Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, February 18, 2018

خدا نہ کرےبلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر جائے


رسول حمزہ توف ریا ست دا غستان کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوا۔2003ء میں ما سکو میں وفا ت پانے والےحمزہ توف نے سوویت یو نین کا پورا زمانہ دیکھا اور پھر سوویتیو نین کا اختتام  اور انہدام بھی ۔ اس کی معر کہ آرا کتاب’’ میراداغگستان ‘’دنیا کے کلا سیکی  ادب میں شمار ہو تی ہے۔بنیادی  طور پر وہ شاعر تھا۔اگر وہ اور کچھ بھی نہ لکھتا  تو اس کی ایک نظم ہی اسےشا عری اور محبت کی دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے کا فی تھی۔
اگرایک ہزارمردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو
یقیناً رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا
اگرایک سو مرد تمہاری محبت میں مبتلا ہوں
تورسول حمزہ توف ان میں،ظاہر ہے ،ضرور شامل ہوگا !
اگر
دس مردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو پھر بھی
رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا
اور اگر
صرف ایک مردتمہاری محبت میں مبتلا ہو تو پھر بھی
رسول حمزہ توف کےعلاوہ اور
کون ہو سکتا ہے؟
اور اگر تم تنہا ہو -
اکیلی ہو
اورکوئی بھی تمہاری محبت میں مبتلا نہیں
تو یقین کر لینا کہ
کہیں  بلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر گیا  ہے!

  یہ نظم ایک خبر پڑھ کر یاد آئی۔خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچیں ۔پھر اسی  روز شام ڈھلے خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور واپس روانہ ہوگئے۔

قدرت کاملہ کی لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں نشانیاں ہیں ،نشانیوں کو آیات کہتے ہیں ۔کلام پاک کی آیات بھی قدرت ِ کاملہ کی نشانیاں ہیں ۔ آیت عجیب شئے کو بھی کہتے ہیں ۔عینی عجوبہ!کوئی   ا نسان ایسا عجوبہ نہیں تخلیق کرسکتا ۔ہر آیت پروردگار کی طاقت کی نشانی ہے۔ ہر نشانی عجوبہ ہے۔سورہ الحدید کی ایک آیت ہے جس پر جتنا غور کیا جائے ۔اتنے ہی معمے حل ہوتے ہیں ، گرہیں کھلتی ہیں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک کی اصلیت سمجھ میں آتی ہے۔یہ سوری الحدید کی بیسویں آیت ہے ۔مختلف بزرگوں نے اس کا ترجمہ مختلف انداز میں کیا ہے ۔مولانا احمد رضا خان نے لکھا ہے ۔۔۔۔”او ردنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کا مال”۔ مولانا فتح محمد جالندھری نے یوں ترجمہ کیا ہے۔۔۔”اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے”۔ سید ابوالاعلی مودودی نے لکھا ہے ۔۔۔۔”دنیاکی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں “۔اور قدرت کاملہ کی نشانی دیکھیے کہ اس کی سورہ مبارکہ کا نام الحدید ہے،یعنی لوہا!

لوہے کے تاجروں کا جو خاندان اس وقت اس ملک پر چھایا ہوا ہے اس نے پورے ملک کو اپنی لوہے جیسی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا خاندان ہے جس کی امارت اور ثروت کا اندازہ بھی ایک عام پاکستانی نہیں لگا سکتا ۔عین ممکن ہے کہ خود اس خاندان کو اپنی کل مالیت کا صحیح علم نہ ہو۔ یہ لوگ کروڑوں کی گھڑیاں پہنتے ہیں ۔فرشِ زمین پر پاؤں نہیں رکھا۔ خصوصی طیارہ  ان کے لیے اسی طرح ہیں جیسے عام شہری کے لیے بس یا سوزوکی یا ٹیکسی ! ان کے ملبوسات کا ایک ایک آئٹم کروڑوں روپوں کا ہے۔ پوری دنیا کے براعظموں میں اور خطوں میں اور ملکوں میں اور سمندروں کے تمام کناروں پر ان کے کارخانے جائیدادیں ،رہائش گاہیں اور احوال تجارت موجود ہیں ۔

