اگر آپ نے اولاد کو اچھی تربیت دے کر اچھی ملازمت یا اچھا کاروبار‘ اپنی زندگی میں دلوا دیا ہے تو یہ آپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کے محتاج ہی نہیں! اور اگر آپ کی کوشش کے باوصف اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی تو آپ کا ترکہ بھی انہیں کامیاب نہیں کر پائے گا۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ جو یہاں بُرے ہیں‘ وہ لاہور جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے! کوشش کیجئے کہ پیغامِ اجل آنے سے پہلے اپنی غیر منقولہ جائیداد کو جہاں تک ممکن ہو
Liquidate
کیجئے۔ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں‘ آپ کو پلاٹ اور مکان نہیں درکار! اب آپ کو جتنا ہو سکے کیش درکار ہے تاکہ آپ اپنی ضروریات پوری کر سکیں! آپ کو اگر کوئی چیز بھاتی ہے‘ آپ کے دل پر حملہ کرتی ہے‘ کوئی شرٹ‘ سوٹ‘ شب خوابی کا کوئی لباس‘ کوئی جوتا‘ کوئی ٹیبل لیمپ‘ کوئی صوفہ جس پر استراحت سے آپ بیٹھ سکیں‘ مساج کی کوئی چیئر‘ ورزش والی سائیکل یا ٹریڈملِ‘ اور آپ کی استطاعت بھی ہے تو آپ فوراً خرید لیجئے۔ اسی طرح بیگم صاحبہ کیلئے کوئی شے آپ کا دامنِ دل کھینچتی ہے اور جیب میں وسائل بھی ہیں تو فوراً خرید کر بیگم صاحبہ کو پیش کیجئے۔ اس سے آپ کی زندگی میں روشنی پھیلے گی! سورج کی کرن اندر آئے گی‘ چاندنی آپ کے صحن میں رقص کرے گی! کیا خبر آپ کے رخصت ہونے کے بعد پسماندگان‘ تعزیت کیلئے آنے والوں کو چائے کا ایک کپ یا ''لیموں پانی‘‘ کا ایک گلاس بھی پیش کریں گے یا نہیں‘ لاہور کا ایک بہت نامور میڈیا مالک‘ کھربوں چھوڑ کر مرا‘ رمضان تھا‘ دعا کرنے والے عصر کے بعد آئے۔ ورثا نے مبینہ طور پر مہمانوں کو افطار سے پہلے رخصت کر دیا۔ ترکے میں سے چند کپ چائے بھی دینا پسند نہیں کیا‘ دولت آپ کی وہی ہے جو کھا لی‘ جو پہن لی یا جو بھیج دی‘ بھیجنے سے یہاں مراد زکوٰۃ‘ صدقہ‘ خیرات اور فلاحی خدمات ہیں! ان تین مدات کے علاوہ آپ جو پسماندگان کیلئے چھوڑ جائیں گے اسے گویا آپ نے دریا بُرد کر دیا۔
سوم: محاورہ ہے کہ ملازمت باپ کی بھی اچھی نہیں ہوتی‘ ملازمت یا کاروبار ایک جبر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں یہ آپ کے ذوق کے ساتھ ہم آہنگ ہو‘ اس میں مصروفیت بھی بلا کی ہوتی ہے۔ صبح اٹھتے ہیں‘ ناشتہ ٹھونسا اور چل دیے۔ در حقیقت یہ شیر کی سواری ہے۔ نیچے اترنا سہل نہیں‘ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا اور آپ کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں‘ آپ کو ان کے ساتھ کھیلنے‘ لطف اندوز ہونے کا کم ہی وقت ملا۔ بہت سے کام جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے ذوق کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں‘ آپ ملازمت یا کاروبار کے ساتھ نہیں کر سکے‘ مگر قدرت نے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو فراغت اسی لیے عنایت کی کہ آپ گمشدہ آرزؤں کو عمل کا لباس پہنا سکیں۔ زراعت میں دلچسپی ہے‘ تو گاؤں چلے جائیے اور آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کیجئے۔ گاؤں کے نہیں تو کہیں اور فارم حاصل کیجئے۔ ٹنل فارمنگ کیلئے زیادہ رقبہ بھی درکار نہیں۔ آپ تعلیمی ادارہ کھول سکتے ہیں۔ مکانوں کی تعمیر کا ڈول ڈال سکتے ہیں۔ میں ایسے بیسیوں افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے کنسٹرکشن کا کام‘ ریٹائرمنٹ کے بعد شروع کیا اور آج ثروت مند ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے تو یہ وقت قدرت کی طرف سے بہترین عطیہ ہے‘ سیرِ دنیا کا شوق ہے تو کوئی سا سفری گروپ جوائن کر لیجئے۔ یہ گروپ آپ سے معقول رقم لے کر ملک ملک پھراتے اور دکھاتے ہیں۔ تمام انتظامات ان کے ہوتے ہیں۔ آپ ان میں سے کوئی بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔ مگر کوئی پوچھے کہ آج کل ریٹائرمنٹ کے بعد کیا شغل ہے تو خدارا یہ نہ کہیے کہ عبادت کرنے اور مسجد آنے جانے کی مصروفیت ہے۔ یہ فریضہ تو آپ کو ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی سرانجام دینا تھا۔‘ عبادت دنیاوی کاموں سے نہیں روکتی۔ جبھی تو فرمانِ الٰہی ہے کہ ''جب (جمعہ کی) نماز ادا ہو چکے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو...‘‘اگر ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا معمول یہ ہے کہ ایک اخبار کی ورق گردانی کرکے‘ ظہر تک شب خوابی کے لباس میں پلنگ پر لیٹنا ہے یا کرسی پر بیٹھنا ہے اور ظہر کی نماز کے بعد پھر اسی ''مصروفیت‘‘ کو اپنانا ہے تو یقین کیجئے کہ ریٹائرمنٹ آپ کیلئے انعام و اعزاز نہیں‘ سزا ہے اور اس معمول کا دوسرا نام ''انتظارِ مرگ‘‘ ہے!
