Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, February 14, 2018

منہ اور کھر کی بیماری



آپ کا کیا خیال ہے پاکستانی پنجاب کا سب سے زیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بد نصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے؟

آپ کے ذہن میں سب سے پہلے جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی پٹی کا نام آئے گا ۔
مگر آپ کا جواب درست نہیں !
سرائیکی پٹی کے سیاست دان تو وزیر اعظم رہے،صوبے کی گورنری ان کے پاس رہی ،وزیر اعلی رہے مصطفی کھر سے لے کر صادق قریشی تک ،یوسف رضا گیلانی سے لے کر کئی مخدوموں تک ۔سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
سرائیکی پٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جنوبی پنجاب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ رؤف کلاسرہ جیسی طاقت ور آواز اس کے لیے اٹھتی رہتی ہے ۔رؤف کلاسرہ صحافیوں کے اس روباہ صفت طبقے سے نہیں جو فروختنی  ہیں  اور اپنے  ماتھے پر پرائس ٹیگ چسپاں کر کے اقتدار کی دہلیز پر حاضر ہوتے ہیں ۔چونکہ وہ بے غرض ہے اس لیے اس کی آواز بلند ہے اور سنی جاتی ہے ۔مگر شکوہ اس سے یہ ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے علاوہ ،ادھر ادھر کہیں نہیں دیکھتا ۔پنجاب کے پسے ہوئے وہ حصے بھی، جو جنوبی پنجاب میں نہیں ،رؤف کلاسرہ کی آواز کے محتاج ہیں۔
تو پھر آپ کا کیا خیال ہے ،پنجاب کا سب سےزیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بدنصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ؟اب آپ کہیں گے شمالی پنجاب ،مثلاً راول پنڈی مگر یہاں بھی آپ غلطی کر گئے ۔پنڈی کو شیخ رشید جیسا سیاست دان ملا ہوا ہے ۔اس نے شہر کو سکولوں ،کالجوں سے بھر دیا ۔خاص طور پر خواتین کے لیے کئی کالج بنوائے۔حنیف عباسی نے بھی کئی ترقیاتی کام کرائے ۔
تختِ لاہور کے نواحی اضلاع کا تو آپ یقیناً نام نہیں لیں گے ۔یہ تو سنہری اضلاع ہیں ۔سیالکوٹ ،گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،فیصل آباد ،ناروال اور خود لاہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہ “اصل”پنجاب ہے جسے شریف خاندان واقعی پنجاب سمجھتا ہے ۔مسلم لیگ نون انہی اضلاع کا نام ہے ۔مسلم لیگ نون کے وہ لیڈر جو شریف برادران کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہیں۔انہی خوش قسمت پانچ چھ ضلعوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف ،عابد شیر علی،احسن اقبال،خرم دستگیر ،سائر ہ افضل تارڑ،انوشہ رحمان ،رانا ثنا ءاللہ ،رانا افضل حسین ،پرویز ملک ،،کامران مائیکل ،برجیس طاہر ،رانا تنویر حسین،زاہد حامد،دانیال عزیز ،طلال چوہدری ،رانا مشہود احمد خان ،یہی وہ خوش قسمت ہیں جو حکومت کے اصل مالک ہیں اور شریف برادران کے بازو ہاتھ آنکھیں اور کان ہیں ۔چوہدری نثار علی خان ہمیشہ سے
 odd     man   out 
تھے ،چنانچہ اب وہ آؤٹ ہیں ۔ کہنے کو تو شاہد خاقان عبادسی وزیر اعظم ہیں مگر کیا وہ مذکورہ بالا افراد میں سے کسی کا حکم ٹال سکتے ہیں ؟
