یہ ایک قصبہ تھا ۔چھوٹا نہ بڑا ۔بس اتنا کہ کوئی واقعہ رونما ہوتو گھر گھر بات فوراً پہنچ جاتی ۔یہاں ایک صاحب کالج میں لیکچرر تھے ۔شام کو کچھ گھروں میں جاکر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔ایک ڈھلتی شام کو یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی کہ جس لڑکی کو پروفیسر صاحب ٹیوشن پڑھاتے تھے ،اس کےساتھ کورٹ جاکر انہوں نے شادی کرلی۔
اس کے بعد پروفیسر صاحب اور ان کی نئی اور پرانی بیوی کے کیا معاملے ہوئے ،اس سے غرض نہیں ۔بتانے والی بات یہ ہے کہ قصبے کے لوگوں نےاس واقعہ کے بعد کسی ٹیوٹر کو ’ایک طویل عرصہ تک ‘کسی گھر میں داخل ہو کر “پڑھانے “کا موقع نہیں دیا
اس سوفیصد سچے واقعہ کے بیان سے حاشاوکلا ہم کسی اور طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ سبق بھی نہیں پڑھا رہے کہ کو ئی روحانیت کی تلاش میں کسی گھر کے اندر جائے تو واپسی پر صاحبہ ء روحانیت کو ساتھ لیتا آئے۔
بہت سے امور ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے ناجائز نہیں ،تاہم معاشرے کے رویے کو بھی خاطر میں لانا ضروری ہے۔ طلاق کی مثال لیجئے۔جائز ہے،مرد کا حق بھی ہے اور عورت کا بھی ہے۔ مگر معاشرتی پہلو سے اس کے اثرات نظر انداز کرنے والا احمق نہیں تو غیر عقلمند ضرور کہلائے گا۔ ایک شادی شدہ مرد نے ایک خاتون کوشادی کا پیغام دیا۔خاتون نے پوچھا تمہارے کتنے بچے ہیں ؟اس نے بتایا تین ہیں۔ خاتون ہنسی اورکہا تم چاہتے ہوکہ رہتی زندگی تک میں ان جانی دشمنوں سے نمٹتی رہوں اب آپ لاکھ روحانیت کے پیچھے چھپیں ،یہ تو ظاہر ہے کہ ایک ہنستے بستے خاندان میں دراڑ اس وقت پڑنا شروع ہوئی جب روحانیت کا ایک طلبگارگھر کے اندر داخل ہوا ۔اس کے بعد جو کچھ ہوا تاریخ ہے۔
یہاں مسئلہ یہ بھی آن پڑا ہے کہ روحانیت سے مراد لوگوں کی بھاری اکثریت صرف اور صرف مستقبل کی پیشگوئیاں لیتی ہے۔ اب یہ تو علما کرام ہی بتائیں گے کہ روحانیت کی اصطلاح قرآن و حدیث میں موجود ہے یا اجنبی ہے۔ یہاں اسی کی روحانیت مقبول ہوتی ہے جو یہ پیش گوئی کرے کہ تم وزیراعظم بنو گے یا اسمبلی کے رکن بنو گے۔ تو ہم پرست اور ضعف الاعتقاد عوام کو خوب خوب بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ بے وقوف بننے والوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں ۔یہ اور بات کہ” پڑھے لکھے” کی تعریف دین کے نکتہ نظر سے مختلف ہے۔ہدایت کا اور روحانیت کا (اگر یہ اصطلاح درست ے) منبع قرآن پاک ہے ۔جو کچھ ہورہا ہے۔ سب قرآن پاک سے دوری کا شاخسانہ ہے ۔اس موضوع پر مفصل بات پھرہوگی ۔ ابھی صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ ایک معروف نوجوان کالم نگار نے دو کالموں میں روحانیت کے نام نہاد علم برداروں کا کچا چٹھا ایسا کھولا ہے کہ خداکی پناہ۔ ایک کالم کا عنوان “روحانیت کے سپر سٹار” ہے اور دوسرے کا ،جو کچھ عرصہ پہلے چھپا ،عنوان تھا” فقیر کیا کہتا ہے”۔
