شاعر اور پروفیسر جلیل عالی اور اس کی پروفیسر اہلیہ کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ چھتیس چھتیس برس (جو کل بہتر برس بنتے ہیں) پڑھانے کے بعد اُن کے چھوٹے سے گھر میں دن دہاڑے پانچ ڈاکو آئیں گے اور سب سے بڑے صوبے کی انتہائی نیک نام پولیس اُن کی عمر بھر کی کمائی کی ایک رمق بھی واگزار نہیں کرا سکے گی تو وہ دونوں کبھی پروفیسر نہ بنتے۔
سکندراعظم نے کہا تھا کہ ’’باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن استاد مجھے پھر زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘
پروفیسر جلیل عالی اور اس کی اہلیہ ان بہتر سالوں میں ہزاروں بچوں اور بچیوں کو آسمان کی رفعتوں پر لے گئے۔ انہوں نے اپنے بچے کو پالا‘ پوسا‘ پڑھایا‘ جوان کیا‘ ڈاکٹر بنایا‘ ڈاکٹری میں مزید اعلیٰ تعلیم دلا کر سرجن بنایا اور پھر وہ بچہ افواجِ پاکستان کو سونپ دیا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اُن کے ساتھ یہ کچھ ہوگا جس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا تو وہ بیٹے کو ڈاکٹر بنا کر فوج میں بھیجنے کے بجائے پولیس کا افسر بناتے۔ پھر اُن کے گھر کے باہر ایک پکٹ (Picket) ہوتی۔ لکڑی کا کمرہ ہوتا‘ ہر آٹھ گھنٹے بعد پہریداروں کی ٹولیاں بدلتیں‘ راہگیر قریب سے گزرنے کی بھی ہمت نہ کرتے۔
کیا پنجاب کے عوام اس قابل ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ کتنے پولیس افسروں کی رہائش گاہوں پر پہرہ داروں کیلئے خیمے نصب ہیں؟ یہ پولیس افسر کس کس سطح کے ہیں؟ پولیس کے جوانوں کی کتنی نفری اس کام پر متعین ہے؟ یہ تعداد صوبے کی کل تعداد کا کتنے فیصد ہے؟ اس تعداد پر سالانہ کتنا بجٹ خرچ ہو رہا ہے اور یہ بجٹ صوبے کی پولیس کے کل بجٹ کا کتنے فیصد ہے؟
خدا کی پناہ ! زمین ظلم سے بھر چکی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ زمین انگڑائی لے‘ خیمے الٹ جائیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عشرت کدے بنا کر عیش کرنے والے ٹکٹکیوں پر باندھے جائیں۔ یہ کوتوال جو عوام کی حفاظت پر مامور ہونے چاہیں‘ پہریداروں کے حصار میں رہتے ہیں اور گاڑیوں کے جلوس کے بغیر ان کا عام اہلکار بھی اپنا جلوہ نہیں دکھاتا۔
ایک خبر کے مطابق ایک ڈی آئی جی صاحب کے استعمال میں گیارہ گاڑیاں ہیں۔ صوبے کے بارے میں دیگر تفصیلات دیکھی جائیں تو شہنشاہ آریا مہرمات ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کے پاس 5 گاڑیاں‘ 9 ڈرائیور اور 7 مکینک ہیں۔ یہ دھیان میں رہے کہ یہ پانچ گاڑیاں نل کے پانی پر نہیں‘ پٹرول پر چلتی ہیں۔ یہ ڈرائیور‘ رہائش‘ خوراک اور لباس کے ضرورت مند ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے ذمے ہے جن کا مہنگائی سے بھرکس نکل چکا ہے اور سی این جی اور پٹرول کی خریداری جن کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہے! سات مکینک معلوم نہیں کیا فرائض سرانجام دیتے ہیں لیکن غالباً صرف آکسیجن پر ان کا گزارہ بھی نہیں۔ 9 ڈرائیور اور سات مکینک۔ 16 تو یہی ہو گئے۔ باورچی‘ مالی‘ پہریدار‘ خاکروب اور دیگر ملازم اس کے علاوہ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے 56 خدمت گار گنوائے تھے۔ ہمارے براؤن افسر اُن سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اب جرائم کہیں زیادہ ہیں۔ موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ایک سابق ڈی آئی جی کے قبضے میں تین گاڑیاں اور آٹھ مکینک ہیں۔ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کے پاس تین گاڑیاں ہیں۔ ایک سابق پولیس افسر کے پاس جو اب پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں پولیس کی چار گاڑیاں ہیں جو عام گاڑیاں نہیں ہیں بلکہ پراڈو‘ ہونڈا اور سنگل کیبن جیسی ہیں۔ دو اور سابق پولیس افسر بھی پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں اور دو دو گاڑیاں اُن کی تحویل میں بھی ہیں۔ پنجاب پبلک سروس کمشن جو پورے صوبے کی نمائندگی کرتا ہے‘ لگتا ہے پولیس کے سابق افسروں کی ملکیت میں ہے۔ یوں بھی پسماندہ ضلعے جن کا واحد فائدہ صوبے کو بڑا ثابت کرنا ہوتا ہے پنجاب کے ’’دل‘‘ میں کام کرنے والے اداروں پر حق نہیں رکھتے۔
پولیس کے سابق افسران صرف پنجاب پبلک سروس کمشن پر ہی نہیں چھائے ہوئے‘ پنجاب حکومت کے مشیروں میں بھی ان کی ’’بھرپور‘‘ نمائندگی ہے اور پولیس سے فارغ ہونے کے باوجود ان مشیرانِ کرام کی خدمت پر پنجاب پولیس ہی کی گاڑیاں اور ڈرائیور مامور ہیں جو اچھی خاصی تعداد میں ہیں کیونکہ پولیس کے سابق افسر‘ کوئی عام انسان نہیں ہیں جن کا گزر بسر ایک ایک گاڑی اور ایک ایک ڈرائیور پر ہو جائے۔ سیکورٹی اور پروٹوکول کے تقاضے اس کے علاوہ پورے کئے جا ر ہے ہیں!
پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کی رُو سے حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی‘ ڈی آئی جی اور ڈی پی او صرف ایک ایک گاڑی کے حقدار ہیں اور جب باہر آمد و رفت میں ہوں تو ایک گاڑی اس کے علاوہ۔ جہاں تک ایس پی یا اس کے برابر کے افسروں کا تعلق ہے تو انہیں صرف ایک گاڑی مل سکتی ہے !
لیکن یہ تو قانون کی رُو سے ہے اور قانون کی حیثیت اس معاشرے میں وہی ہے جو بھارت میں اچھوت اور دلت کی ہے۔ یہ اور بات کہ اب تو بھارت میں دلت خاتون قومی اسمبلی کی سپیکر کے عہدۂ جلیلہ پر فائز کی گئی ہے لیکن پاکستان میں قانون ایسا دلت ہے جسے کبھی عزت نصیب نہیں ہو سکتی!
