میں آپ کو بیو قوف سمجھتا ہوں ۔
نہ صرف بیوقوف بلکہ گاؤدی!
میرے دائیں ہاتھ میں گلاس ہے۔گلاس میں پانی ہے،میں پانی پیتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں گلاس ہے نہ پانی!
میں نے سویٹر پہنی ہوئی ہے۔سویٹر کےاوپر کوٹ ہے۔سر پر گرم چترالی ٹوپی ہے۔رضائی بھی اوڑھی ہوئی ہے۔ کمرے میں ہیٹر بھی جل رہا ہے تاہم آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ گرمی کا موسم عروج پر ہے۔
وہ جو شاعر نے کہا تھا
؎سنا ہے کہ میرٹھ میں الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں
تو میں رگِ گل سے بلبل کے بال و پر باندھ رہا ہوں ۔میں شبنم کا پانی اکٹھا کرکے مٹکا بھررہا ہوں ۔آپ کے مسلسل بہتے آنسوؤں کو جمع کرکے ڈیم بنا رہا ہوں ۔پرسوں میں نے تین سالہ پوتی کے لیے پانچ سو میں کار خریدی ہے۔آج میں اس کار میں آپ کو بٹھا کر لاہور سے کراچی لیے جارہا ہوں ۔میں مشرق کی طرف جارہا ہوں اور آپ کو تسلی دے رہا ہوں کہ ہم کعبہ کی طرف سفر کررہے ہیں ۔میں ہنزہ میں راکا پوشی چوٹی کے دامن میں کھڑا ہوں اور آپ کو بحرالکاہل دکھا رہا ہوں ۔میں ویٹی کن کا رُخ کیے ہوئے ہوں ۔تاکہ اسلامی فقہ اور تفسیر کے علوم پوپ سے حاصل کروں !اسرائیل جا رہا ہوں ۔وہاں کی حکومت سے یہ کہنے کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لیے کوشش کرے۔
آپ یہ ساری باتیں سن رہے ہیں ،اور خاموشی سے باادب کھڑے ہیں ۔آپ میں سے کچھ دست بستہ ہیں !کچھ میرے ہر جملے پر سر ہلا رہے ہیں ۔کچھ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد “بے شک بے شک”کے طلسمی الفاظ دہرا رہے ہیں ۔میں یہ سارے بے سروپا ،بے ڈھنگے بیانات دے کر ،جن کا سر ہے نہ پیر۔اپنی ٹوپی سیدھی کرتا ہوں ۔واسکٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور چل پڑتا ہوں ۔آپ احتراماً راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔کچھ آپ میں سے میرے پیچھے حواری بن کر چلنے لگتے ہیں !آپ ایک دفعہ بھی نہیں کہتے کہ کیا احمقانہ باتیں کر رہے ہو!آپ اس سے کہیں زیادہ مہذب پیرائے میں ٹوک سکتے تھے کہ حضور !جو کچھ آپ فرما رہے ہیں خلافِ حقیقت ہے۔مگر آپ چوں بھی نہیں کرتے۔یہ ہے سبب کہ میں نے آپ کو بیوقوف ‘احمق کہا ہے،نگریزی میں آپ idiotکہلاتے ہیں !
ایک سابق حکمران وفات پا چکے ہیں ان کے پوتے سیاست میں آئے تو ہمارے محترم دوست نے’جو مشہور و معروف کالم نگار ہیں پھبتی کسی کہ تیسری نسل گھس گھس کر اتنی سی ہوگئی ہے ۔لیڈر شپ کی مسلسل تنزلی کا رونا ان کالموں میں کئی بار رویا جاچکا ہے۔ اور قارئین نے ساتھ مل کر ‘باقائدہ با جماعت آہ و زاری کی ہے۔ ایک بہت بڑے مفکر او رعالم تھے ایک نیم سیاسی نیم مذہبی پارٹی کے رہنما!ان کے جانشینوں کی بھی یہ تیسری نسل ہی سمجھیے۔گھس گھس کر اتنی سی ہوگئی ہے۔عبرت آنکھوں کے سامنے آ کر رقص کرتی ہے اور منہ چڑاتی ہے۔شیر کی شادی تھی۔تقریب عروج پر تھی۔ہنگامہ دیدنی تھا۔انتظامات سارے چوہے کے سپرد تھے ۔کبھی وہ صوفے لگواتا کبھی دیگوں کا معائنہ کرتا’کبھی مہمانوں کو خوش آمدید کہتا!پوچھا گیا تم کس حساب سے چوہدری بنے ہوئے ہو!مسکرا کر جواب دیا’شیر میرا چھوٹا بھائی ہے۔لوگوں نے کہا کیا بات کررہے ہوخدا کا خو ف کرو!چوہا ہنسا کہ “شادی سے پہلے میں بھی شیر تھا”
فرماتے ہیں “مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا”اسی سانس میں مزید فرمایا کہ ایم ایم اے جماعت نہیں ۔سیاسی اتحاد ہے۔ہم سب دینی قوتوں کو متحد کر کے سیاست پر قابض مغربی سامراج کے آلہ کاروں کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں ۔
جس ایم ایم اے کا ذکر فرما رہے ہیں اس کا وجود ہی مسلکی تقسیم سے بنا ہے یعنی حضرت نے مسلکی تقسیم کی چارد اوڑھ رکھی ہے ٹوپی پر سرخاب کا نہیں “مسلکی”تقسیم کا پَر اڑس رکھا ہے۔عینک میں شیشے مسلکی تقسیم کے لگا رکھے ہیں اور وعظ فرما رہے ہیں کہ مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا !غور کیجیے۔ایم ایم اے میں کون کون سی جماعتیں ہیں ؟ پہلی جماعت جے یو آئی (ف)ہے یعنی جمعیت علما اسلام (فضل الرحمٰن گروپ)یہ جماعت خالص مسلکی تقسیم کی کھڑاؤں پر کھڑی ہے۔ دیو بند مسلک کی جو تقسیم در تقسیم ہوئی ہے۔یہ اس کا شاخسانہ ہے۔دوسری جماعت ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات میاں اویس نورانی کی ہے۔ آپ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے فرزند ارجمند ہیں ۔مسلک بریلوی ہے۔اس پارٹی میں کوئی دیو بندی ہے نہ شیعہ نہ اہل حدیث!تیسری پارٹی ایم ایم اے میں مولانا ساجد نقوی کی ہے۔آپ شیعہ مسلک کے رہنما ہیں اور پارٹی بھی اسی مسلک کا سیاسی پلیٹ فارم ہے۔چو تھی پارٹی جماعت اہل حدیث ہے۔مولانا ساجد میر اس جماعت کے سرخیل ہیں ۔حکومت کے ساتھی ہیں !ایوان بالا کے رکن ہیں ۔جیسا کہ نام سے واضح ہے”جماعت اہل حدیث “میں کوئی غیر اہل حدیث کیوں آئے گا!پانچویں پارٹی جماعت اسلامی ہے۔
آہ!اے جانِ حیات اور اے مماتوں کی ممات!!
