Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, January 05, 2018

ہم ہیں یہاں سے جا رہے ،جانے کہاں ہیں جارہے



ایک زمانہ تھا کہ سرمہ مقویء بصر ہمارے ہاں ہر بس میں بکتا تھا ،لگتا تھا ساری دنیا سے ضعف بصارت کے مریض ہمارے ملک میں آتے ہیں ۔پاکستانیوں کی نظرِ تب کمزور نہیں تھی۔ اس خاص نسل کے سُرمے کے علاوہ بھی تقویتِ بصر کے لیے ہمارے بازار ادویات سے بھرے تھے۔ خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والا نہ صرف مقوی حافظہ اور مفرح قلب و روح تھا بلکہ نظر کو بھی تیز کرتا تھا ۔اطریفل کبیر بھی تجویز کی جاتی تھی۔ اطریفل بادیان اور اطریفل کشینز بھی حکما دیتے تھے۔ مروارید او رجواہر اربعہ سے بنے ہوئے قیمتی اور تیر بہدف سرمے میسر تھے۔آشوب چشم ، دھندلاہٹ،ککرے،زخم اور جلن سب کچھ منٹوں سیکنڈ میں ٹھیک ہوجاتا تھا۔

پھر ہم طب کے میدان میں پیچھے رہ گئے ۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہم نظر کی کمزوری سے بہت آگے بڑھ کر تقریباً اندھے ہوچکے ہیں ۔ جو چیزیں پوری دنیا کو صاف صاف نظر آرہی ہیں ، ہم انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں ۔کوئٹہ شوریٰ سے شروع کیجئے ۔۔آخر وہاں کوئی شوریٰ نام کی شئے تھی تبھی اسے “ کوئٹہ شوریٰ “کہا جاتا تھا۔ یہ پوری دنیا کو نظر آرہی تھی۔ ہم نہ دیکھ سکے۔پھر بھائی اسامہ بن لادن ہمارے بیچ آکر  دن دیہاڑے چھپ گئے۔ اس کالم نگار کے ننھیال والے گاؤں میں ،مدتوں پہلے، ایک عورت تھی۔ اس نے جب بھاگ کر کہیں چھپنا ہوتا تو کسی کھیت کے درمیان جا کر بیٹھ جاتی۔ تب لوگوں کی آنکھیں صحتمند تھیں ۔ فوراً اسے “ڈھونڈ “لیتے۔ اب  ہماری ضعف بصارت کا یہ عالم ہے کہ اسامہ بن لادن برسوں ہمارے درمیان ایک بڑے شہر میں مع خاندان رہا مگر ہم نہ دیکھ سکے۔ امریکیوں کو اٹلانٹک کے اس پار سے نظر آگیا۔ لے اڑے۔  پھر طالبان کا ایک سربراہ ہمارے ملک میں مارا گیا - اس کے پاس پاسپورٹ بھی پاکستانی تھا۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں سے اوجھل رہا۔ اس کا غائبانہ نماز جنازہ لاہور جیسے بڑے شہر میں دن کو پڑھا گیا۔،جنازہ نظر آیا نہ جنازہ پڑھنے والے۔

کراچی شہر میں کئی دہشت گردوں کے جنازے گروہوں کے گروہ پڑھتے رہے مگر کمزور نظر وں کو کچھ نہ نظر آیا۔ طرفہ مصیبت یہ آن پڑی کہ سماعت بھی چلی گئی۔ بھارت میں الطاف حسین کے خلاف اور برصغیر کی تقسیم کے خلاف زہر اگلا ۔ساری دنیا نے سنا۔ دہلی میں پاکستانی سفارت خانے والوں نے سنا تو دنگ رہ گئے ۔مگر ہمارے کمانڈو  جن  کے کانوں پر ایسے جپھے چڑھے ہوئے تھے کہ ایک لفظ نہ سن سکے۔ سفارت خانے کو اسلام آباد سے حکم پہنچا کہ اس ننگِ ملت کے اعزاز میں سرکاری خزانے سے عشائیہ منعقد کیا جائے۔

