Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, January 03, 2018

کیا اس شہر کو یونیورسٹیوں کی ضرورت نہیں رہی؟


بھارت کا ایک ٹیلی ویژن چینل دہلی کے مسلمان تاجروں کے انٹر ویو نشر کررہا تھا ۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس مارکیٹ میں زیادہ تر مسلمان ہی کاروبار کررہے تھے۔ایک مسلمان نوجوان درد مندی سے اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا ۔اس کا کہنا تھا کہ سروسز اور دوسرے شعبے میں مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کا ایک سبب خود مسلمان تاجروں کا رویہ ہے۔ لڑکا اچھا بھلا پڑھ رہا ہوتا ہے آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں لیکن ابھی آٹھویں دسویں جماعت میں ہوتا ہے کہ سکول سے اٹھا لیا جاتا ہے اور دکان پر بٹھا لیا جاتا ہے۔

نہ معلوم بھارت کے سارے مسلمانوں پر اس مشاہدے کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں ،مگر ایک بات طے ہے کہ تاجر، جاگیردار ،صنعت کاراور اس قبیل کے دیگر طبقات کی نظروں میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ان کے نزدیک یہ ایک کارِ لا حاصل ہے۔بلوچستان سندھ اور جنوبی پنجاب کے بے شمار سکولوں ،کالجوں کی عمارتیں مویشیوں کے باڑوں اور غلے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہورہی ہیں ۔سیالکوٹ کی مثال لیجیے۔وہاں تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت ائیرپورٹ بنوا لیا مگر یونیورسٹی کی طرف دھیان نہیں جاتا۔

شریف برادران کو دیکھ لیجیے ،کیا آپ کو یاد ہے کہ بڑے یا چھوٹے میاں صاحب بطور وزیراعظم یا بطور وزیراعلی کسی یونیورسٹی میں گئے ہوں ؟اور طلبہ یا اساتذہ سے خطاب کیا ہو؟ خود کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھے۔ بچے لندن میں ہیں ۔چاہیں تو مریخ اور زہرہ خرید لیں  مگر برطانیہ کی یونیورسٹیوں کا،جہاں پورے کرہء ارض سے شائقینِ علم آتے ہیں ،رُخ نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان کا ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ایک ذہنیت ہے۔اس میں غیر شعوری ،غیر ارادی طور پر، صرف اور صرف پیسہ کمانے کا خیال آتا ہے۔عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ ان کی زرعی زمین دیکھ کر میاں محمد نواز شریف کے منہ سے فوراً یہ بات نکلی کہ  آپ یہاں شوگر مل کیوں نہیں لگاتیں ۔رہا دانش سکولوں کا پروجیکٹ ،تو وہ تعلیم کی ترقی کے لیے نہیں تھا۔ شہباز شریف کو تعلیم کی ترقی کا خیال ہوتا تو ان ہزاروں سرکاری سکولوں پر توجہ دیتے جن کی دیواری   ہیں تو چھت نہیں ۔ٹاٹ ہیں تو پینے کا پانی نہیں اور عمارت ہے تو اساتذہ نہیں ۔شریف برادران کو اگر عمر نوح بھی مل جائے اور یہ ہزاروں برس بھی حکمران رہیں تب بھی کوئی یونیورسٹی بنائیں گے نہ کسی بنی ہوئی ہونیورسٹی میں پاؤں دھریں گے۔ ان کی ترجیحات میں لوہا، شوگر ملیں،،پولٹری ،دودھ کا کاروبار،لندن کی جائیداد میں اضافہ،کروڑوں کی گھڑیاں خریدنا اور شکم کی ضروریات نہیں ،تعیشات اکٹھی کرنا شامل ہے۔

اس تاجرانہ ذہنیت اور اس دکاندارانہ مائنڈ سیٹ کا تازہ ترین  شاخسانہ وہ حملہ ہے جو وزیراعلی پنجاب یونیورسٹی پر کر رہے ہیں ۔

