نوواک جوکو وِچ‘ شہرِ سفید بلغراد میں 1987 ء میں پیدا ہوا۔باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا‘ دونوں یوگو سلاویہ مرحوم کے حصے تھے۔ یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے‘ دلچسپ بھی اور خونچکاں بھی۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔بارہ سال کاہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکادمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل‘ ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن‘ آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔
اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 ء میں‘ یعنی ماہِ رواں میں‘ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے '' آسٹریلیا اوپن‘‘ ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ٹینس کے شائقین کی نظریں اس شہر کی طرف ہیں۔ میلبورن آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا دارالحکومت ہے۔ وکٹوریا کی ریاستی ( یعنی صوبائی) حکومت نے جوکو وچ اور مٹھی بھر دوسرے کھلاڑیوں اور سٹاف کو کورونا کی لازمی ویکسی نیشن سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یہ استثنیٰ '' میڈیکل استثنیٰ‘‘ کہلاتا ہے؛ تاہم پانچ جنوری کو جب جوکووچ میلبورن کے ہوائی اڈے پر اترا تو آسٹریلیا بارڈر فورس نے ( جو ایک وفاقی محکمہ ہے) اسے ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وجہ یہ بتائی کہ جوکو وچ استثنیٰ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اصل میں کچھ ہفتے پہلے‘ سولہ دسمبر کو‘ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اس کے بعد وہ قرنطینہ میں بھی نہیں گیا۔بہر طور اس کا ویزا کینسل کر دیا گیا اور اسے اس ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اس قسم کے دوسرے مسافروں کو رکھا گیا تھا۔ جوکو وچ کے وکیل عدالت میں چلے گئے۔ دس جنوری کو آسٹریلوی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ جوکو وچ کو ہوٹل سے باہر جانے دیا جائے، مگر اس کے بعد جوکو وچ نے اعتراف کیا کہ ویزا کی درخواست میں اس نے غلط بیانی کی تھی۔ یہ اور بات کہ اس غلط بیانی کا ذمہ دار اس نے اپنے منیجر کو قرار دیا جس نے ویزا فارم بھرا تھا۔ چودہ جنوری کو وفاقی وزیر برائے امیگریشن نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جوکو وچ کا ویزا حتمی طور پر منسوخ کر دیا‘ اس لیے کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں تھا۔ جوکو وچ کے وکلا نے نظر ثانی اپیل کی مگر تین ججوں کے بنچ نے سولہ جنوری کو ان کی درخواست نا منظور کر دی۔ اسی رات جوکووچ آسٹریلیا سے چلا گیا۔
اس اثنا میں آسٹریلیا کی حکومت پر بے پناہ دباؤ پڑا۔ سربیا کی حکومت نے پُرزور احتجاج کیا۔ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی کھلاڑی کی حمایت میں نکل آئیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے سربیا نژاد افراد نے بھی زور لگایا مگر آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون‘ قانون ہے۔ کسی فردِ واحد کو قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا! اب یہاں جو سوال اٹھتا ہے اور جس کے لیے ہم نے یہ سارا قصہ بیان کیا ہے یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب '' نہیں‘‘ کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے! آپ کو یاد ہو گا جن دنوں امریکی تنظیم بلیک واٹر کا پاکستان میں شہرہ تھا کتنے ہی امریکی شہری ویزے کے بغیر پاکستان آتے جاتے رہے۔ کتنے ہی غیر ملکی پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں‘ گاڑیوں کو ٹکریں مارتے ہیں‘ پاکستانیوں کو زخمی کرتے ہیں‘ مار دیتے ہیں مگر قانون کی گرفت میں نہیں لائے جاتے۔ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ تو ایک ہے جو منظر عام پر آگیا‘ نہ جانے کتنے ریمنڈ ڈیوس پاکستانی قانون کا منہ چڑا کر چلے گئے۔ کتنے ہی یہیں رہ رہے ہیں۔
