Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 25, 2018

تارکین وطن شیر کی سواری کر رہے ہیں


اردو کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔لاس اینجلز ہو یا ناروے ‘جاپان ہو یا بارسلونا’ اردو بولنے والے سمجھنے والے لکھنے والے ہر جگہ موجود ہیں ۔ اردو کی بستیاں کرہ ارض کے ہر گوشے میں پائی جاتی ہیں  ۔ سڈنی بھی انہی گوشوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی سڈنی جانا ہوتا ہے۔ ایک تازگی کا ایک نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا ایک ایک گروہ اس سخت مشینی اور خود کار زندگی کے جکڑ دینے والے بندھنوں سے اپنے آپ کو چھڑا کر ‘اردو کے لیے جو بن پڑتا ہے کرتا ہے اور مسلسل کررہا ہے ،شاعر ارشد سعید ان میں نمایاں ہے۔ غزلیں کہتا ہے۔نظمیں لکھتا ہے۔ تقریبات منعقد کرتا ہے۔ گھر اس کا بیک وقت گھر اور مہمان خانہ بھی۔ اب دوسرا شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے۔ ڈاکٹر کوثر جمال نے پی ایچ ڈی تو چینی زبان میں کی۔ پھر ترجمے اور ترجمانی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے مگر اردو کی خدمت پر وہ بھی کمر بستہ ہیں ۔افسانے اور مضامین لکھتی ہیں ۔تقریر خوب کرتی ہیں  اور تقاریب کے اہتمام و انصرام میں پیش پیش رہتی ہیں ۔سعید خان اور نوشی گیلانی کی جوڑی سڈنی کی اس دنیا میں جو اردو کی دنیا ہے ‘ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ہمیشہ نوجوان اور شاداب دکھائی دینے والا سعید خان ارشد سعید کی طرح سڈنی میں اس وقت سے اردو کی خدمت کررہا ہے۔ جب بہت سے احباب ابھی وہاں آئے بھی نہیں تھے۔

اردو شاعری میں وہ ایک نیا کام کررہا ہے۔ یہ کام ایک خوشگوار تازہ جھونکے کی طرح ہو گا ۔اس کی مزید تفصیل اس وقت نہیں بتائی جاسکتی کہ اردو شاعری کے دلدادگان کا مزا کرکرا نہ ہو۔!نوشی گیلانی زندگی کی ہم سفر ہونے کے علاوہ اردو دوستی کے پیچیدہ سفر میں بھی سعید خان کی ہمراہی ہے۔شاعری کے حوالے سے پاکستان اور آسٹریلیا سے باہر بھی معروف نوشی گیلانی ‘سڈنی کی ادبی اور ثقافتی تقاریب کی جان ہے۔ نوشی کے ساتھ شاعری کے حوالے سے  تو تعلق ہے ہی’ ایک اور حوالے سے بھی اس کے خانوادے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ بچھڑ جانے والے دوست عزیز فاروق گیلانی  کی وہ خالہ  زاد بہن ہے اور اس کی ادبی تربیت میں فاروق کے والد محترم سید اسعد گیلانی کا بھی ہاتھ ہے۔ کچھ دن پہلے روزنامہ 92 کے صفحات پر نوشی کا کالم دیکھ کر خؤشگوار حیرت ہوئی۔ کیا عجب آئندہ بھی اس کے کالم نظر آتے رہیں ۔

