جون کے دوسرے ہفتے کا آغاز ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے تین اہم وزارتوں
کے سیکرٹریوں کو ایک خط لکھا جاتا ہے۔ خط میں بتایا جاتا ہے کہ ایک وزیر اور ایک ایم این اے نے تجویز پیش کی ہے کہ فلاں افسر کو مندرجہ ذیل چھ عہدوں میں سے کسی ایک پر لگایا جائے۔ ان چھ میں سے دو عہدے بیرون ملک ہیں۔ (امریکہ اور برطانیہ کی تخصیص کی گئی ہے) اور باقی ایسے ہیں کہ تنخواہ اور مراعات لاکھوں میں ہیں۔ اور قضا و قدر پر قبضہ الگ ہے۔ خط میں تینوں سیکرٹریوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بارہ دن کے اندر اندر اس بارے میں رپورٹ حاضر کی جائے۔ وزیر اعظم کے اس حکم نامے سے مندرجہ ذیل اصول وضع ہوتے ہیں۔ 1۔ وزیر اور ایم این اے اپنی پسند کے اہلکاروں کے لئے اپنی پسند کے عہدے تجویز کر سکتے ہیں۔ 2۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ان تجاویز پر کارروائی کے لئے ہدایات جاری کی جائیں گی۔ 3۔ ان عہدوں پر فائز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایم این اے یا وزیر سے سفارش کرائی جائے۔ 4۔ وزیر اعظم یا ان کا دفتر ’’تجویز‘‘ کرنے والے وزیروں یا ایم این اے کو یہ نہیں کہے گا کہ اس سلسلے میں کوئی طریق کار موجود ہے جس میں آپ کی سفارش یا ’’تجویز‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ ان چار اصولوں کے علاوہ اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اپنے پسندیدہ سرکاری ملازموں کیلئے بہترین عہدوں کی ’’تجاویز‘‘ پیش کر سکیں۔ یاد رہے کہ کل ارکان کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان اسکے علاوہ ہیں! اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ایسے سرکاری ملازمین پر جن کے نام بہترین عہدوں کیلئے وزیر یا ایم این اے ’’تجویز‘‘ کریں گے‘ پاکستانی حکومت کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ پاکستانی حکومت کا قانون کیا ہے؟ قانون یہ ہے اور ادنیٰ سرکاری ملازم بھی اس قانون سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو سرکاری ملازم چمکدار عہدوں پر فائز ہونے کیلئے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریگا اسکے خلاف تادیبی کارروائی ہو گی۔ اور اس کارروائی کے نتیجے میں اسے ملازمت سے برطرف بی کیا جا سکتا ہے۔ جون کا تیسرا ہفتہ اور اٹھارہواں دن ہے جمعرات کا دن ہے۔ وزیر اعظم پاکستان پارلیمنٹ ہاؤس میں منتخب ارکان سے خطاب فرماتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سپیکر‘ سینٹ کے نائب صدر‘ حزب اختلاف کے موقر رہنما اور دونوں ایوانوں کے معزز ارکان موجود ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نظام کی تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ کے ارکان کی مدد مانگتے ہیں وہ فرماتے ہیں۔ ’’جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں جبکہ ادارے ہمیشہ رہتے ہیں‘‘ وزیر اعظم اس عزم کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ اداروں کو مضبوط بنایں گے۔ وہ کہتے ہیں۔’’میں ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں جس سے ملک کو فائدہ ہو‘‘ کسی ملک کی حکومت کا سربراہ ملک کا مائی باپ ہوتا ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی ایک شریف النفس انسان ہیں۔ اقبال نے ایک سید زادے کو یوں مخاطب کیا تھا…ع … ’’تو سید ہاشمی کی اولاد ‘‘وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی سید ہاشمی کی اولاد ہیں ہم انتہائی ادب و احترام کیساتھ عرض کریں گے کہ نہیں جناب وزیر اعظم نہیں! آپ نظام کی تبدیلی کی بات نہ کریں اس لئے کہ آپکے عمل میں اور آپکی شیریں بیانی میں کوئی مناسبت نہیں! اور پھر آپ نظام کی تبدیلی کی بات کن سے کر رہے ہیں؟ وہ جو نظام کی تبدیلی کے سب سے بڑے مخالف ہیں! جو جاگیرداری اور فیوڈلزم کے علمبردار ہیں جو زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگانے دیتے جو آپکو کہتے ہیں کہ ہمارے پسندیدہ اہلکاروں کو بہترین عہدوں پر لگائیے جن پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو صرف اس وقت متحد ہوتے ہیں جب مراعات کا سوال ہو جو وفاداریاں اس طرح اس طرح بدلتے ہیں جیسے وفاداری میلا کپڑا ہوا صرف دو دن پہلے کے اخبار میں تفصیلات چھپی ہیں کہ کس کس جگہ مجرموں کو کون کون پناہ دے رہا ہے۔ اب تو اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے وقت افسروں کے انٹرویو لئے جاتے ہیں اور صاف صاف پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے حلقے کے لوگوں کی نوکریوں کے بارے میں کیا رویہ رکھا جائیگا۔ جناب وزیر اعظم! نظام میرٹ سے تبدیل ہوتا ہے صرف میرٹ سے اور میرٹ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہیں؟ جناب وزیر اعظم! آپ دھوپ سے مخاطب ہو کر چھاؤں کی بات کر رہے ہیں! جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہے وہاں آپ باڑ کو کھیت کی حفاظت کا کہہ رہے ہیں! آپ معزز ارکان سے نظام کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کا استحقاق مجروح نہ ہو جائے کہیں آپ کیخلاف تحریک استحقاق نہ پیش ہو جائے! جناب وزیر اعظم! آپکے پاس دو مقدس ادارے ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرابیونل آپ وہاں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو تعینات فرماتے ہیں۔ لیکن کس نظام کی بنیاد پر؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں من پسند افراد کو لگایا جاتا ہے۔ صرف ان کو جن کی ’’رسائی‘‘ ہو! آپکے محل سے چند کلومیٹر دور جی ایچ کیو اور فضائیہ اور بحریہ کے دفاتر ہیں انکے پاس بھی ایسے ادارے ہیں جہاں ریٹائرڈ لوگوں کو لگایا جاتا ہے لیکن ترتیب کیساتھ‘ انصاف کیساتھ‘ کسی کو محروم نہیں رکھا جاتا۔ کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت قبول نہ کرے تو اور بات ہے لیکن پیشکش سب کو کی جاتی ہے لیکن آپ اسی سطح کے ایک ریٹائرڈ ملازم کو نواز دیتے ہیں اور اسی سطح کے ایک اور ریٹائرڈ ملازم کو درخور اعتنا ہی نہیں گردانتے؟ کیوں اسلئے کہ آپکی صوابدید ہے! تو کیا صوابدید میں کوئی انصاف کوئی اصول کوئی ترتیب کوئی ضابطہ نہیں ہوتا؟ کیا آپکے صوابدیدی احکام کی پوچھ گچھ حشر کے دن نہیں ہو گی؟ جناب وزیر اعظم! یہ پوچھ گچھ آپکے ناناؐ کی موجودگی میں ہو گی‘ اقبال نے کہا تھا…؎ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفٰیؐ پنہاں بگیر لیکن اقبال فقیر تھا آپ سے تو سولہ کروڑ لوگوں کے حقوق کی پوچھ گچھ ہو گی! جناب وزیر اعظم! وقت بہت کم ہے! اقتدار کی ڈوری بہت کچھی ہے۔ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے آپ اگر نظام بدلنا چاہتے ہیں تو جلدی کیجئے یہ کام کر گزرئیے! جو لوگ آپکو اپنے پسندیدہ اہلکاروں کے نام بتائیں‘ ان اہلکاروں کو سزا دیجئے۔ بلند ترین سطح کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی فہرست بنوائیے اور ریٹائرمنٹ کے حساب سے باری باری ان مقدس اداروں میں انہیں تعینات کیجئے اور تعینات کرتے وقت انکے اثاثے بھی دیکھئے۔ آپکے پاس سفارشیں آ رہی ہیں کہ فلاں کو پیمرا میں لگائیے اور فلاں کو نیپرا میں لگائیے! اسلئے کہ یہاں لاکھوں کے مشاہرے ہیں۔ ان سفید ہاتھیوں کو ختم کر دیجئے۔ پانی اور بجلی کی وزارت کی موجودگی میں نیپرا کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ کام وزارت کے افسر سیکرٹری اور وزیر صاحب نہیں کر سکتے جن پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں! کیا وزارت اطلاعات وہ کام نہیں کر سکتی جو پیمرا کرتا ہے؟ نہیں کر سکتی تو وزارت اطلاعات کو توڑ دیجئے ورنہ پیمرا کو ختم کیجئے۔ یہ ادزرے اس لئے بنائے گئے تھے کہ اپنے ’’پسندیدہ‘‘ اہلکاروں کو اس وقت تک ملازمت اور مراعات دی جائیں جب تک وہ اہلکار سہارے کے بغیر چل سکتے ہیں! جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو زرعی اصلاحات کا حکم دیجئے یہ اصلاحات بھارت میں ساٹھ برس پہلے ہو چکی ہیں اور آج بھارت کے پنجاب کی گندم کی پیداوار کا مقابلہ اپنے پنجاب سے کیجئے اور یہ بھی دیکھئے کہ ان کا پنجاب آپکے ایک یا دو ضلعوں کے برابر ہے! نظام بدلنا ہے تو ان سیاسی گدیوں کو ختم کیجئے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہیں اور آپ نے یہ کام کر دیا تو یقین کیجئے پاکستان کے لوگ آپکی نیلسن منڈیلا سے بھی زیادہ عزت کریں گے۔ جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو نظامِ تعلیم بدلئے‘ افسروں وزیروں مشیروں اور ارکان پارلیمنٹ کو حکم دیجئے کہ اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت جس تیز رفتاری سے بہتر ہو گی۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔ نظام بدلنا ہے تو وہ سکول اور کالج بند کر دیجئے جو انگریزوں نے اسلئے بنائے تھے کہ انکے سامنے سجدہ کرنیوالوں کی اولاد کو ’’پڑھایا‘‘ جائے! نظام بدلنا ہے تو مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کا مقدر بدلئے تاکہ وہ امامِ مسجد کے علاوہ بھی کچھ بن سکیں! نظام بدلنا ہے تو افسروں وزیروں مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کو حکم دیجئے کہ کل سے دفتروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے آئیں! یقین کیجئے یہ افسر اور وزیر اور یہ عوامی نمائندے سالوں میں نہیں‘ مہینوں میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو ایشیا کا بہترین سسٹم بنا دینگے‘ زیر زمین ریلوے بھی بچھ جائیگی‘ کاروں کی تعداد بھی کم ہو جائیگی اور پٹرول کا بل بھی کم ہو جائیگا!
کے سیکرٹریوں کو ایک خط لکھا جاتا ہے۔ خط میں بتایا جاتا ہے کہ ایک وزیر اور ایک ایم این اے نے تجویز پیش کی ہے کہ فلاں افسر کو مندرجہ ذیل چھ عہدوں میں سے کسی ایک پر لگایا جائے۔ ان چھ میں سے دو عہدے بیرون ملک ہیں۔ (امریکہ اور برطانیہ کی تخصیص کی گئی ہے) اور باقی ایسے ہیں کہ تنخواہ اور مراعات لاکھوں میں ہیں۔ اور قضا و قدر پر قبضہ الگ ہے۔ خط میں تینوں سیکرٹریوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بارہ دن کے اندر اندر اس بارے میں رپورٹ حاضر کی جائے۔ وزیر اعظم کے اس حکم نامے سے مندرجہ ذیل اصول وضع ہوتے ہیں۔ 1۔ وزیر اور ایم این اے اپنی پسند کے اہلکاروں کے لئے اپنی پسند کے عہدے تجویز کر سکتے ہیں۔ 2۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ان تجاویز پر کارروائی کے لئے ہدایات جاری کی جائیں گی۔ 3۔ ان عہدوں پر فائز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایم این اے یا وزیر سے سفارش کرائی جائے۔ 4۔ وزیر اعظم یا ان کا دفتر ’’تجویز‘‘ کرنے والے وزیروں یا ایم این اے کو یہ نہیں کہے گا کہ اس سلسلے میں کوئی طریق کار موجود ہے جس میں آپ کی سفارش یا ’’تجویز‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ ان چار اصولوں کے علاوہ اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اپنے پسندیدہ سرکاری ملازموں کیلئے بہترین عہدوں کی ’’تجاویز‘‘ پیش کر سکیں۔ یاد رہے کہ کل ارکان کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان اسکے علاوہ ہیں! اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ایسے سرکاری ملازمین پر جن کے نام بہترین عہدوں کیلئے وزیر یا ایم این اے ’’تجویز‘‘ کریں گے‘ پاکستانی حکومت کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ پاکستانی حکومت کا قانون کیا ہے؟ قانون یہ ہے اور ادنیٰ سرکاری ملازم بھی اس قانون سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو سرکاری ملازم چمکدار عہدوں پر فائز ہونے کیلئے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریگا اسکے خلاف تادیبی کارروائی ہو گی۔ اور اس کارروائی کے نتیجے میں اسے ملازمت سے برطرف بی کیا جا سکتا ہے۔ جون کا تیسرا ہفتہ اور اٹھارہواں دن ہے جمعرات کا دن ہے۔ وزیر اعظم پاکستان پارلیمنٹ ہاؤس میں منتخب ارکان سے خطاب فرماتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سپیکر‘ سینٹ کے نائب صدر‘ حزب اختلاف کے موقر رہنما اور دونوں ایوانوں کے معزز ارکان موجود ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نظام کی تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ کے ارکان کی مدد مانگتے ہیں وہ فرماتے ہیں۔ ’’جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں جبکہ ادارے ہمیشہ رہتے ہیں‘‘ وزیر اعظم اس عزم کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ اداروں کو مضبوط بنایں گے۔ وہ کہتے ہیں۔’’میں ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں جس سے ملک کو فائدہ ہو‘‘ کسی ملک کی حکومت کا سربراہ ملک کا مائی باپ ہوتا ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی ایک شریف النفس انسان ہیں۔ اقبال نے ایک سید زادے کو یوں مخاطب کیا تھا…ع … ’’تو سید ہاشمی کی اولاد ‘‘وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی سید ہاشمی کی اولاد ہیں ہم انتہائی ادب و احترام کیساتھ عرض کریں گے کہ نہیں جناب وزیر اعظم نہیں! آپ نظام کی تبدیلی کی بات نہ کریں اس لئے کہ آپکے عمل میں اور آپکی شیریں بیانی میں کوئی مناسبت نہیں! اور پھر آپ نظام کی تبدیلی کی بات کن سے کر رہے ہیں؟ وہ جو نظام کی تبدیلی کے سب سے بڑے مخالف ہیں! جو جاگیرداری اور فیوڈلزم کے علمبردار ہیں جو زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگانے دیتے جو آپکو کہتے ہیں کہ ہمارے پسندیدہ اہلکاروں کو بہترین عہدوں پر لگائیے جن پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو صرف اس وقت متحد ہوتے ہیں جب مراعات کا سوال ہو جو وفاداریاں اس طرح اس طرح بدلتے ہیں جیسے وفاداری میلا کپڑا ہوا صرف دو دن پہلے کے اخبار میں تفصیلات چھپی ہیں کہ کس کس جگہ مجرموں کو کون کون پناہ دے رہا ہے۔ اب تو اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے وقت افسروں کے انٹرویو لئے جاتے ہیں اور صاف صاف پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے حلقے کے لوگوں کی نوکریوں کے بارے میں کیا رویہ رکھا جائیگا۔ جناب وزیر اعظم! نظام میرٹ سے تبدیل ہوتا ہے صرف میرٹ سے اور میرٹ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہیں؟ جناب وزیر اعظم! آپ دھوپ سے مخاطب ہو کر چھاؤں کی بات کر رہے ہیں! جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہے وہاں آپ باڑ کو کھیت کی حفاظت کا کہہ رہے ہیں! آپ معزز ارکان سے نظام کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کا استحقاق مجروح نہ ہو جائے کہیں آپ کیخلاف تحریک استحقاق نہ پیش ہو جائے! جناب وزیر اعظم! آپکے پاس دو مقدس ادارے ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرابیونل آپ وہاں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو تعینات فرماتے ہیں۔ لیکن کس نظام کی بنیاد پر؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں من پسند افراد کو لگایا جاتا ہے۔ صرف ان کو جن کی ’’رسائی‘‘ ہو! آپکے محل سے چند کلومیٹر دور جی ایچ کیو اور فضائیہ اور بحریہ کے دفاتر ہیں انکے پاس بھی ایسے ادارے ہیں جہاں ریٹائرڈ لوگوں کو لگایا جاتا ہے لیکن ترتیب کیساتھ‘ انصاف کیساتھ‘ کسی کو محروم نہیں رکھا جاتا۔ کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت قبول نہ کرے تو اور بات ہے لیکن پیشکش سب کو کی جاتی ہے لیکن آپ اسی سطح کے ایک ریٹائرڈ ملازم کو نواز دیتے ہیں اور اسی سطح کے ایک اور ریٹائرڈ ملازم کو درخور اعتنا ہی نہیں گردانتے؟ کیوں اسلئے کہ آپکی صوابدید ہے! تو کیا صوابدید میں کوئی انصاف کوئی اصول کوئی ترتیب کوئی ضابطہ نہیں ہوتا؟ کیا آپکے صوابدیدی احکام کی پوچھ گچھ حشر کے دن نہیں ہو گی؟ جناب وزیر اعظم! یہ پوچھ گچھ آپکے ناناؐ کی موجودگی میں ہو گی‘ اقبال نے کہا تھا…؎ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفٰیؐ پنہاں بگیر لیکن اقبال فقیر تھا آپ سے تو سولہ کروڑ لوگوں کے حقوق کی پوچھ گچھ ہو گی! جناب وزیر اعظم! وقت بہت کم ہے! اقتدار کی ڈوری بہت کچھی ہے۔ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے آپ اگر نظام بدلنا چاہتے ہیں تو جلدی کیجئے یہ کام کر گزرئیے! جو لوگ آپکو اپنے پسندیدہ اہلکاروں کے نام بتائیں‘ ان اہلکاروں کو سزا دیجئے۔ بلند ترین سطح کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی فہرست بنوائیے اور ریٹائرمنٹ کے حساب سے باری باری ان مقدس اداروں میں انہیں تعینات کیجئے اور تعینات کرتے وقت انکے اثاثے بھی دیکھئے۔ آپکے پاس سفارشیں آ رہی ہیں کہ فلاں کو پیمرا میں لگائیے اور فلاں کو نیپرا میں لگائیے! اسلئے کہ یہاں لاکھوں کے مشاہرے ہیں۔ ان سفید ہاتھیوں کو ختم کر دیجئے۔ پانی اور بجلی کی وزارت کی موجودگی میں نیپرا کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ کام وزارت کے افسر سیکرٹری اور وزیر صاحب نہیں کر سکتے جن پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں! کیا وزارت اطلاعات وہ کام نہیں کر سکتی جو پیمرا کرتا ہے؟ نہیں کر سکتی تو وزارت اطلاعات کو توڑ دیجئے ورنہ پیمرا کو ختم کیجئے۔ یہ ادزرے اس لئے بنائے گئے تھے کہ اپنے ’’پسندیدہ‘‘ اہلکاروں کو اس وقت تک ملازمت اور مراعات دی جائیں جب تک وہ اہلکار سہارے کے بغیر چل سکتے ہیں! جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو زرعی اصلاحات کا حکم دیجئے یہ اصلاحات بھارت میں ساٹھ برس پہلے ہو چکی ہیں اور آج بھارت کے پنجاب کی گندم کی پیداوار کا مقابلہ اپنے پنجاب سے کیجئے اور یہ بھی دیکھئے کہ ان کا پنجاب آپکے ایک یا دو ضلعوں کے برابر ہے! نظام بدلنا ہے تو ان سیاسی گدیوں کو ختم کیجئے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہیں اور آپ نے یہ کام کر دیا تو یقین کیجئے پاکستان کے لوگ آپکی نیلسن منڈیلا سے بھی زیادہ عزت کریں گے۔ جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو نظامِ تعلیم بدلئے‘ افسروں وزیروں مشیروں اور ارکان پارلیمنٹ کو حکم دیجئے کہ اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت جس تیز رفتاری سے بہتر ہو گی۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔ نظام بدلنا ہے تو وہ سکول اور کالج بند کر دیجئے جو انگریزوں نے اسلئے بنائے تھے کہ انکے سامنے سجدہ کرنیوالوں کی اولاد کو ’’پڑھایا‘‘ جائے! نظام بدلنا ہے تو مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کا مقدر بدلئے تاکہ وہ امامِ مسجد کے علاوہ بھی کچھ بن سکیں! نظام بدلنا ہے تو افسروں وزیروں مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کو حکم دیجئے کہ کل سے دفتروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے آئیں! یقین کیجئے یہ افسر اور وزیر اور یہ عوامی نمائندے سالوں میں نہیں‘ مہینوں میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو ایشیا کا بہترین سسٹم بنا دینگے‘ زیر زمین ریلوے بھی بچھ جائیگی‘ کاروں کی تعداد بھی کم ہو جائیگی اور پٹرول کا بل بھی کم ہو جائیگا!
No comments:
Post a Comment