باعزت ملکوں کی بہت سی نشانیاں ہیں مگر دو نشانیاں خاص ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے شہریوں کی پوری دنیا میں حفاظت کرتے ہیں ! ایک ایک شہری کی! قطع نظر اس کے کہ اس کا سٹیٹس کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ بڑے سے بڑے آدمی کے لیے‘ غیر ملکی ہو یا ملکی‘ قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں! اس ضمن میں ایک امریکی لڑکے‘ مائیکل پیٹر فے‘ کا مقدمہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لڑکا سنگا پور کے سکول میں پڑھتا تھا‘ اس کے جرائم کی پاداش میں‘ سنگاپور کے قوانین کی رُو سے‘ اسے چھ کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ امریکہ نے اپنے اس شہری کی حفاظت کے لیے پورا زور لگایا۔ امریکی سفارت خانہ‘ امریکی پارلیمنٹ‘ امریکی ایوانِ صدر‘ سب نے کوشش کی یہاں تک کہ صدر کلنٹن نے سنگاپور کے صدر کو فون کیا مگر سنگا پور کا موقف واضح تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ سنگاپور کے وزیر اعظم لی کؤان یئو نے اسی موقع پر کہا تھا کہ امریکہ محفوظ ہے نہ پُرامن کیونکہ مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔''بہر طور یہ آپ کا مسئلہ ہے‘ ہمارا طریقہ یہ نہیں‘‘۔ اتنا ضرور ہوا کہ سنگاپور کے صدر نے چھ کوڑوں کی سزا گھٹا کر چار کر دی مگر سزا دی گئی۔ امریکہ نے اپنے ایک عام شہری کے لیے صدارتی سطح تک بھرپور کوشش کی۔ سنگاپور نے اپنے قانون کی حفاظت کا حق ادا کیا۔ یہ ہے طاقتور جدید ریاستوں کا کردار !
غیر ملکیوں کو تو چھوڑیے‘ پاکستان کے تو اندر بھی دو طبقات ہیں۔ ایک وہ جن کا کوئی جرم معاف نہیں ہوتا۔ یہ کمزور طبقہ ہے۔ دوسرا وہ جو قتل کردیں یا اربوں روپے ہڑپ کر جائیں‘ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا! یہ بااثر طبقہ ہے۔ اخبار پڑھنے والے یا ٹی وی پر خبریں سننے والے بچے بچے کو اس دھاندلی‘ اس لاقانونیت‘ اس ظلم کا اچھی طرح پتا ہے۔ چار پانچ دن ہی تو ہوئے ہیں کہ خبر ملی ہے شاہ رخ جتوئی جیل کے بجائے ہسپتال میں ہے۔ یہ '' ہسپتال‘‘ ایک کوٹھی میں ہے جو بااثر خاندان نے کرایے پر لے رکھی ہے۔ لاہور کے زین کے قتل کا کیا ہوا؟ بااثر خاندان کا چشم و چراغ یوں محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان! کل ہی نور مقدم کے والد نے اپیل کی ہے کہ اس کی بیٹی کے قاتل کو موت کی سزا دی جائے۔ کیوں اپیل کی ہے ؟ اس لیے کہ پورا ملک اس سلسلے میں بے یقینی کی اذیت میں مبتلا ہے! آپ اور میں دس ہزار کا قرضہ بینک سے لیں اور‘ نادہند ہو جائیں تو بینک ایف آئی اے سے لے کر پولیس تک ساری مشینری ہمارے دروازے تک لے آئے گا۔ پورے خاندان کو ناکوں چنے چبوا دے گا‘ قبر تک پیچھا کرے گا۔ جائداد تک قرق ہو جائے گی۔ مگر چوراسی کروڑ کی نادہند خاتون کابینہ کی رکن بن کر اُس حکومت میں بیٹھی ہوئی ہے جس نے تبدیلی کے نام پر کروڑوں پاکستانیوں کا دل لبھایا تھا! اور ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ ہم ایک باعزت قوم اُس وقت بن پائیں گے جب کوئی مجرم‘ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ خواہ غیر ملکی ہو یا ملکی‘ ہمارے قانون سے بچ نہیں سکے گا ! اس ضمن میں ریاستِ مدینہ کا طرزِعمل کیا تھا؟ یہ ہم اگلی نشست میں بتائیں گے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment