Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, January 17, 2018

کیا پنجاب صرف ایک شہر کا نام ہے؟


ضلع اٹک میں داخل ہونے کے چھ بڑے راستے ہیں۔ پہلا ٹیکسلااور حسن آباد کے ذریعے۔دوسرا راولپنڈی سے ترنول کے ذریعے۔تیسرا کے پی سے آتے ہوئے دریائے سندھ پار کرکے۔چوتھا کوہاٹ سے آتے ہوئے خوشحال گڑھ کے ذریعے(یاد رہے کہ خوشحال گڑھ کے مقام پر دریائے سندھ پر بنے ہوئے نئے پل کی تعمیر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اکتوبر2011میں شروع ہوئی تھی)پانچواں تلہ گنگ اور ڈھوک پٹھان سے ڈھلیاں موڑ کے راستے۔چھٹا ایبٹ آباد سے آتے ہوئے حسن ابدال کے ذریعے۔یوں تو موٹر وے بھی ضلع اٹک کو جھلک دکھاتی ہے مگر صرف چند کلو میٹر کے لیے!

میں تحصیل فتح جنگ اٹک کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔میں ان چھ راستوں سے اپنے پسماندہ غریب اور مفلوک الحال ضلع میں داخل ہوتا ہوں تو پوری کوشش کرتا ہوں کہ کوئی تبدیلی نظر آئے۔ترقی کا کوئی مظہر دیکھ سکوں۔ضلع میں کوئی نئی شاہراہ،کوئی ہسپتال،کوئی مثالی تعلیمی ادارہ،کوئی آئی ٹی کا تربیتی مرکز کہیں نظر آئے تو اس کی تعریف کروں مگر ایسی کوئی تبدیلی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔وہی شکستہ خاک اڑاتی سڑکیں،وہی دھول سے اٹے کچے راستے ضلع کے اطراف و اکناف میں سسکتے وہی سرکاری سکول، جن میں بیٹھنے کے لیے ٹاٹ تک نہیں،دیواریں ہیں تو استاد نہیں،پینے کا صاف پانی نہیں وہی سوز وکیوں کے پیچھے لٹکتی مخلوق۔وہی سرکاری ہسپتالوں میں ذبح خانوں کاسماں!

پرویز الٰہی کی پنجاب کی حکمرانی کے آخری ایام تھے۔اس دن اٹک کے ضلع ناظم میجر طاہر صادق فتح جنگ میں موجود تھے۔میں گاؤں کے معززین کا وفد لے کر انہیں ملا۔ ہم نے ان کی   خدمت میں دو درخواستیں پیش کیں۔ ایک 1940میں بنے ہوئے پرائمری سکو ل کو مڈل کی سطح تک لے جانے کی۔دوسری گاؤں کے ایک صاحب حیثیت صاحب نے چار کنال کی جگہ بھی حکومت کے نام کرادی تھی۔میجر طاہر صادق نے ہماری دونوں عرضداشتیں منظور کرلیں۔سکول عملی طور پر اپ گریڈ ہوگیا ڈسپنسری کے لیے بجٹ کا معاملہ تھا اس کے فوراً بعد شہباز شریف صاحب کی حکومت آئی اور سب سے بڑا کلہاڑا عوام پر چلایا گیا کہ ضلعی حکومتیں ختم کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کا فرسودہ نظام مسلط کردیا گیا صرف اس لیے کہ اضلاع تخت لاہورکے مسلسل محتاج رہیں۔اٹک کے ڈی سی او نے اس ڈسپنسری کے لیے بجٹ کا تخمینہ لاہور بھیجا جو دس سال سے وہاں پڑا ہے۔اس کالم نگار نے اور اس کے صحافی ساتھیوں نے میڈیا میں شہباز شریف صاحب کی منتیں کیں۔شور مچایا دہائی دی مگر کچھ نہ ہوا سوائے اس کے کہ شہباز شریف صاحب کے ایک محترم معاون نے ٹیلی فون کیا اور صرف اتنا کہا کہ ڈسپنسری کی منظوری ہم نے تو نہیں دی تھی،اسی دن اٹک کے اس وقت کے ڈی سی او نے اپنی طرف سے وضاحت کی کہ اس نے معاملہ لاہور بھجوا دیا تھا اپنے میڈیکل چیک اپ کے لیے سال میں بیسیوں بار لندن جانے والا حکمران ایک دور افتادہ گاؤں کی ڈسپنسری کے لیے چند لاکھ روپے نہیں دے سکا۔