اورنج ٹرین کے لیے پنجاب حکومت نے چوبرجی کے قریب مدرسہ کی زمین حاصل کی تھی۔معاہدہ مدرسہ اور اہل ِ مدرسہ  کے ساتھ ہوا تھا کہ مسجد اور مدرسہ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے گراؤنڈز سے زمین دی جائے گی ،اس کا قانونی کنٹرول ہمیشہ مسجد انتظامیہ کے پاس ہوگا اور یونیورسٹی انتظامیہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہوگا۔

مگر اس معاہدے کے برعکس ،اب پنجاب حکومت یونیورسٹی کے گلے پر پاؤں رکھ کر حکم یہ دے رہی ہے کہ یونیورسٹی زمین بھی دے اور مسجد اور مدرسہ تعمیر بھی کرے۔لولی پوپ یونیورسٹی کو یہ دیا جارہا ہے کہ یہ زمین یونیورسٹی ہی کی ملکیت رہے گی!واہ کیا منطق ہے ۔

وزیراعلی کے ایک مشیر نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اپنے حضور طلب کیا ۔وائس چانسلر کے ساتھ یونیورسٹی کے کچھ سینئر اساتذہ اور منتظمین بھی تھے۔مبینہ طور پر مشیر نے دباؤ ڈالا کہ زمین حکومت کے حوالے کرو۔ اس سے کچھ دن پہلے یونیورسٹی کے اساتذہ کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے مطالبہ  کیا کہ وزیراعلی یونیورسٹی کی لینڈ غصب کرنا چھوڑ دیں اور مدرسہ کو کہیں اور جگہ دیں ۔

یونیورسٹی کئی دہائیوں سے سہمی ہوئی ہے، بھیکے وال موڑ کی توسیع کے لیے زمین چھینی گئی۔شوکت علی روڈ کے لیے سینکڑوں کنال چھینے گئے۔اورنج ٹرین کے لیے آٹھ کنال ہڑپ کیے جا چکے ہیں ۔ ان ساری زمینوں کے بدلے میں صوبائی حکومت نے ایک دھیلا تک یونیورسٹی کو نہیں دیا۔ ایک وائس چانسلر توسیع  لینے کی خاطر حکم کا غلام  بنا رہا۔ بس نہیں چل رہا ورنہ ایک یونیورسٹی کیا ،سارے تعلیمی  ادار وں کو تحویل میں لے کر وہاں لوہے اور چینی کے کارخانے لگا دئیے جاتے۔ مرغی خانے کھول لیے جاتے اس لیےکہ فکرِ  ہر کس بقدرِ ہمت اوست! اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتے ہیں !

یہ تو وزیراعلٰی کے مائنڈ سیٹ کی جھلک تھی۔ اب ان صاحب کا رویہ ملاحظہ کیجیے جو وفاقی حکومت کے سربراہ تھے۔ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل وفاقی حکومت کا ایک بڑا اور اہم ادارہ ہے۔اس میں سائنسدان زرعی ترقی کے لیے تحقیق کرتے ہیں ۔اس ادارے کی خدمات ،زراعت کے شعبے میں  ناقابلِ تردید ہیں۔بیج ،کھاد اور فصلوں سے متعلق لاتعداد تحقیقی کارنامے سرانجام دئیے گئے۔ملک کے بہترین دماغ یہاں کام کررہے ہیں۔ایک دن معلوم ہوا کہ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے وزیراعظم کو سمری ارسال کی ہے کہ اس ادارے کا گلا گھونٹ کر اس کی چودہ سو ایکڑ زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جائے ۔ظاہر ہے اتنا بڑا فیصلہ ترقیاتی ادارہ  خود نہیں کرسکتا تھا اور نہ اتنی جرات دکھا سکتا  تھا  کہ سمری دربار کو روانہ کرے۔ میڈیا نے صاف اشارے دئیے کہ چلمن کے پیچھے بیٹھ کر تار کون ہلا رہا ہے؟

اس غریب اور مسکین ادارے کی کیا وقعت تھی کہ مقابلہ کرتا۔یہ تو اس میمنے کی طرح تھا جو ندی کے نشیب میں پانی پی رہا تھا اور  اونچائی پر کھڑا کوئی اسے دھمکی دے رہا تھا کہ تم پانی گدلا کررہے ہو۔مگر اپنی بساط بھر کوشش ادارے نے کی۔

