Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 20, 2010

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

اگر ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں اور سوئی کے سوراخ سے اونٹ گذر سکتا ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان کے چار فوجی آمروں کی پشت پر صرف جرنیل، جج اور پریس تھے اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سعدی نے غلط کہا تھا…؎



گر نہ بیند بروز شپر چشم



چشمۂ آفتاب را چہ گناہ



یعنی اگر چمگادڑ دن کے وقت نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟



یہ 2004ء کی جنوری تھی‘ حج کے ایام تھے۔میں حرم کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا۔ پاس ایک خان صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہاں سے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے آدھا راولپنڈی کا ہوں اور آدھا خوست کا کیونکہ تعلق خوست سے ہے اور جائیداد پنڈی میں ہے۔ مجھے شرارت سوجھی، پوچھا خان صاحب! خدانخواستہ اگر ایسا وقت آیا کہ آپکی وفاداری کو افغانستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو آپ کس کو چنیں گے؟ خان صاحب نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا اور ایک عجیب یقین کے ساتھ کہا کہ ایسا وقت کبھی نہیں آئیگا۔



میں نے انشاء اللہ کہا اور مجھے ان پڑھ افغان کی پاکستان سے محبت پر یقین آ گیا۔ یہ واقعہ پانچ سال کے بعدمجھے آج مسلسل یاد آ رہا ہے اور ساتھ ہی اقبال کی نظم کی یہ سطریں بھی…؎



تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج



عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان



اے غافل افغان



لیکن اگر آپ پڑھے لکھے ہیں اور قانون ساز ادارے کے رکن ہیں اور صحافت کے مرغزار میں بھی سبک خرامی کر رہے ہیں اور ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کو چننا پڑے تو عقل مندی اسی میں ہے کہ ان لوگوں کا ساتھ دیں جو قانون ساز ادارے میں آپکے ساتھی ہیں۔ میڈیا اگر حق پر بھی ہے تو اس کا ساتھ دینا گھاٹے کا سودا ہے۔ اور یہی ہوا ہے۔ ارکان اسمبلی کے معزز رفیق کار نے ’’الا بلا برگردن شما‘‘ سارے کا سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا ہے۔



صحافیوں کو ’’میڈیا جہادیوں کا ٹولہ‘‘ قرار دیا ہے اور جعلی ڈگریوں کے حق میں بہت بڑی دلیل دی ہے کہ کیا جعلی ڈگریاں ٹیکس چوری کرنے سے بھی بدتر ہیں؟ اور اس ’’غیر جانب دارانہ‘‘ صحافت کا سہرا بھی نون لیگ کے سر ہے۔ فراق گورکھپوری بھی کہاں یاد آ گئے…؎



ہر ایک سے کہاں بار نشاط اٹھتا تھا



بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی



نہیں! حضور والا نہیں ! ایسا نہ کہئے کہ صرف جرنیلوں ججوں اور صحافیوں نے فوجی آمروں کو پیٹھ پر سواری کرنے دی۔ اس حقیقت سے ایک بچہ بھی بخوبی آگاہ ہے کہ آمروں کو فیصلہ کن سہارا سیاست دانوں نے دیا۔ کنونشن مسلم لیگ میں کون تھے؟



ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کن حضرات سے روشن تھی؟ ان میں سے اچھی خاصی تعداد تو آج بھی پارلیمنٹ میں زینت افروز ہے اور پیشانیوں پر عرقِ انفعال تک نہیں! پرویز مشرف کا زمانہ تو کل کی بات ہے۔ مٹھائیاں کس نے بانٹیں؟ نون لیگ کو چھوڑ کر راتوں رات واسکٹیں کس نے بدلیں؟ کیا قاف لیگ میں سیاست دان نہیں تھے؟ اور کیا پیٹریاٹ سیاستدان نہیں تھے؟ پکے سیاست دان اندر باہر سے سیاست دان، ان اہل سیاست نے آٹھ سال تک آمر کی وردی کو استری کیا اور کفش برداری کی۔ عیش و عشرت کے ہر جھونکے سے تمتع ہوئے اور بگٹی کے قتل سے لے کر امریکہ کو اڈے دینے تک اور پاکستانیوں کو فروخت کرنے سے لے کر لال مسجد کے قتل عام تک ہر مقام پر فوجی آمر کا ساتھ دیا ‘ یانہیں! حضور والا! اتنا اندھیرا بھی مناسب نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بقول غالب…؎



بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا



اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے



عذر گناہ بدتر از گناہ! جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں آنا اور غربت سے ماری ہوئی قوم کے کروڑوں اربوں روپے ہوا میں اڑا دینا ایسی اخلاقی پستی ہے جس سے زیادہ گہرا کوئی پاتال نہیں لیکن اس اخلاقی پستی کا دفاع کرنا تو حد سے گذر جانا ہے اور یہ کہنا کہ ’’جعلی ڈگریوں کا مسئلہ جسے اپنے آپ کو نیک سمجھنے والے میڈیا نے اچھالا ہے، کسی ایک سیاسی پارٹی کیلئے نہیں، پورے سیاسی نظام کیلئے خطرے کا الارم ہے‘‘ ایک ایسی بات ہے جو سچ پوچھئے تو بلیک میلنگ کی حدوں کو چھو رہی ہے تو کیا سیاست دان جو چاہیں کرتے رہیں؟ انہیں کچھ نہ کہا جائے؟ ورنہ پورا سیاسی نظام خطرے میں پڑ جائیگا؟



اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی تو سترھویں ترمیم سے وہ شق رخصت کر دی گئی جس کی رو سے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات لازمی تھے۔ یہ ایک سانحہ تھا۔ ہر درد مند پاکستانی نے اس پر احتجاج کیا۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ ہر طبقے کے نمائندوں نے اس ترقی ٔ معکوس کی مذمت کی۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اس کی مخالفت کی ہنسی اسوقت آئی جب احسن اقبال نے ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کیا کہ جاوید ہاشمی اور سعد رفیق نے غلط کیا۔ لیکن لگتا ہے پارٹی کی تسلی نہیں ہوئی۔ آج پھر کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں کون سا آئین ہے جو کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں؟ کیا امریکی آئین اس کا تقاضا کرتا ہے؟‘‘ امریکہ میں تو ایک ہی پارٹی کے اندر ہلیری کلنٹن اور اوبامہ میں مقابلہ ہوتا ہے۔



ہلیری ہار جاتی ہے اور اوبامہ اپنی پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار منتخب ہو جاتا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے؟ تقابل کرنا ہے تو پھر پورا کیجئے! اور پھر آخر اہل پاکستان نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ بلاول زرداری بھٹو، حمزہ شہباز شریف اور چودھری مونس الٰہی کو بھی حکمرانی کرنے دیں اور پھر انکے بچوں کو بھی!آخر چودھری نثار، جاوید ہاشمی، مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، حافظ حسین احمد اور مشاہد حسین پارٹیوں کے سربراہ کیوں نہیں بن سکتے؟ آسٹریلیا میں جولیا گلرڈ لیبر پارٹی کی سربراہ منتخب ہوئی ہے اور سعیدہ وارثی برطانیہ میں اپنی پارٹی کی قائد بنی ہے تو کیا ان ملکوں میں ’’سیاسی نظام‘‘تباہ ہو جائے گا؟



سارا الزام میڈیا پر اور مڈل کلاس پر؟ کہ ’’یہ صرف مڈل کلاس ہے جو میڈیا کے خبط میں مبتلا ہے اور اس نے سیاست دانوں کی ہوس زر اور نااہلی کو انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے! کہ مڈل کلاس نیکی کے زعم کا شکار ہے۔ خاص طور پر ووٹ نہ ڈالنے والی مڈل کلاس جو فوجی حکومتوں کے استقبال کیلئے تیار بیٹھی ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں سب برے ہیں۔ صرف ایک طبقہ اچھا ہے! یہاں عظیم صوفی شاعر ابو سعید ابوالخیر کی مشہور رباعی یاد آ رہی ہے…؎



گفتی کہ فلان زیادِ ما خاموش است



از بادۂ عشقِ دیگران مدہوش است



شرمت بادا! ہنوزِ خاکِ درِ تو



از گرمیٔ خونِ دلِ من در جوش است



تو نے کہا کہ ہم تیری یاد سے غافل ہیں اور کسی اور کے عشق میں گم ہیں! تجھے شرم آنی چاہئے، ہمارے خونِ دل کی گرمی سے تمہارے دروازے کی خاک تو ابھی تک جوش میں ہے!



جس مڈل کلاس کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی مڈل کلاس ہے جس نے 2008ء کے انتخابات میں نون لیگ کو ووٹ دیئے تھے اس لئے کہ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں عدلیہ کی آزادی کا پرچم تھا۔ اب اگر سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ مڈل کلاس جمشید دستیوں اور مستی خیلوں کوووٹ دینے گھروں سے نکلے تو یہ ذرا مشکل کام ہے اس لئے کہ مڈل کلاس تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اور اتفاق سے اصلی ڈگریاں رکھتی ہے!



بات وہ کہنی چاہئے جس میں منطق اور دلیل ہو اور سننے والا متاثر ہو۔ سوال یہ نہیں کہ ’’سیاسی طبقے‘‘ کو کیسے بچایا جائے۔



سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اخلاقی معاشی اور سیاسی پستی سے کیسے نکالا جائے۔ کسی ایک طبقے کو خواہ وہ میڈیا ہو یا سیاست دان فرشتہ صفت ثابت کرنا درست رویہ نہیں۔ جعل سازی ایک ناقابل معافی جرم ہے اگر میڈیا اس جرم کا مرتکب ہو گا تو وہ بھی مکافات عمل سے نہیں بچ سکے گا۔ ہم میں سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے کی جرأت ہونی چاہئے اور یہ جرأت بھی کہ اگر ہماری انگریزی تحریر میں ساغر کا ذکر ہو تو اسکے اردو ترجمے سے ہم یہ لفظ حذف نہ کریں…؎



کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں



نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com