طارق محمود سفر نامہ لکھ  رہے ہیں ڈاکٹر  فصیح الدین اور عباس علوی بھی اردو کے خدمت گار ہیں ۔ازحد مستعد اور بے لوث خدمت گار! عباس علوی نے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ۔آسٹریلیا میں زبان کے حوالے سے حکومت اعداد وشمار اکٹھا کرتی ہے۔ جس زبان کے بولنے والے تعداد میں ایک خاص حد سے زیادہ ہوجائیں ‘اس زبان کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ اردو کو تسلیم کرانے کے لیے یہ حضرات جدوجہد کرہے ہیں ۔عباس علوی کا اٹھایا ہوا نکتہ یہ تھا کہ بہت سے حضرات اپنی زبان پنجابی سندھی پشتو سندھی یا کشمیری بتا تے ہیں ۔ اگر یہ سب قربانی دیں اور اپنی زبان اردو بتائیں تو تعداد کےحوالے سے اردو کی اپوزیشن مستحکم ہوجائے گی اور تسلیم کرانے میں آسانی ہوگی۔ تاہم یہ مسئلہ اس قدر سہل اور سادہ بھی نہیں ۔اگر حکومتی کارندے مادری زبان یا “پہلی زبان” (فرسٹ لینگوئج) کا پوچھیں تو وہی بتاتا ہوگا اور وہی بتانا چاہیے جو امر واقعہ ہے آسٹریلیا کے اردو دوست حضرات  کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اور پاکستانی احباب اس ضمن میں مل بیٹھیں اور اتفاق رائے  سے ایک حکمت عملی ترتیب دے دیں۔  مقصد تو اردو کی ترویج ہے ۔یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز طریقہ اپنانا چاہیے۔

جہا ں دو پاکستانی موجود ہوں ، وہاں بدقسمتی سے کم از کم تین گروپ ضرور ہوتے ہیں جو آپس میں ٹھیں پٹھاس کرتے رہتے ہیں ۔ایک بار وینکوور  کی   ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع  ملا ۔معلوم ہوا کہ کئی پاکستانی گروپ جو باہم متحارب ہیں  ‘مسجد کا منتظم بننے کے دعویدار ہیں ۔سڈنی بھی اس لحاظ سے مستثنٰی نہیں ۔ گروپنگ موجود ہے۔ مگر روشن پہلو یہ ہے کہ کام کرنے والے نوجوان ہیں اور رخنہ ڈالنے والے پیرانِ تسمہ پا۔ یہ عمر رسیدہ حضرات نوجوانوں کو کامیاب ہوتا ‘ پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے ان کے کام میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ذاتی رنجشوں میں یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ تقاریب کو ناکام بنانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں ۔ مگر ایسا تو ہر زمانے میں ہوتا ہی آیا ہے۔ اس معاملے میں  صرف پاکستانی ہی نہیں  اور بھی بہت سی قومیتیں بدنام ہیں ۔

سڈنی کا موسم دلفریب تھا۔ دن کو گرمی اور شام کو فرحت بخش خنکی ۔اس شہر کی کُل عمر دو سو تین برس سے زیادہ نہیں ، جس سڈنی میں مقامی قبائل پچیس تیس ہزار سال سے  آ باد تھے اسے  کیپٹن ُکک نے  1770 میں “دریافت” کیا ۔1788 میں پہلا برطانوی بحری جہاز قیدی مجرموں کو لے کر لنگر انداز ہوا۔ اس وقت برطانیہ کی نیت اس سے زیادہ نہ تھی کہ اسے “کالا پانی” کے طور پر پیش کرے ۔عجیب وحشت اور بربریت کا اس زمانے کے برطانیہ میں دور دورہ تھا۔انڈا یا کپڑے کا تھان چرانے والے کو سزا دینے کے لیے جہاز میں بٹھا کر سڈنی بھیج دیا جاتا تھا۔ آرتھر فلپ جب یہ پہلا جہاز لے کر پہنچا تو شہر کا نام اس نے ا س وقت کے برطانوی وزیر داخلہ کے نام پر سڈنی رکھا۔ وہ جہاز پینے کا پانی بھی ساتھ لے کر آیا تھا۔ پانی ختم ہوا تو جہاز مزید پانی ہندوستان سے لے کر آیا ۔

انیسویں صدی کے وسط میں سزا یافتگان کی آمد بند ہوئی ۔پھر یہی مجرم آسٹریلیا کےبانی بن گئے۔ 1842 میں سڈنی کو “شہر” قرار دیا گیا۔ پھر سڈنی دن بدن آگے بڑھتا گیا۔ دنیا بھر کی نظریں اس پر تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں تارکین وطن آنا شروع ہوئے جن کی غالب تعداد سفید فارم تھی۔ آج سڈنی میں اڑھائی سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں  ۔ چالیس فیصد آبادی انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتی ہے۔ چھتیس فیصد وہ ہیں جو آسٹریلیا سے باہر پیدا ہوئے اور سڈنی آبسے۔

