Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, January 07, 2018

لڑ رہا ہوں رسا قبیلہ وار


یہ تاشقند تھا اور میں اس کے چغتائی محلہ میں گھوم رہا تھا ریستو رانوں سے شش لیک (تکّوں) کی مہکار آ رہی تھی۔صدیوں سے یہ محلے،یہ بازار، یہ میوہ جات کی منڈیاں یوں ہی بیچنے والوں اور خریدنے والوں سے چھلکتی آ رہی تھیں۔نہ جانے کیوں،جتنی دیر چغتائی محلے میں رہا،رسا چغتائی یاد آتے رہے۔ایک شعر ان کا ہتھوڑے کی طرح ذہن پر  ضربیں لگاتا رہا۔کیا شعر کہا ہے رسا صا حب نے،تہذیب،تاریخ اور ثقافت کی کئی صدیاں دو سطروں میں،دو مصروں میں،سمو دی ہیں
لڑرہا ہوں رسا قبیلہ وار
میرو مرزا کے خاندان سے دور
اس تہذیب،اس تاریخ اور اس ثقافت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے اس بات پر غور کیا ہو یا اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہو کہ کیسے سینکڑوں سال تک میراور مرزا سمر قند سے اور خیوا سے اور نمنگان سے اور شہر سبز سے اوربخارا سے اٹھ اٹھ کر،بد خشاں اور بلخ کے درمیان پڑتی ہوئی شاہراؤں سے ہوتے ہوئے برصغیر میں وارد ہوتے  رہے۔یہ میر اور مرزا کبھی بیدل بن کر عظیم آباد (پٹنہ)میں پیدا ہوتے رہے اور کبھی مرزا اسد اللہ خان غا لب بن کر آگرہ میں۔رسا بھی میراور مرزا کے اسی سلسلے کی کڑی تھے یہ اور بات کہ ایک ہجرت ان کے آبانے کی تھی جو وسط ایشا سے ہندوستان آئے تھے۔دوسری ہجرت رسا نے کی،وہ ہندوستان سے پاکستان آئے تھے۔

کل کی طرح یاد ہے رسا سے پہلی ملا قات کہاں ہوئی تھی۔تین،ساڑھے تین عشروں سے کم کیا مدت ہو ئی ہو گی۔قمر جمیل ان دنو ں فیڈرل بی ایریا میں واقع یو کے پلازہ میں قیام پذیر تھے۔اس فقیر کے سر پر ہمیشہ ان کا دست شفقت رہا۔تیسرے مجموعہ کلا م"پری زاد" کا دیباچہ آپ ہی نے تحریر فرمایا۔یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کراچی جانا ہو اور ان کے در دولت پر حاضری نہ ہو۔اس کالم نگار کی پذیرائی کے لئے ایک دفعہ انہوں نے بہت سے احباب کو اپنے ادب کدے پر دعوت دی۔افضال احمد سید بھی تھے اور غالباًجمال احسانی مرحوم بھی۔وہیں سب سے پہلے رسا سے ملاقا ت ہوئی۔وجیہہ چہرے پر خوب صور ت داڑھی،چھریرا قد۔کُرتے پاجامے میں ملبوس۔یوں لگتا تھا ابھی ابھی یہ مغل زادہ آگرہ سے آیا ہے۔بعد میں وہ ہمیشہ داڑھی کے بغیر ہی نظر آئے۔کئی مشاعرے ان کے ساتھ پڑھنے کا اعزاز حاصل رہا۔کراچی سے اسلام آباد اور جدہ تک۔ایک بار کچھ دنوں کے لئے اسلام آباد ایک عزیز کے ہاں ان کا قیام رہا۔خوش قسمتی سے غربت کدہ نز دیک ہی تھا۔دوران قیام دو تین بار تشریف لائے،اپنا مجموعہ کلام عنایت فرمایا۔شعر سنے اور کلام عنایت بھی فرمایا۔جس رات ایک نوجوان نے سوشل میڈیا پر ان کی وفات کی خبر دی۔دل دھک سے رہ گیا ۔نوجوان سے خبر کا ذریعہ پو چھا۔اس امید کے ساتھ کہ غلط ہو گی۔مگر چند لمحوں ہی میں یہ اندوہناک خبر سوشل میڈیا کے طول و عرض اور مشرق و مغرب میں پھیل گئی۔افسوس اردو غزل کے سر سے ایک نرم، شفیق ہاتھ اٹھ گیا

؎ مقدور ہو توخاک سےپوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراںما یہ کیا کیے

