Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, January 15, 2018

سوالات جن کے جواب شاید کبھی نہ ملیں


عمران خان میں کمزوریاں بہت ہیں اور نادانیاں بھی کم نہیں!غلط کام غلط وقت پر اور صحیح کام بھی غلط وقت پر کرنا اس کا معمول ہے ۔ابھی حضرت نے رومی اور ابنِ عربی کو سمجھنے کے لیے جو استاد چنا ہے ‘اس پر رومی اور ابنِ عربی خود حیران ہوں گے۔ مگر ان سارے منفی پہلوؤں کے باوجود ایک عنوان اس نے زبردست باندھا ہے ۔پنجاب کے حکمران اعلیٰ کو اس نے   ڈرامہ قرار دیا ہے تو اس سے زیادہ برمحل اور مناسب نام شاید فیضی’ابوالفضل ‘نظیری اور صائب بھی اٹھ کر آجاتے تو نہ دے پاتے ۔

ڈرامے کا تازہ ترین ایکٹ دیکھیے

وزیراعلٰی نے بچوں کے تحفظ کے لیے وزیر قانون رانا ثنا اللہ  کی   سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔ وزیراعلٰی کی جانب سے تشکیل دی گئی بیس رکنی کمیٹی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ۔کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر تعلیم ‘چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن اور آئی جی پنجاب بھی شامل ہیں ۔کمیٹی بچوں کے تحفظ،پولیس کے کام کا جائزہ اور آگہی مہم کے لیے سفارشات تیار کرے گی۔”

اب ڈرامے کا دوسرا ایکٹ دیکھیے:

“اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا اب تک کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہوں ۔زینب کے اندوہناک قتل کے ملزم جلد گرفتار کیے جائیں گے۔حیلے بہانے نہیں چلیں  گے۔ملزمان پکڑ کر حقائق سامنے لائے جائیں ۔متاثرہ خاندان کو ہر صورت انصاف کی فراہمی یقینی بنائے جائے گی ۔اور درندہ صفت ملزم کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔

تیسرا ایکٹ ملاحظہ فرمائیے:

“انہوں نے کہا فائرنگ کے باعث جاں بحق ہونے والے دو افراد کے کیس میں بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ملے گی ۔میں کیسوں پر ہونے والی پیشرفت کی ذاتی طور پر نگرانی کروں گا ۔

چوتھا ایکٹ بھی کچھ کم مزاحیہ نہیں :

“ وزیراعلٰٰی نے ہدایت کی کہ آئی جی روزانہ قصور جاکر کیسوں پر ہونے والی پیشرفت کا ذاتی طور پر جائزہ لیں ۔اس ضمن میں وہ میرا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ڈی جی پنجاب فرانزک ایجنسی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ آج ہی قصور پہنچیں “۔

پانچواں ایکٹ قہقہوں سے بھرپور ہے۔

“شہباز  شریف کے حکم پر قصور کو سیف سٹی بنانے کا آغاز کردیا گیا۔اور “پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی “کی جانب سے اہم مقامات پر کیمرے لگانے کے لیے سروے ٹیم قصور روانہ ہوگئی۔کیمروں میں ایسا سوفٹ وئیر لگایا جائے گا جو انسانی چہرے کو نمایاں کرے گا”۔