گراں ترین شہروں  میں سڈنی کا بھی شمار ہوتا ہے مگر رہنے کے لیے بہترین شہروں کی فہرست میں اس کا دسواں نمبر ہے ۔سیاحت کے حوالے سے یہ پندرھویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر کے سیاح امڈے چلے آتے ہیں ۔

اردو کی طرف پلٹتے ہیں ۔ کیا سڈنی کے اردو دوستوں کی کوششیں ان کی نئی نسل کو متاثر کرسکیں گی ؟اس سوال کا جواب مشکل ہی نہیں ۔بہت زیادہ مشکل ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں کیا بچے اردو بول سکتے ہیں ؟ اور کیا وہ لکھ پڑھ بھی سکتے ہیں ؟

اس وقت تارکین وطن کے بچوں کی اکثریت اردو سمجھتی ہے مگر بولتی نہیں ۔بولے بھی تو ایسی اردو بولتی ہے جس میں غالب حصہ انگریزی کا ہے۔ ماں باپ آپس میں بولتے ہیں ۔بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں مگر بچے جواب انگریزی میں دیتے ہیں ۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ابتدا ہی سے اردو میں بولنے کی ترغیب دیں ۔ مشکل ترین کام بچوں کو آپس میں اردو بولنے  پر آمادہ کرنا ہے آسٹریلیا کے سکولوں میں پڑھنے والے پاکستانی بچے گھر میں بہن بھائیوں کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس میں اظہار اور ابلاغ انہیں آسان لگتا ہے۔

سڈنی اور میلبورن ۔دونوں بڑے شہروں میں  اردو بولنے والے حضرات ابھی تک نئی نسل  کے لیے اردو کی تعلیم کا باقاعدہ بندوبست نہیں کرسکے۔ ہفتہ اتوار کےدن کلاسیں ہوسکتی ہیں  ۔ اسی طرح طویل تعطیلات میں یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر  ماں باپ کی مصروفیات اور پھیلے ہوئے دور دراز فاصلے آڑے آجاتے ہیں۔ ایک ترکیب یہ ہے کہ بچوں کو ہر سال کچھ ماہ یا کچھ ہفتے پاکستان رہنے کا موقع ملے۔ یہ بھی آسان کام نہیں  ۔ اکثر تارکین وطن کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان آنے کے بجائے امریکہ ‘یورپ’ نیوزی لینڈ یا جزائر فجی اور بالی کی سیرو سیاحت کریں   اپنی  اپنی  ترجیحات ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ تارکین وطن شیر کی سواری کررہے ہیں ۔ نیچے اترنا مشکل ہے اور جان جوکھوں کا کام ۔ انتہائی مصروف’نپی تُلی اور مقررہ معمولات سے اٹی ہوئی زندگی! گاڑیوں اور مکانوں کی قسطیں ‘ صحت کی  انشورنس الگ’ ملازم’باورچی ‘ڈرائیور’ باغبان ‘عنقا ہیں ۔ گھر کی صٖفائی خود کرنی ہے۔ صحن کی گھاس خود کاٹنی ہے ۔گاڑی بھی خود چلانی ہے۔ کھانا پکانا ہے ۔میاں بیوی دونوں رہٹ کے بیلوں کی طرح دن رات جُتے ہیں ۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ۔وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں مگر واپسی ممکن نہیں ! شیر پر سواری کررہے ہیں ۔ شیر کو پسند بھی نہیں کرتے ۔نیچے اترنے میں خطرات ہیں ۔

تارکین وطن لوٹین تو وطن میں بھی اب زندگی ان کے لیے آسان نہیں ۔ان کی نئی نسل پاکستا ن کی لاقانونیت ‘ٹریفک کی بد تہذیبی ‘ پاکستانی تاجروں اور دکانداروں کے جھوٹ اور بددیانتی ‘اور پاکستانی پولیس کی خون آشامی سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ایک طرف کھائی ہے۔ دوسری طرف پہاڑ کی چوٹی ۔اس پہلو پر کچھ اور باتیں کسی آئندہ نشست میں !!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com