Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, February 16, 2018

خلل آنکھ کے اندر ہے



میں فقیر!

میں فقیر ابنِ فقیر!

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر!

مجھ سے ان لوگوں کی کیا دشمنی ؟

اہل عدل کا میں نے کیا بگاڑا ہے؟ اہل مذہب کیوں میری خوشی کے در پے ہیں ؟ پیمرا کے ساتھ میری جان نہ پہچان ،لین نہ دین ،واسطہ نہ غرض!
کہاں میں جھونپڑی کے باہر فرش خاک پر آلتی پالتی مارے ،دھوپ میں بیٹھا ہوا  درویش ،کہاں  ہاتھی گھوڑے پرسواری کرنے  والا پیمرا! مگر پیمرا نے میرا نام لکھا،پھر میرے نام کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگا دیا، جیسا خروشچیف نے نقشے پر پشاور کے گرد لگایا تھا۔

آج اگر میرا یوم پیدائش پوری دنیا منا رہی ہے تو اس میں حسد سے جل مرنے کا تو کوئی سبب نہیں بنتا ، خدا کے بندو! عدل کے رکھوالو!دین کے متوالو!میڈیا کے تھرمو سٹیٹ کو کنٹرول کرنے والو!یہ تو سوچو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کیا میں نے قدرت کو درخواست دی تھی کہ مجھے چودہ فروری کے دن پیدا کیا جائے ؟کیا اس میں میری پلاننگ ،کسی منصوبہ بندی کو دوش دیا جاسکتا ہے؟ میرے جدِ امجد مرحوم مغفور نے جب اپنی خاندانی ڈائری میں یہ نوٹ لکھا تھا ۔

“ تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہار الحق خلف الرشید حاجی محمد ظہور الحق کہ نام تاریخی ء او غلام رسول است مورخہ 3 ماہ ربیع الاول 1367 ھ مطابق 3 ماہ پھگن 2004 موافق 14 ماہ فروری 1948 ء در شپ شنبہ،اللھم زد حیاۃ،”

تو کیا انہیں معلوم تھا کہ ایک دن ان کے پوتے کی پیدائش کا غلغلہ کرہء ارض پر برپا ہوگا ۔کروڑوں اربوں مرد عورتیں اس کی پیدائش کا جشن منائیں گے۔ پیش منظر پھولوں سے لد جائیں گے۔ رنگوں کی برساتوں سے خطے اور ملک اور علاقے اور براعظم جل تھل ہوجائیں گے ۔شیرینیاں بانٹی جائیں گی ۔کیک بنیں گے،کھائیں جائیں گے ،تحائف کے تبادلے ہوں گے  اور دنیا پھولوں ،خوشبوؤں اور رنگوں سے بھر جائے گی۔

اتنی تنگ ظرفی ،اتنا حسد ،ایک فقیر پر اتنا غیض و غضب ! کہ خوشی منانے پر قدغن لگا دی ،پھولوں کے آگے دیواریں کھڑی کریں ! عوامی مقامات پر پابندیاں عائد کردیں ، الیکٹرانک میڈیا کو کوریج سے روک دیں ۔

میرا حال تو یہ ہے کہ اپنے غم خانہ تنہائی میں پڑا ہو ں۔ایک شکستہ ،ٹوٹی ہوئی کھاٹ ہے۔تکیہ سوراخوں سے بھرا پڑا ہے۔کمرہ کیا ہے کال کوٹھڑی ہے ، خشک گھاس فرش پر بچھا رکھی ہے۔ کونے میں دیا ہے۔ تیل ہوتو جلتا ہے ورنہ سرِ شام اندھیرا ایک دیوار سے دوسری دیوار تک راج کرتا ہے، دروازے پر کنڈی ہی نہیں !

بھائی !یہاں تو ویرانی کا یہ عالم ہے کہ اٹھائی گیرا بھی نہ آئے۔ اس بے بضاعتی پر بھی اتنے بڑ ے بڑے لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔اسی لیے تو کہاتھا کہ

؎ لباس کہنہ ہے اور عام سی کُلاہ مری

برائی کرتے ہیں اس پر بھی بادشاہ مری!

تو کیا جملہ امور نمٹ گئے کہ اب میرے در پے ہوگئے ہیں ؟ کیا زمین کے معاملات سنورچکے ہیں کہ گھوڑے کا رخ آسمان کی طرف پھیر لیا؟ برائیوں کے لشکر کے لشکر دندناتے پھر رہے ہیں ، کوئی دروازہ محفوظ ہے نہ کھڑکی معصوم بچیوں اور بچوں کو ہوس کی تلوار سے مولی گاجر کی طرح کاٹا جارہاہے ۔لاشیں غلاظت کے ڈھیروں سے ملتی ہیں ، جائز شرعی نکاح کرنے والے شوہروں اور بیویوں کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ پانچ پانچ سال کی گڑیاؤں کے”نکاح “ ستر ستر سال کے پیرانِ فرتقت سے پڑھائے جارہے ہیں اور نکاح پڑھانے والے مذہب  کے جھنڈے ہاتھوں میں اٹھائے ہیں ،دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ریستورانوں میں پتیلے اور کڑاہ مانجھ رہے ہیں ۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے فرشِ زمین پر لیٹے ہیں اور لمبی طویل راتیں وحشت و بربریت کی کھڑی نوکدار سلاخوں پر گزارتے ہیں بیٹی کو جنم دینے والی ابھی زچگی کے بستر پر ہی ہوتی ہے کہ طلاق کے تین خنجر  اس کے رحم میں بھونک دئیے جاتے ہیں ، یہ سارے ظلم برابر ہورہے ہیں ،مسلسل ہورہے ہیں ، رات دن ہورہے ہیں کیا ایک حرف نہیں بولتے مگر مجھ غریب کے یومِ پیدائش کو عزت اور انا کا مسئلہ بنائے پھرتے ہیں ۔

