Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, January 21, 2018

پارسائی کے پیکر


بے لوث،بے غرض،نیکوکاروں کا یہ گروہ ملک ملک پھرا،دیس دیس گھوما،ہر براعظم کی خاک چھانی،تمام بڑے بڑے ملکوں میں گیا مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔
پھر ایک دن تھک ہار کر اس گروہ کے ارکان بیٹھ گئے۔مایوس،نامراد۔ان کے سربراہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اس زمانے میں جس بلند سطح کے اولیا کو ڈھونڈ رہے ہو ان کا ملنا نا ممکنات میں سے ہے۔ تم کہتے ہو ہمیں ایسے پارسا لوگ دیکھنے کی حسرت ہے جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔جو جھوٹ نہ بولتے ہوں،چوری نہ کرتے ہوں،جو فرش خاک پر سوتے ہوں جو دنیا اور دنیا کے مال و اسباب کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے ہوں ایسے لوگ اس زمانے میں نہیں مل سکتے۔تم ان کی تلاش میں اپنی زندگی کے دن گنوا رہے ہو۔
مگر مستقل مزاج درویشوں کا یہ گروہ اپنی ہٹ پر قائم رہا۔
درویشوں کے اس گروہ کو پوری امید تھی کہ دنیا میں قرون ِ اولیٰ کے نیکوکاروں جیسے لوگ اب بھی موجود ہیں ورنہ دنیا ختم ہوچکی ہوتی ان کا اس بات پر پختہ ایمان تھا کہ جب تک دنیا میں ایک بھی پارسا موجود ہے۔دنیا کا سلسلہ چلتا رہے گا۔انہوں نے تلاش جاری رکھی۔انہوں نے کینیڈا اور سائبیریا کے برف زار چھانے۔برازیل   اور ارجنٹینا کے جنگلات پھرے۔
ڈینوب اور نیل کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلے۔جاپان کے دور افتادہ جزیروں میں گئےفجی ہوائی اور کک آئی لینڈ تک ہوآئے ۔افریقہ کے وحشی قبائل سے ملے،شرق اوسط کے ریگزاروں میں مارے مارے پھرے۔چین اور منگولیا گئے مگر جن فرشتہ خصلت لوگوں کو دیکھنے کی تمنا دل میں لیے ایک ایک سانس گن رہے تھے وہ فرشتہ خصلت لوگ نہ مل سکے۔

ایک بار پھر اجلاس ہوا’مباحثہ ہوا’لیڈر نے پھر سمجھانے کی کوشش کی مگر نوجوان راہب عزم کے پکے تھے۔پہاڑ جیسے ارادے کے مالک اب کے انہوں نے ایک اور حیلہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنے گروہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور طے کیا کہ ایک گروپ مشورہ کرنے کے لیے اور رہنمائی طلب کرنے کے لیے پوپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ دوسرا گروہ اسلامی دنیا کی قدیم ترین درسگاہ ازہر یونیورسٹی میں جاکر شیخ الازہرکا دروازہ کھٹکھٹائے گا ۔انہیں امید تھی کہ یہ دونوں بزرگ ان کی مدد کریں گے۔
پہلا گروہ روم پہنچا ویٹیکن گیا۔ پوپ سے ملاقات کے لیے کئی دن انتظار کرنا پڑا ۔وہ جنوبی افریقہ کے دورے پر تھے۔واپس تشریف لائے۔گروہ سے ملے ۔گروہ کے رہنما نے کہا۔
“اے پوپ! آپ مسیحی مذہب کے روحانی رہنما ہیں ‘ یہ ایک آسمانی مذہب ہے۔آپ ہماری مدد کیجیے۔ہم نوجوان اس دنیا میں اس زمانے میں ان لوگوں کو دیکھنااور ملنا چاہتے ہیں جو اگلے وقتوں کے اولیا کی زندہ جاگتی تصویریں ہوں ۔ہمیں ہر ایک نے ناامید کیاہمیں بار بارکہا جاتا ہے کہ تم ناممکن کی تلاش میں ہو۔مگر ہمیں یقین ہے کہ دنیا قائم ہے تو ضرور ایسے لوگ کہیں نہ کہیں موجود ہیں !
پوپ نےان  کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا میرے بچو!خدا تمہاری مراد پوری کرے۔تم سچ کہہ رہے ہو یہ گروہ دنیا میں موجود ہے ۔بالکل موجود ہے۔ ضرور بالضرور موجود ہے۔پھر پوپ نے انہیں اس گروہ کا پتہ بتایا۔

