Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 26, 2018

گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے

 فرض کیجیے  احد چیمہ بے قصور ہیں ۔ جو کچھ کہا جارہا ہے ۔سازش ہے۔پھر بھی لاہور افسر شاہی کا ردِ عمل ‘بیوروکریسی کے مقام اور مرتبے سے مناسبت نہیں رکھتا۔ سول سروس کی ایک روایت ہے۔اعلی سرکاری ملازمتوں کا ایک امیج ہے۔ پنجاب بیوروکریسی جو طرزِ عمل دکھا  رہی ہے اس سے احد  چیمہ کا کیس مضبوط نہیں ‘کمزور ہورہا ہے۔
یہ جو نیب کو کہا جارہا ہے کہ
“اداروں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں
اور کہاں سے آرہے ہیں “
تو اس سے خوف اور شدید احساسِ کمتری کی بُو آرہی ہے۔آپ کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں ؟آپ جہاں سے بھی آرہے ہیں ، قانون سے بالا تر تو نہیں !
افسر شاہی کے چند ارکان جس ردِ عمل کا اظہار کررہے ہیں ‘اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بیوروکریسی دو  گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ صوبائی سروس کے ارکان کو “برہمن “ گروپ نے ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکرٹری جنرل نوید شہزاد نے نشاندہی کی ہے کہ احدچیمہ صاحب نے ان کی سروس سے تعلق رکھنے والے 73 افسروں کو گرفتار کرایا۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ اب اپنی گرفتاری پر وہ صوبائی سول سروس سے کیا امید رکھتے ہیں ؟
یہ بھی خوب کہا کہ نیب کے قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ بڑے مگر مچھ بچے رہیں ۔ یہ” تجویز” بھی سننے میں آئی کہ نیب کے چیئرمین کو گرفتار کر لیا جائے ۔اس سے لطیفہ یاد آرہا ہے کہ جب امریکی صدر بل کلنٹن کٹہرے میں کھڑے تھے اور ایک وکیل ان کے بخیے ادھیڑ رہا تھا اور پرخچے اڑا رہا تھا تو شریف برادران نے کلنٹن کو سادہ سا پیغام بھیجا تھا کہ یہ وکیل ایک ایس ایچ اوکی مار ہے! یہ تو لطیفہ ہے۔ مگر حقیقی صورت حال بھی لطیفوں کی خیالی دنیا سے زیادہ مختلف نہیں ۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان اپنی کتاب 
Glimpses into the corridors of power
 میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔جب وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان اختلافات بڑھے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ چیف جسٹس کو قومی اسمبلی کی “استحقاق کمیٹی” کے سامنے پیش کیا جائے ۔گوہر ایوب لکھتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف اوراستھقاق کمیٹی کے چیئرمین کو بتایا کہ ایسا نہ کریں۔ اگر کیا بھی تو چیف جسٹس نہیں آئیں گے، اور یوں قومی اسمبلی اور استحقاق کمیٹی کی بے حرمتی ہوگی ۔گوہر ایوب لکھتے ہیں
“وزیراعظم (نواز شریف) نے مجھے وزیراعظم ہاؤس ساتھ چلنے کو کہا۔کار میں انہوں نے اپنا ہاتھ میرے زانو پر رکھا اور کہا !گوہر صاحب !کوئی طریقہ بتائیں کہ چیف جسٹس کو گرفتار کیا جائے اورایک رات کے لیے اسے جیل میں رکھا جائے
گوہر ایوب آگے لکھتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ ایسا سوچیں بھی مت!
مگر نواز شریف اپنی سوچ سے باز نہ آئے جلد ہی سپریم کورٹ پر منظم حملہ کرادیا گیا۔ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب جو وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔اس  ہجوم کی قیادت کررہے تھے۔ معروف انگریزی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق ممبر قومی اسمبلی طارق عزیز نے قائد اعظم کی تصویر والا فریم اتار کر پھینکا جو ٹوٹ گیا۔
اس واقعہ کو ،اس مائنڈ سیٹ کو اور اس ذہنیت کو پس منظر میں رکھ کر سوچا جائے تو کلنٹن کو دی جانے والی نصیحت اتنی غیر حقیقی بھی نہیں لگتی اگر وزیراعظم چیف جسٹس کو ایک رات جیل میں رکھ کر سبق سکھانے کا پلان بنا سکتے ہیں تو پنجاب کی خدمات کلنٹن کو بھی مہیا کی جاسکتی تھیں!
