایک عرصہ سے آپ جو رو دھو رہے تھے ‘اس کا پھل قدرت دینے لگی ہے”
اب یہ جو پنجابی بیگم کا پیار سے جگانا ہے تو یہ بھی ایک نعمت ہے جو کم ہی پنجابی مردوں کو نصبیب ہوتی ہے۔
اس پر ایک مشہور واقعہ یاد آرہا ہے ۔ایک صاحب بہت مہم جُو تھے ازدواجی تجربے کرتے رہتے تھے خواہ تجربے کرنے کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ انہوں نے یہ جاننے کے لیے کہ کس علاقے کی عورت ‘ میاں کو صبح کے وقت کس طرح جگاتی ہے ‘مختلف علاقوں میں  شادیاں رچانی شروع کیں ۔ پہلے یوپی کی حسینہ سے شادی کی۔سور ہے تھے تو محسوس ہوا کہ کوئی سر کے بالوں میں نرم و گداز انداز سے انگلیاں پھیر رہا ہے۔پھر ایک سریلی’ کانوں میں رس گھولتی آواز آئی کہ سرتاج! سپیدہ ء سحر ‘افق سے جھانک رہا ہے ۔چھنستان میں طائر چہچہانے لگے ہیں ۔ روشنی یوں آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے جیسے دل کےدریچے سے آپ کی سبک خرام محبت در آتی ہے ۔سرتاج اٹھیے’ کنیز آپ کے لیے گرم گرم چائے لے کر آتی ہے!
کیا ہی خوبصورت تجربہ تھا! میاں کا دل با غ باغ ہوگیا۔ پھر کسی نے بتایا کہ دکن کی بیوی جس ناز’ جس انداز اور دلربائی سے جگاتی ہے ‘دیکھو گے تو شمالی ہند کی حسینہ کو بھول جاؤ گے !چنانچہ اب اس بہادر’ بے خوف مرد نے حیدر آبا د دکن کی ایک خاتون سے شادی کی ۔سو رہا تھا کہ محسوس ہوا کہ کوئی بہت نرمی سے پاؤں دبا رہا ہے۔ پھر ایک مترنم آواز کانوں سے ٹکرائی ۔”سرتاج!میری زندگی آپ پر قربان، !ذرا سنیئے!غنچے باغ میں چٹخ رہے ہیں ، اور آپ کا نام لے کر چٹخ رہے ہیں ۔ سورج کی پہلی کرنیں شنبم کے قطروں پر پڑ رہی ہیں۔ ہر قطرے میں قوس ِ قزح ہے اور ہر قوس قزح میں سرتاج کی شبیہہ مبارک نظر  آرہی ہے۔ کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھیے ‘شعاع سحر قدم بوسی کی اجازت مانگ رہی ہے۔ صبح کی سفیدی میرے سرتاج کو سلام پیش کرتی ہے !سرتاج !یہ دیکھیے ‘آپ کے سرہانے میں نے چنبیلی کے تازہ پھول رکھے ہیں اور دیکھیے رکابی میں سیب کا مربہ دھرا ہے ۔ساتھ خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والا رکھا ہے۔ اور آب خورے میں شہد ملا پانی “۔
مرد نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ۔اُسے تو جیسے زندگی ہی میں جنت مل گئی تھی۔جس بیوی کے گھر میں رات بسر کرتا ،صبح اتنے پیار سے اٹھایا جاتا کہ اپنے آپ کو شہنشاہ لگتا۔
پھر بنگالی سے شادی کی ۔سویا ہوا تھا کہ کانوں میں موسیقی کی ہلکی ہلکی لے سنائی دینے لگی۔ نیم وا آنکھوں سے دیکھا تو پلنگ سے ذرا ہٹ کر ‘نئی نویلی ‘بنگالی دلہن ‘قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہے ۔لمبے بال کاندھوں سے نیچے آرہے تھے ۔ساری کا رنگ دلکش تھا۔ ہاتھ میں  رباب تھا۔ بجاتی تھی تو جیسے نغمے آسمان سے براہ راست اتر رہے تھے ۔گیت ختم ہوا’ تو حسینہ اٹھی’ہاتھ ماتھے تک لے جاکر آداب بجا لائی ۔گلاب کا پھول نذرانے میں پیش کیا اور کہا’حضور !باغ سے مینا نے سندیسہ بھیجا ہے ۔پرندے آپ کے اٹھنے کے منتظر ہیں۔پاؤں مسہری سے نیچے رکھیں گے تو ازراہِ کرم فرش پر نہ رکھیے گا ‘کنیز کی پلکوں پر رکھیے گا !سعادت ہوگی !آپ میرے سرتاج ہیں ‘خوش بختی کنیزپر رشک کرے ہے!”