بھارت میں Reverse Brain Drain شروع ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھارتی جو دوسرے ملکوں میں کام کر رہے تھے واپس اپنے ملک آ کر رہنا اور کام کرنا شروع ہو گئے ہیں! لیکن مملکت خداداد میں ہر وہ شہری جو پولیس افسر ہے نہ ریٹائرڈ پولیس افسر … اسمبلی کا رکن ہے نہ وزیر … جاگیردار ہے نہ جاگیردار کا کلاشنکوف بردار … صرف تعلیم یافتہ ہے بستر سر پر رکھے صندوق اُٹھائے کسی نہ کسی سفارت خانے کے باہر قطار میں کھڑا ہے! جس ملک میں حکمران طبقہ‘ پروفیسروں کو حقارت سے ماسٹر کہہ کر پکارے‘ جہاں مجسٹریٹ‘ کالج کے پرنسپل کی ’’ڈیوٹی‘‘ پولنگ سٹیشن پر لگائے اور جہاں امتحان گاہوں پر بوٹی مافیا کی دہشت کا راج ہو‘ اُس ملک میں کون اعلیٰ تعلیم یافتہ رہے گا اور رہنا پسند کرے گا؟
زوال و ادبار کا زمانہ ہو اور شکست و ریخت کے دن ہوں تو قانون عنقا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان اہل علم کا ہوتا ہے۔ شاعر‘ پروفیسر‘ ادیب اور سائنس دان ایسے معاشرے میں حقیر سمجھے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ جب چنگیز خان کی افواج قاہرہ اسلامی دنیا کو تہہ و بالا کر رہی تھیں اپنے وقت کے بہت بڑے طبیب‘ ولی اور شاعر خواجہ فرید الدین عطار نیشاپور میں مقیم تھے۔ قتل وغارت کا راج تھا۔ حکومت نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ ایک تاتاری نے انہیں پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ وہ قتل کر دیتا۔ برابر سے ایک اور تاتاری بولا کہ اس قیدی کو میرے ہاتھ ایک ہزار روپے میں بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے تاتاری سے کہا کہ اس قیمت پر نہ بیچنا۔ میرے دام بہت زیادہ ہیں۔ ایک اور تاتاری آ گیا اور کہنے لگا کہ اس غلام کو میرے ہاتھ گھاس کے ایک گٹھڑ کے عوض بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے اپنے ’’مالک‘‘ سے کہا کہ فوراً بیچ دو۔ میری قیمت تو گھاس کے گٹھڑ سے بھی کم ہے۔ وحشی تاتاری ان ساری باتوں سے سمجھا کہ قیدی اُسے بے وقوف بنا رہا ہے۔ اُس نے انہیں قتل کر دیا حالانکہ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ انسان سے بڑھ کر نہ کچھ گراں ہے اور نہ ارزاں۔
آج پھر زوال و ادبار کا زمانہ ہے۔ شاعر ڈاکوئوں کے نرغے میں ہیں! سعدی نے خلافتِ بغداد کے زوال پر مرثیہ لکھا۔ پہلا شعر آج تک تازہ ہے
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین
بر زوالِ مُلکِ مستعصم امیرالمومنین!
اگر آسمان سے خون بھی برسے تو روا ہے!
سکندراعظم نے کہا تھا کہ ’’باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن استاد مجھے پھر زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘
پروفیسر جلیل عالی اور اس کی اہلیہ ان بہتر سالوں میں ہزاروں بچوں اور بچیوں کو آسمان کی رفعتوں پر لے گئے۔ انہوں نے اپنے بچے کو پالا‘ پوسا‘ پڑھایا‘ جوان کیا‘ ڈاکٹر بنایا‘ ڈاکٹری میں مزید اعلیٰ تعلیم دلا کر سرجن بنایا اور پھر وہ بچہ افواجِ پاکستان کو سونپ دیا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اُن کے ساتھ یہ کچھ ہوگا جس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا تو وہ بیٹے کو ڈاکٹر بنا کر فوج میں بھیجنے کے بجائے پولیس کا افسر بناتے۔ پھر اُن کے گھر کے باہر ایک پکٹ (Picket) ہوتی۔ لکڑی کا کمرہ ہوتا‘ ہر آٹھ گھنٹے بعد پہریداروں کی ٹولیاں بدلتیں‘ راہگیر قریب سے گزرنے کی بھی ہمت نہ کرتے۔