اس سے پہلے کہ آپ کو بتایا جائے ،پنجاب کا سب سے زیادہ بد قسمت سب سے زیادہ بد نصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ،یہ جان لیجیے کہ ماؤتھ اینڈ فُٹ بیماری کیا ہے ۔یہ بیماری ان جانوروں کو لگتی ہے جن کے چار پاؤں اور چار ٹانگیں ہوتی ہیں ۔اس لیے کہ آج کل دو پاؤں اور دو ٹانگوں والے مویشی بھی عام ہیں ۔اس سے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں ۔پاؤں یعنی کُھر زخمی ہو جاتے ہیں ۔تیز بخار چڑھتا ہے اور مویشی مرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔اس وقت چکوال اور اٹک کے اضلاع اس بیماری کی لپیٹ میں ہیں ۔سو سے زیادہ مویشی ایک ہفتے میں مر چکے ہیں۔ان میں سے ایک ایک بیل لاکھوں کا تھا ۔
اگر حفاظتی اقدامات کیے جائیں اور حفاظتی ٹیکے بروقت لگائےجایئں تو اس مصیبت کو ٹالا جاسکتا ہے ۔مگر چکوال اور اٹک پنجاب بھر میں وہ دو اضلاع ہیں جہاں حفاظتی ٹیکے(ویکسی نیشن )نہیں لگائے گئے ۔کیوں ؟ انگریز ی زبان میں چھپنے والا معروف ترین روزنامہ نے اس کیوں کا جواب ڈھونڈ نکالا ہے۔سُنیے اور پھر اپنے آپ سے پو چھیے کہ پنجاب کا سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ۔
“پنجاب لائیو سٹاک اور ڈیری کے محکمے کے ایک سینئر افسر نے روزنامہ کو بتایا کہ چکوال اور اٹک میں بیماری روکنے والا ویکسی نیشن نہیں لگایا گیا کیونکہ دونوں ضلعوں کو حکومت نے “کنٹرول زون”قرار دیا ہوا ہے “۔
“یہ کنٹرول زون “ کیا ہوتا ہے “روزنامہ بتاتا ہے کہ -:
“کنٹرول زون وہ ہوتا ہے جس میں ویکسی نیشن (حفاظتی ٹیکے )نہیں لگائے جاتے ۔وائرس کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے کہ وہ مویشیوں پر حملی کرے تا کہ اس وائرس پر تحقیق(میڈیکل سٹڈی )کی جاسکے اور ویکسی نیشن تیار کی جاسکے ۔یوں باقی اضلاع میں مویشیوں کو بچا لیا جاتا ہے ۔”
گویا اٹک اور چکوال کے دو اضلاع ،دو تجربہ گاہیں ہیں۔یہاں حفاظتی ٹیکے روک کر بیماری پھیلنے دی جاتی ہیں ۔پھر اس بیماری کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔تحقیق ہوتی ہے ۔پھر اس کی بنیاد پر ویکسی نیشن تیار کر کے دوسرے اضلاع کے مویشیوں کو لگایا جاتا ہے تا کہ وہ بیماری سے محفوظ رہیں۔
آپ نے سنا ہو گاکہ نئی ادویات تیار کر کے چوہوں ،خرگوشوں ،مینڈکوں اور اس قبیل کےدوسرے جانوروں پر آزمائی جاتی ہیں ۔اٹک اور چکوال کے اضلاع سے بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو خرگوشوں ،چوہوں اور مینڈکوں سے کیا جاتا ہے ۔
اگر ان اضلاع سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندے اپنے حلقوں سے مخلص ہوتے تو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر پوچھتے کہ صرف ان دو ضلعوں کو”کنٹرول زون”یعنی تجربہ گاہ کیوں بنایا گیا ہے ؟کیا باقی اضلاع کے مویشی مالکان آسمان سے اترے ہیں ؟ان دو ضلعوں کو کنٹرول زون قرا ردینے والے افراد کی نشان دہی کرائی جاتی پھر انہیں سزا دلوائی جاتی مگر ان بد قسمت اور محروم توجہ اضلاع کے نمائندے حکمرانوں کےسامنے دست بستہ تو کھڑے رہ سکتے ہیں،کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتے اس لیے کہ مفادات زبان پر قفل لگا دیتے ہیں ۔