اگر شہباز شریف صاحب صوبائی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ان “اقدامات ‘ کا اعلان کرتے تو ان سے اس ضمن میں کچھ سوالات پوچھے جاتے ۔خدا نہ کرے صوبے کے حکمران اعلی اس عارضے کا شکار ہوں جسے  
 paranoiaکہا جاتا ہے 
۔اس میں انسان دوسرے انسانوں سے گریز کرنے لگتا ہے ۔عربی میں اسے جنون اشک اور جنون العظمت بھی کہتے ہیں ۔ وزیراعلٰٰی یا تو صرف یا تو ماتحتوں کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں جو ہر وقت دست بستہ رہ کر آمنا و صدقنا کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یا ان لوگوں کے ساتھ جو پوری طرح ہم خیال ہوں !وہ ایسے کسی شخص سے ملنا یا اس کی موجودگی نہیں برداشت  کرسکتے جو ان سے اختلاف کرے یا ان کے کسی اقدام کسی رائے یا کسی پالیسی کے بارے میں کوئی سوال اٹھائے۔ 
paranoia
کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ ننھی مقتولہ اور مظلومہ زینب کے گھر منہ اندھیرے “طلوع آفتاب سے پہلے گئے۔ غالباً اس “مناسب “وقت کا انتخاب اس لیےکیا گیا کہ کوئی انہیں وہاں جاتا وہاں سے واپس آتا دیکھ نہ سکے۔ کوئی سوال نہ کربیٹھے کچھ پوچھ نہ لے۔ اس لیے کہ وہ اس زعم میں ہیں کہ ان سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے کابینہ ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور صوبائی اسمبلی کو وہ اس قابل نہیں گردانتے کہ دیگر وزرائے اعلٰی کی طرح باقائدگی سے وہاں جائیں ۔ کارروائی سنیں ،دیکھیں ،اور حزب اختلاف کی تنقید برداشت کریں ۔

ہم روزنامہ92کی معرفت ان سے چند سوالات ‘بہت ادب کے ساتھ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں ۔یہ سوالات صوبے کے بلکہ پورے ملک کے ہر باشندے کے ذہن میں بھڑکتی آگ بن کر اٹھ رہے ہیں ۔

بچوں کے تحفظ کے لیے اگر کمیٹی بنانا مفید اور ضروری تھی تو وزیراعلٰی کیا تیرھویں بچے کے قتل کا انتظار کررہے تھے؟ کیا تہمینہ ‘ثنا’ ایمان فاطمہ’نور فاطمہ’فوزیہ بابر’لائبہ اور کائنات کے قتل اس کمیٹی کا محرک بننے کے لیے کافی نہ تھے؟

چائلڈ پروٹیکشن “بچوں کے تحفظ”کا محکمہ پنجاب میں کب سے قائم ہے؟اس پر ہر سال خزانے سے کتنی رقم خرچ کی جارہی ہے ؟یہ جو قصور میں تیرہ قتل ہوچکے ہیں اور یہ جو پنجاب سارے صوبوں میں بچوں کے اغوا اور قتل کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے تو اس ضمن میں اس محکمے نے اب تک کیا کردار اداکیا ہے؟ اگر اس محکمے کی موجودگی میں یہ سب ہورہا ہے اور مسلسل ہورہا ہے تو اس محکمے کا کیا جواز ہے؟

اگر بچوں کے اغوا اور قتل کی سراغ رسانی اور روک تھام پنجاب پولیس کے  ذمہ ہے اور پولیس کروڑوں روپے اس عوض قوم سے وصول کررہی ہے تو پھر کمیٹٰی کا کیا کام؟َ اور اگر یہ کام کمیٹی نے کرنا ہے تو پھر پولیس کا کیا جواز؟ کیوں نہ پولیس کے محکمے کو ختم کردیا جائے اور یہ کام کمیٹی سے ہی لیا جائے۔

یہ کمیٹی پولیس کے کام کا بھی جائزہ لے گی؟ اس میں خود آئی جی پولیس شامل ہیں ۔تو کیا وہ خود اپنی کارکردگی کاجائزہ لیں گے؟

یہ جو وزیراعلٰی نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل جلد گرفتار کیے جائیں گےاور حقائق سامنے لائے جائیں گے اور یہ کہ متاثرہ خاندان کو ہر صورت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی’تو سوال وزیراعلی سے مودبانہ یہ  پوچھنا ہے کہ کیا تہمینہ’فوزیہ’ بابر’لائبہ اور کائنابت کے خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے ؟ اگر نہیں بنائی گئی تو زینب کے خاندان کو فراہمی کس طرح ہوگی؟اور اگر اب یہ فراہمی ممکن ہے تو تہمینہ’فوزیہ’بابر ‘لائبہ اور ثنا کے خاندانوں  کے ساتھ وزیراعلٰی کی کیا دشمنی تھی؟ یہ فراہمی ان کے لیے کیوں نہ ممکن بنائی گئی؟۔

