Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 13, 2018

زندگی کی سب سے بڑی غلطی


زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ ان پر بھروسہ کرلیا ،
دیکھنے میں یہ صاحب مناسب لگ رہے تھے ،پابند صوم صلٰوۃ ،علم کا دعویٰ تھا ،تقویٰ کا بھی اور سب سے بڑھ کر یہ یقین دہانی کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں گے اور ان کا اصرار کہ وہ رہنمائی کرنے کے اہل ہیں ۔
میں نے سب کچھ ان پر چھوڑ دیا ۔،انہوں نے کہا دین کا تقاضا ہے کہ شمال کی طرف چلو ،میں نے بیگ اٹھایا اور شمال کی طرف چل پڑا، چلتا رہا’ چلتا رہا ۔ منزل نہ آئی، انہوں نے کہا ‘نہیں شمال کو چھوڑو ‘مشرق کی طرف چلو۔ میں نے مشرق کی طرف چلنا شروع کردیا ۔پھر انہوں نے کہا تیز چلو۔ میں نے رفتار بڑھا دی !پھر فرمایا آہستہ چلو ۔میں سبک خرام ہوگیا ۔
کہا یہ لباس نہیں ‘وہ لباس پہنو’ میں نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے جو لباس پہنا ہوا تھا، اتار پھینکا۔ ان کی تجویزکردہ پوشاک زیب تن کرلی ۔ایک عرصہ بعد کہنے لگے ‘وہ پہلے والا بھی پہن سکتے ہو!
میری سپردگی ‘میری فرماں برداری ‘اور میرا ان پر مکمل انحصار ۔یہ سب ان کے فخرو اطمینان کا باعث بن گیا۔ وہ اپنے آپ کو حاکم اور مجھے محکوم سمجھنے لگے۔ ،میں ان کی نظر میں موم کی ناک سے زیادہ کچھ نہ تھا۔اب وہ میری زندگی کے ہر پہلو میں دخل اندازی کرنے لگے۔ شادی کس طرح کروں ‘بچے کا نام کیا رکھوں ‘رمضان کیسے گزاروں ‘عید کس طرح مناؤں ‘یہاں تک کہ موت کےموقع پر بھی انہی کے احکام چلنے لگے۔ تدفین کس طرح ہو’ کس وقت ہو’وہ تو بھلا ہو عزرائیل کا ‘اس نے روح قبض کرتے وقت ان سے ہدایات نہ لیں !
میں ان کے لیے ایک کھلونا تھا۔ مجھ سے کھیلے اور خؤب کھیلے۔
میں ان کے لیے پلے ڈو تھا ۔کیا آپ کو معلوم ہے پلے ڈو کیا ہے؟ یہ وہ مٹیریل ہے جس سے بچے مختلف شکلوں کی چیزیں بناتے ہیں۔اس میٹریل میں آٹا اور نمک اور پانی اور بورک ایسڈ اور معدنی تیل ہوتا ہے ۔بچہ اس سے کبھی گڑیا بناتا ہے کبھی مکان’ کبھی بلی اور کبھی پلیٹ۔ میں بھی انکےلیے پلے ڈو تھا۔جس طرح موڑتے ‘مڑ جاتا جس طرف چپٹا کرتے ‘چپٹا ہوجاتا۔انہوں نے میری ہر شکل بنائی اور کوئی شکل بھی بدقمتی سے مستقل نہ تھی!
