شاید ہی کوئی تعلیم یافتہ یا نیم تعلیم یافتہ ‘مرد ‘یا عورت’ایسی ہو جسے”وکی پیڈیا “کا علم نہ ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ انسائیکلو پیڈیا لائبریریوں میں پڑے ہوئے تھے۔لکھنے پڑھنے والے،تحقیق کرنے والے،بستہ بغل میں لیے،لائبریریوں کا رخ کرتے’وہاں کئی کئی جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا دیکھتے، استفادہ کرتے اور مضامین لکھتے۔اب ہر گھر میں کیا ‘ہر شخص کی جیب میں انسائیکلوپیڈیا پڑا ہے ۔موبائل فون یا آئی پیڈ اٹھائیے’کلک کیجیے۔”وکی پیڈیا”کا انسائیکلو پیڈیا حاضر ہے۔ دام نہ کہیں جانے کی تکلیف!
وکی پیڈیا جنوری 2001 میں آغاز ہوا ابتدا میں صرف انگریزی زبان میں تھا۔ ۔پھر باقی زبانوں نے بھی پیروی کی، اس وقت وکی پیڈیا تقریباً تین سو زبانوں میں دستیاب ہے۔سب سے بڑا اور جامع ترین بہر طور انگریزی ہی میں ہے۔یہ پچپن لاکھ پینسٹھ ہزار مضامین پر مشتمل ہے ۔آپ نے کسی معروف شخصیت کے بارے میں کچھ جاننا ہے یا کسی ملک کے بارے میں ' یا کسی دریا کے متعلق’ یا کسی پرندےکے متعلق’ یا اجرام فلکی کے متعلق’ یا کسی مذہب اور اس کے پیروکاروں کے متعلق’ غرض کسی بھی موضوع پر معلومات حاصل کرنا ہیں تو وکی پیڈیا پر جائیے ‘اب تک دنیا میں اس موضوع پر جو کچھ دستیاب ہے ’آپ کو مل جائے گا۔
وکی پیڈیا نے کل ایک اعلان کیا ہے کہ آصف علی زرداری کی دو بیٹیوں بختاور بی بی اور آصفہ بی بی کے صفحات وکی پیڈیا سے ختم کیے جارہے ہیں ۔وکی پیڈیا کی انتظامیہ نے اس ایکشن کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان دونوں خواتین کے اپنے دامن میں کچھ نہیں ۔ ان کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں ، یہ منتخب بھی نہیں !مضمون کا عنوان ان کے نام پر ہے مگر اندر سب کچھ بینظیر بھٹو کے بارے میں لکھا ہے۔ ان لڑکیوں کا اپنا کوئی کیرئیر نہیں نہ ہی کوئی نمایاں کارنامہ ایسا ہے جس کا انہیں کریڈٹ دیا جائے۔
یہ خبر پڑ ھ کر ذہن مریم نواز (مریم صفدر) کی طرف جاتا ہے۔ کیا بنیادی طور پر بختاور (یا آصفہ) اور مریم میں کوئی فرق ہے؟اور اگر ہے تو کیا ہے ؟مریم بھی منتخب لیڈر نہیں ۔ عہدہ بھی پاس نہیں ۔نام نہاد شہرت صرف خاندان یا والد کی وجہ سے ہے۔
اگر آپ وکی پیڈیا پر جائیں تو مریم نواز کے تعارف میں دی ہوئی نمایاں ترین چیز دولت ہے۔خاتون کی دولت کا اندازہ وکی پیڈیا میں سترہ کروڑ پاکستانی روپے یا سولہ لاکھ امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ ساتھ 2012 کا سال درج ہے۔مریم نواز کے”سیاسی کیرئیر” کے حوالے سے وکی پیڈیا بتاتا ہے کہ
“نومبر 2013 میں مریم نواز کو “ وزیراعظم یوتھ پروگرام “کا سربراہ لگایا گیا ۔تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس کا نوٹس لیا اور اس اقدام کو روز افزوں اقربا پروری سے موسوم کیا۔ پاکستان تحریک انصاف اکتوبر 2014 میں معاملے کو لاہور ہائی کورٹ لے گئی جہاں جسٹس سید منصور علی شاہ نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ( خاتون کو ) استعفیٰ دینے پر مجبور کرے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر عبدالرحمٰن نے مریم کے تعلیمی کوائف پیش کیے مگر جب پوچھا گیا کہ کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری اصل ہے یا محض اعزاز’ تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پیش کردہ تعلیمی وظائف واپس لے لیے ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ تعلیمی کوائف انٹر نیٹ سے لیے ہیں! جن تعلیمی ڈگریوں کا دعویٰ کیا گیا باہمی مناسبت کے حوالے سے ان پر جسٹس شاہ نے حیرت کا اظہار کیا یعنی ایم اے انگریزی ادب میں اور اس کے بعد پی ایچ ڈی پولیٹیکل سائنس( علم سیاسیات میں ) 2014 میں مریم نواز نے(یوتھ پروگرام کی سربراہی سے) استعفٰی دے دیا ! اس کے بعد وکی پیڈیا میں درج ہے کہ
“مارچ 2017 میں چنی گئی سو خواتین میں شامل کیا گیا۔دسمبر 2017 میں نیویارک ٹائمز نے دنیا بھر کی گیارہ طاقت ور خواتین میں شامل کیا۔
آخری پیراگراف میں پانامہ کیس کے حوالے سے مریم نواز کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا ذکر ہے!