شادی کی ہیٹ ٹرک بہت حد تک ذاتی معاملہ ہے۔یہ اور بات کہ عوامی رہنما کہلانے والے کو اپنے ذاتی معاملات کا حساب بھی دینا ہوتا ہے، اصل ہیٹ ٹرک تو سیاسی میدان میں ہوئی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پارٹی میں کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب کو درآمد کیا گیا جو ایک معروف قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، اس قبیلے کےارکان کی بھاری اکثریت منڈی بہاؤالدین اور اس کے نواح میں آباد ہے۔ان صاحب کی وجہ شہرت ہر اخبار پڑھنے والے اور ہر ٹیلی ویژن پر خبریں سننے والے کو اچھی طرح معلوم ہے۔اس کےبعد تبدیلی لانے والی پارٹی نے سیالکوٹ کا رخ کیا اور ایک جوہر قابل کو وہاں سے اپنی صفوں میں شامل کیا۔
پارٹی کے اندر سے اور باہر سے اس پر آہوں اور کراہوں کا بہت شور اٹھا مگر وہ شور ہی کیا جو ورزش کرنے والے طالب روحانیت کے کانوں تک پہنچ جائے اب پارٹی نے ایبٹ آباد ہزارہ کے نواح سے ایک اور بطل جلیل کو پارٹی میں شامل کرکے ہیٹ ترک مکمل کرلی ۔واہ سبحان اللہ
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اسے کہتے ہیں لچک۔ انگریزوں نے اس کے لیے
Pragmatic
کا لفظ بھی گھڑا ہے، یعنی اگر آپ کا کوئی اصول نہیں اور ہر “ تبدیلی “کے لیے آپ کا دروازہ کھلا ہے تواس کا مطلب ہے کہ آپ میں لچک موجود ہے۔ اب کوئی دن کی بات کرتا ہے کہ مشاہد حسین سید ،دانیال عزیز ،طارق عظیم، طلال چوہدری۔ماروی میمن اور زاہد حامد بھی تبدیلی لانے والی پارٹی کے لیے قابل قبول ہوں گے۔ بلکہ انہیں خوش آمدید کہا جائے گا ۔کیا عجب در پردہ کاوشیں ان حضرات کی شمولیت کے لیے آغاز بھی ہوچکی ہوں ۔کیا عجب مستبل قریب میں جب ‘صاحب ‘جو وزیراعظم بننے کے شدید خواہشمند ہیں ،پیٹھ پر چھریاں کھانے کے لیے شمال کا رخ کریں تو اس وقت تک مذکورہ بالا عمائدین سارے کےسارے یا ان میں سے کچھ تبدیلی لانے والی پارٹی میں شامل بھی ہوچکے ہوں ۔
سلاطین دہلی اور پھر مغل بادشاہوں کے زمانے میں ہر علاقہ کسی نہ کسی جاگیردار کی تحویل میں ہوتا تھا ۔یہ جاگیردار ضرورت کے وقت بادشاہ کو سپاہی مہیا کرتا جو شاہی فوج کا حصہ ہوتے۔ سلطان خلجی ہوتا یا تغلق ،لودھی یا مغل، علاقہ اسی ایک جاگیردار یااس کے خاندان کی گرفت میں رہتا۔وہ عوام سے جیسا چاہتا سلوک کرتا ۔اس کی اپنی نجی جیل ہوتی، جہاں تک اس کا علاقہ ہوتا ،وہ عملی طور پر وہاں تک بادشاہ ہوتا۔
آج پاکستان میں
Electable
ہونے کا جو تصور ہے وہ بنیادی طور پر اسی علاقائی جاگیرداری کا تسلسل ہے ۔اب علاقے کےاس بادشاہ کو ایم این اے یا ایم پی اے کہا جاتا ہے۔ حکومت نواز شریف کی ہو یا بے نظیر بھٹو کی یا جنرل ضیاالحق کی یا پرویز مشرف کی۔ اپنے اپنے علاقے میں یہ نام نہاد
Electable
