Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, July 30, 2017

کیا ماڈل ٹاﺅن کا قتلِ عام بھی نادرشاہ نے کرایا تھا؟

کئی عشروں کے بعد اقتدار کا خاتمہ تو ہونا ہی تھا۔ میاں محمد نواز شریف کا اندازِ حکمرانی تیونس کے زین العابدین اور مصر کے حسنی مبارک سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ کروڑوں اربوں میں کھیل رہے تھے۔ ذوق کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائی پر گھڑی کروڑوں کی تھی۔ جس دن کراچی میں کئی افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‘ غالباً چیمبر آف کامرس والوں کے ہاں ظہرانہ تھا۔ وزیر اعظم نے لنچ کے ”کمزور“ ہونے کا شکوہ کیا۔ مشہور ہے کہ فائل خود کبھی نہیں پڑھی! اندازِ حکومت مکمل طور پر قبائلی تھا!
پاکستان کی خوش بختی کہ اس ”دولت انگیز“ اقتدار کا خاتمہ اس طرح نہ ہوا جیسے حسنی مبارک، قذافی اور زین العابدین کا ہوا۔ عدلیہ نے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اور اقتدار سے فارغ کر دیا۔ یوں پاکستان ان ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گیا جہاں قانون کی حکمرانی ہے جہاں قانون کا صرف ضعیف اور نحیف پر نہیں طاقت ور پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد کا منظر نامہ دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی! زخم چاٹنے والوں میں وزراءکی فوج ظفر موج تو ہونا ہی تھی۔ ان کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔ جنگل کا قانون تھا۔ کابینہ کا ایک وزیر قومی ایئر لائنز کے مقابلے میں اپنی نجی ایئر لائن چلا رہا تھا جو نفع میں تھی جبکہ قومی ایئر لائن خسارے میں تھی۔ وزیر خزانہ کے ذاتی اثاثے اقتدار میں آنے کے بعد اکانوے گنا بڑھے۔ ان حضرات کی عزاداری قابل فہم ہے۔
مگر آہ و زاری کی زیادہ دلخراش آوازیں دانشوروں‘ لکھاریوں اور صحافیوں کے اس چاپلوسی گروہ سے آ رہی ہیں جو خاندان کی پرستش کر رہا تھا۔ اس گروہ کو اگر ”خانوادہ پرست“ کا لقب دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ملک کی پروا تھی نہ قوم کی۔ یہ گروہ ہر وقت اس حساب کتاب میں لگا رہتا تھا کہ شہزادی وفاق میں جانشین ہو گی اور فلاں شہزادہ پنجاب کا مالک و مختار ہو گا! ایک ٹیلی ویژن چینل پر (92نیوز چینل نہیں!) ایک ایسا منظر دیکھا کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں!
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ خانوادہ پرست گروہ کے چند معزز ارکان بساط جمائے بیٹھے تھے۔ بہت آرام و اطمینان سے مستقبل کی سلطنتیں یوں تقسیم کر رہے تھے جیسے نعوذ باللہ خدا تھے! بھائی وفاق میں چلا جائے گا۔ اس کا بیٹا صوبے پر حکمرانی کرے گا فلاں کو یہ عہدہ ملے گا۔ فلاں فلاں شے کا مالک ہو گا۔ ان کے نزدیک نااہل ہونے کے بعد ہر شے ساکت و جامد ہو جانا تھی۔ نون لیگ قائم و دائم رہنا تھی! خاندان کی پرستش رگ رگ میں یوں سمائی ہے کہ سابق شاہی خاندان ان کے نزدیک معصوم تھا۔ یہ تو صرف اسٹیبلشمنٹ تھی جو ان فرشتوں کے پیچھے پڑی تھی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ایسے ایسے دانشور دیکھے ہیں کہ پردہ ¿ سیمیں پر بالکل نارمل بیٹھے ہیں اچھی بھلی بامعنی گفتگو فرما رہے ہیں مگر جیسے ہی کسی نے حکومت پر یا خاندان کے کسی فرد پر تنقید کی‘ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ مٹھیاں بھنچ گئیں‘ رگیں تن گئیں‘ منہ سے جھاگ نکلنے لگ گئی۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے! جو منہ میں آیا کہہ دیا!
جے آئی ٹی کے ارکان ہدف بن رہے تھے۔ جب سب ادارے جیب میں تھے تو ان ”ملازموں“ کی یہ جرا ¿ت کہ تفتیش کی اور بے لاگ کی! ان کو ”کیفر کردار“ تک پہنچانا ضروری ہو گیا تھا! بغاوت! وہ بھی شاہی خاندان سے! نجی جاسوسی اداروں کو مامور کیا گیا کہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی چھان بین کریں! اس کالم نگار سے کسی نے تبصرہ کرنے کو کہا‘ جواب دیا کہ ایک نظام اور بھی ہے جو نظر نہیں آ رہا مگر مسلسل کام کر رہا ہے! تاریخ عبرت ناک حقائق سے بھری پڑی ہے کئی جابر اور قاہر حکمران ”نافرمانوں“ کو سزا دینے کے لیے اٹھے تو پھر بیٹھ نہ سکے! سچا واقعہ ہے کہ ایک نیک اور متقی بزرگ کو گاﺅں کے ایک گردن بلند نے دھمکی دی کہ کل تمہیں درست کروں گا! ان کے منہ سے نکلا کہ کل رہو گے تو تبھی درست کرو گے نا! دوسرے دن اس کی چارپائی کندھوں پر لاد کر لے جائی جا رہی تھی! جے آئی ٹی کے ارکان! ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!