رسا بنیادی طور ایک فقیر شاعر تھے۔امارت تو خیر تھی ہی نہیں،مزاج میں بھی فقیر تھے۔پبلک ریلیشنگ ،آگے بڑھ کر اپنے آپ کو نمایاں کرنا، تشہیر کی خاطر سماجی رابطوں کو برتنا۔یہ سب کچھ ان کی فطر ت ہی میں نہ تھا۔مشاعروں میں بلائے جاتے،اس لئے کہ انہیں نہ بلا نا منتظمین افورڈ ہی نہیں کر سکتے تھے۔جس مشاعرے میں شریک ہوتے،محفل کو چار چاند لگا دیتے۔مزاج میں دھیما پن تھا۔محبت اور شفقت کوٹ کوٹ کربھری تھی۔
وہ ایک بڑے شاعر تھے۔اسلوب سے پہچانے جاتے تھے۔انہیں خراج تحسین پیش کرنے اور قارئین کو ان کی شاعری سے بہرہ ور کرنے کے لئے چند اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
؎ کوئی پوچھے یہ میر صاحب سے
ان دنوں کیا جنوں کی صورت ہے
چاند کس مہ جبیں کا پر تو ہے
رات کس زلف کی حکایت ہے
کیا ہوائے بہا ر تا زہ ہے
کیا چراغ سرائے عبرت ہے 
زندگی کس شجر کا سایہ ہے
موت کس دشت کی مسافت ہے
آگ میں کیا گل معانی ہیں
خاک میں کیا نمو کی صورت ہے
کیا پس پردہ توہم ہے 
کیا سر پردہ حقیقت ہے
کا ٹتا ہوں پہاڑ سے دن رات
مسئلہ عشق ہے کہ اجرت ہے
ایک تو جاں گسل ہے تنہائی
اس پہ ہمسائیگی قیامت ہے
اور جیسے اسے نہیں معلوم
شہر میں کیا ہماری عزت ہے
اس نے کیسے سمجھ لیا کہ مجھے
خواب میں جاگنے کی عادت ہے
گھر سے شاید نکل پڑے وہ بھی
آج کچھ دھوپ میں تمازت ہے
اس جہاں بلند و پست کے بیچ
کچھ اگر ہے تو اپنا قامت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے
نیند اس کی ہے جو اڑالے جائے
زلف اس کی ہے جواسے  چھو لے 
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے
تیغ اس کی ہے شاخ گل اس کی
جو اسے کھینچتا ہوا لے جائے
یوں تو اس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے
زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اٹھا لے جائے
قرض ہو تو کوئی ادا کر دے
ہاتھ ہو تو کوئی چھڑا لے جائے
لو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے
دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بتوں کو کہاں خدا لے جائے
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
میں غریب الدیا ر،میرا کیا
موج لے جائے،یا ہوا لے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدر ہے
اب جہاں بخت نارسا لے جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنا یار جانی کا
کھلنا رات کی رانی کا
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا
آخر میرا کیا ہوگا
کیا ہو گا ویرانی کا
آنا جانا رہتا ہے
دریاؤں میں پانی کا
ساری عمر مشقت کی
خبط کیا سلطانی کا
کام لیا میں حکمت سے
عذر کیا نادانی کا
باہر ایک تماشہ ہے
اندر کی حیرانی کا
کیسا موسم آیا ہے
خوابوں کی ارزانی کا
ڈیرہ دارن کیا جانے
پیار کسی مغلانی کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل یونہی تیرا تذکرہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
لوگ کب کب کے آشنا نکلے
وقت کتنا گریز پا نکلا
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
رات بھی آج بے کراں نکلی
چاند بھی آج غم زدہ نکلا
سنتے آئے تھے قصہ مجنوں کا
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
پا بہ زنجیر زلف یار رہی
دل اسیر خیال یار رہا
ساتھ اپنے غموں کی دھوپ رہی
ساتھ اک سرو سایہ دار رہا
آئینہ آ ئینہ رہا پھر بھی
لاکھ در پردہ غبار رہا
کب ہوائیں تہہ کمند آئیں
کب نگاہوں پہ اختیار رہا
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل
تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ میں خنجر آ سکتا ہے
یا پھر ساغر آ سکتا ہے
آنکھیں زخمی ہو سکتی ہیں
ذرہ اڑ کر آ سکتا ہے
چھت کے اوپر سونے والے
سورج سر پہ آسکتا ہے
خواب میں آ نے والا اک دن
خواب سے باہر آسکتا ہے
کالا جادو کرنے والا
مشعل لے کر آسکتا ہے
سارے منظر چھپ جاتے ہیں
ایسا منظر آ سکتا ہے
شاید کوئی آنے والا
لمحہ بہتر آ سکتا ہے
گھر کا رستہ بھولنے والا
چو راہے پر آ سکتا ہے
مٹی ہجرت کر سکتی ہے
دریا چل کر آ سکتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام سے پہلے گھر گئے ہوتے
یا سر شام مر گئے ہوتے
اس گدایانہ زندگی سے تو
وضع دارانہ مر گئے ہوتے
یوں بھی اک عمر رائیگاں گزری
یوں بھی کچھ دن گزر گئے ہوتے
تو جو دل سے اتر گیا ہوتا
زخم دل کے ابھر گئے ہوتے
ہم نہ ہوتے تو حادثات جہاں
جانے کس کس کے سر گئے ہوتے
کوئی دامن کش خیال نہ تھا
ورنہ ہم بھی ٹھہر گئے ہوتے
شمع محفل نہ تھے کہ محفل میں
لے کے ہم زخم سر گئے ہوتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل نے اپنی زباں کا پاس کیا
آنکھ نے جانے کیا قیاس کیا
کیا کہا باد صجگاہی نے
کیا چراغوں نے التماس کیا
عشق جی جان سے کیا ہم نے
اور بے خوف و بے ہراس کیا
بال تو دھوپ میں سفید کیے
زرد کس چھاؤں میں لباس کیا
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اقتتباس کیا
جب بھی ذکر غزل چھیڑا،اس نے
ذکر میرا بطور خاص کیا


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com