یہ کہانی ہے جس میں دو کردار ہیں
ایک کردار لوہا ہے۔ لوہے کو پگھلا کر‘ موڑ کر‘ ایک قفل نما شے بناتے ہیں۔ اس قفل کے ساتھ لوہے ہی کی زنجیر لگاتے دایں۔ یہ قفل دروازہ بند کرنے کے کام نہیں آتا۔ اسے کلائی پر رکھ کر بند کرتے ہیں۔ یوں کلائی مقفل ہو جاتی ہے۔ رہا زنجیر کا دوسرا سرا‘ تو اس کے لئے کئی آپشن ہیں۔ کبھی زنجیر کا یہ دوسرا سرا چارپائی کے ساتھ باندھ دیتے ہیں‘ کبھی کھونٹے کے ساتھ۔ کبھی اس پہریدار کی کمر کے ساتھ جو مقفل کلائی والے شخص کو کہیں لے کر جا رہا ہوتا ہے۔
لوہے کے اس قفل کو ہتھکڑی کہتے ہیں۔ یہ کن لوگوں کی کلائیوں کو زینت بخشتی ہے ؟ اس میں اتنا تنوع ہے کہ بیان
سے باہر ہے۔ کبھی یہ اشبیلیہ کے بادشاہ معتمد کی کلائی پر سجتی ہے۔ اسے یہ لوہا دیکھ کر اپنی تلوار یاد آتی ہے۔ وہ پکار اٹھتا ہے ؎
خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغِ دو دم تھی اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی
کبھی یہ ہتھکڑی محمد بن قاسم کو لگتی ہے‘ کبھی مغل شہزادوں کو۔ کبھی مولانا فضل حق خیر آبادی کو۔ کبھی شورش کاشمیری کو۔
کبھی کسی قاتل کو‘ کبھی کسی ضمیر فروش کو! کبھی کسی معمر دانشور کو‘ کبھی کسی عمر رسیدہ صحافی کو!
ہتھکڑی اندھی ہوتی ہے۔ شناخت نہیں کر سکتی کہ کلائی کس کی ہے؟ ڈاکو کی ہے یا بردہ فروش کی! صحافی کی ہے یا اس حکمران کی جس کی تعریف میں یہ صحافی زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔ قاتل کی ہے یا اس وزیر اعظم کی جو درجنوں انسانوں کے قاتل کو حرز جاں بنا کر ساتھ رکھتا ہے یا لوہے کی بھٹی کے اس مالک کو جو مزدوروں کو جلتی سلگتی بھٹی میں ڈال دیتا ہے۔
کبھی قیدی ہتھکڑی کو کھولنے کی جدوجہد کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ کبھی زنجیر ٹوٹ جاتی ہے قیدی آزاد ہو جاتا ہے مگر ہتھکڑی کلائی پر ہی رہتی ہے ؎
دل آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
اس کہانی کا دوسرا کردار آنکھیں ہیں۔ آنکھ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک باہر کی! باہر کی آنکھ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی! اسے ضعف بصارت کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ اس کے شیشے پر موتیا کی تہہ جم جاتی ہے۔ دوسری آنکھ اندر کی ہوتی ہے۔ یہ دیوار کے پار تو دیکھ ہی لیتی ے‘ وقت کے اس پار بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ صاحب بصیرت ہوتی ہے۔
باہر کی آنکھ کا معاملہ یہ ہے کہ جانب دار ہے۔ جو شے پسند ہو‘ اسے دیکھ لیتی ہے۔ جس طرف جی کا زیاں ہو‘ نہیں دیکھتی۔ اسے لوہے کی بنی ہتھکڑی نظر آ جاتی ہے۔ مگر فیکٹریوں سے نکلتا ہوا شہر در شہر ‘ شاہراہ در شاہراہ‘ بچھتا لوہا نہیں نظر آتا۔ یہ آنکھ عجیب و غریب آنکھ ہے۔ اسے ہتھکڑی کے علاوہ کچھ اور اشیا بھی دور ہی سے نظر آ جاتی ہے۔ دستر خوان کوسوں دور ہو‘ تب بھی دیکھ لیتی ہے۔ دستر خوان پر پڑے ہوئے مرغن کھانے ہمیشہ اس آنکھ کے دائرہ بصارت میں رہتے ہیں۔ رات کو بستر پر لیٹتی ہے تو شاہی ہیلی کاپٹر اور شاہی ہوائی جہاز کی وہ نشستیں دیکھ رہی ہوتی ہے جن پر اس نے بیٹھنا ہوتا ہے۔ یہ آنکھ عجوبۂ کائنات ہے، ہتھکڑی دیکھ لیتی ہے مگر عرب شہزادہ معاہدے کا کاغذ لہراتا ہے تو یہ آنکھ بند ہو جاتی ہے۔ یہ طلسماتی آنکھ بھولے سے بھی محلات اور اپارٹمنٹس کی طرف نہیں اُٹھتی۔ اسے سرکاری خزانے سے اٹھنے والے وہ کروڑوں روپے نہیں دکھائی دیتے جو ذاتی محلات کی چار دیواری اٹھانے پر صرف ہوئے۔ اسے عوام کی ملکیت وہ ہوائی جہاز نہیں نظر آتا جس کا رُخ مکہ مکرمہ کی طرف ہوتا ہے۔ جہاں نواسی کا نکاح پڑھایا جا رہا ہوتا ہے۔