وزیراعلٰی نے کہا ہے کہ آئی جی کیسوں کی پیش رفت کا ذاتی طور پر جائزہ لیں یا اس کا مطلب ہے کہ وہ اب تک ذاتی طور پر جائزہ نہیں لے رہےتھے۔اگر لے رہے ہوتے تو وزیراعلی کو خصوصی حکم نہ دینا پڑتا۔آئی جی وزیراعلی کے حکم کا کیوں انتظار کررہے تھے؟ کیا انہیں اپنے فرض منصبی سے روگردانی کی سزا نہیں ملنی چاہیے؟ اگر ملنی چاہیے تو کیا وزیراعلی یہ سزا دے کر صوبے کی عوام کو اعتماد میں لیں گے؟

وزیراعلی نے حکم دیا کہ ڈی جی پنجاب فرانزک ایجنسی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ”آج ہی “قصور پہنچیں۔زینب کو قتل ہوئے آٹھ دس دن سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ڈی جی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ابھی تک قصور کیوں نہیں پہنچے؟ اور ایڈیشنل سیکرٹری ؟سیکرٹری داخلہ کس مرض کی دوا ہیں ؟ اب تک قصور نہ پہنچنے کی ان اہلکاروں کو کیا سزا دی جائے گی؟ کیا اس ضمن میں بھی وزیر اعلی عوام کو کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟

قصورکو سیف سیٹی بنانے کا آغاز کردیا گیا ہے اور اہم مقامات پر کیمرے لگانے کے  لیے سروے ٹیم قصور روانہ ہوگئی ہے ۔کیمروں میں ایسا سافٹ وئیر لگایا جائے گا جو انسانی چہرے کو نمایاں کرے گا۔

اس حکم کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قصور آج سے پہلے سیف سٹی نہیں تھا اور ان سیف غیر محفوظ تھا۔

اہم مقامات پر آج تک کیمرے نہیں لگائے گئے۔

سافٹ وئیر اب تک ایسا تھا کہ انسانی چہرے کو نمایاں نہیں کرسکتا تھا ۔یہ غیر نمایاں چہرہ اور کیمروں کی ناقص اور قابل مذمت کارکردگی ویڈیو کے ذریعے پوری قوم بلکہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔

کیا وزیر اعلی کیمرے نہ لگانے والوں اور ناقص سافٹ وئیر نصب کرنے کے ذمہ داروں کو سزا دے کر اس کا اعلان کریں گے؟

یہ وہ بارہ سوال ہیں جن کا جواب دینا وزیراعلی کے لیے لازم ہے۔ اس لیے بھی کہ اگر ان سوالوں کے جوابات قوم کو نہ دیے گئے تو عمران خان کی ڈرامہ والی بات باوزن ثابت ہوگی!

دو اضافی سوال وزیراعلی کو خود اپنےآپ  سے پوچھنے چاہئیں،پہلا سوال یہ ہے کہ پنجاب بچوں کے اغوا اور قتل میں دوسرے صوبوں سے آگے ہے۔صوبے کے اندر قصور کا پہلا سرگودھا کا دوسرا لاہور کا تیسرا شیخؤپورہ کا چوتھا رحیم یار خان کا پانچواں اور فیصل آباد کا چھٹا نمبر ہے ۔یہ کم و بیش وسطی پنجاب کے علاقے ہیں جن کے عوام مسلم لیگ نون کو انتخابات میں کامیاب کراتے رہے ہیں۔ کیا اس صورت حال پروزیراعلی کا ضمیر مطمئن ہے؟یا ملامت کرتا ہے؟

‘ دوسرا سوال یہ ہے کہ جس پولیس افسر نے زینب کے چچا کو حکم دیا تھا کہ “زینب” کی لاش دریافت کرنےوالے پولیس اہلکار کو دس ہزار روپے دے اور کہا تھا کہ میں نیچے نہیں اتروں گا کیوں کہ بدبو آرہی ہے۔ اس پولیس افسر کو وزیراعلی نے کیا سزادی؟اگر وہ سزا کا مستحق نہیں تو کیا اُسے اس ضمن میں کوئی تمغہ دیاجائے گا؟


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com