Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 28, 2010

پیش ِ مادر آ

چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا ہے تو اس لئے کہ وہاں ایک صحت مند معاشرہ ہے۔ مقتدر طبقات قوم کا درد رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے جہاں اہل اقتدار اور صرف اہل اقتدار نہیں، سارا بالائی طبقہ، ساری اپر کلاس لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو وہاں زبان پر توجہ کون دیگا؟ قوم کس زبان میں گفتگو کر رہی ہے اور کس زبان میں تعلیم حاصل کر رہی ہے؟ ان سوالوں پر تو وہ حکمران سوچتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا قوم ہو اور اپنی ذات کو انہوں نے پوٹلی میں بند کر کے ایک کونے میں رکھ دیا ہو!

چین کے حکمران قانون سے ماورا نہیں، انکی دولت غیر ملکی بنکوں میں ہے نہ انکی جائیدادیں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انکے پاس بس اتنا ہی ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا کھا لیں اور باعزت لباس پہن سکیں، ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو صرف قوم کی اقتصادیات اور دفاع کے بارے میں ہی نہیں قوم کی ثقافت، تہذیب اور زبان کے بارے میں بھی فکر مند ہوتے ہیں اسی لئے تو چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا۔

چین کی حکومت نے اخباروں، اشاعت گھروں، ویب سائٹوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو حکم دیا ہے کہ چینی زبان بولتے اور لکھتے وقت غیر ملکی زبانوں کے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں خاص طور پر انگریزی زبان کے۔ انگریزی پر یا کسی بھی زبان پر کوئی پابندی نہیں۔ غیر ملکی زبانوں میں لکھا بھی جا سکتا ہے اور بولا بھی جا سکتا ہے لیکن چینی زبان میں دوسری زبانوں کے پیوند لگانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ چین میں انگریزی زبان سیکھنے اور سکھانے کا چلن عام ہو گیا ہے اس کا اثر چینی زبان پر اس طرح پڑا ہے کہ چینی میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہو گئی اور ایک نئی زبان ’’چنگلش‘‘ ابھرنے لگی ہے ۔ چین کی حکومت نے اس رجحان کے آگے بند باندھ دیا ہے اس کا موقف یہ ہے کہ اس رجحان سے چینی زبان خالص نہیں رہ سکے گی اور ثقافت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ چین کی نئی نسل کو تو انگریزی زبان کے استعمال سے کوئی کوفت نہیں ہو رہی تھی لیکن بڑی عمر کے چینی انگریزی زبان کے الفاظ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ چینی حکومت یہ صورتحال برداشت نہیں کر سکتی کہ عمر رسیدہ چینی اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جائیں اور ہونقوں کی طرح نوجوانوں کے منہ دیکھتے رہیں۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے باشندوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے حکم دیگی کہ عام شہری کو کسی غیر ملکی زبان میں خط نہ لکھا جائے؟ دکاندار کو انکم ٹیکس کے دفتر سے پنشنرز کو ڈاکخانے سے‘ رقم جمع کرانے والے کو بنک سے مقروض کو ہاؤس بلڈنگ کارپوریشن سے اور انعام یافتہ فنکار کو وزیراعظم کے دفتر سے ملنے والا خط انگریزی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ اب وہ ایک ایسے شخص کو ڈھونڈتا ہے جو اسے اسکی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھائے کہ متعلقہ ادارے نے کیا لکھا ہے؟ انیسویں صدی میں جب برطانوی استعمار نے فارسی اور اردو کی سرکاری حیثیت ختم کر کے انگریزی زبان نافذ کی تھی تو ہمارے عالم فاضل راتوں رات جاہل ہو گئے تھے اور ذلیل و رسوا کر دیئے گئے تھے۔ برطانوی استعمار رخصت ہوا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تلافی کی جائے لیکن ذلت اور رسوائی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اب سائل افسر کے سامنے حاضر ہوتا ہے تو افسر سائل کی موجودگی میں اپنے ماتحت سے فرنگی زبان میں بات کرتا ہے تاکہ معاملے کی اصل نوعیت سائل پر واضح نہ ہو سکے اور وہ سرخ فیتے کے چکر میں الجھا رہے یہ بدتہذیبی وہ سرکاری ملازم کر رہا ہوتا ہے جو اسی سائل کے دیئے ہوئے ٹیکس سے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے دنیا میں کتنے ملک ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی زبان پس پشت ڈالی دوسروں کی زبان اپنائی اور پھر ترقی بھی کی؟ دس؟ پندرہ یا درجنوں؟ نہیں! کسی ایک ملک نے بھی دوسروں کی زبان کا سہارا لیکر ترقی نہیں کی۔ کی بھی نہیں جا سکتی، ترقی خواندگی سے ہوتی ہے اور خواندگی اپنی زبان سے حاصل ہوتی ہے۔ کل جاپان کی مصنوعات دنیا پر چھائی ہوئی تھیں آج چین نے عالمی منڈی کو مٹھی میں جکڑا ہوا ہے۔ فرانس اور برطانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں روس آج بھی عملاً وسط ایشیائی ریاستوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ جرمنی کی اقتصادی طاقت کے سامنے امریکہ لرز رہا ہے اور تو اور مکاؤ اور تائیوان جیسے ننھے منے ملک پوری دنیا کو اپنی برآمدات سے بھر رہے ہیں۔ آخر ان میں سے کس ملک نے اپنی زبان کو چھوڑا؟ کیا فرانس اور جرمنی نے کبھی کہا ہے کہ انگریزی ’’بین الاقوامی‘‘ زبان ہے اور ہمارا اسکے بغیر گزارا نہیں ہوتا؟

