میلبورن کے ایک پر رونق بازار برگنڈی سٹریٹ کی ایک دکان سے جنوبی ایشیا کا سودا سلف مل جاتا ہے۔یوں تو آسٹریلیا کے تمام بڑے شہروں میں پاکستانی،بھارتی اور بنگالی بساطی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں مگر کوشش سب خریداروں کی یہی ہوتی ہے کہ گھر کے نزدیک کوئی دکان مل جائے یا دور بھی ہو تو ایسی کہ ہر شے وہاں میسر ہو۔
برگنڈی سٹریٹ کی دکان سے محفوظ شدہ بھنڈی بیسن اور اسی قبیل کی اشیا لے کر کاؤنٹر پر قیمت دے رہا تھا کہ اچانک نظر ساتھ رکھے لڈوؤں پر پڑی جن پر جلی حروف میں لکھا تھا "بوندی لڈو"ایک غیر مرئی طاقت یا شاید شوق نے میرے ہاتھوں کو ان لڈوؤں کی طرف بڑھایا اور ڈبہ اپنے سودے میں شامل کرلیا۔
کچھ عرصہ تک بوندی عام ملتی تھی۔بوندی والے لڈو بھی۔پھر دونوں غائب ہوتے گئے اور اب شاید ہی کہیں نظر آتے ہوں۔ موتی چور اور بیسن کے لڈو عام ہیں۔ پیڑے بھی لڈو کی شکل کے ہیں۔ بدایوں کے پیڑے مشہور تھے۔ مردان میں ایک صاحب نے شروع کیے جو اب پورے ملک میں معروف ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے کھانے زیادہ تر وسط ایشیائی اصل کے ہیں جب کہ مٹھائیاں مقامی ہیں۔اس کی ایک وجہ تو سامنے صاف نظر آرہی ہے کہ مسلمان گوشت خور تھے۔ ہندو گوشت سے اجتناب کرتے تھے۔چنانچہ مقامی کھانے افغانستان ایران اور وسط ایشیا سے آنے والوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتے تھے،یہ کالم نگار وسط ایشیا کے بہت سے شہروں میں گیا۔ ازبک دوستوں کے گھروں میں بھی کھانے کھائے۔دعوتیں اور شادیوں کے دستر خوان بھی چکھے۔مگر مٹھائیاں عنقا دیکھیں۔سارا زور وہاں پلاؤ پر ہے اور گوشت پر! ہاں خشک میوے اور تازہ پھل افراط سے کھائے جاتے ہیں جو مٹھائی کے قائم مقام ہیں۔
میلبورن میں ہمارے ایک بزرگ دوست ہیں راشد سلطان صاحب!کانپور سے ہیں اور ثقافتی اور ادبی تقریبات کی روح روا ں! ان کے علم کی رُو سے جن مٹھائیوں میں پنیر استعمال ہوتا ہے ان کی پیدائش بنگال کی ہے۔دودھ والی برصغیر کے شمال سے ہیں۔یعنی لاہور دلی اور لکھنؤ سے جبکہ حلوے ایران سے آئے۔
انہوں نے ایک دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ جو مٹھائیاں (بقلاوا وغیرہ)ہم اربوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں وہ اصلاً ترکی اور یونان سے ہیں۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ عربوں کی شیرینی کھجور سے شروع ہوتی ہے اور کھجور پر ہی ختم ہوتی ہے۔
حلوے،عین ممکن ہے کچھ ایران سے بھی آئے ہوں مگر ابنِ بطوطہ ملتان اور دلی کے درمیان سفر کا ذکر کرتا ہے تو ایک صابونی حلوے کا ذکر کرتا ہے۔ہوسکتا ہے یہ وہی حلوہ ہو جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے ہاں مکھڈی حلوہ،باغیا(کالا باغ کا)حلوہ، ڈھوڈا اور سوہن حلوہ کے نام سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ایک لطیفہ نما واقعہ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ نادر شاہ دہلی پر حملہ آور ہوا تو انہی دنوں اسے قبض کی شکایت ہوئی۔ حکما نے گل قند پیش کی۔کھا کر کہنے لگا۔۔حلوائے خوب است۔دیگر بیار۔یعنی کیا مزیدار حلوہ ہے اور لاؤ۔نہ جانے یہ روایت کہاں تک درست ہے کیونکہ گلقند،قبض دور کرنے کے لیے یونانی حکما کا پسندیدہ نسخہ تھا۔ اس صورت میں ایرانیوں کے لیے اسے نئی شے نہیں ہونا چاہیے تھا۔
