Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, January 12, 2018

نہیں مانیں گے،کبھی نہیں مانیں گے


 برامکہ عباسی خلافت میں بہت طا قتور ہو گئے تھے۔ان کا جد امجد خالد تھا۔خالد کا بیٹا یحییٰ تھا۔یحییٰ کے تین فرزند تھے 
جعفر،فضل اور موسیٰ۔یہ لوگ کئی خلفا کے دست راست رہے اور منہ چڑھے بھی!سخاوت میں یہ خلیفہ وقت کو بھی مات کر دیتے۔دستر خوان ان کے وسیع تھے۔دروازے  ان کے سائلوں کے لیے کھلے رہتے۔حاجت مند آتے۔روپیہ اور جاگیر پاتے اور واپسی کے لئے سواری بھی!
مگر ان میں سے ایک کنجوس تھا۔بلا کا کنجوس  نام یاد نہیں آرہا۔اس لئے کہ فرنگی ملک میں،جہاں بیٹھ کر یہ سطور سپرد قرطاس کی جارہی ہیں،سارا انحصار حافظے پر ہے۔جس طرح شعرا نے برامکہ کی فیاضی پر شاعری کے دریا بہائے،اسی طرح ان کے کنجوس بھائی کی خوب خوب مذمت بھی کی گئی۔ایسی ایسی ہجو لکھی گئی کہ بیچارے کی کنجوسی ضرب المثل بن گئی۔ایک شاعر نے تخیل کے گھوڑے بہت دور تک دوڑا دیے۔کہتا ہے،وہ اس قدر کنجوس ہے کہ اگر اس کے پاس بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات کی قطار ہو،اور ہر محل میں سینکڑوں کمرے ہوں اور ہر کمرہ سو ئیوں سے بھرا پڑا ہو اور حضرت یعقوب علیہ السلام اس سے تھوڑی دیر کے لئے ایک سوئی مانگیں کہ یوسف(علیہ السلام) کی قمیض سینی ہے اور فرشتے گارنٹی دیں کہ سو ئی واپس کر دی جائے گی اور تمام انبیا سفارش کریں پھر بھی وہ یعقوب علیہ السلام کو،ایک سوئی نہیں دے گا!

آج ہم ایسی ہی صوتحال سے دوچار ہیں۔فرض کیجیے جنرل ضیا الحق زندہ ہو جاتے ہیں اور شہباز شریف کی منت سماجت کرتے ہیں،جنرل غلام جیلانی (جنہوں نے گورنر پنجاب کی حیثیت سے شریف خاندان کو "دریافت"کیا تھا)قبر سے اٹھ کر جنرل ضیا الحق کی تائید کرتے ہیں اور چھوٹے میاں صاحب کی تمام بیگمات (صحیح تعداد معلوم نہیں)جنرل غلام جیلانی کی سفارش کرتی ہیں اور ٹرمپ بنفس نفیس آ کر ان کے پاؤں پکڑتا ہے اور مشرق وسطیٰ کے شہزادے قطار اندر قطار آ کر چھوٹے میاں صاحب کے در ِدولت پر دستک دیتے ہیں اور ان سے  درخواست کرتے ہیں کہ بات مان لیں اور صدر اردوان التماس کرنے کے ساتھ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ بات نہ مانی تو تعلقات میں رخنہ پیدا ہوجائے گا اور سائبیریا سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے پرندے اور شمال سے چلنے والی ساری سرد ہوائیں اور جنوب کے سمندروں سے آغاز ہونے والی گرم ہوائیں میاں صاحب کی خدمت میں درخواست کرتی ہیں اور قطب الدین ایبک سے لے کر ابراہیم لودھی تک سارے سلا طین دہلی اور بابر سے لے کر  بہادر شاہ ظفر تک سارے مغل بادشاہ اور لارڈ ویلز لے سے لے کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک سارے انگریز حکمران آ کر روتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں کہ چھوٹے میاں صاحب ایک لمحے کے لئے صرف ایک لمحے کے لئے یہ حقیقت  تسلیم کر لیں کہ ان کا شخصی او ر  آمرانہ طرزِحکومت مکمل طور پر ناکام،بر ہنہ اور بے نقاب ہو چکا ہے  تو چھوٹے میاں صاحب پھر بھی نہیں مانیں گے!!
سپریم کورٹ نے عملی طور پر پنجاب حکومت کو چارج شیٹ کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کے بقول :-پنجاب حکومت نے صحت اور تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی۔
عوام کو آرسینک اور آلودہ پانی پلا یا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ چیف جسٹس کے چیمبر سے لیے گئے پانی کے نمونے بھی آلودہ ہیں۔