چلیے میرے ضلع کو بھی چھوڑ دیجیے۔ڈسپنسری کو بھی چھوڑ دیجیے۔اگر ضلع ناظم مخالف پارٹی سے تھا تو اس کی منظور کردہ  ڈسپنسری کا بجٹ روک کر اپنی انا کو گنے کا رس ضرور پلائیے آپ راولپنڈی آجائیے۔میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر ایک جدید رہائشی کالونی میں رہتا ہوں۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالوں میں اور مسلم لیگ نون کے ان ساڑھے چار برسوں میں اسلام آباد ایک غلیظ بستی کی صورت اختیار کرچکا ہے اس میں اب صرف کروڑ پتی اور ارب پتی افراد عزت سے رہ سکتے ہیں جن کا صفائی کا،پانی کا اور پہریداری کا اپناذاتی انتظام ہے عام آدمی کے لیے یہاں صفائی ہے نہ پانی نہ حفاظت۔ہر سیکٹر کے لیے ڈاکوؤں کے مختلف گینگ ہیں جن افراد کی کاریں چوری ہوتی ہیں ان میں سے کچھ کو بعد میں اغوا کیا جاتا ہے۔اس لیے جس کا بس چلتا ہے وہ اسلام آباد کو چھوڑ کر دوسری جدید رہائشی کالونیوں میں اٹھ آتا ہے جہاں اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کا عمل دخل نہیں۔اس وقت سب سے زیادہ ٹریفک اس سڑک پر ہے جو روات چوک سے فیض آباد کے راستے اسلام آباد جاتی ہے۔اسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں۔یہ شاہراہ گوجرخان مندرہ،سوہاوہ،منگلا،جہلم،چکوال اور تمام نواحی علاقوں کے لاکھوں لوگوں کو ہر روز دارالحکومت لاتی اور واپس بھیجتی ہے۔پنڈی اسلام آباد کا سب سے بڑا شاپنگ مال سنٹر(پی ڈبلیو ڈی روڈ)اسی شاہراہ پر ہے جہاں پنجاب کے مذکورہ بالا مقامات سے لاکھوں ضرورت مند روزانہ آتے ہیں۔اس شاہراہ پر گلبرگ سوسائٹی نے اپنے خرچ سے پل تعمیر کرائے ہیں۔مگر گلبرگ سے لے کر روات تک یہ شاہراہ بدترین ٹریفک جام کا ہرروز نمونہ پیش کرتی ہے لوگوں نے میڈیا میں منتیں کر ڈالیں مگر وفاقی حکومت ٹس سے مس ہوئی نہ پنجاب حکومت!مانا یہ شاہراہ کاغذی طور پر وفاق کے پاس ہے مگر اس سے فائدہ پنجاب اٹھا رہا ہے۔دوسرے یہ کہ اگر پنجاب کے وزیرا علی دارالحکومت میں میٹرو بس چلا سکتے ہیں اگر وہ وفاق کی طرف سے قطر سے گیس لاسکتے ہیں اگر وہ ترکی میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں اپنے وزیراعظم کو اپنے پیچھے کھڑا کرسکتے ہیں اگر وہ خواجہ آصف کی وزارت میں اتنا دخل دے سکتے ہیں کہ خواجہ صاحب کابینہ میٹنگ میں پھٹ پڑیں تو چند میل کا یہ ٹکڑا بھی کُھلا سکتے ہیں۔

حاشا وکلا ہمیں شہبا ز شریف صاحب سے کوئی دشمنی نہیں!ہمارا ان کا کیا مقابلہ!وہ بادشاہ ہم رعایا۔وہ حاکم ہم محکوم۔انہوں نے راولپنڈی سلام آباد میں میٹرو بس چلائی۔اس کالم نگار نے اس کی تعریف میں کالم لکھے۔ یہ اور بات کہ پانچ میں سے صرف ایک رُوٹ پر میٹرو چلائی گئی ہے۔لیکن اگر وہ لاہور کو کوئٹہ پشاور اور کراچی کے مقابلے میں آسمان پرلے گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پنجاب میں بہتری آگئی ہے۔پنجاب لاہور نہیں۔نہ ہی لاہور پنجاب ہے۔لاہور تخت لاہور تو ہوسکتا ہے،پنجاب نہیں ہوسکتا۔