کیا کیا پیش نہ کیا گیا ہو گا انہیں! اس خانوادے کے ہر فرد کو تربیت ہی یہ ملی تھی کہ جو شخص راستے میں آئے اسے خرید لو۔ یہ ہر فرد کو فروختنی سمجھتے تھے۔ سپہ سالار جنرل آصف نواز جنجوعہ کے بھائی شجاع نواز کی تصنیف ”کراسڈ سورڈز“Crossed Swordsکوئی نایاب کتاب نہیں! عام ملتی ہے۔ شجاع نواز خان ماشاءاللہ حیات ہیں۔ رقم طراز ہیں کہ جنرل کو معلوم ہوا کہ کور کمانڈروں اور ان کے قریبی اعزہ کو نئی بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی پیشکشیں ہو رہی ہیں تو اس کا ماتھا ٹھنکا اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک کور کمانڈر کے بھائی کو ایک صنعتی یونٹ کا نفع آور لائسنس دیا گیا ہے۔ پھر ایک دن شہباز شریف آ گئے۔ جنرل کو بی ایم ڈبلیو کی چابی دی اور بتایا کہ ”اَبّا جی نے یہ تحفہ آپ کی خدمت میں بھیجا ہے“ یوں جنرل کو ذاتی تجربہ بھی ہو گیا۔ اس نے شکریہ کے ساتھ چابی واپس کر دی۔ مگر کوشش جاری رہی ! سبحان اللہ! اباجی کیا تربیت دے رہے تھے۔وزیر اعظم مری میں تھے تو جنرل آصف نواز وہاں انہیں ملے جب وہ رخصت ہو رہے تھے تو وزیر اعظم ان کے ساتھ ان کی گاڑی تک آئے“ آپ کے پاس کون سی گاڑی ہے؟“ وزیر اعظم نے پوچھا جنرل کی گاڑی ایک پرانی ٹیوٹا کراﺅن تھی۔ جنرل نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ یہ گاڑی آپ کے شایان شان نہیں!“ پھر وزیر اعظم نے کسی کواشارہ کیا جو ایک نئی بی ایم ڈبلیو چلاتا واپس آیا صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ گاڑی ”انتظار“ میں تھی وزیر اعظم نے چابی سپہ سالار کی طرف بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ ہے وہ گاڑی جو آپ کے شایان شان ہے۔ شجاع نواز کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس دیدہ دلیری پر جنرل آصف نواز جیسے منجمد ہو گیا۔ پھر اس نے چابی وزیر اعظم کو واپس کی۔”سر آپ کا شکریہ مگر میرے پاس جو ہے اس پر خوش ہوں“!
یہ ہے تاجرانہ‘ مائنڈ سیٹ‘ دکاندارانہ ذہنیت ! تعجب نہیں کہ خانوادہ پرست لکھاری اس کی بھی توجیہہ کریں اور اس سے بھی جمہوریت نکال لائیں۔ اس پس منظر میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے گوشت پوست کے بنے ہوئے ارکان کو کیا کیا پیش کش نہ ہوئی ہو گی! مگر وہ ثابت قدم رہے۔ ان میں سے ایک دو اسلام آبادکلب آئے(رپورٹ پیش کر دینے کے بعد) تو لوگوں نے ان کے ہاتھ چومے۔ یہ ہوتی ہے عزت! اس لیے کہ وہ فروختنی نہ تھے! احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا  
اگر ہو دور سویرا اگر گھنا ہو اندھیرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاﺅ
ادھر شراب کا رس ہے‘ اُدھر شباب کا مَس ہے
قدم قدم پہ قفس ہے ندیم دیکھتے جاﺅ
کالعدم کابینہ کے ارکان پریس کانفرنس میں عدالتی فیصلے پر حاشیہ آرائی کر رہے تھے۔ کانوں پر یقین نہ آیا جب ایک نے دعویٰ کیا کہ ”پاکستان ہم نے بنایا تھا“! یاد آیا کہ بھارت میں کچھ محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ تاج محل اصل میں ایک مندر تھا! کیا عجب قائد اعظمؒ نے نہیں‘ بلکہ میاں محمد نواز شریف کی کالعدم کابینہ کے ارکان یا ان کے آباﺅ اجداد نے پاکستان بنایا ہو! آخر میاں صاحب کو دریافت کرنے اور قوم کی خدمت میں پیش کرنے والے جنرل ضیاءالحق کو بھی تو قائد اعظمؒ کی ایک ڈائری مل گئی تھی!
ہم نے تو یہی سنا ہے کہ پاکستان قائد اعظمؒ نے بنایا تھا۔ لیکن یہ طے ہے کہ کچھ کام جو پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے لازم تھے۔ قائد اعظمؒ نے نہیں کئے۔ مثلاً انہوں نے نرسنگ ہوم چلانے والے کسی شخص کو سٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر اور نیشنل بنک کا صدر نہ بنایا۔ انہوں نے ماڈل ٹاﺅن کیس کے شہرت یافتہ بیورو کریٹ کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر بنا کر نہ بھیجا‘ قائد اعظمؒ اس ذوق سے مکمل بیگانہ تھے، جو قائد اعظم ثانی کو قدرت نے ودیعت کیا تھا! اڑھائی کروڑ کی گھڑی قائد اعظمؒ کیا باندھتے‘ جرابیں مہنگی قرار دیں اور واپس کر دیں۔ کہا کہ کابینہ کے اجلاس سے پہلے ارکان گھر سے چائے پی کر آیا کریں۔ دعویٰ کرتے وقت خلقِ خدا کا نہیں تو خدا کا خوف ہی کر لینا چاہیے!
اس وقت تک درباری میاں شہباز شریف کو یقین دلا چکے ہوں گے کہ اب نجات دہندہ آپ ہی ہیں! صوبے کو شہزادے کے سپرد کیجیے اور خود وفاق کا تخت و تاج سنبھالیے۔ اگر پروردگار کو اس قوم پر رحم آ گیا تو وفاق میاں شہباز شریف سے بچ جائے گا۔ اگر گناہوں کی سزا باقی ہے تو پھر پورا پاکستان لاہور اور صرف لاہور سے عبارت ہو گا! صوبائی کابینہ میں رانا ثناءاللہ صاحب کے علاوہ کسی کا نام کسی کو معلوم نہیں! یہی کہانی‘ خدانخواستہ‘ وفاق میں دہرائی جائے گی! پھر صوبے کا نہیں‘ پورے ملک کا بجٹ ایک شہر پر صرف ہو گا! طالب علمی کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی میں ایک شاعرہ تھیں۔ رابعہ نہاں! سوز میں ڈوبی ہوئی آواز تھی ۔ان کا شعر یاد آ رہا ہے 
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر
لو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی
ماڈل ٹاﺅن میں چودہ افراد کو دن دہاڑے سلاطین دہلی کے زمانے میں تو ہلاک نہیں کیا گیا تھا۔ یہ قتلِ عام نادرشاہ کے ذمّے لگائے جانے سے تو رہا! جسٹس باقر نقوی کی رپورٹ منظر عام پر آئے گی یا بقول حسرت موہانی  
رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حبِّ وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے
تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی لوگوں میں تاب دیکھیے کب تک رہے
پردہ ¿ اصلاح میں کوششیں تخریب کی
خلقِ خدا پر عذاب دیکھیے کب تک رہے
حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت
از رہِ بغض و عتاب دیکھیے کب تک رہے