مگر دھوکے کی ٹٹی یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ مظلوم ہیں ۔صاحبزادی خصوصی طیارے پر اسلام آباد پہنچتی ہیں ۔وہاں سے ہیلی کاپٹر پر مانسہرہ جاتی ہیں ۔ ہر طرف پھول نچھاور ہورہے ہیں مگر رونا مظلومیت کاروتی ہیں ۔

ملک حیرت سرائے بنا ہوا ہے۔ حکومتیں ان کی اپنی ہیں۔سب سے بڑا ، سب سے طاقتور صوبہ ان کی مٹھی میں ہے۔وفاق پر حکومت کرنے والے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں مگراس کے باوجود یہ مسلسل سینہ کوبی کررہے ہیں ۔دہائی دے رہے ہیں ۔انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ اختیار ان کا!حکومتیں ان کی! دولت کے ان گنت انبار ان کے قبضے میں !محلات قطار اندر قطار ان کی ملکیت ہیں ،مگر یہ اس پر نالاں ہیں کہ کوئی ان سے یہ پوچھنے کی جرات کیسے کرسکتا ہے کہ قارون کے یہ خزانے آئے کہاں سے ہیں ؟

ان کی متاع ِ غرور میں ،ان کی دھوکے کی ٹٹی میں ،ایک او بڑا دھوکہ ،میڈیا کی وہ فوج ظفر موج ہے جو ہمہ وقت ، سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس دن، ہفتے کے ساتھ روز اور دن رات کے چوبیس گھنٹے ان کے دفاع میں مصروف ہے۔ ایسے ایسے ذہن ہیں جو اس خاندان سے باہر کا سوچ ہی نہیں سکتے ۔ان کی ساری صلاحیتیں اس حساب کتاب میں صرف ہورہی ہیں کہ اس خاندان کا کون سا فرد اگلا تخت نشیں ہوگا اور اس کے بعد کون ہوگا اور اس کے بعد ہماکس کے سر پر بیٹھے گا ۔لکھاریوں اور مقررین کے اس گروہ کے نزدیک کوئی اور خاندان حکومت کا سزاوار ہی نہیں ۔ باپ کے بعد بیٹی کے سر پر تاج ہونا چاہیے ۔میاں  پارٹی کی صدارت سے ہٹا تو اس کی بیوی ا س کی جاں نشیں ہوگی۔یا بھائی ہوگا یا بھتیجا!

طرف داروں کا یہ گروہ  ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ سکتا کہ جسٹس ملک قیوم کے ساتھ ہونے والی گفتگو ویڈیو پر آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک سپریم کورٹ پر حملہ ایک مقدس جہاد تھا ۔۔جس طرح بریف کیس فیم جج کو ملک کا صدر بنایا گیا وہ عین انصاف تھا۔ لکھنے اور بولنے والے  طائفہ کے معزز ارکان ذہنی افلاس کےاس پاتال تک پہنچ گئے ہیں جہاں وزیراعظم کی عدم موجودگی پر صاحبزادی کا امورِ حکومت چلانا آئین کی اصل روح کا تقاضا تھا۔ یہ خاندان اگر وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں کسی ڈرائیور، کسی باورچی، کسی بٹلر کو بھی ایوان وزیراعظم میں بٹھا دیتا اور وہ ڈرائیور ،وہ باورچی ،وہ بٹلر ،غیر ملکی سفیروں  کو شرف ملاقات بخشتا تو طرف دار دانشوروں کا یہ طائفہ اسے بھی درست سمجھتا اور اس پر تنقید کرنے کا بھی نہ سوچ سکتا ۔

ایک اور پہیلی بھی ہے جو حل ہونے میں نہیں   آتی جس جنرل پرویز مشرف کی ہر وقت مذمت کی جاتی ہے۔اس کے سارے یمین و یسار مسلم لیگ نون میں جمع ہیں ۔ یہی تو پرویز مشرف کے دست و بازو تھے جنہوں نے وہ سارے غلط کام کیے جن کی برائی ہر وقت کی جارہی ہے ۔انہیں کیوں گلے سے لگایا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا ۔کبھی نہیں دیا جائے گا۔