رہی یہ حقیقت کہ تعلیم صحت اور صاف پانی کے لیے پنجاب میں کچھ نہیں کیا گیا۔تو یہ با ت سب مانتے ہیں۔مگر پھر پنجاب سپیڈ کا نعرہ بھی نہ لگایا جائے۔کیا اس میں کوئی شک ہے  کہ قصور میں سینکڑوں بچوں کی گندی فلمیں بنانیوالوں کوکوئی سزا نہیں ملی۔بلکہ کل ارشاد عارف صاحب نے اس اڑتی خبر کا ذکر کیا ہے کہ ان میں سے کچھ ملزموں کواستاد کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔
شہباز شریف صاحب پر ایسی کتابیں لکھی جارہی ہیں جن میں انہیں (معاذ اللہ نقل کفر کفر نہ باشد)حضرت عمر فاروقؓ سے تشبیہ دی جارہی ہے۔معلوم نہیں اس درجہ خوشامد کرنے والوں کے منہ میں شہباز شریف صاحب نے مٹی ڈالی ہے یا نہیں۔کیونکہ جن عمر فاروق اعظم ؓ سے انہیں تشبیہ دی جارہی ہے ان کی ایک صاحب نے خوشامد کی تھی تو آپ ؓ نے جھک کر زمین سے مٹھی میں مٹی اٹھائی اور  خوشامد کرنے والے کے منہ میں ڈال دی۔یہ وہی فاروق اعظمؓ ہیں جو فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا بھی ذمہ لیتے تھے۔کیا عمر فاروقؓ کے گھر پر بھی ہزاروں پہریدار تھے جو تنخواہیں حکومت سے لیتے تھے اور کیا ان کے گھر کے ارد گرد گلیاں برسوں سے عوام کے لیے بند تھیں؟پہلے شہباز شریف صاحب اس شیر شاہ سوری جیسے تو ہولیں جو حضرت عمر ؓ کی خاک پا کے برابر بھی نہ تھا۔جس کے زمانے میں کسی گاؤں میں قتل ہوتا توقاتل نہ ملنے کی صورت میں نمبردار کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔جس دن قصور میں پہلی بچی آبروریزی کے بعد قتل کی گئی اس دن وزیراعلی قصور میں خیمہ زن ہوجاتے اور قاتل کو پھانسی دینے سے پہلے واپس نہ جاتے تو یہ کالم نگار انہیں سلام کرتا اور ان کی تعریف کرتا اگرچہ وہ ایک غریب شخص کے سلام کے محتاج ہیں نہ تعریف کے۔مگر میں تو عقیدت کے پھول ضرور نچھاور کرتا۔وہ کمیٹی بناتے بھی ہیں تو بارہ بچوں کے قتل کے بعد۔وہ بھی اس لیے کہ ملک میں طوفان آگیا ہے اور کمیٹی میں اسی پولیس کے سربراہ کو رکھتے ہیں جس کا افسر زینب کے چچا سے مبینہ طور پر بدبو کی شکایت کرتا ہے اور زینب کے چچا کو حکم دیتا ہے کہ لاش ڈھونڈنے والے اہلکار کو دس ہزار روپے دے۔"باخبر"وزیراعلی کویقیناً اس کا علم نہیں ورنہ وہ اس پولیس افسر کو ضرور نشان عبرت بناتے!شہباز شریف صاحب غریب عوام کو خونی انقلاب سے اکثر ڈراتے ہیں۔وہ حبیب جالب کی انقلابی شاعری بھی گا کر پڑھتے ہیں۔انہوں نے یہ خبر ضرور پڑھی اور سنی ہوگی کہ دو دن پہلے ان کے صوبے پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایک ایم این اے نے صرف اس لیے بس کے ڈرائیور کو گالیاں دیں،بس سے باہر نکا ل کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پولیس کو "حکم"دے کر اسے حوالات میں بند کرادیا کہ اس نے رش والی ٹریفک میں ایم این اے کی گاڑی کو کراس کرتے وقت ہارن دیا تھا۔ایم این اے نے پولیس کو دھمکی دی کہ ڈرائیور کو چھوڑا تو وردیاں اتروا دوں گا۔بس کے مسافروں کو سامان بھی نہیں دیا گیا کہ "جب تک سردار صاحب حکم نہیں دیتے کسی کو سامان نہیں مل سکتا"!

خونی انقلاب سے ڈرانے والے اور حبیب جالب کی انقلابی نظمیں گانے والے وزیراعلی اس واقعہ کے بعد کیا کریں گے؟کیا وہ ایم این اے کو اس ظلم اور  دھاندلی کی سزا دیں گے؟کیا وہ صوبے کی حکومت کی طرف سے اور خادم اعلی کی حیثیت میں اسے قانون کے حوالے کریں گے؟ اس قسم کے واقعات پہلے بھی پیش آئے مگر کچھ نہیں ہوا۔تھانے پر حملے کرا کر ملزم چھڑا لیے گئے اور تخت لاہور کا کوئی پایہ نہ لرزا۔اگر اب اس واقعہ پر بھی کوئی انصاف نہیں ہوتا،کوئی عبرت ناک سزا نہیں دی جاتی تو پھر کیا خونی انقلاب اور کیا حبیب جالب کی انقلابی شاعری!سب ڈرامہ ہے!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com