Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, January 26, 2018

ڈرامہ


آفریں ہے قصور کے لوگوں پر جنہو ں نے خادم اعلی کی پولیس کے مہیب،مکروہ دیوتا کے چرنوں میں شہریوں کی قربانی دی۔جو سڑکوں پر آئے،جنہوں نے احتجاج کیا ،اتنا احتجاج کہ پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔سوشل میڈیا آندھی کی طرح اٹھا اور اس نے پوری دنیا کے اوپر مظلوم زینب کا دریدہ ڈوپٹہ پھیلا دیا۔یہاں تک کہ وہ بے حس حکمران بھی ایکشن لینے مجبور ہوگیا جسے کسی کی جان کی پرواہ تھی نہ عزت کی۔جس نے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے رسوائے زمانہ پورنوگرافی کے سکینڈل میں ملوث مجرموں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا اور جو کم و بیش ایک درجن بچیوں کے قتل پر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔اسی حکمران کو پہلے صرف عمران خان ڈرامہ کہتا تھا،اب آزاد میڈیا نے بھی یہی کہنا شروع کردیا ہے۔ایک معروف صحافی نے 15 جنوری کو ایک ٹیلی ویژن چینل پر جو کچھ کہا ،اسے یوٹیوب پر لاکھوں افراد سن چکے ہیں اور سن رہے ہیں ۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ معروف صحافی کیا کہتے ہیں ۔آپ بھی سنیے۔

“ان کا اپنا ایک سٹائل ہے۔میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو پانچ سات آدمیوں کو پہلے سے کھڑا کردیتے ہیں کہ یہ سوال کرو،یہ  سوال کرو،کوئی کام کا سوال ہوگا تو اچھا خدا حافظ کہہ کر نکل جاتے ہیں ۔۔۔۔ان کو علم ہی نہیں کہ کیا بات کرنی ہے ؟کس وقت؟ملک کے حالات کیا ہیں ؟صوبے کے حالات کیا ہیں ،جانیں جارہی ہیں لوگوں کی ۔خدا نخواستہ اور انتشار پھیل جائے۔یہ عجیب و غریب  قسم کا آدمی ہے۔چلتا ہوا آتا ہے میڈیا کے سامنے۔جو منہ میں آتا ہے بات کرکے اور کھسک کے خدا حافظ کہہ کر نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔یہ آدمی سیاست دان ہے؟۔۔اس سے تو وہ جو سیکرٹری ہوتے ہیں ،پریس سیکرٹری وہ ڈھنگ سے بات کرلیتے ہیں ،میڈیا کےسامنے،سوال کیا جائے تو آگے سے نکل جاتے ہیں ۔یعنی نہ ان سے قصور کا سوال پوچھ سکتے ہیں نہ بچوں کا سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ ڈرامہ کرکے نکل جائیں گے؟آتے ہیں دو منٹ کے لیے بات کرتے ہیں ،ہیٹ پہن کر،پھر وہ کھسک جاتے ہیں ۔ان کو کوئی خدا کا خوف نہیں ۔ رانا ثنا اللہ ہیں کم سے کم ،صحیح یا غلط وہ میڈیا سے بات تو کرتے ہیں۔سعد رفیق بات تو کرتے ہیں ۔پرویز رشید بات تو کرتے ہیں ۔”

پہلے تو لوگوں کا محض خیال تھا مگر اب سپریم کورٹ کے سامنے ان چالیس بینک اکاؤنٹس کی تفصیل پیش کی جاچکی ہے جو گرفتار شدہ ملزم(یا مجرم عمران کے ہیں ایک اعلیٰ شخصیت کا نام بھی کاغذ پر لکھ کر چیف جسٹس کو دیا جاچکا     ہے ۔چنانچہ اب اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ یہ صرف عمران کا کام نہیں ۔وہ تو ایک معمولی فرنٹ مین ہے۔ ایک بہت بڑی مشین کا ایک ادنٰی کارندہ ہے۔ایک پورامافیا ہے جو تشدد سے بھرپور جنسی عمل کی فلمیں بنا کر دنیا بھر میں درآمد کرتا ہے،جنہیں ذہنی مریض شوق سے دیکھتے ہیں ۔مارکیٹ میں اس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔کروڑوں اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ قصور میں جتنے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں ،ان پر اس سیاق و سباق میں غور کیجیے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔

اب سوال پیدا   ہوتاہے کہ زینب سے پہلے جو پے در پے واقعات قصور میں رونما ہوئے ،ان کے ملزمان کیوں نہیں پکڑے گئے؟منطق اس سوال کا جواب یہ دیتی ہے کہ پنجاب حکومت اس مافیا پر ہاتھ نہیں ڈالنا  چاہتی۔کیوں ؟خوف کی وجہ سے؟یا سیاسی مفادات کی وجہ سے؟بہر طور وجہ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ ڈیڑھ سو بچو ں کی جنسی فلموں کا سکینڈل  جب کھلا تو کسی کو سزا نہیں دی گئی۔زینب سے پہلے دس بارہ  بچیوں کو اسی شرم ناک طریقے سے بے آبرو کرکے قتل کیا  گیا مگر خادم اعلی کا پاؤں قصور کی طرف نہ بڑھا نہ ان کی آنکھ  سے  کوئی آنسو ہی نکلا۔کوئی اور  حساس  اور ذمہ دار حکمران ہوتا تو آکر قصور میں خیمہ زن ہوجاتا اور پہلی بچی کے قاتل کو پکڑوا کر وہاں سے واپس جاتا ‘مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک نہیں ،ایک درجن بچیاں درندگی کی بھینٹ چڑھ گئیں لیکن پھر بھی”پنجاب سپیڈ”حرکت میں نہ آئی۔یہاں تک کہ زینب کی مسخ شدہ لاش ملی تو ملک بھر میں جیسے آگ لگ گئی ۔پھر بھی پنجاب حکومت نے پوری کوشش کی کہ احتجاج کرنے والے خوف زدہ ہوکر بیٹھ جائیں اور مافیا کا کاروبار چلتا رہے۔ اسی لیے پولیس  نے احتجاج کرنے والے دو معصوم افراد کو قتل بھی کیا ۔تادمِ تحریر”خادم اعلی” نے پولیس میں بیٹھے ہوئے ان افراد کے قاتل (قاتلوں ) کو کوئی سزا نہیں دی۔