یہ آنکھ عجیب بیمار آنکھ ہے۔ یرقان زدہ! گندی رال اس کے کونوں سے رِس رِس کر باہر نکلتی ہے اور ان رخساروں پر پھیل جاتی ہے جو دسترخوان پر پڑی چربی سے سرخ ہوئے ہوتے ہیں۔ اس آنکھ کو گوشت پوست سے بنا ہوا۔ جیتا جاگتا ‘ صاحبزادہ نظر نہیں آتا جو چھپن کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ہر اجلاس میں بغیر کسی حیثیت سے بیٹھتا ہے اور حکمرانی کرتا ہے۔ اس آنکھ نے کبھی وال سٹریٹ جرنل یا ڈیلی میل کا تذکرہ نہیں کیا۔ اسے یہ نظر نہیں آتے! اس آنکھ کو فواد احمد فواد اور احد چیمہ کی کارکردگی اور چابک دستی نظر آتی ہے مگر ان کی جائیدادیں ان کے پلازے ان کی گاڑیاں ان کے بنک بیلنس نہیں نظر آتے۔ گویا وہ مضر صحت کیڑے مکوڑے تو نظر آتے ہیں جنہیں سانپ کھا جاتا ہے مگر سانپ کا دہانہ نہیں نظر آتا جس سے زہر ٹپک رہا ہے۔
یہ یرقان زدہ آنکھ آج کا سانحہ نہیں ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ یہی آنکھ میر جعفر کے چہرے پر نصب تھی۔ اسے لارڈ کلائیو نظر آتا تھا۔ مگر سراج الدولہ کو نہیں دیکھ پاتی تھی۔ یہی آنکھ پنجاب کے طروّں اور گدی نشینوں کی ٹوپیوں پر لگی تھی۔ انہیں برطانیہ کی ملکہ کے پائوں نظر آ جاتے تھے۔ اپنے وطن کی مٹی دیکھتے وقت اندھی ہو جاتی تھیں۔ آج اس آنکھ کو ہتھکڑی نظر آ جاتی ہے مگر اربوں کھربوں کی لوٹ مار نہیں دکھائی دیتی۔ اس طرف یہ آنکھ کھلتی ہے اس طرف بند ہو جاتی ہے۔ بال نظر آ جاتا ہے۔ شہتیر نہیں نظر آتا۔
مگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کیجیے کہ یہ آنکھ جو کچھ بھی ہے۔ وفادار ضرور ہے! اس کا پانی مَرا نہیں! یہ جس دسترخوان پر بیٹھ کر راتب کھاتی ہے اُس دسترخوان کا ساتھ ضرور نبھاتی ہے خواہ اس راستے میں وطن اور اہلِ وطن کا تیا پانچہ ہوجائے۔ اسے جہاں سے منصب کی خیرات ملتی ہے‘ جہاں سے چیتھڑوں کی پرورش کے لئے اشتہارات کی بھیک ملتی ہے‘ جہاں سے سرکاری دوروں کی سعادت نصیب ملتی ہے‘ اسے یہ آنکھ ہر حال میں یاد رکھتی ہے۔ وطن دوستی بھاڑ میں جائے‘ ایمان کی کون رکھوالی کرے‘ عزت نفس پر دو حرف! وفاداری نبھانا ضروری ہے! لکھنؤ کے شرفا ملازم سے ناراض ہوتے تھے تو نمک حرام نہیں کہتے تھے‘ نمک فراموش کہتے تھے سو یہ آنکھ نمک فراموشی کا ارتکاب نہیں کرتی۔ یہ اپنے مربّی کو نہیں بھولتی۔ یہ مربی ہی تو اسے لوئر کلاس سے اٹھا کر اَپر کلاس تک لے جاتا ہے! کبھی وزیر بناتا ہے‘ کبھی مشیر! کبھی سینٹ کی نشست کے لئے نامزد کرتا ہے۔
آفرین ہے اس یرقان زدہ بیمار آنکھ پر جس کے کونے سے گندہ مواد قطرہ قطرہ رخسار پر گر کر پھیل رہا ہے۔ دیکھنے والے کو ابکائی آتی ہے۔ کوئی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے‘ کسی کو یہ منظر دیکھ کر جی متلانے لگتا ہے۔ مگر آنکھ کو کسی کی پروا نہیں! عزت‘ نام‘ نسب سب دسترخوان کے نمک پر قربان! ع وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
ہاں ! ایک مسئلہ ٹیڑھا ہے۔ وہ دن بھی آنا ہے جب یہ آنکھ‘ آنکھ والے کے خلاف گواہی دینے لگ جائے گی! ہائے ہائے! کیا انوکھا دن ہو گا! جسم کے اعضا مخالف ہو جائیں گے ؎
یہ آج حُسن ہے جس کا شریک سازش میں
یہ نازنین بنے گی کبھی گواہ مری بگ
No comments:
Post a Comment