مسلم لیگ نون لودھراں میں الیکشن جیت گئی ہے۔2018 کے انتخابات میں اسے پھر بہت سی نشستیں مل جائیں گی۔ صاحبزادی وزارت اعظمٰی کا تاج پہنیں گی۔پنجاب بدستور ان کی مٹھی میں رہے گا ۔اس لیے کہ حکومت کی مشنری  کا ایک ایک پرزہ ان کا اپنا ہے۔یہ آئندہ کئی عشروں تک حکمراں رہیں گے۔ایک چھوٹی سی خبر کے مضمرات دیکھیے۔۔۔۔

“وفاقی و صوبائی اداروں میں ن لیگ مخالف بیورو کریٹس سے فوری طور پر اہم فائلیں واپس لینے اور انہیں دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کرنے یا او ایس ڈی کرنے کے حوالے سے اہم ترین حکومتی  ذمہ داران نے کام شروع کردیا !”

ایک ایک “مخالف” بیوروکریٹ کو نکال باہر کرنے والی جماعت ،یا خاندان ،آخر کس طرح اقتدار سے باہر رہ سکتا ہے؟ ہاں !غیب سے کوئی آندھی چلے اور ان کے انگوروں کے باغ تباہ کردے تو اور بات ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا لودھراں میں جیت جانے سے اور اگلی حکومت  اور اگلی حکومتیں بنا لینے سے یہ پوتر ہوجائیں گے؟ کیا ان کے قارونی خزانوں کا جواز مہیا ہوجائے گا۔ نہیں ! میاں محمد نواز شریف اگر ایک ہزارسال بھی اقتدار میں رہیں اور پارٹی کے صدر رہیں تب بھی میاں صاحب کی ذہنی سطح وہی رہے گی جو ہے۔ تب بھی یہ ای سی سی کا یا کوئی اور سنجیدہ اجلاس چیئر نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ   تعلیم پریا زرعی اصلاحات پر یا معاشرے کے فیبرک پر ،یا ٹیکس چوری پر بات نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ کسی غیر ملکی اخبار نویس سے گفتگو نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ کاغذ کی پرچیوں پر نظریں جما کر ہی دوسرے سربراہان ِ مملکت سے بات کریں گے۔

مال و دولت کی چمک کے باوجود اور مفادات کا خوش نما راتب دکھائے جانے کے باوجود بھی ایسے دانشور، سیاسی لکھاری،اینکر پرسن موجود ہیں جو اس خاندان کے چہرے پر پڑی دھوکے کی نقاب اٹھاتے رہیں گے۔ اگر صرف ایک ہزار افراد بھی ان کا دھوکہ تسلیم کرنے سے انکار کردیں تو اس ملک کا مستقبل محفوظ ہے۔ اگر ایک سو افراد بھی ان کے بچھائے ہوئے جال سے بچ نکلیں تو افق روشن رہے گا۔

اگر اس خاندا ن کی مصنوعی  اجارہ داری تسلیم نہ کرنے والے افراد صرف دس بھی رہ جائیں گے تو اندھیرےکا مقابلہ جاری رہے گا۔ اگر ان سے خبردار کرنے والا صرف ایک شخص رہ جائے تب بھی امید کی کھیتی ہری رہے گی۔ خدا نہ کرے ایسا وقت آئے جب سچائی کا ایک علم بردار بھی نظر نہ آئے۔ خدا نہ کرے بلند پہاڑوں میں آخری رسول حمزہ توف بھی مر جائے !مگر ایسا نہیں ہوگا !جو ایسے مداری ہوں  اور ایسے کرتب باز ہوں کہ پہلے اعلان کریں کہ ہم زرداری کو فلاں فلاں شہر کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے ۔پھر ایک  بھائی زرداری کی گاڑی ڈرائیو کرے اور دوسرا چوہتر پکوان اپنی نگرانی میں پکوائے اور کچھ عرصہ بعد پھر اس کی دولت واپس لانے کا اعلان کریں تو متاع غرور کب تک قائم رہے گا! دھوکے کی ٹٹی کب تک آنکھوں میں دھول جھونکے گی۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com