قائداعظم نے کمال کردکھایا۔ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیا۔
پاکستان کے جس تصور پر کانگریس قہقہے لگاتی تھی اسے حقیقت میں تبدیل کرکے رہے۔وہ بیک وقت تین منفی قوتوں سے بر سرِ پیکار تھے۔انگریز جو مالک و مختار تھے،ہندو جو بے رحم اکثریت میں اور وہ چند جوتصورِ پاکستان اور تحریک پاکستان کے مخالف تھے،ان میں احراری بھی تھے۔ جمعیت ہند بھی تھی اور جماعت اسلامی بھی اس لحاظ سے مخالف تھی کہ ابو الاعلیٰ مودودی نے "مسلمان اور سیاسی کشمکش"نامی کتاب میں دو قومی نظریے کی حمایت تو کی تھی لیکن مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں ان کی رائے واضح طور پر منفی تھی۔
مگر اصل کمال قائداعظم کا اور تھا۔ وہ یہ کہ مخالفتوں کے ان کثیرالجہت طوفانوں کے باوجود ان کا طرزِ عمل خالص مجاہدانہ تھا۔وہ جو اقبال نے کہا تھا مُلاّں کی ازاں اور مجاہد کی اذاں اور۔تو اس کی جیتی جاگتی تفسیر قائداعظم تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت ہر شئے جائز ہوتی ہے،وہ اس کے قائل نہ تھے۔اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا نہ کسی سے وعدہ خلافی کی۔منافقت کی نہ کوئی قلابازی کھائی جو کام کیا ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور سب کے سامنے کیا۔گاندھی ان کے مقابلے میں دھوکہ بھی دیتا تھا۔فریب کاری بھی کرتا تھا اور منافقت بھی۔بظاہر تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتا مگر اسے کانگریس کے رکن پہلے دھو کر صاف کرتے تھے۔کسی نے قائداعظم سے کہا کہ وہ تو عوامی لیڈر ہے۔تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتا ہے آ پ بڑے صاحبوں کی طرح فرسٹ کلاس میں۔قائداعظم نے جو جواب دیا اس میں ان کا طرزِ عمل بلکہ سیاست کا سارا فلسفہ سمٹ کر آگیا۔ کہا! وہ کانگریس کے فنڈ سے کرایہ دیتے ہیں میں فرسٹ کلاس میں اپنے ذاتی پیسے سے سفر کرتا ہوں۔
مگر ان ساری کامیابیوں اور کردار کی بے مثال مضبوطی کے باوجود قائداعظم میں ایک بہت بڑا نقص تھا۔آپ کسی پیر کسی بابے کے آستانے پر نہ گئے۔اور تو اور آپ نے پیٹھ پر چھڑیاں بھی نہ کھائیں۔آپ نے کسی روحانی شخصیت سے کوئی انگوٹھی نہ لی۔کسی سے کوئی پیش گوئی نہ کرائی ۔کسی پیر یا پیرنی کے کہنے پر اپنا بمبئی والا یا دہلی والا گھر منہدم نہ کرایا۔ سیاسی مخالفت سامنے آئی تو دوڑ کر کسی پیر کی گدڑی یا پیرنی کی شال میں پنا ہ نہ لی۔ پھر پاکستان بن گیا تو اس کے بعد بھی آپ کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ گورنر جنرل ہاؤس میں کسی پیر کو فروکش نہ کیا۔ اتنی احتیاط بھی نہ کی کہ فلاں فلاں مہینے سمندر سے دور رہتے اور اتنا عرصہ پہاڑوں کے نزدیک نہ جاتے کوئی زائچہ بنوایا نہ کوئی سعد یا منحوس گھڑی دیکھی۔کسی سے نہ پوچھا کہ کب گورنر جنرل بنوں گا اور کیا کیا کروں تاکہ گورنر جنرل بنوں!