چہارم: بہترین سرگرمی ریٹائرمنٹ کے بعد معلمی ہے‘ آپ اپنے پوتوں‘ نواسوں اور پوتیوں اور نواسیوں کو پڑھائیے‘ جس مضمون پر آپ کو عبور حاصل ہے‘ اس میں انہیں طاق کر دیجئے۔ محلے کے دوسرے بچوں کو بھی شامل کیجئے۔ کسی کالج یا یونیورسٹی میں لیکچر دیجئے۔ معاوضہ ملے تو خوب‘ ورنہ مفت پڑھانے کی اپنی لذت ہے اور اپنا اطمینان۔ اگر آپ کے پاس ایک وسیع و عریض لائبریری ہے تو آپ کتابوں کی جلد سازی کرنا شروع کر دیجئے۔ یہ وہ کام ہے جو بڑے بڑے سکالر اور مصنف کیا کرتے تھے۔
پنجم: آپ نے ایک وڈیو کلپ دیکھا ہوگا جس میں ایک عمر رسیدہ شخص نکٹائی لگا کر گھر سے باہر جا رہا ہے۔ دوسری طرف اسی کا ہم عمر بستر پر لیٹا ہے اور اس کے ناک اور منہ میں ٹیوبیں لگی ہیں۔ یہ ورزش کرنے اور نہ کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے احتیاج سے بچیں تو ہفتے میں پانچ دن... اور پانچ دن نہیں تو کم از کم چار دن جسم کے بالائی اور زیریں حصوں کی ورزش کیجئے! کم از کم چالیس منٹ سیر کیجئے۔ شدید گرمی میں سیر کرنے سے پانی کی کمی کا خوف ہے تو کمرے کے اندر سائیکل چلایئے یا ٹریڈمِل کیجئے۔ اگر آپ نے ان جسمانی سرگرمیوں کو کاہلی کی بھینٹ چڑھا دیا اور
Couch Potato
بنے رہے تو اس کی ہولناک قیمت ادا کرنا ہوگی۔
ششم: اب تک تو اُن سرگرمیوں کا ذکر آیا ہے جو کرنے کی ہیں‘ مگر کچھ کام ایسے بھی ہیں جو نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بنیادی طور پر عزتِ نفس کے معاملے ہیں۔ آپ جس دفتر یا کارخانے یا سیٹ اَپ سے ریٹائرہوئے ہیں وہاں شدید ضروری کام کے بغیر‘ کبھی نہ جایئے۔ اور یہ ضروری کام بھی آپ کا ذاتی ہو تب! جو ریٹائرڈ حضرات وقت گزاری کیلئے یا گپ شپ کیلئے اپنے پرانے دفتروں میں جاتے ہیں‘ وہ اپنی عزت و وقار کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کے پرانے رفقائے کار ان سے اکتا جاتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ مصروف ہوتے ہیں۔ دوسرے آپ ان کے پاس بے مقصد بیٹھ کر انہیں بے چین کرتے ہیں! عزت اسی میں ہے کہ آپ جو گھر چھوڑ آئے ہیں‘ وہاں کا کبھی رخ نہ کیجئے۔ اسی طرح اپنے پرانے رفقائے کار سے کسی کی سفارش مت کیجئے۔ اپنا ذاتی کام ہے تو اور بات ہے مگر کسی اور کیلئے‘ وہ کتنا ہی قریبی اور مجبور کیوں نہ ہو‘ کبھی سفارش نہ کیجئے۔ یاد رکھئے! اب آپ ایسا سکہ ہیں جو رائج الوقت نہیں‘ بہت ہی کم امکان ہے کہ آپ کی سفارش کے ساتھ باعزت سلوک ہو۔ استغنا‘ بے نیازی اور عزتِ نفس کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد‘ پہلے سے زیادہ لازم ہو جاتا ہے!
ہفتم: آخری مشورہ یہ ہے کہ خدارا اپنے وہ کارنامے دوسروں کو ہرگز نہ سنائیے جو آپ نے اپنی سروس یا بزنس کے دوران سرانجام دیے۔ ریٹائرڈ حضرات میں سے کچھ وتیرہ بنا لیتے ہیں جہاں آڈیئنس ملی‘ اپنے درخشاں کارنامے سنانا شروع کردیے۔ جیسے میں نے فائل پر یہ لکھ کر اوپر بھیجا‘ وزیر کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے‘ یا میں نے بزنس کو ایسا پلٹا دیا کہ منڈی میرے ہاتھ میں آ گئی‘ یقین کیجئے! لوگوں کو آپ کے ماضی میں ذرہ بھر دلچسپی نہیں‘ وہ اضطراب اور بوریت سے آپ کی خود کلامی سنتے ہیں۔ آپ کے تھیلے میں اگر واقعی کچھ کارنامے ہیں تو اپنی یادداشتیں لکھ ڈالیے۔ آپ کا نشہ بھی پورا ہو جائے گا اور جنہیں شوق ہو گا وہ پڑھ بھی لیں گے! اور آخر میں مولانا ظفر علی خان کا شعر :
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو
No comments:
Post a Comment