وکی پیڈیا میں مریم نواز کے بارے میں لکھا ہوا مضمون پڑھ کر تاثر پختہ تر ہوتا ہے کہ موصوفہ کے پاس ایک ‘صرف ایک صفت ہے یا اسے کوالیفکیشن کہہ لیجیے۔ اور وہ ہےمیاں نواز شریف کی بیٹی ہونا !اس کے علاوہ خاتون کے پاس کوئی عہدہ ہے نہ کوئی منتخب حیثیت۔ میاں محمد نواز شریف کی دختر ہونے سے وہ خوب خوب فائدہ اٹھا ہی رہی ہیں ۔ سرکاری گاڑیاں ‘سرکاری ملازم’سرکاری پروٹوکول’ روزنامہ 92 کے کالم نگار جناب آصف نے کل بجا طور پر استفسار کیا ہے کہیں جب نواز شریف ملک سے باہر تھے تو مریم نواز صاحبہ کس حیثیت سے وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر معاملات کو چلاتی رہیں ؟ آصف محمود لکھتے ہیں ۔
“مریم نواز صاحبہ نے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے طلبہ کو لیپ ٹاپ تقسیم کیے یہ سکیم بنیادی طور پر حکومت پنجاب کی ہے۔ اب مریم صاحبہ نہ ایم پی اے ہیں نہ ایم این اے۔ نہ ہی ان کے پاس کوئی وزارت ہے۔سوال یہ ہے کہ کس حیثیت سے یہ کام سرانجام دے رہی تھیں ؟ کیا لیپ ٹاپ سکیم مسلم لیگ نون کے فنڈز سے شروع ہوئی تھی کہ اسے خاندانی سیاست کے فروغ کے حامل ایک عامل کے طور پر استعمال کیاجاتا؟ یا یہ نواز شریف صاحب کے ذاتی صدقات و خیرات کے تحت شروع کی گئی سکیم تھی جس میں لیپ ٹاپ بانٹنے ان کی صاحبزادی گئیں ؟
سارا معاملہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے ۔اگر یہ خاندانی بادشاہت نہیں تو اور کیا ہے؟ مریم نواز سے اگر اسے کوئی غیر ملکی اخبار نویس پوچھے کہ آپ کی سیاسی متاع کیا ہے؟ تو سوائے اس کے اور کیا جواب دے سکیں گی کہ “میں سابق وزیراعظم کی صاحبزادی ہوں جو اب پارٹی کے صدر ہیں “ اقبال نےاس قسم کے گنجلک معمے کو حل کیا ہے بالِ جبریل میں شامل ایک نظم کا عنوان “شیر اور خچر” ہے شیر خچر سے پوچھتا ہے
ساکنان دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ
کون ہیں تیرے اب وجد؟کس قبیلے سے ہے تو؟
خچر کی اپنی حیثیت تو صفر تھی۔ جواب دیتا تو کیا؟؟اس نازک مرحلے پر اس نے ماموں کا حوالہ دیا۔ خچر کی واحد صفت یہ تھی کہ وہ گھوڑے کا بھانجا تھا۔
چنانچہ کہا
؎ میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار’ شاہی اصطبل کی آبرو