:-حکومت ابھی تک اپنی تر جیحات کا تعین نہیں کر سکی ہے۔
:-پانی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔نتیجہ صفر نکلا۔
:۔عدالت نے پنجاب حکومت کی دودھ سے متعلق اشتہاری مہم روک دی۔
:۔شہر میں سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں اور راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔
:۔ہسپتال میں مشینیں خراب ہیں۔ دوائی میسر نہیں۔
:۔ایک ہسپتا ل میں مریض کو ٹانکا لگانا تھا مگر دھاگہ نہیں تھا۔
:۔حکومت پنجاب اپنی تشہیر پر کروڑوں روپے لگا رہی ہے۔
:۔جو کچھ مقتولہ ننھی زینب کے والد نے کہا ہے    ، اسے تو چھوڑ ہی دیجیے۔اگرچہ اس نے کروڑوں پاکستانیوں کی نمائندگی کی ہے۔اس نے کہا  "ساری سکیورٹی جاتی امرا پر لگی ہے۔کیا ہم کیڑے مکوڑے ہیں "؟
مگر اس حقییقت کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کہ  اپریل 2016سے لے کر اب تک بارہ بچے اور بچیاں قصور میں قتل کی جاچکی ہیں اور وزیر اعلیٰ نے قتل کے اس بھانک سلسلے کو کوئی اہمیت نہ دی۔اپریل 2016میں تہمینہ نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔24  فروری2017.کو ایمان فاطمہ اوراپریل 2017کو نور فاطمہ کی لاشیں ملیں۔اسی ماہ فوزیہ کو آبرو ریزی کے بعد قتل کیا۔پھر جون 2017میں دس سالہ بابر بربریت اور قتل کا نشانہ بنا۔جولائی میں لائبہ اور نومبر میں سات سالہ کائنات قصور کے ظالموں کے ہاتھوں ہلاک ہوئی ا ور ہاں! اس سے قبل سو کے قریب بچوں کی شرمناک جنسی ویڈیو منظر عام پر آئی۔کسی کو سزا نہیں ملی۔
کوئی اور حکمران ہوتا تو قصور آ کر ڈیرہ ڈال لیتا اور جب تک ایک ایک ملز م کو پھانسی پر نہ لٹکاتا،رات کو زمین پر سوتااور دن کو اپنے اوپر سواری حرام کر دیتا۔شہباز شریف نے ان آزاد پاکستانی بیٹیوں کے قتل کی اتنی بھی پرواہ نہ کی جتنی انگریز پولیس افسر غلام ہندوستانیوں کی کرتے تھے۔
انگریزپولیس افسر قتل کی رپورٹ ملتے ہی متعلقہ گاؤں میں جا کر خیمہ لگا لیتا تھااور واپس اس وقت آتا تھا جب قاتل پکڑا جاتا۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل بے خبر۔کُلی طور پر بے نیاز، آخری درجے کی لاپرواہی کے ساتھ کبھی ترکی گھومتے  رہے کبھی لندن جا کر  ویڈیو کانفرنسیں کرتے رہے۔ان کی حالت اس کوتاہ اندیش بوڑھے کی سی رہی جس کا مضحکہ پنجاب کا لوک گیت اڑاتا ہے۔پنجابی میں چار کونو ں والی شے ء کو "چو گٹھی"کہا جاتا ہے۔ایک زمانے میں دو آنے کا سکہ چلتا تھا جسے دو آنی کہتے تھے اور وہ چو کٹھی ہوتی تھی۔اب ماہیا سنیے
چوگٹھی دو آنی ا ے
شملے دور کھدا بابا،گھر بھوکی زنانی اے 
وزیر اعلیٰ قطر کی گیس سے لے کر ترکی میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس تک،ہر اس جا نظر آتے ہیں جہاں ان کا کوئی کارمنصبی نہیں۔مگر لاہور کی بغل میں واقع ایک چھوٹے سے شہر میں وحشت و بربریت کا طوفان روکنے پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دیتے۔کوئی خاص اقدام،روٹین اور معمول سے ہٹا ہوا کوئی خاص اقدام نہیں اٹھاتے۔
کل کے روزنامہ 92میں رانا محمد ؑعظیم صاحب کی رپورٹ دیکھ کر "پنجاب سپیڈ"کی ساری اصلیت سامنے آ جاتی ہے اور عمران خان کا انہیں ڈرامہ کہہ کر پکارنا جائز لگتاہے۔بچوں کے اغوا اور قتل میں پنجاب سارے صوبوں میں پہلے نمبر پر ہے۔پنجاب کے اندر قصور کاپہلا سرگودھا کا دوسرالاہور کا تیسرا شیخو پورہ کا چوتھا،رحیم یار خان کا پانچواں اور فیصل آباد کا چھٹا نمبر ہے۔قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ گیارہ جنوری کے روزنامہ 92میں یہ رپورٹ پوری پڑھیں تاکہ حقیقت حال کا درست اندازہ لگاسکیں۔
پنجاب حکومت کی،دوسرے لفظوں میں پنجاب حکومت کے سربراہ جناب شہباز شریف کی اس غیر متنازعہ ناکامی کی وجوہات پرغور کیا جائے تو مندرجہ ذیل چار پہلوسامنے آتے ہیں۔

