ریٹائرمنٹ کے حوالے سے دو مضامین لکھے تو احبّا کا کہنا ہے کہ پند و نصائح کو چھوڑوں اور ذاتی تجربہ بیان کروں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیسے گزر رہی ہے! یہ موضوع ‘ جو زیر تعمیر خود نوشت کیلئے رکھا ہوا تھا‘ احباب کی بے حد تحکمانہ فرمائش پر نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے!
2008
ء میں ریٹائر ہوا تو سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھا‘ اکثر رفقائے کار کو ریٹائرمنٹ کے بعد پُر کشش ملازمتیں مل رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ صدر زرداری کے دست ِراست ‘ ایک معزز صاحب‘ کالم نگاری کے سبب بہت عزت و محبت سے پیش آتے تھے۔ ان سے ملنے ایوانِ صدر گیا۔بہت تکریم سے پیش آئے۔ پُر تکلف چائے سے نوازا۔ جب عرض کیا کہ سرکار نے گریڈ بائیس میں ریٹائر ہونے والے فلاں فلاں افسروں کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دوسرے اداروں میں پارک کیا ہے‘ میں اگر ان سے زیادہ نہیں تو کم لائق بھی نہیں ! ان کا جواب بہت منطقی تھا کہ '' تمہارے
Credentials
پیپلز پارٹی کے حوالے سے کمزور ہیں!‘‘ یعنی‘ دوسرے الفاظ میں پارٹی کیلئے میری خدمات صفر ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے انتہائی قریبی عزیز ریٹائرمنٹ کے بعد ایک زبردست ملازمت پر فائز تھے۔ ایک دو اور احباب نے بھی کوشش کی مگر سکہ رائج الوقت نہ ہونے کے سبب کام نہ بنا۔ذہن میں یہ تھا کہ سرکاری مکان ملازمت کے بہانے کچھ عرصہ رہ جاتا‘ تاہم چھ ماہ کے قانونی پیریڈ کے بعد مکان خالی کر دیا اور کرائے کے مکان میں اُٹھ آیا جہاں تین سال رہا! اس اثنا میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک بہت محترم دوست نے ‘ جو نامور لکھاری ہیں‘ فون کیا اور پوچھا: ریٹائر ہو گئے؟ کہا: جی ہو گیا! پوچھا کوئی مصروفیت دی حکومت نے؟ کہا: نہیں! کہنے لگے‘ تم نے کسی بڑے آدمی کو کوئی اطلاع بیچی ہوتی‘ کوئی فائل دکھائی ہوتی تو آج وہ تمہاری دیکھ بھال کرتا! میں نے کہا: اللہ مالک ہے۔
اطلاع نہ بیچنے اور فائل نہ دکھانے کے صرف دو واقعات شیئر کرتا ہوں! 2006 ء میں مَیں وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا۔ اور دفاع کے تمام مالی امور کا انچارج! اس کام میں دس فنانشل ایڈوائزر یعنی جوائنٹ سیکرٹری میرے معاون تھے۔ میں اور میرا عملہ وزارتِ خزانہ اسلام آباد میں نہیں‘ بلکہ وزارتِ دفاع راولپنڈی میں بیٹھتے تھے۔ انہی دنوں وزیر اعظم (شوکت عزیز) کیلئے ہوائی جہاز خریدنے کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کیلئے چار ملکوں میں جانا تھا۔ ٹیم کے ہمراہ میرا نمائندہ بھی گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک معروف صحافی نے‘ جو آج بھی شہرت کے آسمان پر ہیں ‘ فون کیا اور فرمائش کی کہ جہاز والی فائل دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دُکھ تو قومی خزانے کے ضیاع کا مجھے بھی ہے مگر فائل ریاست کی امانت ہے۔ نہیں دکھا سکتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے انہوں نے کہا تھا کہ کسی وقت وہ بھی کام آئیں گے ! بہرطور میں نے معذرت کی۔ اس کے بعد ایک آدھ بار آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ دوسرا واقعہ تب کا ہے جب میں ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان تھا۔ ایک دوست‘ بہت ہی معروف صحافی‘ تشریف لائے اور غیر مطبوعہ آڈٹ رپورٹیں دیکھنے کی فرمائش کی۔ کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ آڈٹ رپورٹوں کا فرق واضح کیا جائے۔ قصہ مختصر‘ اسی بنیاد پر ان سے بھی معذرت کی کہ یہ ریاست کی امانت ہے مگر انہوں نے کسی ناراضی کا اظہار نہ کیا۔ آج بھی محبت سے پیش آتے ہیں اور میرے پسندیدہ احباب میں شامل ہیں۔ بہر طور یہ طے ہے کہ بائیس اور اکیس گریڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت یونہی نہیں ملتی۔ کسی نہ کسی '' سبب‘‘ سے ملتی ہے!! تاہم یہ ملازمت بھی دو یا تین برس کیلئے ہی ملتی ہے۔ہاں جو بندو بست غیب سے ہوتا ہے وہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوتا ہے ! عنایات اتنی ہیں کہ شکر ادا کرنا ممکن نہیں۔ پیر نصیر الدین نصیر ؒ کا شعر یاد آگیا؛نہ پوچھو کچھ کہ کیا کچھ دے دیا ہے دینے والے نے / بڑا ہو لاکھ کوئی ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں
ضیا حسین ضیامرحوم ادبی جریدہ ''زرنگار‘‘ نکالتے تھے۔ میرا بہت طویل انٹرویو اس میں شائع کیا۔ سوال تھا '' آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر زندگی زوال آمادہ لگتی ہے؟ یا ابھی آپ کیلئے یہ غمزہ کار ہی ہے‘‘۔ میرا جواب تھا ''زندگی اور زوال آمادہ ؟ زندگی تا دم آخر خوبصورت ‘ متناسب اور متبسم ہوتی ہے۔ اور ہر مرحلے اور ہر موڑ پر نئے غمزے اور انوکھے عشوے دکھاتی ہے۔ زندگی نے اس مرحلے پر پوتے‘ نواسے اور نواسی دی ہے۔ میں اسے زوال سے کیسے تعبیر کروں۔ ان نعمتوں نے زندگی میں اتنے رنگ بھر دیے ہیں‘ اتنی بوقلمونی عطا کی ہے اور ایسا دلرُبا حُسن دیا ہے کہ ایک ایک لمحہ حَظ اُٹھا رہا ہوں! '' حقیقت یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی اتنی شدید مصروفیت میں گزر رہی ہے کہ سنجیدگی سے ایک ملازم رکھنے کا سوچ رہا ہوں جو صرف کان کھجا دیا کرے۔ ہفتے میں تین کالم لکھنے ہوتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران چار ( نثری اور شعری) کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ بچوں کیلئے ایک انوکھا ‘ نئی طرز کا ناول زیر طبع ہے۔ قارئین اور ناشر کے اصرار پر خود نوشت لکھنے کا عمل زوروں پر ہے۔ ایک کتاب ‘ شیرلٹ برونٹی کی داستانِ درد‘ زیرِ تصنیف ہے۔ مشہور کلاسیکی عجوبے (سرگذشت حاجی بابا اصفہانی) کا فارسی سے ترجمہ ساتھ ساتھ ہو رہا ہے!
اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرطاس وقلم نے دنیا سے کاٹ رکھا ہے۔ تمام اعزہ واقارب کے ہاں باقاعدگی سے حاضر ہوتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ قطع رحمی کے گناہِ کبیرہ سے بچوں! ہفتے میں ایک دن اپنے پرانے دوست پروفیسر اظہر وحید کے ہاں لنچ کرتا ہوں۔ ہم ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق طلبہ‘ جو اسلام آباد میں میسر ہیں‘ کلب میں اکٹھے ہوتے ہیں اور مشرقی پاکستان کو یاد کرتے ہیں! ادبی محافل میں باقاعدگی سے شرکت ہوتی ہے۔ ہر شادی اور غم کے موقع پر اپنے گاؤں بھی جاتا ہوں اور نانکے گاؤں بھی! گاؤں میں اور شہر میں بھی رفتگاں کی قبروں کی دیکھ بھال باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ کون جانے کل اپنی قبر پر ''نے چراغے نے گُلے‘‘ والا معاملہ ہو گا یا کوئی پھیرا ڈالنے والا ہو گا! محلے اور مسجد کے احباب کے ساتھ مسلسل ملاقات رہتی ہے!
ہفتے میں پانچ دن ‘یا کم از کم چار دن‘ ورزش کیلئے مختص ہیں۔ورزش کے علاوہ سرما میں پچاس منٹ سیر ہوتی ہے۔ گرمیوں میں ڈاکٹر نے سیر سے‘ بوجوہ‘ منع کیا ہوا ہے اس لیے کمرے میں سائیکل چلاتا ہوں! کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو گاڑی سے بچوں اور کام کاج پیدل چل کر کروں۔ ذاتی لائبریری کی دیکھ بھال‘ صفائی اور چھانٹی باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ چھانٹی نہ کی جائے تو کچن تک کتابوں سے بھر جائے۔رطب رکھنا پڑتا ہے اور یابس نکالنا پڑتا ہے! اپنے ملبوسات کے ضمن میں ساری زندگی بیگم کو زحمت دی نہ کسی ملازم کو۔ دھلے ہوئے کپڑے الماری میں خود رکھتا ہوں۔ میلے کپڑے لانڈری میں خود پہنچاتا ہوں۔ شلوار میں کمر بند خود ڈالتا ہوں۔ گاڑی کے تیل پانی میں تاخیر یا کوتاہی ہر گز نہیں کرتا۔
یہ سب کچھ تو ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد جو خوشگوار ترین نعمت عطا ہوئی ہے وہ پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے اور نواسیاں ہیں ‘ یہ کتنا بڑا انعام ہے‘ اس کا اندازہ وہ شخص نہیں کر سکتا جو نا نا یا دادا کے منصب پر فائز نہیں ہوا! لاہور ہو یا اسلام آباد‘ یا سال کے پانچ ماہ میلبورن میں ‘ جہاں بھی ہوں‘ ان بچوں کو انکے ماں باپ کے '' ظلم ‘‘سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بجٹ کا زیادہ حصہ انہیں کھلانے پلانے اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی لذت ہے جو شاید دنیا میں بہشت کی نعمتوں کا تصور عطا کرتی ہے۔
یہ تھی ایک جھلک ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی!
یہ جو سفر کا آخری حصہ ہے سامنے
دلکش بہت ہے‘ باغ بغیچہ ہے سامنے
No comments:
Post a Comment