جیسا کہ مستقل قارئین جانتے ہیں یہ کالم نگار حصول تعلیم کے لیے چند برس ڈھاکہ میں رہا۔بنگال مٹھائیوں کا گڑھ ہے اور کچھ مٹھائیوں کی جائے پیدائش بھی! سب سے زیادہ انوکھی مٹھائی ہمارے لیے وہاں میٹھا دہی تھا جسے بنگالی میں "مشٹی دوئی" یعنی مٹھائی والا دہی کہا جاتا ہے ۔یوں تو بھارتی بنگا ل میں بھی یہ دہی تیار کیا جاتا ہے مگر مشہور ترین بوگرہ کا ہے۔ جو بنگلہ دیش کا شمالی شہر ہے۔ میٹھا دہی ہمیشہ مٹی کے برتنوں میں رکھا جاتا ہے اور انہی میں فروخت ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دہی میں جو بچا کچھا پانی ہوتا ہے وہ برتن کے مساموں سے رِس رِس کر باہر جاتا رہتا ہے اور دہی زیادہ سے زیادہ گھنا ہوتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ دہی کراچی میں بھی ملنے لگا کئی بار کراچی سے لانا ہوا۔اب اسلام آباد اور روالپنڈی کے کچھ حلوائی تیار کرکے بیچ رہے ہیں۔ مگر اس کی مقبولیت اور کھپت کم ہے اس لیے ضروری نہیں کہ فروخت ہونے والا میٹھا دہی تازہ ہو اور درست حالت میں ہو۔
گلاب جامن،رس گلا، سندیش اور چم چم بنگال کی مشہور مٹھائیاں ہیں ان کا اصل مزا بنگال ہی میں ہے۔
ڈھاکہ کے نواح میں ایک گاؤں "گھوڑا سال "ہے جہاں کے رس گلے مشہور ہیں۔ایک دوست اور ہم جماعت قاضی خلیل الرحمٰن گھوڑا سال کے تھے۔بنگالی زبان میں اس لفظ کا تلفظ کھلیل الرحمٰن ہے۔ وہ ہم مغربی پاکستانی دوستوں کو گھوڑا سال لے گئے وہاں ان کی زمینیں اور باغات تھے۔ ان کی دادی جان ملیں۔تخت پوش پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔خلیل نے ہمارا تعارف یوں کرایا۔کہ یہ بہت دور سے، صدر ایوب خان کے وطن سے آئے ہیں۔انہوں نے دادی جان کو بہت کہا کہ یہ بنگالی زبان نہیں سمجھتے مگر پھر بھی انہوں نے ہم سے طویل گفتگو کی جو زیادہ تر ان کے خاندانی مسائل پر مشتمل تھی۔بہر طور،رس گلوں کا جو مزا وہاں آیا،کم ہی کہیں اور ایسا آیا۔
رس گُلا کی ایجاد پر اڑیسہ اور بنگال کا جھگڑا چلا آرہا ہے۔اُڑیسہ والے کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار ان کے شہر"پوری"میں بنا۔اڑیسہ کے باورچی جو بنگال کے گھروں میں ملازمت کرتے تھے،اسے بنگال لے گئے۔بنگالی مورخ کہتے ہیں کہ پنیر تو سترھویں صدی سے پہلے برصغیر میں تھا ہی نہیں ۔اڑیسہ والے کیسے بنا سکتے ہیں۔ ان کے بقول یہ پرتگالی تھے جو ہندوستان میں پنیر لائے۔بنگالیوں کا موقف ہے کہ رس گلا بنانے اور بیچنے کا کام 1868میں کلکتہ سے شروع ہوا۔کچھ بنگالی لکھاری اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے بھی دو برس پہلے کلکتہ ہائی کورٹ کے پاس ایک دکان نے اس مٹھائی کو متعارف کرایا۔یہ نزاع اڑیسہ اور بنگال کے درمیان اتنا بڑھا کہ اڑیسہ کی حکومت او رعوام نے 30جولائی 2015کا دن "رس گلا ڈے "کے طور پر منایا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکیت کو پکا کیا جائے۔ ایک ماہ بعد مغربی بنگال (بھارتی بنگال)نے ا ڑیسہ کا دعوی چیلنج کردیا۔ اڑیسہ کی حکومت نے اس کے جواب میں تین کمیٹیاں تشکیل دیں جو اڑیسہ کا حق ملکیت قانونی طور پر ثابت کریں گی اور حاصل بھی کریں گی۔ان کمیٹیوں نے اپنی رپورٹ میں تاریخی شواہد سے ثابت کیا کہ رس گلا سب سے پہلے اڑیسہ میں بنا۔ مقابلے میں مغربی بنگال کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محکمے نے بھی کارروائی شروع کردی ہے۔