Friday, July 28, 2017

کیا آپ کا تعلّق اقلّیت سے ہے؟ ................کون سی اقلیت؟


اسلم سومرو ایک مغربی ملک میں مقیم ہے۔ اکثریت اس ملک میں سفید فام باشندوں کی ہے۔ اسلم کا رنگ گندمی بلکہ ذرا سا مائل بہ سیاہی ہے۔ گویا رنگت کے اعتبار سے وہ اکثریت سے نہیں‘ اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔
مذہباً وہ مسلمان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں۔ غالب اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس حوالے سے بھی اسلم اقلیت کا رکن ہے۔
رنگ اور مذہب کو چھوڑ کر‘ اگر ثقافت کا پوچھا جائے تو اس پہلو سے بھی اسلم کا اکثریت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ناچ گھر جاتا ہے نہ شراب پیتا ہے۔ سو ¿ر کا گوشت بھی نہیں کھاتا۔ گھر سے باہر کھانا کھانا ہو تو حلال ریستوران تلاش کرتا ہے یا کسی انڈین ریستوران میں دال سبزی کھا لیتا ہے۔ وہ اکثریت کے تہواروں سے بھی عملاً لاتعلق رہتا ہے۔ عیدین‘ محرّم اور میلاد اس کے ثقافتی مواقع ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حوالے سے بھی وہ اقلیت میں ہے تو غلط نہ ہو گا۔
مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود اسلم کی شناخت اس ملک میں اقلیت کے حوالے سے نہیں! اسے کبھی کسی نے نہیں باور کرایا کہ تم یہاں اقلیت سے تعلق رکھتے ہو۔مذہب ‘ رنگ ثقافت ہر لحاظ سے اکثریت سے الگ ہونے کے باوجود کسی فارم ‘کسی شناختی کارڈ‘ کسی دستاویز‘ کسی کاغذ پر اسے اقلیت نہیں کہا جاتا۔ ا س کے وہی حقوق ہیں جو اکثریت کے ہیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں اپنے شعبے کا سربراہ ہے۔ شہر کے اس حصے میں رہتا ہے جہاں رہائش گاہیں بڑی بڑی ہیں اور علاقہ امرا کا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں اس کا اپنا مکان ہے!
اس کے مقابلے میں مسلمان ملکوں کے اندر بالکل مختلف رویّے دیکھنے میں آتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی مسلمان وسائل کے اعتبار سے خوشحال ریاستوں میں غیر ملکی مسلمانوں کو اقلیت تو نہیں کہا جاتا مگر عملاً سلوک ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر کیا جاتا ہے۔وہ اپنے نام سے کوئی تجارتی سرگرمی دکھا سکتے ہیں نہ کوئی مکان دکان جائیداد ہی ان کے نام پر منتقل ہو سکتی ہے یہاں تک کہ ٹیکسی چلائیں تو وہ ٹیکسی بھی کسی مقامی کفیل کے نام پر رجسٹرڈ ہو گی!ان غیر ملکی مسلمانوں کے پاسپورٹ عام طور پر کفیل کے قبضے میں ہوتے ہیں۔لاتعداد ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ غیر ملکی مسلمان کا قریبی عزیز پیچھے وطن میں انتقال کر گیا مگر وہ اس کے جنازے پر پہنچ سکا نہ ہی تعزیت کے لیے آ سکا کیونکہ پاسپورٹ کفیل کے پاس تھا اور کفیل ملک سے باہر تھا!
پاکستان میں صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں کی غیر مسلم آبادی رنگ نسل اور ثقافت کے حساب سے اکثریت جیسی ہی ہے۔ زبان بھی وہی بولتی ہے۔ لباس بھی وہی ہے۔ کھانا بھی تقریباً ایک جیسا ہے۔ مگر چونکہ مذہب مختلف ہے اس لیے اس کے ماتھے پر اقلیت کا نشان کُھدا ہے۔ اسے جو الفاظ دن میں کئی بار سننے پڑتے ہیں وہ کچھ اس قبیل کے ہیں۔اقلیتوں کے حقوق‘ اقلیتوں کی تعداد‘ اقلیتوں کی حفاظت اور بہت سے دوسرے! یہ غیر مسلم‘ ووٹ بھی صرف اپنے ہم مذہب کو دینے کا پابند ہے! اس کے برعکس ‘ مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمان‘ غیر مسلم‘ سفید فام باشندوں کے ووٹ لے کر منتخب اداروں میں براجمان ہیں! برطانیہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج ‘ کسی بھی مسلمان ملک کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں یہ اور بات کہ آنکھیں کھولنے کے لیے آنکھوں کا ہونا ضروری ہے۔
حکومتی پارٹی کے ایک ممتاز رکن نے حال ہی میں عمران خان پر ”الزام“ لگایا ہے کہ اس نے رفاہی سرگرمیوں کے لیے ”غیر مسلموں“ سے چندہ لیا ہے! گویا آپ نے کوئی ہسپتال سکول یا فلاحی ادارہ قائم کرنا ہے تو غیر مسلم ”اقلیت“ کو اپنی مالی خدمات پیش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے! خوب! بہت خوب! اس سے اگلا قدم یہ ہو گا کہ وہ ان فلاحی ہسپتالوں یا تعلیمی اداروں سے فائدہ اٹھانے کے اہل بھی نہیں! اس اندازِ فکر پر غور کیجئے! کیا اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور بودی بات کوئی ہو سکتی ہے کہ اپنے ہی ملک کے شہری کو‘ جس کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر اس کی قومیت”پاکستانی“ درج ہے‘ ایک ہسپتال کی تعمیر کے لیے چندہ دینے سے روک دیا جائے۔ اُسے کبھی اقلیت کہا جائے کبھی غیر مسلم کا نام دیا جائے‘ اسے کبھی اقلیت کہا جائے کبھی غیر مسلم کا نام دیا جائے۔ کیا ترقی یافتہ ملکوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو کسی نے ”نان کرسچین“ یا غیر عیسائی کے نام سے پکارا ہے؟
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں صرف دو اقلیتیں ہیں! پہلی اقلیت خوش نصیب ہے۔ یہ طبقہ ¿ بالا پر مشتمل ہے۔ اس میں جاگیردار‘ سردار‘ وڈیرے ‘ زمیندار‘ اور اربوں کھربوں میں کھیلنے والے صنعت کار شامل ہیں۔ یہی افراد سیاست میں دخیل ہیں۔ منتخب قومی اور صوبائی اداروں میں انہی کی اکثریت ہے۔ یہ مختلف سیاسی جماعتوں میں ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں‘ قبیلوں اور خاندانوں کے اعتبار سے جُڑے ہوئے ہیں۔اسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد وزیر بنتے ہیں اور ہر حکومت میں عمائدین اور امرا میں شامل ہوتے ہیں۔ ہالہ کے مخدوم ہوں یا بلوچستان کے سردار‘ یا ملتان کے گدی نشین‘ یا جھنگ کے پیر یا کے پی کا سیف اللہ یا ولی خاندان‘ یا گجرات کے چوہدری‘ یا رائے ونڈ کے شریف یا جنوبی پنجاب کے لغاری‘ مزاری اور کھوسے‘ یہ سب اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو اس ملک پر ستر سال سے حکومت کر رہی ہے! وزارتوں اور اسمبلیوں پر قابض ہے۔ یہ اپوزیشن میں ہوں تب بھی عملی طور پر مقتدر ہی رہتے ہیں۔
بالائی طبقے پر مشتمل اس خوش بخت اقلیت میں دو مزید اکائیاں شامل ہو گئی ہیں۔ ایک وہ مذہبی رہنما جو سیاست میں ہیں اور مذہب کو سیاست کے لیے خوب خوب استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں کا طرزِ زندگی اور معیارِ حیات اتنا ہی شاہانہ اور مراعات یافتہ ہے جتنا اس طبقے کے دوسرے ارکان کا۔ دوسری اکائی اس طبقے میں تاجروں بنکاروں اور مخصوص میڈیا کی شامل ہوئی ہے یہ لوگ بھی اب مراعات یافتہ طبقے کے کندھے سے کندھا رگڑتے ہیں اور اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت کرتے پھرتے ہیں۔ اس طبقے پر‘ اکثر و بیشتر‘ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تھانے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ شہر اور قصبے ہوں یا صوبائی اور وفاقی دارالحکومت ‘ یہ بادشاہوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔ ٹریفک کا ضابطہ اگر ان پر کوئی لاگو کرنے کی کوشش کرے تو منہ کی کھاتا ہے‘ ایئر پورٹوں پر جب عام شہری قطاروں میں کھڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں یہ‘ پروٹوکول افسروں کے جلو میں ‘ فرعونوں کی طرح اکڑ کر‘ وی آئی پی لاﺅنجوں سے گزرتے‘ باہر آ جاتے ہیں! اسلحہ کے قوانین ہوں یا ٹیکس کے یا درآمد برآمد کے‘ یا تعمیرات کے‘ ان پر کسی کا اطلاق نہیں ہوتا!
دوسری اقلیت اس ملک کی مڈل کلاس کا وہ بدقسمت طبقہ ہے جو اپنی ذہانت محنت اور دیانت داری کے طفیل‘ بالائی طبقہ کے نالائق اور بیساکھیوں پر چلنے والے سپوتوں کی نسبت کہیں زیادہ کامیاب ہے۔ یہ معزز پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ہیں اور انجینئر‘ سائنس دان ہیں اور پروفیسر‘ وکیل ہیں اور بیرون ملک کی مشہور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان! انہی میں سی ایس ایس کے افسران بھی ہیں جو عام خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف اور صرف مقابلے کی بنیاد پر اوپر آئے ہیں! مڈل کلاس کا یہ بدقسمت طبقہ جب اپنے حقوق‘ اپنی اہلیت کے تناسب سے مانگتا ہے تو اسے منہ کی کھانا پڑتی ہے کیونکہ حقوق دینے والے‘ اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو بالائی طبقے پر مشتمل ہے۔ یہ سفارش کے بغیر حق‘ حقدار کو نہیں دیتے۔ چنانچہ جو حق مڈل کلاس کا ہے‘ وہ یہ بالائی طبقہ اپنے طبقے کے بدشکلے اور بے عقلے نوجوانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ اس ظلم اور دھاندلی سے تنگ آ کر‘ مڈل کلاس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دوسرے ملکوں کو ہجرت کر جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ سارے پاکستانی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ ڈاکٹر ‘انجینئر ‘ سائنس دان اور پروفیسر ہیں‘ بیرون ملک سے واپس آ جائیں تو کیا اپنی اہلیت کی رو سے پذیرائی پائیں گے؟ نہیں! بالکل نہیں! کئی حب الوطنی کے شوق میں بیرونِ ملک سے واپس آئے۔ مگر سرخ فیتے اور پیچ در پیچ مکروہ سفارشی نظام سے اکتا کر‘ واپس چلے گئے۔
یہاں کے حکمران‘ اُن افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو ”اپنے“ ہوں اور ان کے نام اُن چٹوں پر درج ہوں جو ان کی جیبوں میں رکھی ہوتی ہیں۔ اِس میرٹ کُشی میں‘ اس بندر بانٹ میں‘ نام نہاداپوزیشن کے سیاست دان بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لین دین”بھاجی“ اور ”باہمی تعاون“ کے سوا کچھ نہیں!
آپ جے آئی ٹی کے ارکان پر غور کیجئے۔ سارے مڈل کلاس سے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ! اب حکومت ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے کہ انہیں اپنے کئے کا مزا چکھایا جائے۔ اگر یہ حکمرانوں کے رشتہ دار ہوتے یا جاگیردار یا سردار‘ تو کوئی ان سے بدلہ لینے کا سوچ بھی نہ سکتا!
خدا کے بندو! چند گنے چنے غیر مسلموں کے پیچھے نہ پڑو! ان پر اقلیت کی چھاپ نہ لگاﺅ! اقلیتیں تمہارے ہاں صرف اور صرف دو ہیں! ایک وہ جو تمہاری گردنوں پر مسلّط ہے۔ دوسری وہ جو کچھ بیرون ملک جا چکی ہے اور کچھ ڈگریاں 
 لیے‘ غیر ملکی سفارت خانوں کے 
سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں-

Wednesday, July 26, 2017

کوئی ہے؟ جو سمجھائے!