ہی حکومت کرتےہیں ۔انہیں خدشہ تھا کہ تحریک انصاف کہیں صحیح معنی میں تبدیلی نہ لے آئے۔چنانچہ انہوں نے اس خدشے کا سد باب وقت پر کر لیا ہے، تبدیلی لانے والی پارٹی کی حکومت آ بھی جائے تو ایم این اے اور ایم پی اے وہی رہیں گے۔ جو مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی یا ضیا الحق یا پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں تھے۔ حال ہی میں اس پارٹی نے اٹک اور دو تین دیگر اضلاع کے حوالے سے جو کچھ کیاہے اس پر صرف ایک ہی رد عمل سمجھ میں آتا ہے کہ زور سے نعرہ لگایا جائے “تبدیلی زندہ باد”
نہیں ! سب سراب ثابت ہوا۔ ابھی قافلے کو اور آگے بڑھنا ہوگا ، یہ تبدیلی لانے والے اپنی منزل کھوٹی کرچکے ہیں ، اس ملک میں اس قدر افرادی قوت ہے جس کی مثال کم ہی ملکوں میں ہوگی۔ اگر آزمائے ہوؤں سے دامن بچایا جاتا اور اس جوہر قابل پر بھروسہ کیا جاتا ہے جو تازہ بھی ہے اور قابل اعتماد بھی،تو تبدیلی آنے کا امکان ہوتا۔ اگر منڈی بہاؤ الدین اور سیالکوٹ اور اٹک اور ہزارہ اور ٹیکسلا اور بہت سے دوسرے علاقوں کے عوام کو انہی چھوٹے چھوٹے بادشاہوں کے رحم و کرم پر ڈالنا ہے جو عشروں سے حکومت کررہے ہیں تو خدا کے لیے اور کچھ نہیں تو کم از کم تبدیلی کے لفظ کی مزید توہین کرنا تو بند کیجئے۔
تحریک انصاف کو یا تو اپنے اوپر اعتماد نہیں یا ملک کے ان کروڑوں نوجوانوں پر اعتماد نہیں جنہوں نے اس جماعت کو اٹھان دی اور زندگی بخشی ۔کون سا طعنہ تھا جو ان اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نہیں دیا گیا۔ ممی ڈیڈی سے لے کر برگر فیملی تک۔ پھر لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ افراد وہ تھے جنہو ں نے مایوسی کی بدولت ماضی میں کبھی کسی کو ووٹ ہی نہ ڈالا تھا ۔یہ طبقہ بھی تحریک انصاف کے لیے الیکشن کے دن گھروں سے نکلا۔ ان نوجوانوں میں اور ان تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے افراد میں لیڈر شپ کی بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں مگر تحریک انصاف نے ان سب کو حیران پریشان چھوڑ کر، نام نہاد سیاست دانوں کے ساتھ امیدیں باندھ لی ہیں جو ہر دور میں عوام کا استحصال کرتے آئے ہیں ۔ جو ایک کے بعد دوسری ،دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی پارٹی بدلتے آئے ہیں جن کےدامن کرپشن، سفارش،اقربا پروری، اور میرٹ کشی سے آلودہ ہیں ۔
ایک شخص پہاڑ کی بلند چوٹی سے گرا ۔نیچے دریا تھا ۔ا س نے ہمت کی اور درمیان میں ایک درخت کی شاخ سے لٹک گیا۔ نیچے دریا تھا ۔خدا کو مددکے لیے پکارا کہ اے پروردگار ! دست گیری کر، جان بچا دے، غیب سے آواز آئی، “ہم تمہیں بچا لیں گے،ٹہنی کو چھوڑ دو ۔”ٹہنی کو اس نے نہ چھوڑا مگر آواز دی ۔کوئی اور ہے؟”
مڈل کلاس نے تحریک انصاف کو یہی کہا تھا کہ بدنام زمانہ سیاست دانوں کو پارٹی میں شامل نہ کرو، ہم پر بھروسہ کرو۔ مگر تحریک انصاف نے ان سب پر بھروسہ نہ کیا اور آواز لگائی “کوئی اور ہے”؟اب یہ “کوئی اور” پارٹی پر قابض ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں جن نوجوانوں نے تحریک انصاف سے امیدیں باندھی تھیں اب ان نوجوانوں کی باری ہے کہ آواز لگائیں ۔۔۔۔۔۔”کوئی اور ہے؟”
No comments:
Post a Comment