یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ کچھ مہمان ایبٹ آباد سے آرہے تھے۔ آمد میں تاخیر ہوئی تو فون کر کے پوچھا کہ کہاں پہنچے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی صدر میں ہیں۔ پوچھا کہ سری نگر ہائی وے سے کیوں نہیں آرہے؟ یہ سری نگر ہائی وے وہی ہے جو پہلے کشمیر ہائی وے کہلاتی تھی۔ موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں آئینی طور پر ضم ہونے سے تو نہ روک سکی، ہاں وہاں کے لوگوں پر احسان کرتے ہوئے اس شاہراہ کا نام سری نگر ہائی وے رکھ دیا۔ بہرطور، مہمانوں نے بتایا کہ سری نگر ہائی وے بند ہے کیونکہ ایک یونیورسٹی کے طلبہ آپس میں برسر پیکار ہیں اور علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
میڈیا نے اس جنگ کی جو تفصیل بتائی اس کے مطابق یہ لڑائی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کے دو گروہوں میں ہوئی جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی کے ریکٹر نے اس لڑائی کی وجہ ایک اور لڑائی کو قرار دیا۔ یہ ''ایک اور‘‘ لڑائی قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے قائد اعظم یونیورسٹی کا سربراہ اپنے ہاں ہونے والی لڑائی کو پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی ''ایک اور‘‘ لڑائی کا نتیجہ قرار دیتا! اس سے اُس اعرابی کا قصہ یاد آرہا ہے جسے حجاج بن یوسف نے ایک دور دراز علاقے کا والی بنا دیا۔ ایک عرصہ بعد اس کے آبائی شہر سے ایک شخص آیا اور اس کا مہمان بنا۔ بھوک کی وجہ سے ساری توجہ مہمان کی کھانے پر تھی۔ والی نے اپنے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا: سب خیریت ہے‘ بس ذرا تمہارے کتے کی موت واقع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ اس طرح تھا:
''اسے کیا ہوا تھا؟‘‘
''تمہارے اونٹ کی ہڈی اس کے گلے میں پھنس گئی تھی‘‘
''تو کیا میرا اونٹ بھی مر گیا؟‘‘
''ہاں!‘‘
''مگر کیسے؟‘‘
''تمہاری بیوی کی قبر پر پانی ڈھوتے ڈھوتے، ضعف اور تھکاوٹ سے چل بسا‘‘
''آہ! میری بیوی بھی نہ رہی! وہ کیسے مری؟‘‘
''وہ تمہارے بیٹے کی موت کا صدمہ نہ برداشت کر سکی‘‘
''تو کیا بیٹا بھی نہ رہا‘ اسے کیا ہوا تھا؟‘‘
''مکان کی چھت کے نیچے آ گیا تھا‘‘
''کیا میرا مکان بھی گر گیا؟‘‘
''ہاں!‘‘
ایک سرکاری یونیورسٹی میں ہنگامہ ہوتا ہے۔ طلبہ زخمی ہوتے ہیں۔ ایک دو مار ے جاتے ہیں۔ پھر، گزشتہ سے پیوستہ، یہ فساد دوسری یونیورسٹی میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پھر تیسری میں! یہ طے ہے کہ سرکار سے یونیورسٹیاں نہیں چل پا رہیں! نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور انتظامیہ بھی مختلف دھڑوں سے وابستہ ہیں۔ کسی استاد کو برطرف کیا جا سکتا ہے نہ کسی طالبعلم سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ دوسرے شعبوں میں بھی حکومتیں بری طرح ناکام ہیں! سٹیل ملز کو کوئی حکومت حالتِ نزع سے نہیں نکال سکی۔ قومی ایئرلائن شرمندگی کا دوسرا نام ہو کر رہ گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ایئرلائنوں سے تو کیا مقابلہ ہوگا، ایئر انڈیا کے سامنے بھی کوئی حیثیت نہیں۔ ریلوے بھی سرکار سے نہیں چل پا رہی۔ پاکستان ریلوے کی جو حالت ہے، بچے بچے پر عیاں ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ چیست یارانِ طریقت! بعد ازین تدبیرِ ما۔
ان سب سفید ہاتھیوں کا ایک ہی علاج ہے:
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
