میں نے کیکر کا پودا لگایا ہے اسے پانی دیتا ہوں۔ رات دن حفاظت کرتا ہوں۔ پوری امید ہے کہ اس محنت کے بدلے میں اس پر سیب لگیں گے۔
افسوس! یہ درخت بڑا ہوا۔ مگر سیبوں کے بجائے اس پر پھلیاں لگیں۔ کیکر کی پھلیاں! کھاتا ہوں تو کھائی نہیں جاتیں بازار لے جاتا ہوں تو بکتی نہیں! سب یہی سمجھاتے ہیں کہ تم نے سیب کا درخت نہیں‘ کیکر کا درخت لگایا تھا۔ اس پر سیب کبھی نہیں لگیں گے۔ قیامت تک نہیں لگیں گے۔ پانی تو کیا‘ عرق گلاب سے سینچو! اس پر حفاظتی جال لگائو۔ اس کے لئے پہریدار مقرر کرو پھلیاں ہی لگیں گی!
سینیٹ میں اپوزیشن کی قرار داد شکست کھا گئی۔ اب ہر طرف سے فلسفوں کی یورش ہو رہی ہے کہ جن کو سنجرانی صاحب کے حق میں ووٹ ڈالنا تھا ان میں اتنی جرأت ہونی چاہیے تھی کہ کھلم کھلا اپنی رائے کا اظہار کرتے اور ضمیر کی آواز پر لائوڈ سپیکر فٹ کر کے پوری دنیا کو بتا کر پارٹی قیادت سے اختلاف کرتے! یہی تو وہ سیب ہے جس کی لوگ توقع کر رہے ہیں! یہ سیاسی جماعتیں کیکر کے وہ پودے ہیں جن کے ارکان منافقت کے سوا کوئی پھل نہیں دے سکتے۔ اس لئے کہ پارٹیوں کی قیادت خود سراپا نفاق ہے آپ کا کیا خیال ہے جن پارٹیوں پر کئی کئی عشروں سے ایک ایک خاندان مسلط ہے ان پارٹیوں کے ارکان ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں گے؟ ان ارکان کی زندگیاں ان خاندانوں کے سامنے رکوع میں جھکتے گزر گئیں۔ یہ ان کی چوکھٹوں پر سجدہ ریز رہے۔ ان خاندانوں کی نسلوں کی نسلیں ان پر حکومت کرتی رہیں۔ یہ چونکتے تو کیا‘ جھرجھری تک نہ لی۔
کینیڈا کی مثال لیجیے۔ لبرل پارٹی سب سے زیادہ پرانی ہے۔1968ء سے لے کر اب تک یہ پارٹی نو بار قیادت تبدیل کر چکی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد نے 1968ء میں پارٹی کی قیادت کی۔ باپ اور بیٹے کے درمیان سات رہنما آئے اور گئے۔ ان سات رہنمائوں کا اس خاندان سے کوئی تعلق نہ تھا۔
برطانیہ اور امریکہ کی سیاسی پارٹیوں کی تاریخ ہمارے لئے اجنبی نہیں۔ جس ملک میں سیاہ فام افریقیوں سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ اس ملک میں ایک سیاسی پارٹی نے ایک سیاہ فام افریقی نژاد کو صدارتی الیکشن کے لئے نامزد کیا۔ وہ جیتا۔ ایک بار نہیں‘ دو بار۔ برطانیہ میں ہمارے سامنے ایک شخص پارٹی کی قیادت سنبھالتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور‘ پھر ایک اور۔ کوئی وزیر اعظم ٹرین میں کھڑا ہو کر سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی اپنا سامان پیک کرتا ہے۔ ایک نے سیکنڈ ہینڈ کار بیوی کے لئے خریدی اور ٹیکس ادا کرنے کے لئے پوسٹ آفس خود گیا۔ کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر ٹیکس جمع کرایا۔ آسمان ٹوٹا نہ زمین پر زلزلہ آیا۔
ایک دُور کی کوڑی یہ لائی جاتی ہے کہ جنوبی ایشیا کا مزاج یہی ہے کہ یہاں خاندانوں کی پارٹیوں پر گرفت ہو۔ سیاسی پارٹیاں نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی خانوادوں کے قبضے میں ہیں۔ مگر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ دلیل غروب ہو چکی ہے۔ مودی مسلمانوں کا دشمن ہے مگر بھارت کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو اس نے نہرو خاندان کی سدا بہار قیادت سے ملک کو نجات دلائی ہے۔ چائے بیچنے والا ملک کا ایک بار نہیں‘ دو بار وزیر اعظم بن چکاہے۔
ہمارے انگریزی اخبارات‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو ’’لامیکر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ قانون بنانے والے! قانون ساز!!یہ اور بات کہ ہمارے منتخب نمائندے قانون سازی کے بجائے گلیاں مرمت کرانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ پرائمری سکول کی استانیوں اور اساتذہ کے تبادلے کرانے پر فخر کرتے ہیں کیوں نہ کریں‘ جب ان کا لیڈر پولیس افسر سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ ’’ہمارے ساتھ دوستی کرو گے؟‘‘تو لیڈر کے پیرو کاروں کی ذہنی سطح کتنی بلند ہو گی؟ اگر ہماری پارلیمنٹ میں لا میکر واقعی لامیکر ہوں تو خصوصی قانون سازی کر کے سیاسی پارٹیوں کو خاندانوں کی غلامی سے نجات دلوائیں۔ قانون پاس کرائیں کہ پارٹی کی قیادت ایک یا دو ٹرم سے زیادہ کسی شخص کے ہاتھ میں نہ رہے گی اور اس کے جانشین کا اس کے خاندان سے کوئی تعلق نہ ہو گا!
پاکستانی جمہوریت کا مزاج دیکھیے کہ نواز شریف علاج کرانے لندن جاتے ہیں اور ریٹائر ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ نئی قیادت کا فیصلہ پارٹی کے اندر انتخابات سے ہو گا۔ وہ اپنے بھائی سے کہتے ہیں کہ آپ پارٹی سنبھالیے جیسے پارٹی ان کی ذاتی فیکٹری ہے۔ آصف زرداری برملا اعلان کرتے ہیں کہ مستقبل بلاول اور مریم کا ہے اور رضا ربانی سے لے کر اعتزاز احسن تک اور خواجہ آصف سے لے کر راجہ ظفر الحق تک کسی کی جمہوری رگ نہیں پھڑکتی مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے خلف الرشید اسعد محمود کو قیادت کے گھوڑے پر سوار کرا دیا ہے۔ اب وہ والدمحترم کے ساتھ بادشاہی میں شریک کار ہیں۔ مولانا حیدری سے لے کر حافظ حسین احمد تک سب ان کا اسی طرح احترام کرتے ہیں جسے بادشاہ کے ولی عہد کا کیا جاتا ہے۔
خود عوام کی ذہنیت اس سے مختلف نہیں۔ شخصیت پرستی صرف سیاست پر نہیں زندگی کے ہر شعبے پر چھائی ہوئی ہے۔ مذہب کے نام پر خاندانی جاگیریں نسل درنسل قائم ہیں۔ مرید‘ شاہ محمود قریشی سے لے کر فیصل صالح حیات تک اپنے اپنے مرشدوں کو موت و حیات کا مالک تسلیم کرتے یہں۔ پیر پگارا کی گدّی‘ بادشاہی نہیں تو کیا ہے؟ گدّی کا بانی اگر صحیح معنی میں اللہ والا تھا تو اب اس کا وارث ہونے کیلئے اللہ اور رسولؐ سے تعلق قطعاً ضروری نہیں۔ زندگی کی ہر رنگینی سے حظ اٹھائیے۔ سیاست سے لے کر زمینداری تک۔ ہر شعبے میں بددیانتی کیجیے۔ ہاریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑیے۔ سیاست میں گھوڑوں کو بیچئے یا گھوڑا بن کر قیمت لگوائیے‘ جو دل چاہتا ہے کیجیے‘ بس عرس کے موقع پر دستار سر پر رکھ کر گدی پر بیٹھ جائیے۔ باقی کام مرید سنبھال لیں گے۔
اس مجموعی صورتِ حال میں صرف پارلیمنٹ کے ارکان سے دیانت داری کا تقاضا کرنا قرینِ انصاف نہیں۔ ہم جمہوریت کی اصل منزل سے کئی فرسنگ دور ہیں۔ اقبال نے کہا تھا ؎
سنائیؔ کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لا لا
لاکھ نہیں ‘ صرف ایک موتی سنائی کے ادب سے ہماری جمہوریت کے مستقبل کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
روز ہا باید کہ تایک مشتِ پشم از پشتِ میش
زاہدی را خرقہ گردو یا حماری رارسن
اُون کو فقیر کی گدڑی بننے میں یا جانور کی رسی کی شکل اختیار کرنے میں کئی دن لگتے ہیں۔
ماہ ہا باید کہ تایک پنبہ دانہ زآب و خاک
شاہدی را حلّہ گردد یا شہیدی راکفن
کپاس کو آب و خاک کی منزلوں سے گزر کر معشوق کا لباس یا شہید کا کفن بننے میں مہینے لگتے ہیں۔
سالہا باید کہ تایک سنگ اصلی زآفتاب
لعل گردد در بدخشاں یا عقیق اندریمن
پتھر کو سورج کی روشی میں پڑا رہ لعل بدخشاں یا عقیق یمنی بننے میں برس لگ جاتے ہیں۔
دور ہا باید کہ تایک مرد حق پیداشود
بایزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن
خراسان میں بایزید اور قرن میں اویس زمانوں بعد پیدا ہوتے ہیں اردو کے شاعر نے کہا تھا ؎
سنگِ سُرمہ ہی بتائے گا حقیقت اس کی
منزلیں کتنی ہیں منظورِ نظر ہونے تک
No comments:
Post a Comment