شام چار بچے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کے برآمدوں میں ہر طرف ایک دھیمی نرم آواز " چم چم "کی آنے لگتی ہے۔بنگالی شام کی چائے کے ساتھ مٹھائی ضرور کھاتے ہیں وہ اسے ناشتہ کہتے ہیں۔ہمیں بھی اس ناشتے کی عادت پر گئی۔خوب چم چم کھائی۔ واپس مغربی پاکستان آئے تو چم چم کا کوئی وجود نہ تھا۔اب مل جاتی ہے
؎ؔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
ڈھاکہ کے قریب ایک قصبہ ہے ٹنگیل - بہت مشہور! یہی چم چم کی جنم بھومی ہے۔سندیش بھی خالص بنگالی مٹھائی ہے جو پنیر سے تیار ہوتی ہے۔
اب آئیے مٹھائیوں کے شہنشاہ گلاب جامن کی طرف۔ نیپالیوں نے اس کا کیا ہی خوبصورت نام رکھا ہے۔ لال موہن! یہ لال رنگ کا ہوتا ہے اور کالا بھی!ایک روایت یہ ہے کہ اسے ترک برصغیر میں لائے اور روایت کے مطابق مغل شہنشاہ شاہ جہان کا ایک گمنام باورچی اس کا موجد تھا۔گلاب فارسی لفظ ہے اور جامن خالص ہندی!ظفر اقبال کاایک فتنہ انگیز شعر یاد آرہا ہے
میرے نسخے میں شامل تیرے رخسار کا سیب
اور تیرے ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے!
شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا حصہ ہو جہاں گلاب جامن نہ دستیاب ہو۔جہاں بنتے نہیں، وہاں ڈبوں میں بند پاکستان اور بھارت دونوں کے بنے ہوئے مل جاتے ہیں ۔اب یہ آسٹریلیا سے لے کر لندن تک چٹی چمڑی والوں کا بھی پسندیدہ آئٹم ہے۔ امریکیوں کا نہیں پتہ، پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ویسے وہ ہر کام اہل برطانیہ کے الٹ کرتے ہیں۔
ڈھاکہ میں مشہور ترین دکان اس زمانے میں مرن چند کی تھی۔دوست بتاتے ہیں کہ اب اس کی نئی نسل شیرینی کا کاروبار چلا رہی ہے۔یہ اور بات کہ اب مقابلے میں اور لوگ بھی میدا ن میں آگئے ہیں۔یوں بھی بانی جب کو چ کرجائے تو پسماندگان سے وہ معیار برقرار نہیں رکھا جاتا۔دکانیں اونچی ہوجاتی ہیں اور پکوان پھیکے۔ جیسے بندو خان کے وہ کباب جو جیکب آباد لائن کراچی کی خستہ حال دکان پر ملتے تھے،اب خواب و خیال ہوگئے۔
کس کس مٹھائی کا تذکرہ کیا جائے!برفی،رس ملائی، امرتی،جلیبی،قلفی،پیٹھا،بالو شاہی،کاجو قتلے، قلاقند،ربڑی،شکر پارے، حلوے اس کے علاوہ ہیں۔بادام سے لے کر اخروٹ تک،گاجر سےلے کر آلو تک۔مربے بھی مٹھائی ہی کی شکل ہے۔بادشاہوں کے ذاتی طبیب مربوں کو خوشنما بنانے کے لیے ا ن پر چاندی کے ورق رکھتے تھے۔ اب چاندی کے ورق بھی آؤٹ آف فیشن ہوگئے ہیں۔
ساری دنیا کی مٹھائیاں کیک پیسٹری حلوے کھائے ہیں مگر رات کی بچی ہوئی اس کھیر کی لذت نہیں بھولتی جو صبح ناشتے میں دادی جان مٹی کی پلیٹ (صحنکی) میں ڈال کر دیتی تھیں۔ٹھنڈی اور سوہندی!
ہاں!ایک مٹھائی کا ذکر غالب نے بھی کیا تھا
؎کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!
No comments:
Post a Comment