جہانگیر کے دربار میں پرتگالی پرنٹنگ پریس لائے ۔ انہوں نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ عثمانی خلیفہ کے دربار میں ایک جرمن ‘یہی پرنٹنگ پریس لایا۔یہاں حضرت نے پھر فیصلہ صادر کیا کہ قرآن پاک اور مقدس کلمات اس شیطانی مشین پر نہیں چھپ سکتے ۔اب حضرت کی اپنی ساری کتابیں سارے جریدے ‘پریس پر چھپتے ہیں ۔انگریزی سکول کالج بنے تو انہوں نے کہا ان میں پڑھنا حرام ہے۔اب ان کے بیٹے چھوڑ بیٹیاں کالجو ں یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں ۔ اور کچھ تو تن تنہا امریکہ میں پڑھ رہی ہیں ۔
ٹیلی فون بنا تو اسے یہ کہہ کر زمین پر پٹخ دیا گیا کہ ۔” ہذا صوت الشیطن” یہ تو شیطان کی آواز ہے! اب ان کے پاس چار موبائل فون ہیں ۔گھر میں ‘مدرسہ میں ‘ہر جگہ لینڈ لائن کام کررہی ہے۔
ٹیلی وژن آیا تو فرمایا ٹی وی تو حرا م ہے ۔میں نے گھر آکر ٹی وی سیٹ توڑ دیا ۔بیوی بچوں سے جھگڑا کیا ۔اب آپ رات دن ٹی وی پر وعظ کرتے ہیں۔
پھر کہا پیپسی اور کوکا کولا کا بائی کاٹ کرو۔ یہ یہودیوں کی  کمپنیاں ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ وہ خؤد یہودیوں کی ایجادات اور مصنوعات خؤب خؤب استعمال کررہے تھے۔ جہاز’ موبائل’انٹرنیٹ ‘کار’ٹیلی ویژن’ ادویات ‘سرجری ‘بہت کچھ یہودیوں اور نصٰریٰ نے بنایا ہے مگر خؤد کسی شے کا بائی کاٹ نہیں کرتے۔
تصویر کو حرام قرا ر دیا ۔اب فوٹو گرافر کے بغیر ساتھ والے گھر میں بھی نہیں جاتے۔
مشرق وسطٰٰی کے ایک طاقتور ملک نے عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی لگا دی ۔آپ نے فقہ کی ہی نہیں ‘میڈیسن کی کتابیں بھی کھول لیں،حکومت نہیں چاہتی کہ عورتیں ڈرائیو کریں ۔ آپ نے حکومت کا ساتھ دیا۔ ستمبر 2013 میں اس ملک کی خواتین نے نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور گاڑیاں چلانے کا پروگرام بنایا۔ حضرت کو فکر ہوگئی کہ حکومت ناکا م نہ ہوجائے۔ فوراً فتویٰ جاری کیا ۔ یہ فتویٰ دنیائے سلام کی تاریخ کا شرم ناک ترین فتویٰ تھا۔اس میں کہا گیا۔”گاڑی چلانا عورتوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچائے گا۔اس سے بیضہ دانی متاثر ہوسکتی ہے۔ گاڑٰی چلانے سے پٹیرو(pelvis)

اپنی جگہ سے ہٹ کر اوپر چلا جاتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان عورتوں کے بچے قسم قسم  کی بیماریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں “۔
ایک فتویٰ یہ بھی تھا کہ ان کا دماغ سکڑ کر ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔
سب سے بڑے مفتی شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے 2016 میں فرمایا کہ “عورتوؐں کی ڈرائیونگ ایک خطرناک معاملہ ہے جو عورتوں کو برائی کی طرف لے جاتا ہے”۔
شیخ عبدالعزیز الفوزان نے کہا کہ عورتوں نے گاڑی چلانی شروع کردی تو اس سے انہیں مردوں کو ملنے کا موقع مل جائے گا۔
ستمبر 2017 میں حکومت نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔ آپ نے بھی رائے فوراً بدل لی۔28 ستمبر 2017 کے روزنامہ عرب نیوز نے رپورٹ کیا کہ سینئرعلما کی کونسل نے جو بادشا ہ کو مذہبی معاملات میں “مشورہ “دیتی ہے ،کہا ہے کہ بادشاہ کا پابندی ہٹانے کا فیصلہ درست ہے۔ “بادشاہ وہی کچھ کرتا ہے جو قوم کے لیے بہترین ہو۔”27 ستمبر 2017 کے روزنامہ “گلف نیوز” نے علماء کونسل کا مندرجہ ذیل بیان چھاپا
اللہ تعالی خادم حرمین شریفین کی حفاظت فرمائے جو ملک اور قوم کے مفاد کی حفاظت اسلامی قوانین کی روشنی میں فرماتے ہیں ۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ شرق اوسط کے مقدس ملک میں خواتین کے لیے عبایا پہننا لازم ہے۔ نہ صرف عرب خواتین ‘نہ صرف مسلمان خؤاتین بلکہ غیر مسلم اور غیر عرب خواتین بھی عبایا کے بغیر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں ۔سختی کا یہ عالم رہا کہ مطوعے (شرعی پولیس مین) دکانوں پر چھاپے مار کر وہ عبایا بھی ضبط کرتے رہے ہیں جن کے بازوؤں پر کشیدہ کاری پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ کڑھائی ‘یہ آرائش’ جو عبایا کے بازوؤں یا کناروں پر تھی یہ بھی شریعت کے خلاف تھی۔
اب حالات بدلے ہیں ۔نئے ولی عہد نے پالیسی بدل ڈالی ہے ۔پابندیاں مٹائی جارہی ہیں ۔چنانچہ حضرت نے بھی پینترا بدل لیا ہے۔ سینئر علما کی کونسل(مجلس ہلیت الکبار العلما)کے ایک معزز رکن نے  تو دو دن پہلے  بساط ہی الٹ دی ہے’فرمایا ہے کہ “خواتین کو عبایا پہننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔خواتین کا لباس یا پہناوا مناسب حد ود میں ہونا لازم اور یہی اہم ہے۔ مسلم دنیا میں90 فیصد خواتین بغیر عبایہ کے زندگی کے معمولات ادا کرتی پھرتی ہیں ۔اور وہ سبھی نیک ہیں ۔عورت سر اوڑھے یا کسی اور طریقے سے پردہ کرے اس میں کوئی حرج نہیں!”