یوں بھی پاکستان ان دنوں حیرت سرائے بنا ہوا ہے۔ مچھلیاں اچھل اچھل کر درختوں پر چڑھ رہی ہیں ۔ چونٹیاں گندم کی پوری بوریاں سروں پر اٹھائے قطار اندر قطار بھاگ رہی ہیں۔ دریا اور پل چوری ہورہے ہیں۔ زمین پر رینگنے والی کیڑی ہاتھی کے جوان بیٹے کو دل دےبیٹھی ہے۔پوپ نے احرام کے لیے کپڑے کی خریداری کی ہے۔ ایک صاحب نے جنہوں نے دو دن پہلے ایک بار پھر پارٹی تبدیل کی ہے’فرماتے ہیں ۔”سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ ہے ایسا ہواتو ملک اور جمہوریت کے لیے اچھا نہ ہوگا “
اللہ اللہ ! غور کیجیے اور سر دھنیے ۔ہارس ٹریڈنگ پر کون پریشان ہورہا ہے؟ وہ جو خود زین پیٹھ پر رکھے کبھی آرہا ہے کبھی جارہا ہے ‘کبھی پھر آرہا ہے !اسے کہتے ہیں لگام کے اس حصے کو چبانا جو منہ کے اندر ہے اور لوہے کا بنا ہواہے۔ اسی سیاست دان کی گفتگو کل ایک ٹیلی ویژن چینل پر چل رہی تھی۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ آپ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ شریف برادران ہوں یا چوہدری برادران یا مقتدر ادارے’ سب سے آپ کی نبھ جاتی ہے۔ سوال کرنے والے نے تو سوال اس نکتہ نظر سے پوچھا تھا کہ
کہ آن عجوزہ عروس ہزار داماداست
مگر جواب سنیے۔ “اگر لوگ عزت دیتے ہیں تو یہ اللہ تعالی کا بڑا فضل ہے”۔
اس پر کاریں اغوا کر کے لے جانے والے علاقہ غیر کے وہ حاجی صاحبان یاد آرہے ہیں جو مالک کو گاڑی واپس کرنے کا “سودا” مسجد میں بیٹھ کر کرتے ہیں اور اگر پوچھا جائے کہ لوگوں کی گاڑیاں انہی کو واپس کرنے کے پیسے کیوں لیتے ہو تو جواب میں کہتے ہیں ‘ہمارے بچوں کی محنت ہے اللہ کا بڑا فضل ہے ۔یوں بھی حلال سے بنے ہوئے مکانوں پر جلی حروف میں ہذا من فضل ربی لکھا ہوتا ہے ۔اب ہم نے ترقی یہ کرلی ہے کہ پارٹیاں بدلنے کو “عزت “اور “اللہ کا فضل “قرار دینے لگے ہیں ۔ فرمایا کہ پاکستان کے لیے جمہوریت کے لیے اور آئین کے لیے کام کروں گا۔ انٹرویو کرنے والے کو پوچھنا چاہیے تھا کہ گزشتہ اٹھارہ سال سے جس پارٹی میں تھے کیا پاکستان کے لیے او جمہوریت کے لیے اور آئین کےلیے وہاں کام کرنا منع تھا؟
یہ حال مڈل کلاس اعلی تعلیم یافتہ اہل سیاست کا ہے۔ پہلے ٹو ڈی اور ابن الوقت ہونے کا طعنہ جاگیرداروں کو دیا جاتا تھا۔ اب اگر اپنے کیرئیر میں فخر سے صحافت اور پروفیسری کا ذکر کرنے والوں کا بھی یہی وطیرہ ہے تو سیاست اور اہل سیاست کا خدا ہی حافظ ہے اور پھر اپنی”نئی” پارٹی کا بتاتے ہوئے ایک کان سے دوسرے کان تک مسکراہٹ اور قہقہے!بڑے دل گردے کا کام ہے۔
بہر طور انگلی پکڑ کر چلنے کا اپنا ہی لطف ہے ،چوہدری شجاعت حسین کی انگلی ہو یا میاں برادران کی ‘انگلی ضرور ہونی چاہیے۔ اور ساتھ ہی ٹافی اور چاکلیٹ بھی ملتی رہے تومزے ہی مزے ہیں !
No comments:
Post a Comment