ساری دنیا میں ایسے نیم مردہ ادارے نجی شعبے کو فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ ہماری حکومتوں سے الیکشن نہیں ہوتے، اسمبلیاں نہیں چلتیں، پولیس کنیز بنی، دوپٹہ ڈھونڈتی پھرتی ہے، ان سے ایئرلائنیں اور یونیورسٹیاں کیا خاک چلیں گی! کسی نجی یونیورسٹی میں کسی مذہبی، مسلکی، لسانی یا علاقائی بنیاد پر طلبہ کی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں! قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بارے میں جو رپورٹ پبلک کی اور ریکٹر پر جو الزامات لگائے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے، کسی نجی یونیورسٹی کے بارے میں ایسی رپورٹ ہوتی تو کیا وہاں بھی رپورٹ کا نتیجہ ایسی بے حسی کی صورت میں سامنے آتا؟ کیا ریکٹر صاحب کی کرسی اس کے بعد بھی بچ جاتی؟ غضب خدا کا! سرکاری یونیورسٹیاں مذہبی لسانی اور علاقائی جماعتوں کی بی ٹیمیں بن کر رہ گئی ہیں! پیسہ سرکار کا اور مفادات پارٹیوں کے! ایئر لائن یونینوں کے ہاتھ میں یر غمال بنی ہوئی ہے۔ ریلوے کو نوچا جا رہا ہے۔ لوہے سے لے کر زمینوں تک سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ اب ریلوے اس بے بس نانی کی طرح ہے جس کی مورنی کو مور لے گئے اور جو باقی بچا اسے کالے چور لے گئے۔ یہ بیمار ادارے نجی شعبے کو سونپیے، سیٹھ ایک ایک ہڈ حرام کو نکال باہر کرے گا! ایک ایک پیسے کا حساب لے گا‘ اور یہ جو ریٹائرڈ ریلوے ملازمین اور ان کے خاندان، مفت سفر کے ذریعے، آخری سانسوں تک ادارے کو نچوڑتے ہیں، اس غارت گری کو نجی مالک ہی ختم کر سکے گا۔ قومی ایئر لائن بھی مفت کا دسترخوان ہے۔ جہازوں کی تعداد شرمناک حد تک سکڑ کر دو تین درجن رہ گئی ہے مگر ملازمین اور ان کے خاندانوں کے مفت سفر جاری ہیں!
سفید ہاتھیوں کا ایک اور قبیلہ بھی دندناتا پھر رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جولائی 2016 میں سپریم کورٹ نے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا تھا۔ اس موقع پر اس خاکسار نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے ذمہ داروں کو غیرت دلائی تھی کہ ہتک عزت کا دعویٰ کریں اور فریاد کریں کہ اس اعزاز کے سزاوار تو وہ خود ہیں۔ یہ جو کرپشن، نااہلی اور یونین بازی کے مراکز ان ترقیاتی اداروں کے نام پر چل رہے ہیں، یہ کب تک ریاست کا خون چوستے رہیں گے؟ اور کب تک عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے؟ وفاقی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ، ایکسپریس ہائی وے، بدانتظامی اور نااہلی کا بدترین نمونہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اس کا کبھی معائنہ کیا ہے؟ کبھی اس پر سفر کیا ہے؟ کیا ہوتا تو شاہراہ کی سب لینوں (Lanes) پر ٹرکوں کا قبضہ نہ ہوتا‘ اور عوام سسک نہ رہے ہوتے۔ جس پل کی توسیع گزشتہ دسمبر تک مکمل ہو جانی تھی، اس کی تکمیل کے آثار اب بھی دور دور تک نہیں نظر آرہے! وجہ صرف یہ ہے کہ ان اداروں کے سربراہ عوام کو جواب دہ نہیں اور اپنے آپ کو لارڈ کرزن کی معنوی ذریت سمجھتے ہیں! یہ کسی شریف شہری کا فون تک سننے کے روادار نہیں! کوئی ہے جو حکومت کو سمجھائے کہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے ان نام نہاد ترقیاتی اداروں کو بیچ دے۔ یقین کیجیے ان اداروں کے سرکاری سربراہوں کو نجی شعبہ ایک دن بھی نہ برداشت کرے۔ ان کا تو ذاتی سٹاف چھ چھ آٹھ آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ آپ پانی کی تقسیم، کوڑے کرکٹ کا اتلاف، شاہراہوں کی تعمیرومرمت، مکانوں پر عائد ٹیکس کی وصولیابی اور اس قبیل کے دوسرے کام نجی شعبے کو سونپیے اور نتیجہ دیکھیے۔ نجی شعبہ اور نیم سرکاری نجی شعبہ، اس وقت بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہم سب کے سامنے چلا رہا ہے! یہ سوسائٹیاں کیا ہیں! بڑے بڑے شہر ہیں! یہاں کے مکین، بزنس کمیونٹی سب آرام سے رہ رہے ہیں! اس لیے کہ یہ شہر افسر شاہی کے چنگل سے دور ہیں!
حکومتیں کاروبار کر سکتیں تو سوویت یونین دردناک موت نہ مرتا!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment