اگر آپ شمال کی طرف سفر کریں اور کرتے جائیں تو کرۂ ارض کے آخری چپٹے سرے پر بحیرۂ آرکٹک ہے۔ پھر قطب شمالی۔ جہاں زمین ختم ہو جاتی ہے یا یوں کہئے کہ گول ہونے کی وجہ سے دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کرۂ ارض کے اس جگہ ختم ہونے کے بعد اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں خلا ہے‘ تو آپ غلطی پر ہیں۔ وہاں ایک ملک کرۂ ارض سے الگ‘ سب سے جدا‘ سب سے انوکھا بستا ہے۔ آج جو کہانی ہم سنا رہے ہیں وہ اسی انوکھے ملک کی ہے۔ ہمارا اشارہ حاشا و کلّا کسی اور ملک کی طرف نہیں۔
اُس ملک میں چرواہے کو ہٹا کر بھیڑیا مالک بن بیٹھا۔ کالی بھیڑیں بھیڑئیے کے ساتھ مل گئیں۔ کالی بھیڑوں کو قاف اتنا پسند آیا کہ وہ اپنے آپکو کالی کے بجائے ’’قالی‘‘ بھیڑیں کہلاتی تھیں۔ اس بھیڑیے نے بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر دوسرے بھیڑیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیا اور دوسرے بھیڑیوں کو آزادی فراہم کی۔ اس قدر کہ وہ جب چاہتے آتے اور بھیڑوں کو ہلاک کر جاتے یا پکڑ کر لے جاتے۔ قاف کی کالی بھیڑوں کے تعاون سے بھیڑیا اس قدر بے باک ہو گیا کہ اُس نے سب سے بڑے جج کو اُسی کے اہلِ خانہ سمیت قید کر دیا اور اپنی مرضی کے ایک اہلکار کو اس کی جگہ جج مقرر کر دیا۔ کالے کوٹوں میں ملبوس وکیلوں نے بُرا منایا۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگ گئی۔ تحریک دنوں سے ہفتوں‘ ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے برسوں میں ڈھلنے لگی‘ شاہراہیں خون سے بھر گئیں‘ لوگوں نے جان کے نذرانے دئیے‘ پتھر کھائے‘ زخمی ہوئے‘ گرفتاریاں دیں اور آخر ایک دن بھیڑیے کو چلتا کیا۔ ہمارا اشارہ کسی اور ملک کی طرف نہیں ہم تو اُس انوکھے ملک کا ذکر کر رہے ہیں جو قطب شمالی سے آگے ایک اور دنیا میں بستا ہے۔ بھیڑیا رخصت ہوا تو ایک اور چرواہا آ گیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہوا کہ پالیسیاں پُرانی ہی چلتی رہیں تب لوگوں پر یہ راز کھلا کے اصل حکمران چرواہا ہے نہ بھیڑیا تھا۔ اصل حکمران ایک عجیب الخلقت شخص ہے جس کا نام اسٹیبلشمنٹ (ESTABLISHMENT) ہے۔ اس شخص کو کسی نے آج تک نہیں دیکھا تھا لیکن طاقت کا مصدر اور منبع یہی تھا۔ سُننے میں آیا کہ اس کے بال حبشیوں جیسے ہیں‘ دانت باہر نکلے ہوئے ہیں‘ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی‘ ماتھا باہر کو نکلا ہوا‘ ہونٹ موٹے درختوں کی کھردری ٹہنیوں جیسے‘ ایک ایک بازو میں دس دس ہاتھ لگے ہوئے اور پاؤں پیچھے کی سمت مڑے ہوئے‘ منہ سے پھنکاریں نکلتی ہوئیں اور آنکھوں سے شعلے اُبلتے ہوئے دیکھے تو بھسم کر ڈالے‘ ہاتھ لگائے تو کوڑھی کر ڈالے
۔بہت لوگوں نے کوشش کی کہ اُسے ایک نظر دیکھ سکیں لیکن کوئی کامیاب نہ ہوا۔ کچھ جری نوجوان سروں پر کفن باندھ کر اُسے دیکھنے نکلے لیکن آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ برمُودا کی تکون اُس کے سامنے ہیچ نکلی۔ نئے چرواہے نے سب سے بڑے جج کو قید سے رہا کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُسے کرسیٔ عدالت پر دوبارہ براجمان کرے لیکن اسٹیبلشمنٹ آڑے آتی تھی۔ خدا خدا کر کے کئی مہینوں بعد چرواہا کامیاب ہوا اور معزول بڑے جج کو بحال کر دیا گیا۔ اُس دن پورے ملک میں جشن کا سماں تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے گھر میں صفِ ماتم بچھی تھی۔ اُس نے اپنے بال نوچ ڈالے چہرے پر دو تھپڑ مارے پٹکے سے کمر کس لی اور دردناک آواز سے وہ بین کئے کہ خلاؤں میں بکھرے سارے شیاطین کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔اُسی روز اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ سیاہ ہو گیا۔ اُس روز اسی نے دانت پیس کر عہد کیا کہ بحال ہونے والے بڑے جج کے ہر حکم کو ٹالا جائے گا اور ہر ممکن طریقے سے اُسکے فیصلوں کو غیر موثر کیا جائیگا۔
حاشا وکلا ہمارا اشارہ کسی اور ملک کی طرف نہیں۔ ہم تو اُس انوکھے ملک کی بات کر رہے ہیں جو بحیرۂ آرکٹک سے آگے‘ قطب شمالی کے اُس پار‘ ایک اور دنیا میں آباد ہے۔ وہاں گھوڑے تو تھے لیکن ان کی خرید و فروخت اس قدر زیادہ تھی کہ گھوڑا گاڑیوں کیلئے کوئی گھوڑا دستیاب ہی نہ تھا۔ مجبوراً لوگ کاروں بسوں ویگنوں اور موٹرسائیکلوں پر سفر کرتے تھے چونکہ عوام نے بڑے جج کی بحالی کیلئے تحریک چلائی تھی‘ اس لئے اسٹیبلشمنٹ عوام کو تباہ و برباد کرنا چاہتی تھی۔چنانچہ ہر پندرہ دن کے بعد پٹرول‘ ڈیزل اور سی این جی کی قیمت بڑھا دی جاتی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے تو ہر شے پر منفی اثر پڑتا۔ آٹے سے لیکر نمک تک‘ کپڑوں سے لیکر جوتوں تک‘ دوائوں سے لیکر قبر کھودنے تک ہر شے کے نرخ آسمان کو چھونے لگتے اور تباہ حال لوگ بلک بلک کر روتے اور ڈگمگا ڈگمگا کر گرتے! بڑے جج نے خلق خدا کی حالت زار دیکھی تو حکم دیا کہ پٹرول ڈیزل اور سی این جی کے نرخ کم کئے جائیں۔ ایک ایک لیٹر میں حکومت منافع پر منافع لے رہی تھی۔ بڑے جج کا حکم اسٹیبلشمنٹ نے سنا تو قہقہہ لگایا۔ بڑے جج کے حکم کیساتھ دنیا کا بدترین مذاق کیا گیا۔ پٹرول میں ڈیڑھ روپیہ فی لیٹر کی کمی کی گئی۔ جی ہاں! ایک لٹر میں صرف ڈیڑھ روپے
۔ لیکن یہ مذاق کا آغاز تھا اصل انتقام بڑے جج سے نہیں اُن عوام سے لیا جانا تھا جنہوں نے شاہراہوں پر خون بہا کر بڑے جج کو بحال کر د یا تھا۔ آخر اسٹیبلشمنٹ نے آخری اور کاری وار کیا اور نئے بجٹ میں سی این جی پر کاربن نامی ٹیکس نافذ کر کے سی این جی کی قیمت ساٹھ روپے فی کلو کر دی۔ خلق خدا تباہ و برباد ہو گئی۔ سی این جی پر کاربن ٹیکس چھ روپے فی کلو کے لگ بھگ لوگوں نے سنا تو پہلے تو دھاڑیں مار مار کے روئے پھر انہوں نے سینوں کو پیٹا اور تپتی جھلستی زمین پر گر گئے۔ ہر طرف چیخیں تھیں اور ماتم‘ آہیں تھیں اور زاریاں‘ لوگ چہروں پر دو ہتھڑ مارتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے محل کی کھڑکیوں سے دیکھ کر قہقہے لگاتی تھی اور ایک ایک بازو کے دس دس ہاتھ ہوا میں لہراتی کر کہتی تھی … بدبختو! کل جب تم نے جج کو بحال کرایا تھا تو میں نے بھی تو چہرہ دو ہتھڑوں سے سرخ کر دیا تھا اور بال نوچ لئے تھے ! اب دیکھو میرا انتقام ! صبح ہوئی تو ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر بستی کی ہر دیوار پر ایک ہی نعرہ لکھا تھا … ’’سی این جی … مائی لارڈ … سی این جی۔‘‘
.
1 comment:
Hmmmm....nice column...but the face of establishment is worst than you describe. You should use some more terrible words for it. (from Faisalabad)
Post a Comment