تارکین وطن ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہیں ۔ایک طرف پہاڑ کی سر بفلک چوٹی ہے ۔دوسری طرف کھائی ہے۔مہیب گہری کھائی۔
واپس آئیں تو عزت نفس سلامت ہے نہ مال اور جان کی سلامتی ۔پورا ملک ڈاکوؤ ں کے لیے خوانِ یغما ہے۔ چوریاں ، ڈاکے ،بھتے ،کاروں کی چوری روزمرہ کا معمول ہے۔ دارالحکومت سے ایک اطلاع کے مطابق تین گاڑیاں ہر روز چوری ہوتی ہیں ۔سینکڑوں کے حساب سے الگ الگ ڈاکے ڈالنے والے گروہ ہیں ۔پکڑنے والے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ بچے گھر سے باہر نکلیں تو کوئی گارنٹی نہیں کہ سلامت واپس آجائیں ۔ امن و امان،جو کسی بھی حکومت کسی بھی حکمران کے لیے اولیں ترجیح ہونی چاہیے ،ترجیحات کی فہرست ہی سے غائب ہے ۔لاہور کی امیر ترین آبادی چوروں کے نرغے میں ہے ۔کراچی کا حال بدترہے ۔حکمرانوں کے آگے پیچھے سینکڑوں حاجب،نقیب اور پہریدار ہیں ۔عام آدمی کس حال میں ہے،انہیں پرواہ ہے نہ اندازہ۔
امن و امان واحد شعبہ نہیں جو تارکین وطن کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تاجر اور دکاندار گاہکوں کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں کرتے ہیں ،اس کا ترقی یافتہ ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی حال پولیس کا ہے۔ ملازمتوں میں وہاں میرٹ دیکھی جاتی ہے ۔کسی ایم این اے، کسی وزیر کسی شاہ ،کسی مخدوم کی سفارش کا وجود ہے نہ امکان۔پھر تارکین وطن کے وہی حقوق ہیں جو مقامی سفید فام لوگوں کے ہیں ۔آخر بلاوجہ تو چار کروڑ سے زیادہ مسلمان ان ملکوں میں آکر مقیم نہیں ہوگئے۔
ان ملکوں میں سکون ہے اور ایک خاص معیار زندگی۔ مالی آسودگی ہے اور امن و امان کی طرف سے اطمینان ۔تاجر اور دکاندار گاہک کی عزت کرتے ہیں خریدا ہوا مال واپس بھی کرتے ہیں اور تبدیل بھی۔ بسیں ٹرینیں جہاز وقت پر چلتے ہیں ۔بچے ،کم و بیش محفوظ ہیں ۔ ایسا نہیں کہ جرائم نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں مگر کرنے والے کیفر کردار کو ضرور پہنچائے جاتے ہیں ۔ آج پاکستان میں سارا ملک چیخ رہا ہے کہ قصور میں بچوں کی پورنو گرافی فلموں کا سکینڈل بریک ہوا تو مجرم بچ گئے۔ زینب سے پہلے ایک نہیں ،کئی بچیاں موت کے گھاٹ اتاری گئیں ہیں۔ ایسا ان ملکوں میں نہیں ہوتا ۔
کلچر اور مذہب۔دونوں خطرے کی زد میں ہیں۔ اردو لکھنے پڑھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔بولنے کا پہلو بھی خطرے میں ہے۔تارکین وطن کی اس حوالے سے تین اقسام ہیں ۔ایک وہ جو اس معاملے میں حساس نہیں ،وہ بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں ۔اپنی زبان ، اپنے ملک ،اپنی اصلیت سے ثقافتی تعلق جوڑنے کے لیے بے قرار بالکل نہیں ۔ ان کا معاملہ آسان ہے۔دوسری قسم وہ ہے جو ازحد حساس ہے۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں سے اردو میں یا پشتو میں یا سندھی میں یا پنجابی میں بات کریں ۔ مگر بچے ایک دوسرے کے ساتھ پھر بھی انگریزی میں بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے آسان ہے۔ ماں باپ کی یہ قسم اپنے طور پر کوشش کرتی ہے۔ اردو پڑھاتی ہے ۔لکھوانے کی سعی کرتی ہے ۔ تیسری قسم وہ ہے جو زیادہ فکر اور زیادہ تردد نہیں کرتی۔ اگر آسانی کے ساتھ ممکن ہو ،کوئی سہولت اپنی زبان پڑھنے پڑھانے کی نزدیک میسر آجائے تو فائدہ اٹھا لیں گے ۔ورنہ نہیں یہ بے حس ہیں نہ از حد حساس۔
مذہبی پہلو زیادہ نازک ہے۔ مسجدیں گھروں سے دور ہیں ۔ بچوں کا وہاں پانچ وقت جانا،یا انہیں لے کرجانا ممکن نہیں ۔ بعض کے لیے تو اس قدر دور ہیں کہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے جاسکتے ہیں ۔عربوں ، ترکوں اور پاکستانیوں نے اپنے اپنے سکول بنائے ہوئے ہیں ۔ مسلمان بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں مین سٹریم کی تعلیم کا معیار یہاں قابل اطمینان نہیں ۔ پھر ان کا انتظام و انصرام اس معیار کا نہیں جو عام سرکاری یا پرائیویٹ سکولوں کا ہے۔ اصل دشمن مسلمان بچوں کا وہ معاشرہ ہے جو ان کے گھروں اور مسلمان سکولوں سے باہر ہے اور جس سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ مسلمان سکولوں میں پانچ چھ سال لگا کر بھی انہیں عام مقامی سکولوں کالجوں کی طرف آنا پڑتا ہے۔ یہاں ان کے ہم جماعت اور دوست ایک کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اٹھارہ سال کا ہوجائے تو لڑکا گرل فرینڈ تلاش کرتا ہے ۔لڑکی بوائے فرینڈ کی جستجو کرتی ہے۔ ایک پاکستانی دوست نے بتایا کہ اس کے گھر کے سامنے والے گھر میں دو عورتیں باہمی زندگی گزار رہی ہیں ۔ ایک ان کی بچی ہے۔ پاکستان کی بیٹی نے باپ سے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ اس بچی کی دونوں مائیں ہیں ۔باپ نہیں ۔ بچہ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ ان کے فلاں ہم جماعت کی ماں بھی ایک مرد ہے۔ ایسا کیوں ہے ۔ یہ تلخ ہیں مگر حقیقیں ہیں ۔یہ ہے وہ کھائی جس کے کنارے تارکین وطن کھڑے ہیں ۔ اگر آپ بچوں کو یہ باور کرا بھی دیں کہ یہ بات بری ہے اور نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود ان کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ جاتی ہے کہ ایک امکان یہ بھی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے۔
ساری کوششیں کامیاب ہو بھی جائیں تو گارنٹی صرف ایک نسل تک کی ہے۔ تیسری نسل کے آتے آتے یہ کوشش غائب ہوجائے گی۔
ایک ریسرچ کی رو سے 1950 میں پانچ سو ترک خاندان مغربی ملکوں میں آن بسے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی علیحدہ وجود نہیں ملتا ۔سب کان نمک میں نمک ہوچکے۔
حرف تسلی کچھ حضرات یہ دیتے ہیں کہ وہ زمانہ لد چکا۔ اب قدم قدم پر اسلامی مراکز کام کررہے ہیں۔ مساجد ہیں ،ثقافتی تقاریب ہیں مگر یہ حرف تسلی زیادہ سے زیادہ ایک نفسیاتی تسلی ہے۔ مسلمان ان قصبوں اور دور افتادہ بستیوں میں بھی آباد ہیں ،جہاں مسجدوں اور اسلامی مراکز کا کوئی وجود نہیں ۔بہت کم خو ش قسمت گھرانے ایسے ہیں جومساجد کے قریب رہ رہے ہیں ۔ اکثریت دور رہتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہر نماز کے لیے مسجد حاضر ہوسکیں ۔
ہجرت ایک پیکیج ڈیل ہے ۔ آپ پوراپیکیج لیتے ہیں ۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ فوائد سمیٹ لیں اور نقصانات سے بچ جائیں۔ جہاں بہتر معیار زندگی ،مالی آسودگی اور اطمینان بخش امن وامان ہوگا ،وہاں اس معاشرے کی دوسری صفات کا بھی،اچھی ہیں یا بری،سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی بیرون ملک سے واپس آکر پاکستان میں بسنے یا بسنے کا ارادہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ واپسی بھی ایک پیکیج ڈیل ہوگی۔ اپنے معاشرے کی اچھائیاں اور برائیاں سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تین منٹ کے پیدل راستے پر مسجد ہوگی جہاں بچے نماز بھی پڑھیں گے اور قرآن مجید بھی۔ عزیز و اقارب سے ملنا آسان ہوگا ۔دوست احباب میسر ہوں گے۔ ماں باپ کی قدم بوسی ہر وقت حاصل ہوسکے گی۔ مگر امن و امان کی ابتر صورت حال میں رہنا ہوگا۔ ٹریفک وحشت ناک ہوگی۔ پولیس دوست نہیں ، کچھ اور ہی ہوگی۔ میرٹ کا حق لینے کے لیے پرچی درکار ہوگی ۔ٹرینیں اور جہاز وقت کی پابندی سے آزاد ہوں گے ۔تاجر اور دکاندار رعونت سے پیش آئیں گے اور قانون ،اخلاق ضابطے سے بے نیاز ہوں گے۔ حکمران نےگزرنا ہوگا تو آپ کا راستے کا حق سلب ہوگا۔ حکمران کاپورا خاندان آپ پر حکومت کرے گا۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے تو انصاف ملنے تک آپ اول تو زندہ نہیں رہیں گے رہے بھی تو کمر خمیدہ ہوچکی ہوگی۔ کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک ہجرت کرتے وقت غالب کی یہ نصیحت ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے
؎ ہاں وہ نہیں خدا پرست ،جاؤ وہ بے وفاسہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
اب یہاں ایک دکھتی رگ اور بھی ہے ۔امن و امان اور آسودگی کے لیے مسلمان جن ملکوں میں جاکر بسے ہیں یا بس رہے ہیں وہ سارے غیر مسلم ہیں ۔اس وقت دنیا کے نقشے پر پچپن سے زیادہ مسلمان ملک موجود ہیں ۔ ایک معقول تعداد ان میں مالدار ملکوں کی بھی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک بھی مسلمان ملک وہ آسودگی و معیار زندگی ،وہ قانون کی حکمرانی اور وہ امن و امان مہیا نہیں کرسکتا جو یہ غیر مسلم ملک مہیا کر رہے ہیں ۔ کہیں بادشاہوں کی آمریت ہے اور کہیں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ڈاکو ملک کی دولت باہر منتقل کررہے ہیں ۔ یونیورسٹیاں وقت پر امتحان نہیں لے پاتیں ۔ پولیس کے تصور ہی سے عام شہری کو جھر جھری آتی ہے۔ خالص خوراک اور خالص ادویات تک عنقا ہیں ۔کیا اس پر کسی کو سوچنے کی فرصت ہے؟ اور کیا یہ سب دشمنوں کی سازش کا شاخسانہ ہے ؟ہمارا اپنا کوئی قصور نہیں ؟
No comments:
Post a Comment