کیا پنجاب کے عوام اس قابل ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ کتنے پولیس افسروں کی رہائش گاہوں پر پہرہ داروں کیلئے خیمے نصب ہیں؟ یہ پولیس افسر کس کس سطح کے ہیں؟ پولیس کے جوانوں کی کتنی نفری اس کام پر متعین ہے؟ یہ تعداد صوبے کی کل تعداد کا کتنے فیصد ہے؟ اس تعداد پر سالانہ کتنا بجٹ خرچ ہو رہا ہے اور یہ بجٹ صوبے کی پولیس کے کل بجٹ کا کتنے فیصد ہے؟
خدا کی پناہ ! زمین ظلم سے بھر چکی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ زمین انگڑائی لے‘ خیمے الٹ جائیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عشرت کدے بنا کر عیش کرنے والے ٹکٹکیوں پر باندھے جائیں۔ یہ کوتوال جو عوام کی حفاظت پر مامور ہونے چاہیں‘ پہریداروں کے حصار میں رہتے ہیں اور گاڑیوں کے جلوس کے بغیر ان کا عام اہلکار بھی اپنا جلوہ نہیں دکھاتا۔
ایک خبر کے مطابق ایک ڈی آئی جی صاحب کے استعمال میں گیارہ گاڑیاں ہیں۔ صوبے کے بارے میں دیگر تفصیلات دیکھی جائیں تو شہنشاہ آریا مہرمات ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کے پاس 5 گاڑیاں‘ 9 ڈرائیور اور 7 مکینک ہیں۔ یہ دھیان میں رہے کہ یہ پانچ گاڑیاں نل کے پانی پر نہیں‘ پٹرول پر چلتی ہیں۔ یہ ڈرائیور‘ رہائش‘ خوراک اور لباس کے ضرورت مند ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے ذمے ہے جن کا مہنگائی سے بھرکس نکل چکا ہے اور سی این جی اور پٹرول کی خریداری جن کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہے! سات مکینک معلوم نہیں کیا فرائض سرانجام دیتے ہیں لیکن غالباً صرف آکسیجن پر ان کا گزارہ بھی نہیں۔ 9 ڈرائیور اور سات مکینک۔ 16 تو یہی ہو گئے۔ باورچی‘ مالی‘ پہریدار‘ خاکروب اور دیگر ملازم اس کے علاوہ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے 56 خدمت گار گنوائے تھے۔ ہمارے براؤن افسر اُن سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اب جرائم کہیں زیادہ ہیں۔ موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ایک سابق ڈی آئی جی کے قبضے میں تین گاڑیاں اور آٹھ مکینک ہیں۔ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کے پاس تین گاڑیاں ہیں۔ ایک سابق پولیس افسر کے پاس جو اب پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں پولیس کی چار گاڑیاں ہیں جو عام گاڑیاں نہیں ہیں بلکہ پراڈو‘ ہونڈا اور سنگل کیبن جیسی ہیں۔ دو اور سابق پولیس افسر بھی پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں اور دو دو گاڑیاں اُن کی تحویل میں بھی ہیں۔ پنجاب پبلک سروس کمشن جو پورے صوبے کی نمائندگی کرتا ہے‘ لگتا ہے پولیس کے سابق افسروں کی ملکیت میں ہے۔ یوں بھی پسماندہ ضلعے جن کا واحد فائدہ صوبے کو بڑا ثابت کرنا ہوتا ہے پنجاب کے ’’دل‘‘ میں کام کرنے والے اداروں پر حق نہیں رکھتے۔
پولیس کے سابق افسران صرف پنجاب پبلک سروس کمشن پر ہی نہیں چھائے ہوئے‘ پنجاب حکومت کے مشیروں میں بھی ان کی ’’بھرپور‘‘ نمائندگی ہے اور پولیس سے فارغ ہونے کے باوجود ان مشیرانِ کرام کی خدمت پر پنجاب پولیس ہی کی گاڑیاں اور ڈرائیور مامور ہیں جو اچھی خاصی تعداد میں ہیں کیونکہ پولیس کے سابق افسر‘ کوئی عام انسان نہیں ہیں جن کا گزر بسر ایک ایک گاڑی اور ایک ایک ڈرائیور پر ہو جائے۔ سیکورٹی اور پروٹوکول کے تقاضے اس کے علاوہ پورے کئے جا ر ہے ہیں!
پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کی رُو سے حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی‘ ڈی آئی جی اور ڈی پی او صرف ایک ایک گاڑی کے حقدار ہیں اور جب باہر آمد و رفت میں ہوں تو ایک گاڑی اس کے علاوہ۔ جہاں تک ایس پی یا اس کے برابر کے افسروں کا تعلق ہے تو انہیں صرف ایک گاڑی مل سکتی ہے !