نظم و نسق پاتال تک جا پہنچا ہے۔ ریاست اداروں سے چلتی ہے۔ ادارے معطل اعضا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بے بس! کارکردگی صفر سے کم۔
پیمرا کے سربراہ کے متعلق پرسوں جو کچھ عدالت عالیہ نے کہا‘ کیا اس کے بعد بھی حکمرانوں کی دوست نوازی کا دفاع کیا جاسکتا ہے؟ نہیں۔ مگر پھر بھی دفاع کرنے والے موجود ہیں۔ دلیل کوئی نہیں۔ ”میں اتفاق نہیں کرتا“، یہی واحد دلیل ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں طلوع ہوتا کہ ایک نہ ادارہ برسرعام برہنہ نہ ہو۔ ایک صاحب ولایت میں بوڑھوں کے لیے نرسنگ ہوم چلا رہے تھے‘ انہیں ریاست کے مرکزی بینک کا ڈپٹی گورنر لگا دیا گیا۔ کہا گیا کہ ان کے پاس فلاں ڈگری بھی ہے۔ کیا صرف ڈگری کی بنیاد پر مرکزی بینک کا دوسرا اہم ترین منصب دیا جاسکتا ہے؟ کیا تجربہ رکھنا ضروری نہیں۔ پھر نیشنل بینک آف پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ایس ای سی پی میں جو کچھ ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے مگر اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دانشور صحافی‘ لکھاری اس بدترین نظم و نسق کو بھی بہترین قرار دے سکتے ہیں۔ ثابت کرسکتے ہیں کہ نیشنل بینک‘ ایس ای سی پی اور لاتعداد دوسرے ادارے دوستوں‘ فرماں برداروں کو نہیں‘ بلکہ کرہ ¿ ارض کے لائق ترین افراد کو سونپے گئے ہیں۔ ظفر اقبال نے کہا تھا 
درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے
مگر یہاں معاملہ برعکس ہے۔ مایوسی نہیں‘ امید آنکھ مارتی ہے۔ تاریخ کے گزشتہ اوراق آنکھوں کے سامنے آتے ہیں اور پلٹتے ہیں۔ آخر کون سا زمانہ ہے جو شیخ مبارکوں سے خالی رہا۔ صفر کو ایک صد‘ شب تاریک کو روزِ روشن اور نحوست کو سعادت ثابت کرنے والے کب درباروں میں موجود نہ تھے۔ مگر امید پوچھتی ہے‘ وہ اب کہاں ہیں؟ اب کو تو چھوڑیے‘ اکبر کی آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا۔
وہ ”مقدس“ دستاویز جس نے مذہبی معاملات میں شہنشاہ کو مجتہدین اور علماءکرام سے برتر اتھارٹی دی تھی‘ شیخ مبارک ہی نے لکھی تھی۔
”اب جبکہ ہندوستان امن اور حفاظت کا گہوارہ اور انصاف اور فیض رسانی کا گڑھ بن چکا ہے‘ ہم بڑے علماءنے قرآن پاک کی اس آیت پر بہت غور کیا ہے: ”اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولی الامر کی۔“ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سلطان عادل کا مقام مجتہد سے برتر ہے۔ چنانچہ اگر مستقبل میں کسی مذہبی معاملے میں علما اور مجتہدین متفق نہ ہوئے تو شہنشاہ کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی رائے دے اور ہم فتویٰ دیتے ہیں کہ بادشاہ کی رائے پوری قوم کو قبول کرنا ہوگی۔“
یہ وہ وقت تھا جب ”اللہ اکبر“ کے نعرے کو سرکاری تقاریب میں خوب پذیرائی دی گئی اس لیے کہ یہ ذو معنیٰ تھا اور (نعوذ باللہ) اسے اکبر اور اس کے حواری‘ اکبر کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
اکبر گیا تو دین الٰہی بھی گیا اور شیخ مبارک کا نام تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک راتب خور‘ چاپلوس اور بے ضمیر دانشور کے سانچے میں فکس ہو گیا۔
حیرت و استعجاب اور ہنسی کے سوا کچھ نہیں بن پڑتا جب حکومتی عمائدین دعویٰ کرتے ہیں کہ ”ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ کر رکھ دی۔“ اگر پوچھا جائے کہ عساکر پاکستان نے جو کچھ کیا‘ اس کے علاوہ سول حکومت نے کیا کیا ایکشن لیے‘ ذرا نمبر وار گنوا دیجیے‘ تو آئیں بائیں شائیں ہونے لگتی ہے۔ کوئی ایک اقدام بھی سول حکومت کے دامن میں نہیں۔ وفاق میں جس ادارے نے وزارت داخلہ کے تحت کام کرنا تھا‘ وہ کہاں ہے؟ کیا کیا ہے اب تک؟ لاہور میں یہ عالم ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کی رو سے ”سیف سٹی پراجیکٹ“ کا منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ ہی نہیں سکا۔ اب تک صرف پندرہ سو کیمرے لگ سکے۔ فیروز پور روڈ پر پرسوں جو دھماکہ ہوا وہاں موجود چار سی سی ٹی وی کیمرے کام ہی نہیں کر رہے تھے۔
مذہب کے حوالے سے قائم تعلیمی اداروں تک کسی ادارے کی رسائی نہیں۔ یہاں کون رہ رہا ہے‘ کون آیا‘ کون گیا‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دہشت گرد آسمان سے نہیں ٹپکتے‘ اسی زمین پر ہیں‘ دوسرے ملک سے آئیں جب بھی مقامی تعاون کے بغیر بے دست و پا ہیں۔ انہیں دست و پا فراہم کرنے والوں کو تلاش کرنا اور کیفر کردار تک پہنچانا‘ سول حکومت کا کام ہے۔ گلیوں‘ مکانوں‘ بازاروں‘ تعلیمی اداروں میں ٹینک اور توپیں نہیں داخل ہوسکتیں۔ یہ انٹیلی جنس کا مسئلہ ہے‘ خفیہ اداروں کا کار منصبی ہے۔
تین ہزار پولیس کے جوان‘ صوبائی دارالحکومت میں شاہی محلات پر پہرے دے رہے ہیں‘ سینکڑوں گاڑیوں کے ساتھ! پولیس کا صوبائی سربراہ ریٹائر ہوا‘ اس کی جگہ کسی کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ عدالت نے دخل دیا تو ایسے افسر کو لگا کر‘ جو تین ماہ بعد ریٹائر ہورہا تھا‘ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ سربراہ کیوں نہیں تعینات کیا جاتا؟ اس لیے کہ خوش نیتی مفقود ہے۔ پولیس کا سربراہ نہیں‘ غلام چاہیے اور وفادار ترین غلام ڈھونڈنے میں وقت تو صرف ہوتا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے پولیس کے صوبائی سربراہ کے اختیارات سلب کر کے پوری فورس کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ وفاق کا فرض تھا کہ اپنی اتھارٹی اجاگر کرتا اور اس حرکت پر حرکت میں آتا مگر خاموشی ہے‘ اس لیے کہ اگر سندھ حکومت کو کچھ کہے گا تو وہ پنجاب کی طرف اشارہ کرے گی کہ وہاں جو کچھ ہورہا ہے‘ کیا نظر نہیں آرہا؟ اس لیے خاموشی ہی حکومت کرنے کا اور وقت گزارنے کا بہترین اسلوب ہے۔ تم ہماری طرف انگلی نہ اٹھاﺅ‘ ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے۔ رہے عوام تو وہ اپنی حفاظت خود کریں۔
جس ملک کے اندر بدانتظامی عروج پر ہو‘ اسے ملک سے باہر کون اہمیت دے گا؟ پرکاہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ ترکی قطر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے مگر سعودی عرب کی حکومت ترکی کے صدر کو پھر بھی سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے‘ اس لیے کہ ترک حکومت کے سربراہ پر کوئی مقدمہ نہیں چل رہا‘ اس نے دوران صدارت کسی دوسرے ملک سے اقامہ نہیں لیا‘ وہ ملزم نہیں! جس ملک کا وزیراعظم اور وزیراعظم کا پورا خاندان کٹہرے میں کھڑا ہو‘ الزامات کی بھرمار ہو‘ اس ملک کو اتنی ہی تکریم ملے گی جس کا وہ حقدار ہے۔
سربراہ مملکت کا اولین فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد اٹھتے بیٹھتے عمائدین و امرا میں سے درست مشورہ دینے والوں کا انتخاب کرے اور ان لوگوں سے احتراز کرے جو اس کی ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہتے ہیں۔
گیارہویں صدی عیسوی میں ایک ایرانی امیر نے اپنے فرزند گیلانی شاہ کے لیے ایک کتاب لکھی جس میں حکومت کرنے کے آداب تحریر کیے۔ اس نے اس کتاب کا عنوان قابوس نامہ رکھا۔ مشرقی ادب میں ایسی کئی تصانیف ہیں جو جہاں بانی کے طریقے سکھاتی ہیں۔ جو سربراہان مملکت ادراک اور شعور رکھتے ہیں اور معاملات کی گہرائی میں جاتے ہیں‘ وہ ہمیشہ ایسے نسخہ ہائے عقل کو اپنی میز پر اور اپنے تکیے کے نیچے رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ قابوس نامہ کا مصنف ایک جگہ پر ملک کے سربراہ کوکہتا ہے:
”ہر شخص کے لیے کوئی نہ کوئی کام پیدا کر۔ انہیں اپنے کاروبار پر جانے سے نہ روک تاکہ جو نفع کاروبار سے حاصل ہو اسے وہ قسطوں میں خزانہ عامرہ میں جمع کراسکیں اور بے خوف زندگی گزاریں۔ جو خزانہ داری کے قابل نہ ہو اسے خزانہ دار نہ بنا۔ ہر کام ہر شخص کو نہیں دینا چاہیے تاکہ طعن کرنے والے کی زبان تم پر نہ کھل سکے اور تیرے انتظام میں خلل نہ پیدا ہو‘ کیونکہ جب تو کسی کو کوئی منصب دینا چاہے گا تو وہ شخص خواہ کام نہ بھی جانتا ہو‘ منصب کے لالچ میں سچ نہیں کہے گا اور کام کرنا شروع کردے گا جس کا نتیجہ فساد کی صورت میں نکلے گا۔کام‘ کام کے مستحق کے سپرد کرتا کہ دردِ سر سے بچے۔“
اس کے بعد جو کچھ کہتا ہے‘ کاش ہمارے حکمران اسے سمجھ سکیں:
”اگر تو سمجھتا ہے کہ کسی خاص شخص پر عنایت کرنی چاہیے تو بغیر منصب بھی اسے نعمت و حشمت اور اعزاز دیا جاسکتاہے۔ یہ اس سے اچھا ہے کہ اسے ایک ایسا منصب دیا جائے جس کا وہ مستحق نہیں اور جس سے محض تیری نادانی کا اظہار ہو۔“
یعنی ہزار سال پہلے بھی لوگوں کو معلوم تھا کہ نااہل کو منصب دینے کا مطلب ہے منصب عطا کرنے والا نادان ہے۔ پھر اگر حکمران کے پاس اپنے کاروبار‘ کارخانوں‘ فیکٹریوں‘ جائیدادوں اور پراپرٹی کی وسیع و عریض ایمپائر ہو جو اندرون ملک سے لے کر دساور تک پھیلی ہوئی ہو‘ تو عنایت کرتے وقت نااہل کی تعیناتی وہاں کیوں نہیں کی جاتی؟ اسے ریاستی ادارہ ہی کیوں سونپا جاتا ہے؟ اگر کسی کے پاس نرسنگ ہوم چلانے کا تجربہ ہے تو حکمرانوں کی ذاتی ایمپائر میں ہسپتال بھی موجود ہیں‘ اسے وہاں مامور فرمائیے۔ خزانہ آپ کے تصرف میں ہے۔ بیوروکریسی موم کی ناک ہے‘ اعتراض نہیں کرے گی۔ نااہل کا منہ بے شک موتیوں سے بھر دیجیے۔ اسے چاندی یا سونے میں تلوا دیجیے مگر خدا کے لیے ایک بار! صرف ایک بار!! ریاستی ادارے پر اسے بٹھائیں گے تو گویا آپ نے ترازو اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اب وہ دوسروں کو سونے چاندی میں تلواتا پھرے گا۔ خمیازہ آپ بھگتیں گے۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ‘ اس لیے کہ یہ اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے: ”امانتیں ان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔“

Monday, July 24, 2017

دو دن کی زندگانی میں کیا کیا کرے کوئی

تحریر میں کبھی کبھی کچھ تاریخی حوالے در آتے ہیں۔ ایسا غیر اختیاراتی طور 
پر ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے کوئی ایسا تاریخی واقعہ یا حوالہ ذہن میں کوندنے لگتا ہے جو رواں صورت حال سے مشابہ نظر آتا ہے۔ کچھ عرصہ سے قارئین‘ انفرادی ای میلوں اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کے ذریعے تقاضا کر رہے ہیں کہ مطالعہ کے لیے کتابیں تجویز کی جائیں۔ شروع شروع میں کچھ حضرات کو جواب دیئے اور فرمائشوں کی تکمیل کی مگر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ استفسارات کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ کچھ گفتگو کتابوں کے ضمن میں کی جا رہی ہے۔
یہاں یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ کتابوں پر گفتگو کرنے اور کچھ موضوعات پر کتابیں تجویز کرنے کا مطلب کتاب دانی کا دعویٰ ہرگز نہیں۔ یہ سمندر ہے جس کا مکمل پیراک مشکل ہی سے ملے گا۔ بہت سے احباب کو اس سلسلے میں کالم نگار کی نسبت زیادہ اور کچھ کو بہت زیادہ معلومات حاصل ہوں گی۔ بہرطور‘ یہ تجاویز بہت سے قارئین کے لیے نئی بھی ہوں گی۔
برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے ابراہام ایرالی نے خوب کام کیا ہے۔ ابراہام کیرالہ میں پیدا ہوا۔ مدراس (موجودہ چنائی) پڑھاتا رہا۔ کچھ عرصہ مغربی ممالک کی کچھ بڑی یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ رہا۔ وصف یہ ہے کہ ہندوئوں کی طرف داری کرتا ہے نہ مسلمانوں کی۔ تحقیق اس نے بہت کی ہے اور جم کر گہرائی سے کی ہے۔ ’’مغل تھرون‘‘ اور ’’ہسٹری آف دہلی سلطانیٹ‘‘ اس کی معروف تصانیف ہیں۔ تاریخ یوں لکھتا ہے جیسے واقعات پڑھنے والے کی نظروں کے سامنے پیش آ رہے ہوں۔ تیسری کتاب جو اس کی پڑھنی چاہیے ’’انڈیا‘ پیوپل‘ پلیس‘ کلچر‘ ہسٹری‘‘ ہے۔ جس میں اجتماعی اور عمرانیاتی پہلوئوں پر اس نے خوب بحث کی ہے۔ جو حضرات زیادہ تفصیل میں جانا چاہتے ہیں وہ ایک تو ڈاکٹر برنیئر 
(Bernier)
 کا سفرنامہ ضرور پڑھیں۔ برنیئر فرانس کا ڈاکٹر تھا۔ پہلے داراشکوہ کا پرسنل فزیشن رہا پھر اورنگزیب سے وابستہ ہو گیا۔ 1665ء میں اورنگزیب کشمیر گیا تو برنیئر اس کے ساتھ تھا۔ دوسرے‘ اکبری دربار کے مشہور سکالر ابوالفضل نے فارسی زبان میں جو ’’اکبر نامہ‘‘ تصنیف کیا تھا‘ اس کا انگریزی ترجمہ چار جلدوں میں ’’مورتی کلاسیکل لائبریری آف انڈیا‘‘ نے شائع کر دیا ہے۔ اس میں فارسی متن بھی موجود ہے۔ شیر شاہ سوری پر جس قدر تحقیق ہندو مورخ کالکارنجن قانون گو نے کی ہے‘ کسی اور نے شاید ہی کی ہو۔ وہ معروف مورخ جادو ناتھ سرکار کا شاگرد خاص ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ مسلم ہسٹری کی طرف اسے اس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سہروردی صاحب نے راغب کیا۔ انیس سال تحقیق کرنے کے بعد اس نے ’’شیرشاہ اینڈ ہز ٹائمز‘‘ لکھنے میں دس برس صرف کیے۔ انگریزی میں اصل کتاب اس کالم نگار کو تلاش کے باوجود نہیں ملی۔ اردو ترجمہ (شیر شاہ سوری اور اس کا عہد) میسر ہوگیا۔
برصغیر پاکستان و ہند کے حوالے سے دو مزید کتابیں بھی دلچسپ ہیں۔ پنجاب۔ اے ہسٹری فرام اورنگزیب ٹو مائونٹ بیٹن‘ مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے لکھی ہے۔ دوسری کتاب معروف بھارتی مصنف شاشی طرور کی ہے جس کا عنوان ’’این  ایرا آف ڈارک نس‘‘ ہے۔ اس کتاب کا موضوع وہ ظلم ہے جو برطانوی سامراج نے برصغیر کے ساتھ کیا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے شاشی کا اپنا نکتہ نظر ہے جس سے اتفاق مشکل ہے۔ مگر جس طرح منظم انداز کے ساتھ اس نے انگریزی عہد کے استحصال اور خود غرضی کا ٹھوس حقائق کی مدد سے تجزیہ کیا ہے‘ وہ حد درجہ دلچسپ ہے اور قابل تحسین بھی! اس سے پہلے اس موضوع پر کالم نگار نے قابل ذکر کتاب جو پڑھی تھی‘ اس کا نام ’’کمپنی کی حکومت‘‘ ہے۔ یہ باری علیگ نے لکھی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اب بازار میں کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ خواہش ہے کہ اپنی حقیر نام نہاد لائبریری میں ایک نسخہ اس کا بھی ہو۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جس طرح سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا‘ پھر اردن‘ اسرائیل وغیرہ کی ریاستیں وجود میں آئیں‘ اس پر دو کتابیں مبسوط ہیں اور دوسرے ذرائع سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ ایک سین مک میکن 
Sean Mcmeekin
 کی تصنیف ’’دی آٹو مان اینڈ گیم‘‘ ہے۔ یہ کتاب 2015ء میں چھپی ہے۔ دوسری کتاب نسبتاً پرانی ہے مگر معرکہ آرا کتاب ہے۔ یہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے جارج لینس زوسکی 
(Lenc Zow Ski) 
کی تصنیف ’’مڈل ایسٹ ان ورلڈ افیئرز‘‘ ہے۔ لینس زوسکی نے یہ 1952ء میں لکھی تھی۔ پھر وہ وقتاً فوقتاً تازہ ترین حقائق کے ساتھ اس پر نظرثانی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ 2000ء میں امریکہ میں اس کا انتقال ہوگیا۔
ولیم ڈال ریمپل 
(William Dal Rymple)
 یاد آ گیا۔ وہ کبھی لندن رہتا ہے کبھی دہلی۔ اس کی کتاب وائٹ مغلز 
(Whit Mughals)
 بظاہر تو ایک انگریز افسر اور ایک حیدر آبادی مسلمان خاتون کے معاشے کی حقیقی کہانی ہے مگر اصل میں سیاست‘ معیشت اور سفارت کاری کے میدان میں انگریزوں نے جو سلوک مقامی حکمرانوں کے ساتھ کیا‘ اس کا تجزیہ بھی ہے۔ ’’دی لاسٹ مغل‘‘ میں ڈال ریمپل نے 1857ء کی جنگ آزادی اور مغل سلطنت کے خاتمے کا حال بیان کیا ہے اور اکثر و بیشتر حوالے مسلمانوں‘ ہندوئوں اور انگزیوں نے روزنامچوں سے لیے ہیں۔ تیسری اہم کتاب اس نے پہلی افغان برٹش لڑائی پر لکھی ہے۔ اس کا نام ’’ریٹرن آف اے کنگ‘‘ ہے۔ اس کے ذرائع اور منابع بھی ذاتی ڈائریوں پر مشتمل ہیں۔ افغان نفسیات کو سمجھنے میں یہ تحقیقی تصنیف بہت مدد فراہم کرتی ہے۔
فارسی شاعری کے حوالے سے بھی قارئین سوالات کرتے ہیں۔ اس میدان کے ماہر تو دوست گرامی پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں جو اس سمندر کے شناور ہیں۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں شعبہ فارسی کے سربراہ تھے۔ اب ان کی خدمات 
Lums
 نے حاصل کر لی ہیں۔ یہ کالم نگار تو فارسی شاعری کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔ سکول کالج یونیورسٹی میں تو فارسی پڑھی نہیں۔ جد 
امجد اور والد گرامی کے دستر خوان سے بچے ہوئے چند ریزے اپنا کل سرمایہ ہیں۔ 
اب یہ احساس اذیت دیتا ہے اور مسلسل اذیت دیتا ہے کہ جب گھر میں دریا بہہ رہا تھا تو فیض کیوں نہ اٹھایا۔
رومی کی غزلیات (دیوان شمس تبریز) اور قا آنی کے قصائد مسلسل زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ دیوان شمس تبریز کی غزلیات کا اپنا ذائقہ ہے جو دوسری دنیائوں کا پتہ دیتا ہے۔ قا آنی کے قصائد لغت کا دریا ہیں۔ ایسا دریا جس کا کنارا تاحد نظر نہیں دکھائی دیتا۔ فیضی کی غزلیات اب نایاب ہیں۔ کالم نگار کے پاس ایک فوٹو کاپی نسخہ ہے۔ فیضی میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہے اور یہ بات ڈاکٹر معین نظامی کو ہرگز پسند نہیں۔ اپنے چوتھے شعری مجموعے ’’پانی پہ بچھا تخت‘‘ کے آغاز پر جب میں نے فیضی کا یہ شعر لکھا   ؎
من دفتر کون و مکان یک یک مفصل دیدہ ام
اوراق تقویم فلک جدول بہ جدول دیدہ ام
تو حضرت نے مذاق اڑایا‘ بدلہ لینے کی ایک ہی صورت ہے کہ بس چلے تو ایم اے فارسی کے نصاب میں فیضی کی ساری میسر تصانیف شامل کروا دی جائیں تاکہ نظامی صاحب کو پڑھانی پڑیں! جو اصحاب فارسی نہیں جانتے مگر فارسی ادب سے آشنائی کے خواہش مند ہیں  انہیں شبلی کی شعرالعجم کا مطالعہ کرنا چاہیے جو پانچ جلدوں میں ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل‘ پروفیسر برائون کی تصنیف ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ بھی فارسی ادب کا ذائقہ بہت حد تک چکھا دیتی ہے۔ برائون نے یہ کتاب لکھنے میں ربع صدی لگا دی۔ جا بجا شبلی (شعرالعجم) کے حوالے دیتا ہے۔ یہ اور بات کہ علامہ اقبال برائون سے متاثر نہیں تھے۔ یہ بات ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی تصنیف ’’حیات اقبال عہد بہ عہد‘‘ پڑھ کر معلوم ہوئی۔
اب کچھ منتشر خیالات! یہ کالم نگار مولانا محمد حسین آزاد کا زبردست فین ہے۔ محب گرامی جناب اکرام چغتائی کا مجموعہ مقالات (مطالعہ آزاد) خاصے کی شے ہے۔ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد علم اور کتابوں کے کس قدر شائق تھے اور اس راستے میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں۔ جناب اکرام چغتائی کا وجود طالبان علم کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ وہ جرمن زبان کے ماہر ہیں۔ متعدد بار آسٹریا اور جرمنی جا چکے ہیں۔ انہیں آسٹریا کی حکومت نے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ لمحہ موجود میں وہ علامہ محمد اسد پر مستند اتھارٹی ہیں۔ اسد پر ان کی تصانیف نصف درجن کے قریب ہیں جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد اسد بندۂ صحرائی (اردو)‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی (اردو) ’’اسلام کی خدمت میں یورپ کا تحفہ‘‘ (دو جلدوں میں بزبان انگریزی)۔ ’’ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ محمد اسد کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے۔ (پہلا دی روڈ ٹو مکہ ہے)۔ اس دوسرے حصے کو چغتائی صاحب نے مرتب کیا ہے اور حواشی کا اضافہ کیا ہے۔ چغتائی صاحب تحقیق کے ان ثقہ علما میں سے ہیں جو خاموشی سے‘ کام کرتے رہتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا! ان کا ہر کام لائق تحسین اور علمی دنیا میں قابل قدر اضافہ ہے۔
’’امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ اس کالم نگار کی پسندیدہ کتاب ہے۔ یہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی تصنیف ہے۔ اس میں امام ابو حنیفہؒ کو ان کے علم و تفقہ سے قطع نظر‘ اس عہد کی سیاست (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
کے نکتہ نظر سے جانچا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں شبلی کی سیرت النعمان پڑھ کر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
حسین ہیکل کی تصنیف ’’عمرفاروق اعظمؓ ‘‘ کا جو ترجمہ حکیم حبیب اشعردہلوی نے کیا ہے وہ کمال کا ترجمہ ہے۔ ایسا ترجمہ جو طبع زاد سے بڑھ کر ہے۔ ادب کی چاشنی‘ اسلوب کی مٹھاس اور زبان پر حد درجہ مضبوط گرفت۔ اس ترجمہ کو اردو ادب کے نکتہ نظر سے بھی ضرور دیکھنا چاہیے۔ کتاب کا کچھ اور حضرات نے بھی ترجمہ کیا ہے مگر سخت پھیکا اور حوصلہ شکن۔
اس کالم نگار کو فکشن پڑھنے کا بھی شوق ہے مگر صرف وہ کتابیں جو شہکار ہیں۔ بورس پاسترناک کا ڈاکٹر زواگو کئی بار پڑھا۔ ہر بار نیا لطف آیا۔ پاستر ناک کی پچاس نظمیں درد میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
گبرائیل گارسیا مارکوئز کا ناول 
Love in the Times of Cholera 
پڑھا تو ایک عرصہ ہانٹ کرتا رہا۔ انگریزی میں ترجمہ کمال کا تھا۔ مترجم کا نام یاد نہیں۔ ناولوں کا تذکرہ الگ مضمون چاہتا ہے۔
یہ ایسا راستہ ہے جس کی سمت ہے نہ کنارا۔ کیا کلاسیکل اور کیا جدید‘ ہر عہد کی تصانیف میں ایسے ایسے جواہر دبے پڑے ہیں کہ طالب علم کو عمر نوح چاہیے۔ اردو شاعری‘ تاریخ‘ پانچوں فقہ کا تقابلی مطالعہ‘ فارسی کی جدید‘ ہم عصر شاعری‘ بین الاقوامی تعلقات‘ ہر طرف چمنستان کھلے ہیں۔ حد ہے نہ انت! مگر بات یہ ہے کہ   ع
دو دن کی زندگانی میں کیا کیا کرے کوئی!

Sunday, July 23, 2017

یا نفاق! تیرا ہی آسرا

بھارتی نژاد سینو گپتا اپنے شوہر کے ساتھ لندن زیر زمین ریل میں سفر کر رہی تھی۔ گود میں تین ماہ کی بیٹی تھی۔ ریل ایک اسٹیشن پر رکی۔ ایک شخص سوار ہو کر‘ سینو گپتا کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے عورت سے مخاطب ہو کر کہا ’’تمہاری بچی یقینا خوبصورت ہے۔‘‘ پھر وہ ذرا ہٹ کر دوسرے مسافروں کے ساتھ کھڑا رہا۔ ایک ہاتھ سے اس نے چھت کے قریب والے ڈنڈے کو پکڑ رکھا تھا۔ سینو گپتا نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جو ہمارے بچے کی تعریف کر رہا تھا۔ شوہر نے بتایا کہ یہ برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔ بیوی نے سمجھا مذاق کر رہا ہے۔ شوہر نے سنجیدگی سے کہا کہ واقعی یہ وزیراعظم ہے۔ اس پر سینو گپتا سے نہ رہا گیا۔ وہ وزیراعظم کیمرون کے پاس گئی اور پوچھا۔ معاف کیجیے‘ کیا آپ وزیراعظم ہیں؟ اس نے جواب دیا‘ ہاں! سینو گپتا کی ہنسی نکل گئی۔ پھر اس نے وزیراعظم سے سوال پوچھنے پر معذرت کی۔ جنوبی ایشیا میں کوئی وزیراعظم‘ ٹرین میں کھڑا ہو کر سفر نہیں کرتا۔ کیمرون نے وضاحت کی کہ اس کا ٹائم ٹیبل بہت سخت اور مصروفیت سے اٹا ہوا ہے۔ ٹرین میں اس لیے سفر کررہا ہے کہ کار کی نسبت یہ جلد پہنچا دے گی۔ ساتھ صرف ایک باڈی گارڈ تھا۔
ایک بار وزیراعظم کیمرون نے ایک سو چالیس میل کا سفر فوجی ہیلی کاپٹر سے کیا۔ اس پر وہ شور مچا جیسے برطانیہ کا خزانہ اس سفر سے خالی ہو گیا تھا۔ اس دن صبح سویرے کی ایک تصویر پہلے ہی وائرل ہو چکی تھی جس میں وزیراعظم نے اپنی بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور اسے نرسری کلاس میں چھوڑنے جا رہے تھے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے لنکن میں ایک فیکٹری کے مزدوروں سے ملاقات کرنا تھی۔ وہ ٹرین سے جانے کے بجائے فوجی ہیلی کاپٹر میں گئے۔ مگر میڈیا میں شدید اعتراضات ظاہر ہوئے۔ حساب کرکے بتایا گیا کہ ٹرین میں جاتے تو ایک گھنٹہ زیادہ صرف ہوتا اور کرایہ 67 پائونڈ لگتا۔ فرسٹ کلاس کا ٹکٹ 120 پائونڈ کا ہوتا۔ اس کے بجائے وزیراعظم ہیلی کاپٹر پر گئے جس پر بارہ ہزار پائونڈ خرچ ہو گئے۔ میڈیا نے طعنے دیئے کہ اگر اس دن گرمی زیادہ تھی تو دوسرے مسافر بھی تو ٹرین ہی میں سفر کر رہے تھے۔ اس پر وزیراعظم کے ترجمان کو لمبی چوڑی تشریح کرنا پڑی اور بہت سے تیکھے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
فرانس کے صدر ہولاندے ملک میں کہیں بھی جانا ہو‘ ٹرین استعمال کرتے رہے۔ جب یورپی سربراہوں کی کانفرنس اٹنڈ کرنے کے لیے انہیں پیرس سے برسلز جانا تھا‘ تب بھی ٹرین کے ذریعے گئے۔ برسلز کے اس سفر پر تقریباً چھ ہزار یورو صرف ہوئے۔ اس کے برعکس ہیلی کاپٹر پر جاتے تو ساٹھ ہزار یورو (یعنی دس گنا زیادہ) خرچ ہوتے۔
گزشتہ ہفتے ہمارے صدر مملکت نے بھی ٹرین کا سفر کیا۔ یہ کسی کانفرنس وغیرہ کے لیے نہیں تھا۔ ان کا مقصد فقط یہ تھا کہ’’لوگ ریلوے پر زیادہ سفر کریں۔‘‘ اس مالی نقصان کو تو چھوڑیے جو کئی بوگیوں میں بکنگ نہ کرنے سے ہوا۔ اس کرب کا اندازہ لگائیے جو مسافروں کو ہوا۔ ٹکٹوں کو فروخت بند کردی گئی۔ مین لابی میں مسافروں کا داخلہ ممنوع ہو گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ہو گیا۔ دو خاص سیلونوں کی حفاظت کے لیے بیس کمانڈوز اور تیس پولیس اہلکار متعین کیے گئے۔ راستے کے ہر اسٹیشن پر افسران کھڑے کئے گئے۔ میڈیا بتاتا ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر بیسیوں اہلکار اور درجنوں افسر سارا دن کھڑے رہے‘ متعدد گاڑیاں گھنٹوں لیٹ ہوئیں۔
اس سب کچھ کے ساتھ اب صدر مملکت کا یہ ارشاد پڑھیے کہ … ’’پی آئی اے میں بھی عام لوگوں کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔‘‘ صدر صاحب کا دوسرا ارشاد سن کر آپ کو مزید لطف اندوز ہونا پڑے گا… ’’ریلوے کا سفر آرام دہ اور بہتر ہورہا ہے۔‘‘
اس میں کیا شک ہے کہ اگر ٹریفک بند کردی جائے اور عام مسافروں کو ریلوے کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے۔ راستے میں ہر اسٹیشن پر خدام ایستادہ ملیں‘ خلق خدا کو جتنا ممکن ہے‘ دور رکھا جائے تو ریلوے کا سفر یقینا آرام دہ اور بہتر ہوگا۔
عام لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کا دعویٰ تھا تو لارڈ کرزن کی طرح سفر کرنے کے بجائے صدر صاحب پارلر میں دوسرے مسافروں کے ساتھ سفر کرتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے عوامی خزانے سے خرچ کروانے کے بعد ریلوے کے سفر کو آرام دہ قرار دینا معصومیت کی آخری حد ہے۔ اس کے علاوہ اور کہا بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا قومی نعرہ ہونا چاہیے ’’یا نفاق! تیرا ہی آسرا‘‘ نفاق کا یہ عالم ہے کہ رات دن تقریروں‘ خطبوں‘ وعظوں میں تذکرے ہوتے ہیں کہ جب امیرالمومنین عمر فاروقؓ بیت المقدس گئے تو راستے میں وہ اور ان کا خادم باری باری اونٹ پر سوار ہوتے۔ روایت یہ ہے کہ جب شہر میں داخل ہوئے تو خادم سوار تھا اور آپ پیدل۔ اونٹ پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو‘ دوسرے میں کھجوریں۔ مسلمانوں کی فوج کے کمانڈر نے جو وہاں متعین تھے‘ عرض کی کہ بوسیدہ اور پیوند زدہ لباس اتار کر شاہانہ لباس زیب تن کرلیں مگر آپ کا جواب تھا نہیں! اسلام کی عزت ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ بیت المقدس کے بڑے پادری نے سوچا تھا مسلمانوں کا ’’بادشاہ‘‘ ایک لشکر جرار کے جلو میں فاتحانہ شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوگا مگر دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہے اور دوسرا نکیل پکڑے آگے آگے چل رہا ہے۔ اس وقت آپ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے۔
ایک بھی مسلمان سربراہ ملک‘ پورے عالم اسلام میں ایسا نہیں جو حضرت عمرؓ کی پیروی کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کا تو کیا کہنا۔ ساحل کے ساحل بُک کرائے جاتے ہیں۔ ایک بادشاہ سلامت چند ماہ پہلے انڈونیشیا کے تفریحی جزیرے بالی تشریف لے گئے۔ پچیس شہزادے اور چودہ وزرا ساتھ تھے۔ دیگر شرکا سمیت وفد پندرہ سو افراد پر مشتمل تھا۔ چھ لگژی ہوٹل مکمل بک کرائے گئے تھے۔ گاڑیوں اور دیگر سازوسامان کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کئی پروازوں کے بعد سارا سامان پہنچا۔ ایک محتاط اندازے کی رُو سے اس تفریحی خرچ پر تین کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم صرف ہوئی۔
پاکستان کے وزیراعظم لندن علاج کرانے کے لیے گئے تو انہیں واپس لانے کے لیے قومی ایئرلائن کا خالی جہاز گیا۔ دوسری پروازوں کو منسوخ یا تتر بتر کر دیا گیا۔ کل خرچ اس واپسی پر تقریباً چار لاکھ اسی ہزار ڈالر آیا۔ یعنی ساڑھے چار کروڑ روپے سے زیادہ۔
مگر خلفائے راشدینؓ کی اتباع کفار سربراہان مملکت کر رہے ہیں اور برابر کر رہے ہیں۔ صدر اوباما اپنے پالتو جانور کو ڈاکٹر کے پاس خود لے کر جاتے رہے۔ کھانا باہر سے کھانا پڑا تو قطار میں کھڑے ہو کر برگر خریدا۔ ان ملکوں کے صدر اور وزیراعظم پبلک بسوں اور ٹرینوں میں عام سفر کرتے پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کی ملکہ اپنے گھر کے لیے سبزی خود بازار جا کر خریدتی ہے۔ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ جرمنی اور کئی دوسرے ملکوں کے رہنما سائیکلوں پر دفتر آتے جاتے ہیں۔ سرکاری دعوتوں میں کئی کورس نہیں ہوتے۔ پہلے سلاد کی پلیٹ‘ پھر اصل کھانا یعنی مرغی یا مچھلی‘ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کیک کی صورت میں ایک میٹھا۔ فرانس کے صدارتی محل میں دعوت ہو تو غیر ملکی مہمان کو بتا دیا جاتا ہے کہ چار یا پانچ افراد کی گنجائش ہے۔
کہنے کو یہاں ہر شخص تبلیغ میں مصروف ہے۔ صبح سویرے ہی فیس بک‘ ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع بروئے کار لانے شروع کردیئے جاتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد کوئی حدیث‘ کوئی آیت‘ اولیا کا کوئی قول زریں وصول ہوتا ہے۔ آخرت سے ڈرایا جاتا ہے اور ساتھ دھمکی دی جاتی ہے کہ اتنے افراد کو آگے نہ بھیجا تو تمہارے ساتھ یہ بھی ہوسکتا ہے اور وہ بھی۔ کسی کو فون کریں تو رنگ ٹون میں آیات قرآنی ہوں گی یا نعت۔ دوسری طرف صبح ہی سے جھوٹ‘ منافقت‘ وعدہ خلافی اور اَکل حرام کی کارروائیاں آغاز ہو جاتی ہیں۔ دکاندار گاہک سے‘ افسر ماتحتوں سے‘ ماں باپ بچوں سے‘ اساتذہ شاگردوں سے اور سیاست دان پبلک سے جھوٹ بولنا شروع کردیتے ہیں۔ کون سی برائی ہے جو روا نہیں رکھی جاتی۔ اگر وقت کو روپے میں ڈھالنا ممکن ہوتا تو معلوم ہوتا کہ ہر روز کھربوں روپے کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ دفتروں کے چکر‘ میٹر لگوانے کے لیے چکر‘ درزی کے چکر‘ کوئی بھی مقررہ وقت پر کام ڈیلیور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ذہنی طور پر یہ طے ہے کہ جو وعدہ کیا ہے‘ وہ تو محض بات تھی جو کر دی گئی۔ اس کا مفہوم یہ تھوڑی ہے کہ اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔
اب اگر کسی دن صدر صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈائیوو میں سفر کریں گے تو جو کچھ ہو گا‘ اس کا اندازہ کر لیجیے۔

