Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 20, 2018

شہزادی بالائی منزل پر جاگزیں ہے


نہیں! حضرت گرامی جناب ہارون الرشید نہیں ۔یہ تین چار منٹ کی سیڑھیا ں چڑھنے اترنے کا مسئلہ نہیں ۔لائبریری گھر میں جب بھی بالائی منزل پر ہوگی ،دسترس سے دور ہی رہے گی۔ لائبریری کا مزہ اسی میں ہے اور اس سے استفادہ تبھی ممکن ہے جب یہ خواب گاہ کے ساتھ ہو ،کچن کے ساتھ ہو، نشست گاہ کے ساتھ ہو اور اس فلور پر واقع ہوجہاں دن اور رات کا اکثر حصہ گزرتا ہے۔ہم لوگ بھی کیا ظلم کرتے ہیں ،رسوئی ،مہمان خانہ،یہاں تک کہ لانڈری بھی سامنے ہو۔ رہی لائبریری تو لائبریری کا کیا ہے ،اوپر کی منزل پر لے جائیے۔
جناب ہارون الرشید نے اپنا رونا رودیا۔ یہاں اپنے زخم زار سامنے آگئے۔ آرزوؤں کو پانی دے کر ،تمناؤں کی گوڈی کرکے ،گھربنایا تھا، پس منظر خالص دیہی تھا اس لیے لازم تھا کہ بڑا ہو۔ جتنا بڑا استطاعت اجازت دیتی تھی۔ خالص دیہی پس منظر رکھنے والا تین معاملوں میں بے بس ہوتا ہے۔چائے میں پاؤڈر والا دودھ نہیں پی  سکتا۔بازار کے آٹے کی روٹی نہیں کھا سکتا۔ اس کے نزدیک یہ روٹی نہیں ،ربڑ ہے۔چھوٹے گھر میں نہیں رہ سکتا ۔اپارٹمنٹ تو اس کے لیے سانس گھٹنے کا سامان ہے۔ جیتی جاگتی موت۔
ڈیڑھ کنال پر جاپانی اسلوب کا باغ بنا۔ اس کی لیند سکیپنگ کا ڈیزائن اسرار نے خود بنایا۔ کونے میں گزیبو(چھتری نما پختہ سٹرکچر) کہیں سبزہ، کہیں سنگ ریزے، کہیں گول کنکر، کہیں نرسریوں سے اچھی نسل کے میوہ دار پودے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے گئے۔ بیگم نے اپنے ہاتھوں  سے لگائے ،کچھ پاس کھڑے ہو کر لگوائے۔
باغ کے کنارے شام کو جو بیٹھتا ۔سامنے کا منظر دیکھ کر مسحور ہوجاتا ۔دریا تھا، پھر پہاڑیاں ،پھر دور سامنے سبزہ زاروں اور مزید پہاڑیوں کا سلسلہ، احباب میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے ٹوٹ کر اس گھر کی تعریف نہ کی ہو۔ دو اصحاب  کی رائے  اہم تھی۔جناب ہارون الرشید کی اور دوست گرامی جناب جاوید علی خان کی ۔دونوں نے خوب خوب پسند کیا۔بابا جی مستنصر حسین تارڑ تشریف لائے (اگرچہ خود بھی اب چھوٹا موٹا بابا ہوں ) خوش ہوئے ،حوصلہ افزائی کی۔
ملین ڈالر سہولت یہ تھی کہ لمبی چوڑی راہداری کے ایک طرف لائبریری تھی۔ گھر کے عین وسط میں ۔کاہلی،تکان، مصروفیت ،کچھ بھی رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتا تھا ۔خواب گاہ یا نشست گا ہ یا طعام ،سب کے راستے میں لائبریری پڑتی۔ تیمور  ان دنوں نیا نیا چلنا سیکھ رہا تھا ۔میں کام کررہا ہوتا تو شیشے کے دروازے کے باہر آکر کھڑا ہوجاتا ۔ میں اٹھا کر صوفے پر بٹھا لیتا۔ دیواروں پر تاشقند کے مزین مرصع خنجر لگے تھے۔بیٹھا ،انہیں دیکھتا رہتا ۔
سب اچھا تھا ،مگر مور کے پاؤں بدصورت تھے۔ گلی کچی تھی،مکان کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے وقت اور بعد میں دوران تعمیر ،خوش فہمی  ،یہی غالب رہی کہ پکی کرا لیں گے۔ آخر اپنا ہی ملک ہےمگر جب گلی پکی کرانے نکلے تو پتا چلا کہ یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے   میخانہ کہتے ہیں ۔وزیراعظم آفس سے بمشکل پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر یہ بستی(شاہ پور) وفاقی ترقیاتی ادارے کی نہیں ،اسلام آباد ضلعی حکومت کے چارج میں تھی۔ ضلعی حکومت کا شہنشاہ سیکرٹری داخلہ تھا۔ یادش بخیر میجر قمرزمان چوہدری اس منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ ان سے اچھی خاصی دوستی تھی۔رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا دوستی ڈگمگاتی ۔لنگڑاتی ،کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ سیکرٹری شپ آگے نکل چکی تھی۔ سیکرٹری داخلہ التفات کرتے تب بھی انہوں نے چیف کمشنر ہی کو کہنا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا چیف کمشنر کا نام طارق پیرزادہ ہے۔فون کیا اور حاضر ہوگیا۔ کیا نجابت تھی اور شرافت۔ خاندانی تربیت کا اثر چہرے سے پھوٹ رہا تھا۔ مجسم شائستگی ،نرم گفتار، اور مساعد۔ فوراً احکام جاری کئے۔کارندے آئے،گلی کی پیمائش ہوئی۔دو تین بار پھر آئے۔ہر بار آکر بتایا کہ کام ہورہا ہے۔ اس کے بعد بقول منیر نیازی،لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ۔اتنے خوش اطوار اور سلیم شخص کو دوبارہ کہنا مناسب ہی نہ تھا۔ خاص کر جب ساڑھے تین عشرے خود اس بیوروکریسی کو اندر سے دیکھ، چکھ ،بھگت اور بھگتا چکا تھا۔ سیاست دان، وزراء، اور منتخب عوامی نمائندے زیریں ترین سطح  پر، کارندوں سے گٹھ جوڑ میں ہیں ۔ ان کی جیبیں چٹوں سے بھری رہتی ہیں ۔ ایک ایک اوورسیر، ایس ڈی او، تھانیدار اور پٹواری کے لیے جان لڑانے کو تیار۔ ایسے میں یہ کارندے افسران مجاز سے بے نیاز ہوگئے ہیں ۔ کتاب کے مطابق چلنے والا قانون پسند بیورو کریٹ درمیان سے نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود عافیت اور عزت اس میں سمجھتا ہے کہ گدلے پانی سے دو ر رہا جائے۔
بارشیں آتیں تو گلی کیچڑ ملے ملغوبے کا گڑھ بن جاتی ۔مہمانوں کو الگ تکلیف ہوتی۔ بچے شاکی اور نالاں کہ کہاں آن بسے۔
ایسے میں فارسی ادب دستگیری کرتا ہے کہ چہ باید کرد؟ کیا کرنا چاہیے۔اہک عہد وہ بھی تھا جب کوئی شخص کھردرا پن دکھاتا تو اسے صاف یہ کہہ دیا جاتا کہ بے چارہ فارسی ادب سے بے بہرہ ہے۔ فارسی ادب عالیہ زندگی گزارنے کے نہیں ،زندگی بسر کرنے کے اسالیب بتاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے بادشاہوں کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے ،فقیروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے۔خاندانی پس منظر میں کیسے جھانکنا ہے۔سفلوں اور کمینوں کوکس طرح پہچاننا ہے۔ نجابت اور شرافت کی کیا علامات ہیں ۔ شہروں اور ملکوں سے کب نقل مکانی کرلینی چاہیے۔ دشمنوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہوگا۔
حکما نے دو باتوں کی تلقین  کی ہے۔ جب مکان راحت کے بجائے تکلیف کا باعث بن رہا ہوتو اس کی مالیت کو خاطر میں نہ لاؤ ،وہاں سے کوچ کرو اور جس رزق کا حصول عزت پر حرف لارہا ہو ،اس رزق کو پر کاہ اہمیت نہ دو ۔چنانچہ اس وسیع و عریض گھر کو جو گھربھی تھا اور حویلی بھی ،محل بھی تھا اور باغ بھی، چھوڑنے کا فیصلہ کیا -بظاہر وہ نقصان پر فروخت ہوا مگر ادبیات عالیہ کے حقیر طالب علم نے نفع یا نقصان کو کبھی نفع نقصان سمجھا ہی نہیں ۔ حکما سے اور بزرگوں سے اور اسلاف سے جو پیمانے ملے ہیں ،وہ رائج الوقت پیمانوں سے مناسبت اور تطابق نہیں رکھتے۔
تمہیں کیا خبر کہ ہماری فتح و ظفر ہے کیا
جو شکست خوردہ ہیں اس سپاہ میں جائیں گے۔