بدقسمتی سے کمال اتاترک میں بھی یہی نقص تھا۔اتاترک نے کمال کردیا کہ طاقتور اتحادیوں کے خوفناک دہانے کے اندر سے ترکی کو نکالا۔ سلطنت عثمانیہ کی حیثیت اس وقت راکھ سے زیادہ نہ تھی۔سب اسے یورپ کا بیمار مرد کہتے تھے۔ کہاں برطانیہ اور کہاں شکست خوردہ ترکی۔ مگر کمال اتاترک ڈٹ گیا اور اس راکھ کے اندر سے چنگاری نکال لایا۔ آج اگر ترکی عالم ِ اسلام میں قیادت کا کردار ادا کررہا ہے تو اصلاً اس کا کریڈٹ کمال اتاترک ہی کو جاتا ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ترکی کی بنیاد اتاترک ہی نے رکھی تھی۔درہ دانیال پر قبضہ کرنے کے لیے برطانیہ اور فرانس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران حملہ کیا۔وہ قسطنطنیہ(بعد میں استانبول) پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے یہ لڑائی دس مہینے لڑی اور حملہ آوروں کو پسپا کیا۔ پھر جرمنی کے ساتھ ترکی کو بھی شکست ہوئی۔ اتحادیوں نے ازمیر اور استانبول کو ہضم کرنا چاہا مگر اتاترک نے اتحادیوں کو دوبارہ شکست دی اور یوں ترکو کی کو اور ترکی کی وحدت کو بچالیا۔کمال اتاترک اس راکھ سے چنگاری کی طرح نہ نکلتا تو آج مشرق وسطیٰ کی طرح ترکی کو بھی اردن، کویت اوریو اے ای جیسی چھوٹی چھوٹی جاگیروں میں بنا ہوا ہوتا۔ برطانیہ نے ترکی کے ساتھ وہی سلوک کرنا تھا جو استعمار ہمیشہ مقبوضات کے ساتھ کرتا آیا ہے۔
اس نے مشرقی ترکی کو ارضِ روم اور اناطولیہ کی الگ ریاستوں میں بدل دینا تھا۔ ازمیر اور اس کے نواح کو الگ کردیتے۔ جنوبی ترکی کو شام کے ساتھ ملا دیتے۔یورپ کے حصے کو ڈکار مارے بغیر کھا جاتے اور استانبول کے ساتھ جانے کیا کرتے۔ اتاترک اور ان کے ساتھی گیلی پولی میں اپنی جانیں ہتھیلیوں پر نہ رکھتے تو بخدا ترکی مقدونیہ، کسوو،سربیا اور بوسنیا کی طرح ٹکڑوں میں بٹا ہوا ایک بلقان ہوتا۔وسطی ایشیا کے پاس کوئی کمال اتاترک کوئی محمد علی جناح ہوتا تو آج ترکستان پانچ چھ راجواڑوں میں منقسم نہ ہوتا۔ بسماچی تحریک اور انور پاشا نے کوشش کی مگر بالشیوک استعمار نے ان کی ایک نہ چلنے دی ۔آج وسط ایشیا عبرت کے مرقع کے سوا کچھ بھی نہیں۔آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔لسانی بنیادوں پر روسیوں نے اسے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے جیسے بندر نے دو بلیوں کے درمیان بانٹنے کے لیے روٹی کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔بدقسمتی دیکھیے کہ فارسی بولنے والے سمرقند اور بخارا ازبکستان کا حصہ بنائے گئے اور خجند کو کرغستان میں ٹھونس دیا گیا۔ان ریاستوں میں کسی قسم کی کوئی ہم آہنگی نہیں۔
بات کمال اتاترک کی ہورہی تھی۔نقص دیکھیے کہ بھیڑیے کے جبڑے اور نوکیلے دانتوں کا سامنا تھا مگر کسی پیر یا پیرنی کا در روحانیت نہ کھٹکھٹایا۔کسی خاص انگوٹھی کے بجائے عز م صمیم اور فولاد جیسا اعتماد۔بس اس کے سوا کوئی سہارا نہ تھا۔
افسوس! اتنا بڑا آدمی،اتنا عظیم ہیرو اور اتنا بڑا نقص،اتنا بڑا سقم۔گیلی پولی میں دس ماہ خون اورآگ کا سامنا کرنے کے بجائے کسی پیر یا پیرنی کے پاس جاتا تو کشت و خون کے بغیر مسئلہ منٹوں میں حل ہوجاتا۔