 یہ سب تو سیاست دانوں کے بارے میں تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب بیوروکریسی ‘جو اس سطح پر کبھی نہیں آئی تھی’ اس سطح پر اتر آئی ہے ۔کیا عجب کل کو چشم فلک یہ منظر بھی دیکھے کہ پنجاب کے ڈی ایم جی افسروں کا ایک بے قابو ہجوم’ چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی قیادت میں نیب ہیڈ کوارٹر پر حملہ کررہا ہو اور کوئی افسر طارق عزیز کا کردار ادا کرکے تصویریں پھینک اور توڑ رہا ہو۔
ہر سنجیدہ پاکستانی اچھی طرح جان گیا ہے کہ پنجاب میں شریف برادران کے طویل اقتدار نے بیورو کریسی کو طاعون زدہ کردیا ہے۔ اس بیوروکریسی کا غالب حصہ اب ریاست کا نہیں ،حکومت کا بھی نہیں ‘ صرف ایک خاندان کا وفا دار بن کررہ گیا ہے۔ یہ جو ہیٹ پوش وزیراعلی ہی جلسے میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت  نہیں کی جاسکتی تو اس اعلان کا پول کھل گیا ہے۔ احد چیمہ کی گرفتاری پیا ز کا اوپر والا چھلکا ہے۔ اب ایک ایک  ایک کرکے سارے چھلکے اتریں گے اور آخر میں “اعلی “شخصیت بھی کٹہرے میں نظر آئے گی ۔اس انجام سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین کو ہٹا کر’ پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری صاحب کو نیب کا چیئرمین تعینات کیا جائے۔ احد چیمہ صاحب کو باعزت بری کرکے نیب کے صوبائی سیٹ اپ کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔
جناب ہارون الرشید نے کل امریکہ میں مقیم پاکستانی کے جس خط کے مندرجات لکھے ہیں انہیں پڑھ کر رحم آتا ہے۔ اس عفیفہ پر جس نے بیوہ ہو کر  بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ سول سروس کا امتحان پاس کرلیا،مگر افسوس !انسان قناعت کو پسند نہیں کرتا نہ انتطار! “ہل من مزید" کی طلب میں لمبے ہاتھ مارتا ہے اور احتیاط اور دیانت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔یہ بات نہ جانے اتنے پڑھے لکھے لوگ کیوں نظر انداز کردیتے ہیں کہ کوئی شے اس دنیا میں چھپتی نہیں ۔ ہر شے سامنے آجاتی ہے۔ جو بہت زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں ‘جیسے زرداری صاحب! جیسے شریف برادران! دیر سے پکڑے جاتے ہیں ۔جو کم طاقت ور ہوتے ہیں جیسے احد  چیمہ ‘جیسے ظفر حجازی وہ نسبتاً جلد پکڑے جاتے ہیں۔
آہ! بیوروکریسی ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ بیوروکریٹ ‘ سیاستدانوں کی تجاویز کو اور حکمرانوں کے احکام کو قانون کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔ قانون اجازت نہ دیتا تو انکار کردیتا تھا! یہ طرزِ عمل بھٹو صاحب نے آکر تبدیل کیا۔ سیاسی بنیادوں پر بیوروکریسی میں بہت سے لوگوں کو زبردستی داخل کیا گیا۔ اس “نودولتیا” افسر شاہی نے قوانین کو ضابطوں کو ‘ پاؤں کے نیچے روندنا شروع کردیا۔ پھر دیکھا دیکھی سب نے اسی رستے پر چلنا شروع کردیا ۔سوائےبہت چند افسروں کے جو تب سے آج تک گنتی میں کم رہے ہیں۔ عالم تاب تشنہ کا شعر یاد آرہا ہے
گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کردیے گئے!
قوانین کی پامالی کو جنرل ضیا الحق نے عروج پر پہنچایا۔ ضابطوں کی دھجیاں اڑیں ۔ قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔ دس دس سال صدر ضیا الحق نے اپنے چہیتے افسروں کو بیرون ملک ایک ہی پوسٹ پر رکھا۔ دارالحکومت کے ماسٹر پلان کے پرخچے اڑ گئے۔ گرین بیلٹ کو کاٹ کاٹ کر پلاٹ بنائے گئے، کیا زرعی فارم ‘کیا نرسریوں کے پلاٹ ، کیا رہائشی پلاٹ ،جوتوں میں دال بٹی اور خوب بٹی۔
ارشاد حقانی مرحوم نے لکھا کہ ایک بار جنرل ضیا الحق ترکی کے دورے پر گئے۔ ترکی کے صدر نے مہمانوں سے تعارف کرایا۔ایک صاحب کھلاڑی تھے یا اداکار یا آرٹسٹ ‘ان کے بارے میں ترک وزیراعظم (یا صدر) نے بتایا کہ “یہ بیمار ہیں ، میں انہیں علاج کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتا ہوں مگر وزارتِ خزانہ اجازت نہیں دے رہی “
ایک طرف ایسی مضبوط بیوروکریسی کہ صدر (یا وزیراعظم) کی بات نہیں مان رہی اور قانون پر عمل پیرا ! دوسری طرف کا احوال دیکھیے! صدر ضیا الحق نے اس آرٹسٹ (یا کھلاڑی کو ‘جو بھی تھا) وہیں سے پاکستان کے خرچ پر امریکہ بھجوانے کے احکام جاری کردیے۔ !!کون سی وزارت خزانہ اور کہاں کے بیوروکریٹ!
اگر زیادتی بھی ہورہی ہے تو افسر شاہی کو اپنے بلند اور متین مقام سے نیچے نہیں اترنا چاہیے ۔عدالتوں میں قانونی جنگ لڑیں ۔ اگر آپ کا دامن صاف ہے تو ایک نہیں ایک ہزار نیب بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی
مگر ایسا طرزِ عمل نہیں  اختیار کرنا چاہیے جس سے پکڑے جانے والے افسران کو تقویت کے بجائے ضَعف اور نقصان پہنچے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com