آج کی صورتحال دیکھ لیجیے۔ ساری دنیا کو ہمارے  ملک میں مصروف ِ عمل غیر ریاستی عناصر نظر آرہے  ہیں مگر خود ہم پاکستانیوں کو اتنے بڑے بڑے  عناصر نہیں دکھائی دے رہے۔ ہمارے ملک میں ایک دفاع پاکستان کونسل بنی ہوئی ہے۔ ایسی کونسل دنیا کے کسی اور ملک میں وجود نہیں رکھتی۔ کرہ ارض کے سارے ملکوں  میں دفاع کی ذمہ داری افواج پر ہوتی ہے ۔فوجوں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔تربیت ہوتی ہے۔معلومات ہوتی ہیں ۔ حکمتِ عملی وضع کرتی ہیں ۔ سٹریٹجی بناتی ہیں تب اس قابل ہوتی ہیں کہ ملک کا دفاع کریں ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا دفاع ایک ایسی کونسل کے ذمہ  ہے جس   کا افواج سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کونسل کے پاس توپیں  ہیں نہ ہوائی جہاز ،آبدوزیں ہیں نہ ٹینک ،راڈار ہیں نہ میزائل، اس کا تعلق وزارتِ دفاع سے ہے نہ وزارتِ خارجہ سے،پارلیمنٹ سے ہے نہ کسی حکومتی ادارے سے مگر اس کے باوجود دفاع کی بھاری ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پر ہے۔

اس باہمت بہادر کونسل نے پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کے دفاعی امور بھی اپنی تحؤیل میں لے رکھے ہیں ۔ حال ہی میں ا س نے ایک عظیم الشان” تحفظ بیت المقدس کانفرنس” کا انعقاد کیا ۔اس میں کونسل نے حکومت ِ پاکستان کو دو بڑے حکم دئیے۔، ایک یہ کہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کرے۔ دوسرا یہ کہ وزیراعظم،کابینہ کے ہمراہ، بیت المقدس اور کشمیر کی آزادی کے لیے،سلامتی کونسل میں دھرنا دیں ۔ یہ تفصیل کونسل نے تاہم نہیں بتائی کہ جہاد کا حکم مسلح افواج کے لیے ہوگا یا عوام کے لیے۔ یہ بات بھی کونسل نے تادم ِِ تحریر اخفا میں رکھی ہوئی ہے کہ حکومتِ پاکستان بیت المقدس کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کس حیثیت سے کرے گی؟ اور فلسطین کی ریاست کا اس میں کیا کردار ہوگا۔ سلامتی کونسل میں دھرنا دینے کا حکم بھی مبہم ہے۔کیا اس ہال میں جہاں سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا ہے ،دھرنا دینے والوں کے لیے جگہ کی گنجائش ہے؟ یا یہ دھرنا برآمدے میں دیا جائے گا؟

اور یہ جو دفاع  کونسل پاکستان  نے بیت المقدس کی آزادی اور کشمیر کی آزادی کو ایک ہی بریکٹ کے اندر رکھ کر دونو ں مسئلوں کو یک جان دو قالب بنادیا جائے تو ا س میں عملی مشکلات بہت نظر آرہی ہیں ۔ جیسے ہی فلسطینی ریاست  کے اسلام آباد میں تعینات سفیر ،دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر حافظ سعید صاحب کے ساتھ نظر آئے ۔بھارت نے فلسطین سے احتجاج کیا اور فلسطین نے سفیر  سے ناراض ہوکر اسے پاکستان سے واپس بلا لیا۔ اس موقع پر بھارت میں تعینات فلسطین کے سفیر عدنان ابو الحجہ نے مندرجہ ذیل بیان دیا !

“فلسطین نے پاکستان میں متعین اپنے سفیر ولید ابو علی کو فوراً واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ وہ سٹیج پر حافظ سعید کے ساتھ بیٹھا۔اب اسے پاکستان میں دوبارہ نہیں بھیجا جائے گا۔ جو کچھ اس نے کیا ،وہ میری حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔فلسطین کے تعلقات بھارت کے ساتھ بہت قریبی ہیں  ۔فلسطین نے ہمیشہ بھارت کی اس جدوجہد کی حمایت کی ہے جو وہ دہشت گردی کے خلاف کررہا ہے”۔

یہاں آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ فلسطین دہشت گردی کا ذکر کیوں اور کن شخصیات کے حوالے سے کررہا ہے۔

اب دفاع کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحب کا اس سارے معاملے پر تبصرہ ملاحظہ فرما ئیے۔

“فلسطینی سفیر کی جلسے میں شرکت پر بھارت کا ردِ عمل دراصل اسرائیل کا ردعمل ہے ،بھارت اسرائیل کی شہ پر فلسطین کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے”۔