دوسرا گروہ قاہرہ پہنچا۔جامع ازہر گیا۔معلوم ہوا شیخ الازہر کو مصر کے صدر نے ریاستی امور میں مشورہ کرنے کے لیے ایوان صدر میں بلایا ہوا ہے۔ بہر طور کئی روز انتظار کرنے کے بعد شیخ الازہر نے انہیں بیس منٹ کا وقت دیا۔انہوں نے عرض کیا ۔
یا شیخ الازہر!آپ عالم اسلام کی قدیم ترین علمی میراث کے سرخیل ہیں ۔آپ کا فتویٰ بھی چلتا ہے۔آپ اسلامی علوم و فنون کے ماہر ہیں اور ماہرین کے سرپرست و مربی بھی! خدا اور رسول ﷺ کا واسطہ دے کر آپ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ہماری رہنمائی فرمائیےاور اس گروہ کا سراغ دیجیے جو اگلے وقتوں کے فقیروں جیسا ہے!ہم اولیا کے اس گروہ کو دیکھے بغیر مرنا نہیں چاہتے!

شیخ الازہر نے تقویٰ کے ان متلاشیوں کی مصری قہوے سے خاطر مدارت کی !پھر کچھ دیر غور فرمایا۔ پھر اپنے  نائبین سے تبادلہ خیالات کیا۔پھر نوجوان راہبوں سے مخاطب ہوئے”ہاں !ایسا گروہ موجود ہے”پھر اس کا نشان پتہ محل وقوع ڈھونڈنے کا طریقہ بتایا۔
دونوں گروہ خوش خوش ‘جائے مقررہ پر ایک دوسرے سے ملے۔اپنی اپنی روداد سنائی ۔جو ارکان پوپ کو مل کر آئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ پوپ نے یہ کہا ہے۔جو گروپ شیخ الازہر کو مل کر آیا تھا ‘اس نے بتایا کہ شیخ نے یہ پتہ مرحمت فرمایا ہے۔!
ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔پوپ اور شیخ الازہر ۔دونوں نے ایک ہی ملک۔ایک ہی شہر، ایک ہی جگہ اور ایک ہی گروہ کا بتایا تھا! مسیحی اور اسلامی دونوںدنیاؤں کے روحانی لیڈر دونوں بڑے اس بات پر متفق تھے۔

نوجوان راہبوں کا یہ گروہ حیران ہوا۔حیران اس لیے کہ کرہ ارض کا ہر گوشہ چھان چکے تھے مگر اس چھوٹے سے ملک کا جو ایشیا کے ایک کونے میں تھا اور جس کے جنوب میں سمند تھا اور سمندر کے بعد زمین ختم ہوجاتی تھی’انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ان کا دھیان کبھی اس طرف نہ گیا تھا۔ مگر الحمدللہ !پاک ہے وہ ذات جس کے لیے ساری تعریفیں ہیں ۔پوپ اور شیخ الازہر نے ان کا پتہ بتلا دیا ۔
نوجوان راہبوں کا گروہ پاکستان کے دارالحکومت پہنچا۔ائیر پورٹ سے سیدھے پارلیمنٹ بلڈنگ پہنچے۔سکیورٹی والوں کو پوپ اور شیخ الازہر کے حکم نامے دکھائے،جن پر لکھا تھا کہ ان بچوں کو ‘راہِ حق کے ان مسافروں کو ‘اولیا اللہ کے ان متلاشیوں کو پارلیمنٹ کے اندر جانے دیا جائے۔