بظاہر لگتا ہے کہ جماعت اسلامی کا مسلک کی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں !مگر ذرا ٹھہریے!اتنی سرعت سے فیصلہ مت کیجیے۔اس حقیقت پر غور فرمائیے کہ اگر جماعت اسلامی ملک کی تقسیم سے بالا اور ارفع ہے تو پھر اس میں شیعہ کیوں نہیں شامل اور بریلوی اس میں نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں ؟صرف دیو بندی مسلک کے لوگ شریک ہیں !ہاں ہوسکتا ہے کچھ اہل حدیث بھی ہوں!آٹے میں نمک کے برابر!
دوسرا نقطہ آپ کی توجہ کا یہ ہے کہ جہاں ہرمسلک کا اپنے مخصوص مدارس کا نیٹ ورک ہے ’وہاں جماعت اسلامی کے بھی اپنے دمدارس ہیں !دیوبندیوں کے اپنے الگ مدارس اور شیعہ برادری کے اپنے’ اہل حدیث برادری کے اپنے اور بریلوی بھائیوں کے اپنے! جماعت اسلامی مسلکی امتیاز سے بے نیاز ہوتی تو اپنے وابستگان کو ان شیعہ بریلوی دیو بندی اور اہلِ حدیث مدارس میں داخل ہونے اور تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتی مگر اس نے اپنے الگ مدارس قائم کیے جو ماشااللہ چل رہےہیں !یوں جماعت ان سب مسلکوں سے الگ’ایک الگ پکڈنڈی پر چل رہی ہے ۔اب آپ اسے مسلکی تقسیم نہیں کہتے تو بے شک نہ کہیے۔اس لیے کہ بچے نےآکر ماں کو بتایا کہ باہر باغ میں خرگوش دیکھا ہے۔ ماں نے کہا تمہارا وہم ہوگا ۔بچے نے پوچھا کیا وہم کی چار ٹانگیں اور رنگ سفید ہوتا ہے؟تو یہ اگر مسلکی تقسیم نہیں ہے تو پھر سفید رنگ کا خرگوش ہے یا گردن بلند زرافہ ؟؟ ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ میرا بہتر فرقوں میں سے کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سننے والے نے اونچا قہقہہ لگایا اور کہا کہ پھر یوں کہیے کہ آپ تہترواں فرقہ بنا رہے ہیں ۔
جس سانس میں مسلکی تقسیم کی اینٹوں سے بنی ہوئی ایم ایم اے بنا رہے ہیں اسی سانس میں مسلکی تقسیم کی مذمت فرما رہے ہیں۔یہ سب حضرات یہ ایم ایم اے کے مسلکی گروہوں کے معزز رہنما جن لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہی لوگ تو ہیں جنہیں میں بتاتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں گلاس ہے نہ پانی جب کہ میں گلاس سے پانی پی رہا ہوں ۔جنہیں میں گرم کپڑوں میں ملبوس ہوکر رضائی اوڑھ کر ہیٹر جلا کر بتاتا ہوں کہ گرمیاں قیامت ڈھا رہی ہیں !جن کے سامنے بلبل کے پر رگِ گل سے باندھتا ہوں شبنم کے پانی سے مٹکا بھرتا ہو ں۔آنسوؤں سے ڈیم بنانا ہوں پانچ سو روپے کی کار میں عازم کراچی ہوتا ہوں ۔ہنزہ میں بحرالکاہل دکھاتا ہوں اور پوپ سے فقہ کا درس لیتا ہوں۔ جس طرح میرے ارشادات عالیہ کو سامعین ادب احترام سے سنتے ہیں ۔دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں ‘میرے لیے راستہ چھوڑتے ہیں اور میرے پیچھے پیچھے سر جھکا کر سعادت مندی اور برخورداری کے ساتھ چلتے ہیں ۔
بالکل اسی طرح یہ مسلکی تقسیم کے علم برداروں کی زبان سے مسلکی تقسیم کی مذمت سنتے ہیں اور آمنا و صدقنا کہتے ہیں !سادہ اور معصوم لوگ۔جنہیں بے وقوف’احمق اور گاؤدی بنایا جارہا ہے!!
No comments:
Post a Comment