کیا جاپان اور چین کے سکولوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہے؟ ترکی یورپی منڈی کا رکن بننے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے کیا اس نے اس سلسلے میں کسی یورپی زبان کیلئے اپنے دروازے کھولے ہیں؟ تو پھر وہ خزاں رسیدہ دماغ جو ایک عرصہ سے سوچ رہے ہیں اور وہ آبلوں سے بھری ہوئی زبانیں جو باسٹھ برسوں سے کہہ رہی ہیں کہ ترقی کا راز انگریزی میں ہے کس برتے پہ یہ راگ مسلسل الاپے جا رہی ہیں؟

انگریزی کو ذریعہ اظہار اور ذریعہ تعلیم بنا کر آپ نے کون سی ترقی کر لی؟ کتنی سائنسی ایجادات کر لیں؟ معاشیات کے کتنے نظریات آپکے حوالے سے یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں؟ اور سرجری سے لیکر جان بچانے والی ادویات تک کس میدان میں آپ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے؟

آپکی تو یہ حالت ہے کہ برقی روشنی ناپید ہے، شہر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، کھانے کو آٹا ہے نہ چینی، دودھ اور شہد سے لیکر کار، فریج، گھڑی، موبائل فون، ائرکنڈیشنر، ٹیلی ویژن، ادویات، بال پین اور گھڑی تک سب کچھ دوسرے ملکوں سے خرید رہے ہیں۔ باسٹھ سال سے انگریزی کو آپ نے اس قوم پر مسلط کیا ہوا ہے۔ کیا سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے امتحان اور کیا افسر پیدا کرنیوالے مقابلے کے امتحان! ہر جگہ انگریزی کی حکمرانی ہے اسکے باوجود آپکے حکمران اور آپکے منتخب نمائندے انگریزی زبان ہی نہیں بول سکتے اور بولتے ہیں تو دنیا ہنس ہنس کر دُہری ہو جاتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ عبرت ناک حالت کسی قوم کی ہو سکتی ہے؟ اسی لئے تو اس بڑے شاعر نظامی گنجوی نے کہا تھا…؎

کلاغی تگِ کبک را گوش کرد

تگِ خویشتن را فراموش کرد

کوے نے ہنس کی چال اپنائی اور اپنی چال بھی بھول گیا لیکن وہ دیکھیئے اردو اپنی باہیں پھیلائے آپ کو بُلا رہی ہے اور زار زار رو کر کہہ رہی ہے…؎

دستِ ہر نا اہل بیمارت کند

پیش مادر آ  کہ تیمارت کند

غیروں کے ہاتھ میں بیمار ہو رہے ہو، آؤ ماں کے گلے لگ جاؤ وہی تمہاری تیماری کر سکتی ہے۔

7 comments:

مکی said...

درد مند سدا سے لکھتے آرہے ہیں اور لکھتے رہیں گے مگر یہاں کسی کے کانوں جوں نہیں رینگنے والی.. آپ نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی.. حکومت سے تو کوئی امید نہیں ہاں اگر ہر شخص اپنی سی کوشش کرتا رہے تو صورتحال بدلی جاسکتی ہے یا کم از کم اس میں فرق تو ڈالا ہی جاسکتا ہے..

جزاک ربی احسن الجزاء

Shakir said...