لیکن یہ تو قانون کی رُو سے ہے اور قانون کی حیثیت اس معاشرے میں وہی ہے جو بھارت میں اچھوت اور دلت کی ہے۔ یہ اور بات کہ اب تو بھارت میں دلت خاتون قومی اسمبلی کی سپیکر کے عہدۂ جلیلہ پر فائز کی گئی ہے لیکن پاکستان میں قانون ایسا دلت ہے جسے کبھی عزت نصیب نہیں ہو سکتی!
بھارت میں Reverse Brain Drain شروع ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھارتی جو دوسرے ملکوں میں کام کر رہے تھے واپس اپنے ملک آ کر رہنا اور کام کرنا شروع ہو گئے ہیں! لیکن مملکت خداداد میں ہر وہ شہری جو پولیس افسر ہے نہ ریٹائرڈ پولیس افسر … اسمبلی کا رکن ہے نہ وزیر … جاگیردار ہے نہ جاگیردار کا کلاشنکوف بردار … صرف تعلیم یافتہ ہے بستر سر پر رکھے صندوق اُٹھائے کسی نہ کسی سفارت خانے کے باہر قطار میں کھڑا ہے! جس ملک میں حکمران طبقہ‘ پروفیسروں کو حقارت سے ماسٹر کہہ کر پکارے‘ جہاں مجسٹریٹ‘ کالج کے پرنسپل کی ’’ڈیوٹی‘‘ پولنگ سٹیشن پر لگائے اور جہاں امتحان گاہوں پر بوٹی مافیا کی دہشت کا راج ہو‘ اُس ملک میں کون اعلیٰ تعلیم یافتہ رہے گا اور رہنا پسند کرے گا؟
زوال و ادبار کا زمانہ ہو اور شکست و ریخت کے دن ہوں تو قانون عنقا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان اہل علم کا ہوتا ہے۔ شاعر‘ پروفیسر‘ ادیب اور سائنس دان ایسے معاشرے میں حقیر سمجھے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ جب چنگیز خان کی افواج قاہرہ اسلامی دنیا کو تہہ و بالا کر رہی تھیں اپنے وقت کے بہت بڑے طبیب‘ ولی اور شاعر خواجہ فرید الدین عطار نیشاپور میں مقیم تھے۔ قتل وغارت کا راج تھا۔ حکومت نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ ایک تاتاری نے انہیں پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ وہ قتل کر دیتا۔ برابر سے ایک اور تاتاری بولا کہ اس قیدی کو میرے ہاتھ ایک ہزار روپے میں بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے تاتاری سے کہا کہ اس قیمت پر نہ بیچنا۔ میرے دام بہت زیادہ ہیں۔ ایک اور تاتاری آ گیا اور کہنے لگا کہ اس غلام کو میرے ہاتھ گھاس کے ایک گٹھڑ کے عوض بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے اپنے ’’مالک‘‘ سے کہا کہ فوراً بیچ دو۔ میری قیمت تو گھاس کے گٹھڑ سے بھی کم ہے۔ وحشی تاتاری ان ساری باتوں سے سمجھا کہ قیدی اُسے بے وقوف بنا رہا ہے۔ اُس نے انہیں قتل کر دیا حالانکہ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ انسان سے بڑھ کر نہ کچھ گراں ہے اور نہ ارزاں۔
آج پھر زوال و ادبار کا زمانہ ہے۔ شاعر ڈاکوئوں کے نرغے میں ہیں! سعدی نے خلافتِ بغداد کے زوال پر مرثیہ لکھا۔ پہلا شعر آج تک تازہ ہے
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین
بر زوالِ مُلکِ مستعصم امیرالمومنین!
اگر آسمان سے خون بھی برسے تو روا ہے!
1 comment:
Beautiful..You disclosed some luxuires of bureocracy, yet there are many more to discover.... unlimited
(26 yrs old girl from Faisalabad)
Post a Comment