پنجاب کے حکمران اعلی کی ترجیحات ‘مائنڈ سیٹ اور ادراک دیکھ کر انسان حیرت میں گم ہوجاتا ہے اور صدمے سے بے حال ہوجا تا ہے۔ صوبے کی سب سے قدیم ،سب سے بڑی یونیورسٹی میں طلبہ کے گروہ ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں ۔لاٹھیوں اور چھروں سے حملے کررہے ہیں ۔ وائس چانسلر سے لے کر عام استاد تک سب دم بخود ہیں ،درس و تدریس کا سلسلہ معطل ہے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو حکمران آکر یونیورسٹی میں بیٹھ جاتا اور اس وقت اٹھتا جب ایک ایک مجرم کو ہمیشہ کے لیے یونیورسٹی سے نکال نہ دینا۔مگر یہاں حکمران اعلی کا “زبردست ایکشن” ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنیے۔فرماتے ہیں !

“پنجاب یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں پُر امن ماحول میں جاری رہنی چاہئیں ۔گڑ بڑ کرنے والے عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے”۔

جہاں پناہ کوکون بتائے کہ جب یونییورسٹی  میں  مسلح جتھے موجود ہوں ،جن ہوسٹلوں پر مذہبی لسانی اور علاقائی تنظیموں کا ناجائز قبضہ ہو،جب گروہوں کے گروہ آپس میں برسرِ پیکار ہوں ۔جب اساتذہ کو ذود و کوب کیا جائے تو”پُر امن ماحول” کہاں سے آئے گا؟اور تدریسی سرگرمیاں کیسے جاری رہیں گی؟

آپ کو اتناادراک ہی نہیں کہ درس گاہ سے مذہبی ،لسانی اور علاقائی تنظیموں کا خاتمہ کریں اور سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں جو غلبہ تنظیمیں دادا گیری کرتی پھرتی ہیں  ۔انہیں کان سے پکڑ کر یونیورسٹی کی حدود سے کم از کم پانچ سو کوس دور چھوٹا چھوڑ کر آئیں ۔ غضب خدا کا قدیم ترین یونیورسٹی میں پختونوں ،بلوچوں اور سندھیوں اور دوسرے گروہوں کی باقائدہ تنطیمیں ۔ارے ظلِ الٰہی! آپ کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔اور آپ اس کا استیصال نہیں کررہے۔آپ کم از کم یہ تو پوچھتے کہ کیا دوسرے صوبوں کی یونیورسٹیوں میں پنجابی طلبہ تنظیمیں فساد پھیلا رہی ہیں ؟ مگر جس حکومت میں یونیورسٹی کو یہ نادر شاہی حکم دیا جائے کہ اتنی زمین فلاں مذہبی تنظیم کے مدرسہ کے لیے دے دو اور وائس چانسلر اس پر احتجاج کرکے رخصت ہوجائے اور حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگے  وہاں اتنا شعور کیسے آئے گا کہ یونیورسٹی میں مذہبی  اور لسانی جتھے ہونے ہی نہیں چاہئیں ۔تعلیم تو یوں بھی ترجیحات کی فہرست میں جس "قابل رشک"   “مقام پر کھڑی ہے۔اس پر ہنساہی جاسکتا ہے رویا ہی جاسکتا ہے۔

اس بدقسمت یونیورسٹی کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق دیکھیے ۔اس کےاندر شاہراہوں اور راستوں پر مارچ کرکے طاقت کا مظاہرہ کیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون

اسے کہتے ہیں مرے ہوئے جانور کا بدستور کنوئیں کےاندر ہونا مگرکنویں سے سینکڑوں گیلن پانی نکال دینا۔ مسلح طلبہ یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔ہوسٹلوں پر ان کا قبضہ ہے ،ان کی تنظیموں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جارہی،ہاں پر امن طلبہ کو ڈرانے کے لیے یونیورسٹی کو پولیس کے حوالے کیا جارہا ہے۔وائس چانسلر صاحب میں اتنی ہمت ہے نہ سکت کہ یونیورسٹی کوجتھوں ،لشکروں اور سیاسی اور لسانی گروہوں کی مکروہ سرگرمیوں سے پاک کرسکیں ۔ یوں بھی غالباً دنیا میں شاید ہی کوئی اور مثال ہو کہ ایک تعلیمی ادارے میں پولیس پریڈ کراکے اس کے مقدس ماحول کے ساتھ مذاق کیا گیا ہو۔






No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com