آپ کی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ میرے محدود علم کے مطابق اردو کبھی بھی برصغیر کی سرکاری زبان نہیں رہی۔ پہلے فارسی تھی، پھر انگریزی آگئی۔ اردو کو البتہ ان ڈیڑھ دو صدیوں میں، خاص طور پر انیسویں صدی میں سرکاری زبان بنانے کی انفرادی اور محدود اجتماعی کوششیں ضرور ہوئیں۔ فرہنگیں، لغات وغیرہ تیار کی گئیں لیکن ان کو ہمیشہ حکومت کی نیم دلانہ یا بالکل ہی صفر سپورٹ حاصل رہی ہے۔

خاور کھوکھر said...

پوسٹ کے پہلے پیرے میں جو لکھا ہے که چین میں قانون سب کے لیے ایک جیسا هے تو
جی ایسا نہیں هے
چین ميں ڈومیسائل کی دو قسمیں هیں
دیہاتی اور شہری
دیهاتی لوگ شہر میں آ اور جا سکتے هیں لیکن جائداد کی خرید یا کاروبار نهیں کرسکتے
جسا که دیہاتی چینی لوگ باهر کے ممالک میں کام کے لیے جاتے هیں اور ویزے کے لیے پاکستانیوں جیسے طریقے تلاش کرتے هیں
لیکن شہری چینی انہی ممالک میں سیر کے لیے جاتے هیں
اور ایک دن میں لاکھوں ڈالر جوئے میں اڑا دیتے هیں اور لمبی لمبی شاپنگیں کرتے هیں
باقی اپنی زبان کو پاک رکھنے کی کوشش اچھی هے
ورنہ شہری اور دیہاتی کا فرق اور بھی بڑھ جائے گا
چین میں

افتخار اجمل بھوپال said...

ميں نے تيس پنتيس سال قبل ايک پراجيکٹ چينيوں کے ساتھ مل کر کيا تھا ۔ ہم ميں تو اس قوم کا عشرِ اشير بھی نہيں ۔ وہ باتيں نہيں کرتے بلکہ کام کرتے ہيں اور ہم صرف باتيں بناتيں

sadia saher said...

یورپ میں اپنے ملک کی زبان کے ساتھ انگلش بھی لازمی ھے اس کے علاوہ فرنچ یا سپینیش پڑھائ جاتی ھے مگر بات اپنی مقامی زبان میں کرتے ھیں فرانس اور جرمنی میں اگر آپ انگلش میں اچھی طرح بات کر سکتے ھیں مگر جرمن یا فرنچ ٹوٹی پھوٹی آتی ھوگی تو پھر بھی لوگ کوشش کرینگے آپ ان کی زبان میں بات کریں انھیں سمجھنے میں مشکل ھوتی ھے مگر وہ چاھتے ھیں لوگ ان کی زبان بولیں - کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک کارٹون سریل شروع ھوئ جس میں کچھ الفاظ اور لہجہ صحیح نہیں تھے جیسے سڑکوں کی زبان کہہ سکتے ھیں جیسے پاکستان میں ابے اؤئے کہتے ھیں لوگوں نے طوفان اٹھا دیا کہ ان کے بچوں کی زبان خراب ھو رھی ھے چھوٹے بچے اس عمر میں الفاظ کا زخیرہ اکھٹا کر رھے ھوتے ھیں جو ساری عمر ان لے لب و لہجے پہ اثر انداز ھوتا ھے ۔ پاکستان کے بعض ڈراموں میں اردو بھی وہ بولی جاتی ھے جو ادبی نہیں کہلا سکتی ابے اؤئے کہنا ایک نارمل بات ھے

sadia saher said...

آپ کو نیا سال بہت بہت مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے فیس بک چھوڑ دی ۔۔۔ وہاں شاعروں کا جمعہ بازار لگا ھوا ھے ایک اینٹ اٹھاؤ تو درجنوں شاعر بر آمد ھوتے ھیں ۔۔۔۔۔
اتنے شاعروں کو دیکھتے ھوئے لگتا ھے صرف اردو ھی نہیں ادب سے بھی لوگوں کا لگاؤ بڑھ رھا ھے -
اس وقت میں رحمان ملک کی تلاوت سن کر ایمان تازہ کر رھی ھوں -------

اظہار said...

سعدیہ
شکریہ
نئے سال کی آمد پر آپ کو اور اپنے پڑھنے والے دوسرے دوستوں کو بھی مبارک باد

اظہار

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com