واہ واہ!کیا انداز ہے بیدار کرنے کا !کیا ہی خوش قسمت میاں تھا! یوپی کی اوردکن کی اور بنگال کی بیویوں نے کیسے پھولوں کی سیج پر رکھا۔پھر کسی نے مشورہ  دیا ۔میاں !پنجابی عورت سے شادی نہ کی تو جیسے دنیا میں کچھ بھی نہ دیکھا ۔اب وہ نعمتوں کا عادی ہوچکا تھا۔ سوچا ایک اور سہی! کیا حرج ہے۔ پانچوں گھی میں تو ہیں ہی’سر بھی کڑاہی میں ڈال دیتے ہیں ۔چنانچہ ایک خوبصورت ‘نازک اندام ‘پنجابی دوشیزہ سے شادی رچائی۔سو رہا تھا تو یکدم کسی نے دوہتڑ کمر کے عین درمیان میں رسید کیا ،پھر ایک کرخت صورِ اسرافیل جیسی آواز کانوں کے پردے پھاڑتی کمرے کی چھت سے ٹکرائی، وے مرن جوگیا !ہُن اٹھ بھی پَو، سارا دن مردار بن کے ستا ہی رہیں گا؟جا نکڑ آلی ہٹی توں مینوں دہی لیا کے دے۔میں تے سویرے سو یرے لسی نہ پیواں تے جگر چے ساڑ ہوندا اے۔ (ابے ‘مر جائے تو اب اٹھ جا!کیا مردار بن کے سارا دن  پڑا رہے گا؟نکڑ والی دکان سے مجھے دہی لا کردے صبح صبح لسی نہ پیوں تو جگر میں تپش محسوس ہوتی ہے”)
مگر ہماری  یہ صبح تو بالکل مختلف تھی،بیگم نے ناز برداری سے اٹھایا،اور خوش خبری  دی کہ ملک کے حالات بدلنے لگے ہیں ۔تفصیل پوچھی تو کہنے لگیں ایک ایسی شخصیت نے میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کی ہے کہ بس یوں سمجھیے اس ملک کے دلدر دور ہونے لگے ہیں۔ میں نے بستر پر لیٹے لیٹے کہا ۔مولانا فضل الرحمن ہی اکثر ملاقات کرتے ہیں میاں صاحب سے !وہی ہوں گے!بیگم مسکرائی ‘کہا نہیں !مولانا تو تب ملتے تھے جب میاں صاحب وزیراعظم تھے۔اب مولانا میاں صاحب سے نہیں ‘خاقان عباسی سے ملتے ہیں۔
نیم دراز ہوکر انٹر نیٹ پر اخبار دیکھنے شروع کیے۔پہلے صفحے پرمشہور و معروف شخصیت کی میاں صاحب کے ساتھ ملاقات والی تصویر چھپی ہوئی تھی !میں نے بھی خدا کاشکر ادا کیا ۔ سبحان اللہ !کیا نعمت غیر متبرقہ ہے مسلم لیگ نون کے لیے اور پورے ملک کے لیے کہ اس شخصیت نے میاں صاحب سے ملاقات کی اور اتنی ہائی پروفائل ملاقات کہ پہلے صفحوں پر تصویر جگمگا رہی ہے !اس شخصیت کی برکات اور حکمت بھرے پند و نصائح کو تو ٹرمپ جیسے کرہ ارض  کے بارشاہ ترستے پھررہے ہیں ۔ بس اسی ملاقات کی دیر تھی،اب جملہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ تعلیم سے لے کر زرعی اصلاحات تک’مہنگائی سے لے کر صحت تک’ ملک کی عالمی تنہائی سے لے کر اقتصادی خوشحالی  تک۔ اس ملاقات کے نتیجہ میں سارے مسائل شبنم کے قطروں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے !میاں صاحب کی قسمت جاگی ہی ہے تو پورے ملک کا نصیبہ  اترانے لگا ہے! ایسی ہی تو شخصیات ہیں جن کے دم قدم سے یہ ملک قائم ہے !انہی کی بدولت تو اس سرزمین پر دھوپ اور چاند کی کرنیں اترتی ہیں ،اور دریاؤں میں پانی ہے’ درختوں پر پھل ہیں اور آسمانوں سے بارشیں برستی ہیں !خدارا!ایسی ہمہ صفت ‘ہمہ گیر’شخصیات کو اس ملک کی سیاست میں ہمیشہ رکھے!
ان کا نام بتانے سے فقیر گریز کرے گا !قلم کو مشک و عطر سے دھویا نہیں ! نام کیوں  کر لکھوں !ہاں ! چار اشارے دے دیتا ہوں !بوجھو تو جانیں ۔صحافت ‘کڑاکے’چودھری شجاعت حسین’اور “وفاداری”
وفاداری بھی عام وفاداری نہیں !غضب کی وفاداری!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com