سائنس دانوں نے احتجاج کیا ۔ملازمین کی باڈی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔پھر پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے نہ صرف مداخلت کی بلکہ لعن طعن بھی کی۔تب کہیں جاکر دو تین سال کی جدوجہد کام آئی، غیبی مددیہ ہوئی کہ وزیراعظم تبدیل ہوگئے۔اکتوبر 2017 میں وزیر خوراک نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو سرکاری حیثیت میں بتایا کہ موجودہ وزیراعظم نے ترقیاتی ادرے کی سمری واپس بھیج دی ہے اور ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کو لینڈ مافیا کے جبڑوں سے بچا لیا ہے۔

یہ شاہی خاندان شہر سے تعلق رکھتا تھا مگر" تعلیم "اور" تعلیمی اداروں"   سے نفرت میں جاگیراروں اور سرداروں سے بھی آگے بڑھ گیا۔

تصور کیجیے کہ اگر ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سےزمینیں چھین لی جائیں اور باقی نصف پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور فیکٹریاں بنا دی جائیں تو کتنا زبردست کثیرالمقاصد منصوبہ ثابت ہوگا۔ مدارس سے بے شمار ووٹ ملیں گے اور اس سے بھی بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کالجوں ۔یونیورسٹیوں سے جو دانشورانہ آوازیں اٹھتی تھیں اور جو کرپشن کے خلاف مہم میں پیش پیش ہوتی تھیں ، ان سے نجات مل جائے گی ۔جاگیردار اور سردار تعلیم یافتہ لوگوں کو حقارت سے “منشی” کہتے تھے ۔شاہی خاندان بھی ان منشیوں سے تنگ ہے۔ یہ منشی رنگ میں بھنگ ڈالتے ہیں ۔سابق وزیراعظم نے ایک بار بہت حسرت سے کہا تھا کہ سعودی عرب میں تو ٹیکس لیا ہی نہیں  جاتا۔ممکن ہے یہ بھی تحقیق کررہے ہوں کہ دنیا کے کس ملک میں یونیورسٹیاں  اور ریسرچ ادارے نہیں ہیں۔پھر اس کی مثال دے کر فرما ئیں گے کہ وہاں  نہیں ہیں تو یہاں  کیا ضرورت ہے۔

تعجب ہے کہ ہسپتال اب تک کیوں بچے ہوئے ہیں اور کیا عجب ایک دن سرکاری ہسپتال کو بھی حکم ملے کہ اپنی زمین فلاں فلاں مدارس کے حوالے کردو! اس لیے کہ خود تو حکمران علاج معالجے کے لیے لندن جاتے ہیں اور وہاں علاج کرانے کے بعد ،ویڈیو پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ صوبے میں صحت کی صورتِ حال بہتر ہوگئی ہے۔

اس المیے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ یونیورسٹی لاہور میں ہے۔ لاہور مسلم لیگ نون اور اس کے مالک شاہی خاندان کا گڑھ ہے۔یہ شہر ایک عرصہ سے ان حضرات کو منتخب کررہا ہے۔ اب صلہ یہ مل رہا ہے کہ یونیورسٹی کی زمین کاٹ کاٹ کر ادھر ادھر کی جارہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اہل ِ لاہور اس سلوک کے مستحق تھے؟

مگر معاف کیجیے ،جس شہر میں ہر روز لاکھوں ٹن چرغے کڑاہیاں ،تکے بوٹیاں ،نہاری ،ہریسہ، پائے، چھولے نان کھائے جاتے ہوں ،اس شہر کے رہنے والوں میں اتنی سکت ہی کہاں رہتی ہے کہ اپنی یونیورسٹیوں کی حفاظت کرسکیں ۔ یوں بھی اتنا کچھ کھانے کے بعد دماغ کی کیفیت یہ ہو جاتی ہوگی کہ پڑھنے پڑھانے اور سوچنےکے لائق رہتا ہی نہیں ہوگا۔اس لیے اگر شاہی خاندان لاہور کے تمام تعلیمی اداروں کی زمینیں چھین لے تب بھی اہالیان ِ شہر کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com