ایک اور بڑا مسلمان لیڈر مہاتیر محمد ہیاس نے ملائشیا کو زمین سے اٹھایا اوور شہرت،کامیابی اور خود انحصاری کے آسمان پر لے گیا۔1991میں اس نے "وژن2020دیا جس کی رو سے تیس برسوں میں ملائشیا نے مکمل ترقی یافتہ ہونے کا پروگرام وضع کیا "اس نے نسلی انتشار میں بٹی ہوئی ملائشیا قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا۔1995تک غربت صرف نو فیصد آبادی تک محدود ہوگئی۔ٹیکس کا ایسا نظام بنایا کہ غیر ملکی سرمایہ کار ہجوم کرکے آنے لگے۔ 1997تک "مہاتیر ماڈل" دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے لیے رول ماڈل بن گیا۔ پھر ایشیا کا رسوائے زمانہ مالی بحران آگیا۔ جس نے پورے مشرق بعید کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔آئی ایم ایف نے ملائشیا کو سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے کہا مگر مہاتیر نے بے مثال جرات دکھائی۔اس نے آئی ایم ایف کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا اور ان ہدایات کے برعکس سرکاری اخراجات بڑھا دئیے۔ نتیجہ حیران کن نکلا۔ملائشیا،دوسرے ملکوں کی نسبت بحران سے جلدی نکل آیا یہ مہاتیرکا ایسا کارنامہ تھا جس نے اسے دنیا کے چوٹی کے لیڈروں میں کھڑا کردیا۔
مگر آپ مہاتیرکا غیر دانش مندانہ رویہ دیکھیے کہ کسی سے انگوٹھی لی نہ کسی پیر کے کہنے پر گھر کو ملبہ بنایا۔ اس کاسب سے بڑا ہتھیار فہم و فراست،پالیسیوں میں توازن اور کرپشن سے مکمل گریز تھا۔
یہ دو تین مثالیں "غیر عقل مندی" کی ہم عصر تاریخ سے لی گئی ہیں۔ورنہ تاریخ ان "بیوقوفوں " سے اٹی پڑی ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے مگر جب وہ جھکنے پر آئے تو اتنا جھکتا ہے کہ ماتھے کو زمین پر صرف لگاتا نہیں،ماتھے کو زمین کھودنے پر مامور کردیتا ہے۔اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا۔ غلامی صرف پا بہ زنجیر ہونے یا حلقہ بگوش ہونے کا نام نہیں۔ بسا اوقات غلامی کی زنجیرذہن کو جکڑتی ہے اور ایسا اکثر ہوتا ہے کہ غلامی کی بالیاں کانوں کے ساتھ نہیں روح کے ساتھ لٹکنے لگتی ہیں۔پھر انسان کسی پتھر کے سامنے جھکتا ہے۔ سانپ کو،آگ کو، بندر کو گائے کو خدا کا درجہ دینے لگتا ہے۔ کسی لمبے کرتے والے کو، کسی تھری پیس سوٹ پہننے والے کو یا کسی گھومنے والی کرسی پر بیٹھنے والے کو نجات دہندہ ماننے لگتا ہے۔ کبھی انگوٹھیاں مانگتا ہے،کبھی فال نکلواتا ہے، کبھی کسی کے کہنے پر پہاڑوں سے دور بھاگتا ہے،کبھی سمندر سے ڈرتا ہے۔بعض اور اس درجہ عقل مند ہوتے ہیں کہ اپنے مکانوں کو گرا کر ملبے میں تبدیل کردیتے ہیں۔
کیا یہ سزا کم ہے کہ خلق خدا کا نوں کو ہاتھ لگاتی ہے۔کوئی کیا توجیہہ کرتا ہے اور کوئی کیا نکتہ نکالتا ہے۔ پردوں میں رہنے والیاں گفتگو اور تحریر کا موضوع بن جاتی ہیں۔عقل پر پردہ پڑ جائے تو انسان کی کج روی کی کوئی حدنہیں ۔سچ کہا آسمان سے اتری ہوئی کتاب نے کہ جس نے اپنے پیدا کرنے والے کے سوا کسی اور پر بھروسہ کیا، کسی اور کو مشکل کشا سمجھا تو
"گویا وہ آسمان سے گر گیا۔اب یا تو اسے پرندے اچک کر لے جائیں گے یا ہوا اسے ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے "۔
No comments:
Post a Comment