پوپ اور شیخ الازہر کی دعائیں کام آئیں۔یہ وہ خوش بخت دن تھا جب پاکستانی پارلیما ن کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا۔ سینٹ اور قومی ا سمبلی کے ممبران ایک ہی ہال میں تشریف فرما تھے۔سٹیج پر سوٹ میں ملبوس سپیکر اور پونی پہنے سینٹ کے چیئرمین دونوں تشریف فرما تھے۔

نوجوان راہبوں کا گروہ برآمدوں سے ہوتا پارلیمنٹ کے اس ہال میں داخل ہوا ۔سامنے اولیا اللہ کا گروہ دیکھا جو اس گئے گزرے زمانے میں پرانے وقتوں کے اللہ والوں کی جیتی جاگتی تصویر تھی!یااللہ !یا پروردیگار!تو نے دست گیری کی ہمیں اتنی عقل دی کہ ہم ویٹی کن اور قاہرہ جا کر رہنمائی مانگیں ! الحمدللہ!ہم نے موت سے پہلے پارساؤں کو دیکھ لیا!

پاکستانی پارلیمان !بے شک ا ن محیرالعقول افرا د کا گروہ ہے جو برائیوں سے پاک اور نیکیوں سے لبریز ہیں ۔ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ان کےاثاثے کیا ہیں ؟بوریا اور چند برتن!یہ فقر کے پیکر ہیں ،یہ سرکاری فنڈز کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔یہ غریبوں کے غم خوار ہیں ۔یہ اور ان کے بچے بیمار ہوں تو عوام کے ساتھ سرکاری شفا خانوں میں قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ان کے بچے پوتے نواسے پوتیاں سرکاری سکولوں میں غریب عوام کے بچوں کے ساتھ ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

یہ لوگ اس قدر پارسا ہیں کہ زبا ن نہیں کھولتے۔ آنکھیں بند رکھتے ہیں۔دلوں پر مہریں لگوا لی ہیں۔وزیراعظم ان کے سامنے تقریر کرتا ہے۔وہ تقریر عدالت میں دلیل کے طور پر پیش ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے وہ سیاسی تقریر تھی۔یعنی جھوٹ تھا۔ پارلیمان کے ان اولیا کی ادنیٰ سی کرامت ہے کہ جھوٹ   سچ ہوجاتا ہے۔ایسے ایسے مذہبی رہنما اس پارلیمان میں تشریف فرما ہیں جن کی ساری زندگیاں مکروہ ترین جوڑ توڑ اور بدترین منافقت میں گزری ہیں مگر پارلیمان ان سب کو دودھ میں نہلا کر اس طرح پاک صاف کردیتی ہے کہ ڈیزل کی بو تک نہیں آتی۔لندن دبئی جدہ پیرس کی جائیدادیں جنت کا حصہ لگتی ہیں ! اگر اس پارلیمان کے ارکان کی جیبوں سے نکلی ہوئی سفارشی پرچیاں  گزشتہ دس سال کی جمع کی جائیں تو ایک ارب ڈالر کی ردی بکے مگر ان میں سے اکثر کے پاس گاڑیاں ہیں نہ کچن زندہ رکھنے کے لیے چند روپے!تو پھر فقیروں کا یہ گروہ ٹیکس کہاں سے دے۔

مذاہب کی تاریخ میں پوپ اور شیخ الازہر پہلی بار ایک بات پر متفق ہوئے ہیں ۔ وہ یہ کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان فقیروں درویشوں پارساؤں نیکوکاروں ‘پہنچے ہوئے اولیا کا وہ گروہ ہے جس کی مثال اگر کہیں ہے تو پرانے زمانے میں ہوگی۔اس زمانے میں ان جیسا نیک سچا ‘حلال کھانے والا’ حرام خؤروں سے نفرت کرنے والا ‘اداروں کو میرٹ پر چلانے والا طائفہ روئے زمین پر کہیں اور نہیں !


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com