میرے یوم ِ پیدائش کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں جن کے چہروں پر سیاہ سائے لے آتی ہیں وہ ایک لفظ نہیں بولتے،ان مجرموں کے خلاف جنہوں نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رکھا ہے،  عبا اور عمامہ ان حاجیوں سے سمجھوتہ کرچکے ہیں جو خلقِ خدا کو خوراک میں زہر ملا کر کھلا رہے ہیں ، آٹا خالص ملتا ہے نہ دودھ،شہد نہ دوا،گھی نہ مکھن۔ ٹیلی ویژن والے کتنے ہی مشترع چہروں کو سامنے لا چکے، خوردنی اشیا میں غلاظتیں ملانے والے نمازیوں کو آشکارا کرچکے مگر منبر و محراب سے کوئی آواز مذمت کی اٹھی نہ سنی۔

خوشبو اور پھولوں کے ان دشمنوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اغواکرنے والوں ،تاوان حاصل کرنے والوں ،گاڑیاں اٹھوانے والوں اور پھر ان گاڑیوں کو ان مالکوں کے حوالے کرتے وقت لاکھوں روپے لینے والوں کی اکثریت نیکو کاروں پر مشتمل ہے۔ ہزاروں افراد گواہ ہیں کہ یہ “کاروبار” نمازیں پڑھ کر ہوتا ہے۔

سینکڑوں مظلوم ایسے ہیں ۔ جنہیں ان کی اپنی گاڑیاں مسجدوں میں بیٹھ کر واپس جاتی ہیں اور انہیں اپنی گاڑیوں کی “قیمت “لاکھوں میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ مگر اِن “کاروبار” کرنے والوں کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا جاتا۔ ان کی برائیاں چُھپ جاتی ہیں ۔ یہ سارے نیکو کار ہیں ۔ برائی صرف وہ سوختہ سامان کررہے ہیں جو میرا یوم ِ پیدائش مناتے وقت چند لمحوں کے لیے خوش ہولیتے ہیں ، اس ارضِ سیہ روز پر بچوں بچیوں کی آبرو ریزی اور قتل پر خاموش رہنا جرم نہیں ، پھول بانٹنے پر اور خوشبو بکھیرنے پر خاموش رہنا جرم ہے۔ اس کی مذمت فرض عین ہے۔ دشمنی قاتلوں ،بھیڑیوں اور وحشیوں سے نہیں ،کلیوں ،غنچوں ،بھونروں ،بلبلوں ،تتلیوں اور رنگوں سے ہے۔

مگر  یہ جو  چاہے کرلیں ،میری پیدائش کی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔یہ خوشیاں اب اور پھیلیں گی ،میری پذیرائی ،جغرافیائی سرحدوں سے آگے نکل چکی ہے۔ یہ اب کسی ایک ملک کا معاملہ نہیں ، یہ تو سمندروں کے پار، اس سیارے کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک جا پہنچی ہے۔

ایک حیرت اور بھی ہے جو مجھے گھیرے ہوئے ہے کہ یہ خاص عدسے   جو دنیا کی ہر شے میں فحاشی دیکھ لیتے ہیں ،کہاں سے سپلائی ہورہے ہیں ؟میں نے کئی عینک فروشوں سے پوچھا، کئی آپٹیشین

Opticians

سے  رابطہ کیا مگر کسی کے پاس ایسے شیشے نہیں ملے۔ سب نے لاعلمی کا اظہار کیا، رسد کا کوئی خاص ذریعہ، کوئی خاص سورس ایسے شیشے رات دن مسلسل بانٹ رہا ہے، جنہیں لگا یاجائے تو پھول کانٹوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ خوشبو ناقابلِ برداشت لگتی ہے۔ ہر تعلق میں برائی نظر آتی ہے۔ انہیں لگا کر پوری دنیا فحاشی اور جنس کا مرقع دکھائی دیتی ہے۔ کچھ  عینک فروشوں کا خیال یہ بھی ہے کہ   یہ شیشوں کا اور عدسوں کا قصور نہیں ، خلل ایسی آنکھوں کے اندر ہے۔ بینائی ہی سرطان زدہ ہے۔ پپوٹے ہی ناقص ہیں ،پلکیں ہی بیزاری سے بنی ہیں ۔ اور آنکھوں کی جھلی کے پیچھے جو پردہ ہوتا ہے وہی پھٹا ہوا ہے۔ایسی آنکھوں کو ہر حال میں ،ہر شے میں برائی ہی نظر آئے گی۔ جنس ان کے حواس  پر  یوں سوار ہے کہ اب وہ شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔

منفی طرزِ فکر کی کوئی حد نہیں ہوتی! قنوطیت ایک مہلک بیماری ہے۔ایک صاحب  کو خوش خبری دی گئی کہ ان کا پالتو کتا دریا میں پانی پر چل رہا تھا۔ رو پڑے کہ ہائے افسوس !کاش تیر سکتا!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com