اول۔دونوں بھائیوں کا بالعموم اور شہباز شریف صاحب کا بالخصوص ترقی کا تصور غیر متوازن،ٹیڑھا اور یک طرفہ ہے۔ان کی اپروچ اور طرز َ فکر ایک ایسے ٹھیکیدار کا ہے جو سڑکوں،پُلوں پٹڑیوں اور انڈر پاسوں کے علاوہ کوئی کام نہیں جانتا۔یہ وژن ایک ایسے امرود کی مثال ہے جسے اندر سے کیڑا  لگا ہوا ہے۔تعلیم،صحت،امن و امان  ان کے نزدیک وقت کا ضیاع ہے کیونکہ یہ وہ شعبے ہیں جن میں لوہا نہیں استعمال ہوتا۔مثلاً پنجاب حکومت سے اگر پوچھیں کہ صوبے میں خاص طور پر لاہور میں کتنی غیر ملکی آباد ہیں او ر وہ کس قدر مسلح ہیں تو وزیر اعلیٰ سے لے کر متعلقہ سیکرٹری تک سب بے خبر نکلیں گے۔

دوم۔چھوٹے میاں صاحب کا طرزَ حکومت شخصی ہے۔اسے آپ قبائلی بھی کہہ سکتے ہیں۔کابینہ اور صوبائی اسمبلی ان کے نزدیک وجود ہی نہیں رکھتے۔سال میں چند گنے چنے مواقع کے سوا وہ منتخب ایوان میں نہیں آتے۔ان کا کوئی منصوبہ منتخب ایوان سے منظور ہوا نہ اس پر کابینہ میں ہی بحث ہوئی۔وہ صوبے کی،حکومت کی اور ترقی کی ترجیحات خود طے کرتے ہیں۔عملاًوہ بادشاہ ہیں۔ان کا کہا ہوا حرف آخر ہے۔جمہوری حکومت میں اجتماعی عقل و دانش برؤے کار آتی ہے جہاں کروڑوں اربوں کے منصوبے فردَواحد کے وژن اور فردَ واحد کی دانش و فہم پر منحصر ہوں گے اس کاانجام وہی ہو گا جو پنجاب حکومت کا ہو رہا ہے۔عدالتِ  عظمیٰ سے لے کے مقتولہ زینب کے والد تک اور میڈیا کی رپورٹوں تک۔ہر جگہ نا کامی یوں چھائی ہوئی ہے جیسے دھند اُفق سے اُفق تک چھا جائے۔

سوم۔بیوروکریسی اور پولیس کی تعیناتیاں اور ترقیاں میرٹ پر نہیں ہو رہیں۔ذاتی وفاداری واحد معیار ہے جس پر افسر شاہی کو پرکھا جا رہا ہے۔ایک خاص برادری کو اور خاص علاقے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔

چہارم۔پولیس کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب وہ غیر تحریری معاہدے ہیں جو کرپٹ حکمرانوں اور پولیس کے درمیاں طے پا چکا ہے۔اس کالم نگار ہی نے کچھ عرصہ پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔پنجاب،سندھ،بلوچستان اور وفاق کے بد عنوان حکمرانوں نے پولیس کو اس شرط پر کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ وہ حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن کر رہیں اور صرف ان کے اور ان کے خاندانوں کی حفاظت کریں اور آپ اعدادو شمار دیکھ لیجیے،کسی حکمران نے پولیس سے کبھی نہیں پوچھا کہ اتنے جرائم کیوں ہو رہے ہیں مجرم پکڑے کیوں نہیں جا رہے؟نچلی سطح کے کسی پولیس افسر کو سزا ملتی بھی ہے تو مشکل سے معطلی کی جو فی الواقع سزا ہی نہیں۔اس ذاتی نوکری اور خاندانی وفاداری کا ثبوت دیکھنا ہو تو ان ملازمتوں پر غور کیجیے جو ریٹائرمنٹ کے بعد پولیس افسروں کو ذاتی وفاداری کے صلے میں دی جاتی ہے۔پنجاب ان میں غالباً اولین نمبر پر ہو گا۔ریٹائرڈ پولیس افسروں کو سب سے زیادہ پنجاب میں "صلہ " دیا جاتاہے۔
آپ کا کیا خیال ہے،کسی رات،تنہائی میں شہباز شریف صاحب اپنے نہال خانہ دل میں اعتراف کریں گے کہ امن و امان،صحت اور تعلیم کے میدانوں میں ان کی کارکردگی ماتم کیے جانے کے قابل ہے؟


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com