“ظاہر ہے کہ مجلس ِ ہیت الکبارالعلما ءکا کوئی رکن حکومت کی مخالفت نہیں کر سکتا ،کرنی تو دور کی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتا ۔اس اعلان کا مطلب واضح ہے کہ حکومت عبایا کی پابندی ہٹانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور زمین تیار کرنے کے لیے یہ اعلان کرایا گیا ہے۔مستقبل قریب میں اور بھی تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع ہے ۔سینما گھر کھل رہے ہیں خواتین کو کھیلوں کے میدا ن میں زیادہ آزادی دی جا چکی ہے ۔اب ایک ایسا شہر ہ یا زون بھی بسائے جانے کی تیاری ہے جسے عام رائج قوانین سے مستثنی قرار دیا جائے گا۔
میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ان پہ بھروسہ کیا ۔انہیں رہنما بنایا ۔آپ نے دیکھا کہ انہوں نے مجھ پر ہر وہ شے مسلط کی جس کا شریعت میں وجود نہ تھا ۔کیونکہ وہی شے کچھ عرصے بعد حرام سے حلال ہو گئی !پچاس سال انہوں نے عورتوں پہ عبایا مسلط کیے رکھا ۔شرطے ،مطوعے ،سپاہی عورتوں کوہراساں کرتے رہے ۔کروڑوں اربوں کھربوں کا اس آئٹم پر بزنس ہوا ۔اس لیے کہ عبایا شرعی حکم تھا ۔اور مطوع شریعت کے نفاذ کا ذمہ دار تھا۔اب عبایا حلال ہو گیا ہے ۔عشروں تک عورتیں گاڑی نہ چلا سکیں ۔مریض گھروں میں راستوں پر مرتے رہے ۔مرد پاس نہیں تھا۔عورت گاڑی چلاتی تو شریعت کی خلاف ورزی ہوتی !آ ج ڈرائیونگ حلال ہو گئی ہے ۔
میرا قصور یہ تھا کہ میں نے خود شریعت کو جاننے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی !ان صاحب نے ہمیشہ میری حوصلہ شکنی کی کہ نہیں ہر مسلمان کے بس کی بات نہیں !میں اگر اپنے بچے کے کان میں خود اذان دوں،اپنے بچوں کو دین کا ضروری علم سکھاؤں ۔نکاح خود پڑھاؤں اپنے پیاروں کا جنازہ خود پڑھاؤں تو ان کے چنگل سے نکل سکتا ہوں ۔اگر ایسا نہ کیا تو یہ اپنی “شریعت مجھ پر مسلط کرتے رہیں گے اور ہر تھوڑے عرصے بعد یہ “شریعت “تبدیل ہوتی رہے گی ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو میرے لیے آسان بنایا تھا َاور خود اس میں جگہ جگہ فرمایا کہ ہم نے اسے آسان بنایا ہے ۔ان ظالموں نے مجھے قرآن کے نزدیک ہی نہیں جانے دیا ۔ان کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ کہتے ہیں تم خود نہ پڑھو ۔یہ علما کا کام ہے ۔یہ 2002یا 2003 کی بات ہے ۔کالم نگار کے ایک دوست کا فرزند اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے آیا ۔سر پر اس نے ایک پٹی باندھی ہوئی تھی جو شائد اس کے خیال میں د ستار تھی ۔پوچھا کہ نیکو کاروں کے فلاں گروہ کے ساتھ وابستگی کو کتنا عرصہ ہو گیا ؟کہنے لگا چودہ برس پوچھا ۔اب تو ماشاء اللہ قرآن پاک کی آیات کا مطلب سمجھ لیتے ہو گے ؟”اپنے پوتوں اور نواسی کی معصومیت کی قسم ۔اور خدا مرتےوقت ایمان نہ دے اگر جھوٹ بولوں ،اس نے جواب دیا نہیں !بزرگوں نے منع کیا ہوا ہے !
یہ کبھی قرآن پاک کے نزدیک نہیں ہونے دیں گے ۔ایسا ہوا تو ان کی اجارہ داری ان کا تسلط ان کا کاروبار ان کی پاپا ئیت سب خطرے میں پڑ جائے گا ۔
ان سے جان چھڑاؤ !ان پیرانِ تسمہ پا سے جان چھڑاؤ ۔ان کی ہر لحظہ بدلتی شریعت کا اصل شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com