پنجاب کے ان مغربی اضلاع میں وزیر اعلی یا وزیر اعظم چار سال میں کتنی بار آئے؟ان چار سالوں سے پہلے بھی پنجاب میں ان کی حکومت عشروں پر محیط رہی۔اس میں ان اضلاع کے لیے کیا گیا ؟
مویشی تو منہ اور کُھر کی بیماری سے مر ہی جائیں گے ۔مگر ایک بات طے ہے کہ منہ اور کُھر کی بیماری حکمرانوں کو بھی لگ چکی ہے ۔ان کے منہ میں ایسے آبلے پھوٹے ہیں کہ اب”مجھے کیو ں نکالا”کے سوا اور کوئی آواز نہیں نکلتی ۔ان کے کُھروں میں ایسی بیماری ہے جو انہیں لندن، جدہ، استنبول ،چین اور امریکہ تو لے جاسکتی ہے ،صوبے کے اطراف واکناف میں لے جانے سے قاصر ہے۔
یہ مویشیوں کو ویکسی نیشن نہیں لگاتے تو نہ لگائیں قدرت ایک اور ویکسی نیشن تیار کر رہی ہے اور لگا رہی ہے ۔ایک حفاظتی ٹیکہ مکافاتِ عمل نے عدلیہ کے ذریعے لگوایا ہے۔سالہا سال سے رکاوٹیں عوام کی تذلیل کر رہی تھیں ۔ڈرپوک حکمرانوں نے راستے بند کر رکھے تھے ۔عدلیہ نے یہ راستے کھلوائے۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہیٹ پوش حکمران  عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ یہ تو کابینہ اور اسمبلی جیسے اداروں کو پرِکاہ کی اہمیت نہیں دیتے تھے !انہونی ،ہونی ہو گئی ۔کوئی مانے نہ مانے ،تبدیلی تو یہ ہے ۔
مُلک کے جنوبی حصے میں منہ اورکُھر کی بیماری زور پکڑ رہی تھی۔ایک شخص لندن میں بیٹھ کر منہ سے جھاگ نکالتا تھا اور زمین پر زور زور سے سُم مارتا تھا ۔دستِ قدرت نے اسے ایسا ویکسی نیشن لگایا کہ سامان ِعبرت بن گیا ۔اُس کے پیروکار تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرگئے۔یوں کہ اب کسی مالا میں پروئے ہی نہیں جارہے ۔آپس میں بر سر ِ پیکار ہیں ۔دست و گریباں ہیں ۔ابھی تو ویکسی نیشن کی ڈوز پوری لگی بھی نہیں۔
غور کیجیے ،کراچی میں ایک سیاست دان نے شہری کو سرِ عام اسلحہ دکھایا ۔ٹیلی ویژن پریہ سیاست دان ایک کان سےدوسرے کان تک دہانے کو پھیلاکر مسکرا رہا ہے ۔وہ کراچی جو علم و فضل کا گہوارہ تھا ۔پورے ملک کا ادبی ،ثقافتی اور علمی رہنما تھا ،اس کراچی کے فرزند اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں ۔جسموں میں ڈرل مشین سے سوراخ کرنے اور لاشوں کو بوریوں میں بند کرنے کا رواج یہیں سے چلا ۔منہ سے جھاگ نکالنے والے اور زمین پر زور زور سے سُم مارنے والے لیڈر نے عوام کو کہا ،کتابوں پر لعنت بھیجو ۔پڑھنے لکھنے میں کچھ نہیں رکھا۔ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچو اور کلاشنکوفیں بندوقیں ،ریوالور اور گولیاں خریدو۔جس کمیونٹی میں سلیمان ندوی ،محمد علی جوہر ،حکیم اجمل خان ،شبلی ،حالی ،احمد رضاخان ،اشرف علی تھانوی اور اکبر اٰلہ آبادی جیسے نابغے پیداہوتے تھے ۔اس میں جاوید لنگڑا ،فلاں کمانڈر ،فلاں رسہ گیر ،فلاں کن ٹٹا،فلاں اٹھائی گیرا ،فلاں لقندرا،فلاں بانکا،فلاں دادا،فلاں آتش زن،فلاں مردم خور ،فلاں گرہ کٹااور فلاں خدائی خوار پیدا ہونے لگے اور پھر قوم کی رہنمائی بھی کرنے لگ گئے۔
منہ اور کُھر کی بیماری اہلِ حکومت میں اور اہلِ سیاست میں عام ہونے لگی ہے ۔مگر قدرت ساتھ ساتھ ویکسی نیشن کا  انتظام بھی کیے جارہی ہے۔ دیکھتے جایئے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com