اب حساب  لگائیے۔فلسطین کی حکومت کہہ رہی ہے کہ بھارت اس کا قریبی دوست ہے۔بھارت کے اعتراض کی وجہ سے فلسطین پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا لیتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کہہ رہی ہے کہ بھارت کا ردِ عمل اسرائیل کا ردِ عمل ہے۔ تو پھر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے نا کہ اسرائیل (یعنی بھارت) کے ردِ عمل پر فلسطین نے سفیر کو واپس بلا لیا  ہے اور اگر بھارت فلسطین کی  جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور اس کے باوجود فلسطین بھارت کو قریبی دوست سمجھتا ہے تو ثابت یہ ہواکہ خود فلسطین ،اپنی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

غور کیجیے کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہے    - کیسا تھپڑ پڑا ہے پاکستان کے منہ پر ! جس فلسطین کے لیے جلسے اور احتجاج کر رہے ہیں اسی نے بھارت کے کہنے پر سفیر کو واپس بلا لیا ہے   - اس سے ان  حضرات کو بھی افاقہ ہو جانا چاہیے جو فلسطین کو مذہبی مسئلہ کہہ کر اپنی مارکیٹنگ کرتے ہیں - 
کشمیر کے جس مسئلے کو  یہ حضرات فلسطین اور بیت المقدس کے ساتھ بریکٹ کررہے ہیں اس کے ساتھ فلسطین نے کبھی اظہار ہمدردی تک نہیں کیا۔ ہم پاکستانیوں کو یاد نہیں کہ جنرل ضیا الاحق جب بطور بریگیڈئیر اردن میں تعینات تھے تو اردن کے بادشاہ کے حکم پر انہوں نے فلسطینیوں کو کچلا تھا۔ تب سے فلسطینی پاکستانیوں کےساتھ سرد مہر ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ نفرت کرتے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یاسر عرفات ہمیشہ بھارت نواز رہا۔ شاید ا س نے کبھی کشمیر کا ذکر کیا ہو، مگر پاکستانی ان حقائق سے بے نیاز ،اپنی دھن میں مگن ،فلسطین اور کشمیر کو باہم متصل کیے جارہے ہیں ۔ شاید اس لیے بھی کہ ایسا کرنا ناقابلِ دست اندازیء پولیس نہیں ۔

‘ ہم چند غیر سرکاری شخصیات کی خاطر، چند غیر ریاستی  عناصر کی خاطر، پوری دنیا کو جھٹلا سکتے ہیں ۔مگر نظر ہماری اپنی کمزور ہے۔ جو پورے کرہ ارض کی حکومتوں کو دکھائی دے رہا ہے۔ ہم دیکھنے سے قاصر ہیں ۔کسی ایسے طبیب حاذق کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں معجونیں ،خمیرے اور اطریفلیں کھلائے اور ہماری آنکھوں میں مقوی بصر سرمے لگائے تاکہ ہم پھر سے دیکھنے لگ جائیں ۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ دنیا والے ہمارے ہاتھوں میں سفید چھڑی پکڑانے کا سوچ رے ہیں ۔

ہم اہل پاکستان تضادات کے سمند میں ،تضادات کی کشتی میں بیٹھے، تضادات کے چپو کے ساتھ ،ایک خطرناک بحری سفر کرر ہے  ہیں ۔ ان تضادات کی ایک ہلکی سی جھلک پر غور کیجیے۔ سابق وزیراعظم نے ملک سے باہر جاکر کہا کہ مجھے لوگوں نے بھارت کے ساتھ دوستی   کے لیے ووٹ دئیے تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کا گڑھ وسطی پنجاب خاص طور پر لاہور ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ پنجاب سب سے زیادہ اینٹی بھارت ہے۔مگر   سابق وزیراعظم کے اس بیان پر کسی قابلِ ذکر پنجابی نے احتجاج نہیں کیا  بلکہ اس کے بعد ان کی بیگم صاحبہ لاہور سے ایک ضمنی الیکشن بھی جیت گئیں ۔ یعنی

؎ہر چندکہ ہے مگر نہیں ہے!

ہماری حالت وہی ہے جو  جون ایلیا نے اس شعر  میں بیان کی ہے۔

؎ہم ہیں یہا ں سے جارہے ،جانے کہاں ہیں جارہے

 خیر، جہاں ہیں جارہے، بس یہ سمجھ وہاں چلے!






No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com