ہاں !جب دیکھا کہ لگائے گئے پودوں پر میوے لگنے کے دن تھے تو نقل مکانی کرتے وقت دکھ ضرور ہوا۔
ہجرت کرکے جس رہائشی کالونی میں بسیرا کیا وہ عساکر پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ایک منظم اور قواعد و ضوابط کے تحت چلنے والا سلسلہ ہے۔ ڈھیر ساری سہولیات ہیں ۔کوئی مسئلہ درپیش ہو تو باقائدہ شنوائی ہوتی ہے۔ مگر آہ! کہاں وہ عشرت کہ خواب گاہ سے نکلو تو لائبریری میں جا بیٹھو ۔اب شہزادی بالائی منزل پر جاگزیں ہے۔ہفتے گزر جاتے ہیں کہ جانا اور بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا ۔ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ
؎ رو میں ہے رخش عمر کہاں  دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا  ہے رکاب میں
ملازم اتنا پڑھا لکھا ہے کہ مطلوبہ کتاب اکثر و بیشتر اوپر سے لے آتا ہے۔پھر رکھ بھی آتا ہے ۔یوں یہ عالم ہے کہ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے،وہیں لائبریری کا بچہ تولد ہوگیا۔ صوفوں کرسیوں سے لے کر قالین اور چارپائیوں تک ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں ۔ تین نسلوں  کی شکایت اپنے کانوں سے سنی۔دادی جان کتابوں اور رسالوں کو “پھڑکے” کہتی تھیں ۔ دادا جان کی اکثر و بیشتر شکایت کرتیں ،بھاگوان ،جب بھی کہیں سے آتا ہے تو مزید پھڑکے لے کر آتا ہے۔ہمارے عہد سے پہلے نادر اور قیمتی کتابیں  فروخت کرنے والے پھیری لگاتے تھے۔ گاؤں گاؤں پھرتے تھے ،اس لیے کہ علمی مرکز اور مدارس قریوں  اور  بستیوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ جد امجد نے، خدا مرقد پر بارش انوار کرے، ایک بار ایک کتاب خریدنا چاہی ،نقد رقم نہ تھی ،قمیض اتار کر بیچنے والے کے حوالے کی اور کتاب قبضے میں لی۔ پھر والدہ مرحومہ کا دور آیا۔ ساری زندگی شکوہ رہا کہ ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں ہیں ،رہیں لکھنے والے کی بیگم تو ان سوکنوں کے ساتھ رہنے کی عادی ابتدا سے ہی ہوگئیں ۔
لائبریری اور کتاب پر لکھتے لکھتے اچانک ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی تصنیف” کتاب نامہ “ یاد آگئی۔ ڈاکٹر ناشاد محقق ہیں اور ایسے محقق کہ تحقیق کاحق  ادا کرنا جانتے ہیں۔ درجنوں تحقیقی تصانیف کا سہرا ان کے سر ہے۔ یہ کتاب “کتاب نامہ” کتاب کی اپنی کہانی ہے۔ اس منظوم کہانی میں ڈاکٹر ناشاد آغاز سے اب تک کتاب کی بپتا کتاب ہی کی زبانی سناتے ہیں ۔
پلا ساقیا پھر مئے لالہ فام
کہ رنگین ہوجائے حسن کلام
سنانی ہے اپنی حکایت مجھے
دکھانی ہے اپنی حقیقت مجھے
میں ہوں دانش و فکر کا انتخاب
مرا نام رکھا گیا تھا “کتاب”
سنو غور سے اب کہانی مری
کہانی مری اور زبانی مری
عجائب بھری ہے مری داستاں
کہ دیکھے ہیں میں نے زمان و مکا ں
رسولوں پہ مجھ کو اتارا گیا
صحیفہ کہا اور پکارا گیا
مری روشنی سے اندھیرے چھٹے
جہالت کے ظلمت کے جنگل کٹے
میں حسن حقیقت کی ایجاد ہوں
میں سارے زمانوں کی استاد ہوں
کبھی تھا زمانے میں چرچا مرا
طلب گار ہر آدمی تھا مرا
مرے قدرداں تھے غریب و رئیس
ہر اک صاحب دل تھا مرا جلیس
کبھی مجھ کو لکھا گیا کھال پر
کبھی چوپ پر اور کبھی چھال پر
کبھی ہڈیاں مرا مسطر ہوئیں
کبھی تختیاں میرا بستر ہوئیں
مجھے سو طرح سے بنایا گیا
سنوارا گیا اور سجایا گیا
کبھی ظلم بھی مجھ پر ڈھائے گئے
مرے گھر گرائے جلائے گئے
جہالت تھی جن کے سروں پر سوار
انہوں نے ستایا مجھے بار بار
رہا ان کا باقی نہ نام و نشاں
مرا اب بھی ہے نام لیوا جہاں
مری دوستی ہے نقیب کمال
مری روشنی ہے علاج زوال
مرے سائے سے جو بھی محروم ہے
زمانے کے منظر سے معدوم ہے
مزاجوں کی تعمیر کرتی ہوں میں
دماغوں کی تطہیر کرتی ہوں میں

ڈاکٹر ارشد ناشاد کا یہ “کتاب نامہ” گھر گھر مکتب مکتب 
پہنچنا چاہیے تاکہ کتاب کلچر کا احیا کرنے میں ممد ہو سکے 

لائبریری کی اب وہ صورتحال نہیں  رہی   ۔اب مطالعہ کے کروڑوں شوقین انٹر نیٹ کے ذریعے کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔کتابیں آئی پیڈ ،لیپ ٹاپ اور ای ریڈر پر منتقل ہورہی ہیں ۔ اب سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے کا مسئلہ بھی نہیں رہا ۔بیٹھے بیٹھے کلک کیجئے ،کتاب حاضر ہے۔بالائی منزل پر کیا جانا ،بستر میں لیٹے لیٹے دنیا بھر کی کتابیں خرید سکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں ۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com