Friday, July 21, 2017

الماریوں میں بند ڈرائونے ڈھانچے

اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقت ور ہے کہ وہی سب کچھ کر رہی ہے اور کرا رہی 
ہے، اگر یہاں پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تو پھر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خاندان تیس سال سے برسرِاقتدار ہے، اس کی پشت پر یقینا اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔
تو پھر پانامہ لیکس بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا کارنامہ ہے۔
تو پھر دو ججوں نے وزیر اعظم کے خلاف کیوں فیصلہ دیا؟ کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
تو پھر یہ جو وکلاء برادری ہڑتال کر رہی ہے، کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے؟
تو پھر لاکھوں کروڑوں عوام جو ٹیلی ویژن سیٹوں کے سامنے بیٹھے ہیں اور جنہیں مقتدر خاندان کی جائیدادوں کے اعداد و شمار تک حفظ ہو چکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیٹھے ہیں؟
اگر اسٹیبلشمنٹ کا اثر، خدانخواستہ عدلیہ تک آ پہنچا ہے تو پھر یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نہیں کوئی اور تھا جو گھنٹوں آرمی ہائوس میں ڈٹا رہا۔
اب یہ ایک فیشن ہے کہ دلیل دیئے بغیر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے دیں کہ سب کچھ وہی کرا رہی ہے۔ شہید بننے کے لیے ریت سے بنی ہوئی یہ بنیاد خوب ہے۔
معاملہ اور ہے۔ اقتدار کی پرستش کے کئی اسلوب اور کئی صورتیں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا    ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
اقتدار کی نظروں کو بھلا لگنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور تمام قوتِ تحریر و تقریر اس ایک نکتے پر صرف کر دی جائے کہ اصل میں فیصلہ ہو چکا ہے اور کہیں اور ہو چکا ہے۔
عسکری اقتدار کا زمانۂ عروج تھا جب شریف خاندان کو دریافت کیا گیا۔ یہ جنرل غلام جیلانی گورنر پنجاب کی دریافت تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنی عمر میاں محمد نواز شریف کو پیش کر دی۔ جنرل حمید گل سے لے کر جنرل اسلم بیگ تک اسٹیبلشمنٹ کے سب بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ میاں صاحب نے ٹیک لگائے رکھی۔ اصغر خان مقدمہ لے کر عدالت میں جا پہنچے۔ جنرل اسد درانی نے بیانات دیئے۔ رقوم تک بتا دی گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ تو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کی پشت پر رہی۔
کبھی بھٹو کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی خوب رہی۔ جیسے بھٹو بھی جیل سے باہر نکلنے کے لیے معاہدہ کر کے دساور چلا گیا تھا۔ جیسے اس پر بھی منی لانڈرنگ کے مقدمے بنے تھے۔ جیسے وہ بھی دبئی میں رہنے کے لیے اقامہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ تشبیہہ دینے کے لیے کوئی ایک آدھ مشابہت تو ہونی چاہیے۔ چلیے، یہی بتا دیجیے کہ وزیر اعظم نے جیل میں کتنی کتابیں لکھیں؟
ہاں! اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرنا ہے تو اس اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کیجیے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ محمد علی جوہر کو انگریز مجسٹریٹ نے غنڈہ کہا تو جواب دیا ہاں! میں غنڈہ ہوں مگر اللہ میاں کا غنڈہ ہوں۔ ملکہ برطانیہ کا غنڈہ نہیں۔ ایک اسٹیبلشمنٹ اور بھی ہے جو اس کائنات کا نظم چلا رہی ہے۔ یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو جابر و قاہر فاتحین کو چاروں شانے چت گرا دیتی ہے۔ تیمور نے دنیا زیر و زبر کر دی۔ سلطنتِ عثمانیہ کو بھی نہ بخشا۔ آج کا ترکی، شام، آرمینیا، آذر بائی جان، جارجیا، ترکمانستان، ازبکستان، کرغستان سب اس کی سلطنت کا حصہ تھے۔ قیاس ہے کہ ان مہمات میں دو کروڑ افراد ہلاک ہوئے جن کی زیادہ تعداد مفتوح قوموں سے تعلق رکھتی تھی۔ پھر اس نے چین کو زیرِ نگیں کرنے کا منصوبہ بنایا۔ نو مہینے دارالحکومت سمرقند سے نہ نکلا اور مسلسل تیاریاں کرتا رہا۔ ہمیشہ موسمِ بہار کی منصوبہ بندی کرنے والا یہ فاتح اب کے سرما میں پابہ رکاب ہوا۔ چین میں تب مِنگ خاندان برسرِ اقتدار تھا۔ تیمور نے ان کا سفیر اپنے پاس قید کر لیا۔ سیرِ دریا پار کیا کہ اُسے اُس بیماری نے آ پکڑا جو سرما کا تحفہ تھی۔ فاراب کے مقام پر، چین اور منگولیا کی فتح کا خواب بند آنکھوں میں لیے، چاروں شانے چت ہو گیا۔ چین کی سرحد ابھی بہت دور تھی کہ وہ ایک اور سرحد عبور کر گیا۔ اس کے پوتے خلیل سلطان نے چینی سفیروں کو رہا کر دیا۔ یہ ہے وہ اسٹیبلشمنٹ جس کی فکر کرنی چاہیے۔ افسوس! صد افسوس! اس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
خوشامد کا فن نیا نہیں! جب سے سرداری، بادشاہت، چوہدراہٹ، کھڑ پہنچی دنیا میں ظہور پذیر ہوئی، تب سے یہ فن بھی چل رہا ہے۔ سعدی نے کہا تھا    ؎
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت اینک ماہ و پروین
کہ بادشاہ دن کو رات کہے تو کہنا چاہیے جہاں پناہ! وہ دیکھیے ستارے نکلے ہوئے ہیں! مگر کچھ تو انصاف کرنا چاہیے۔ تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے کہ ایک 
ہی خاندان برسرِاقتدار ہے۔ ادارے اس کی مٹھی میں بند ہیں۔ ایس ای سی پی 
کا حال دنیا نے دیکھ لیا۔ نیشنل بنک آف پاکستان کس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ سارے کا سارا پنجاب ایک شہر میں سمٹ کر رہ گیا۔ تو کیا ہمیشہ یہی خاندان برسرِاقتدار رہے گا؟    ؎
تو کیا اِن اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
خاندانوں کی، برسرِاقتدار شجرہ ہائے نسب کی، ایک طبعی عمر بھی ہوتی ہے۔ تاریخ کا عمل بھی ہے۔ تدبیر کند بندہ! تقدیر زند خندہ! تدبیریں انسان بھی کرتا ہے۔ پروردگار بھی کرتا ہے اور پروردگار بہترین تدبیریں کرنے والا ہے۔ دخترِ نیک اختر کو جانشین مقرر کیا جا رہا تھا۔ فنِ خوشامد کے ماہرین اس پر مسلسل کام کر رہے تھے۔ پرنٹ میڈیا میں بھی اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی۔ مگر درمیان میں ایک اور افتاد آن پڑی جو اب سنبھالے سنبھل نہیں رہی۔
کیا ہی اچھا ہوتا جس دن پانامہ لیکس نے راز افشا کیا تھا، وزیر اعظم اس دن اقتدار کو خیر باد کہہ دیتے۔ ملک بھر میں ان کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا۔ تاریخ میں ان کا صفحہ سنہری ہوتا۔ کہتے، جب تک یہ معاملہ صاف نہیں ہوتا، میں اقتدار سے الگ رہوں گا۔ پارٹی جسے چاہے میرا جانشین مقرر کر دے۔ یہی دوسرے ملکوں میں ہوا۔ مگر یہاں مشورہ دینے والے ’’خیر خواہ‘‘ ایک ہی بات بتاتے ہیں کہ آپ کو مینڈیٹ ملا ہے۔ آپ ووٹ لے کر آئے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جو سربراہانِ حکومت استعفیٰ دیتے ہیں کیا ان کی زنبیلوں میں ووٹ نہیں ہوتے؟ کیا مینڈیٹ ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب آپ قانون سے مبرا ہو گئے ہیں۔ جو چاہیں، کرتے پھریے؟
یہی مشورہ خود موجودہ وزیر اعظم نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو دیا تھا کہ مقدمہ چل رہا ہے۔ الگ ہو جائو، بری ہو گئے تو واپس آ جانا۔ کیا ان کے اردگرد عمائدین اور امرا میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو انہیں صائب مشورہ دے سکے؟
اقتدار سے بعض اوقات انسان خوف کی وجہ سے بھی چمٹا رہتا ہے۔ اقتدار کو وہی لات مار سکتا ہے جس کا دامن صاف ہو۔ نیلسن منڈیلا کی طرح! مہاتیر محمد کی طرح! بے نیازی کے ساتھ وہی تخت و تاج کو خدا حافظ کہتا ہے جس کی الماری میں ماڈل ٹائون اور ڈان لیکس کے ڈرائونے ڈھانچے نہ ہوں۔ یہ ڈھانچے راتوں کی نیند حرام کر دیتے ہیں۔ شیر کی سواری اسی لیے خطرناک ہے۔ اترتے ہی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ جسٹس(ر) باقر نقوی کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے لیے بے تاب ہے۔
پنجاب کی الماریوں میں نہ جانے کتنے ڈھانچے کھڑے ہیں۔ قدِ آدم ڈھانچے!    ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

Thursday, July 20, 2017

تلاش ہے چلّو بھر پانی کی

کیا صنعت کار اپنی ذاتی فیکٹریاں اسی طرح چلاتے ہیں؟ نہیں! ایڈمنسٹریشن اور جدید تکنیک کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ایک افسر، ایک ایک ورکر، ایک ایک مزدور کے آنے اور جانے کا وقت نوٹ کیا جاتا ہے۔ پیداوار کے پیمانے مقرر ہیں۔ روز کا حساب روز ہوتا ہے۔ کل پر کوئی کام نہیں ٹالا جاتا۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی منیجر، کوئی فورمین، کوئی اکائونٹنٹ ریٹائر ہو جائے تو مہینوں اس کا جانشین نہ مقرر ہو۔ آسمان گر سکتا ہے مگر تساہل کاروبار میں نہیں ہو سکتا۔ 
لیکن مجرمانہ رویہ اس وقت جائز ہے جب معاملہ ریاست کا ہو اور عوام کا ہو۔ حکومتیں یوں چلائی جا رہی ہیں جیسے مذاق ہو۔ بنانا ری پبلک؟ نہیں! بنانا ری پبلک کے پھر کچھ اصول ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت، عدالت کے حکم پر کس طرح عمل کرتی ہے؟ دھوکہ دینے کی پوری کوشش! ایک ایسے افسر کو صوبائی پولیس کا سربراہ مقرر کرتی ہے جو تین ماہ بعد ریٹائر ہو رہا ہے۔ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرتی ہے۔ اسے بیک وقت عدالت کے ساتھ مذاق اور عدالت کی توہین قرار دیتی ہے۔ فرض کیجیے، صوبائی حکومت کے سربراہ کو عدالت اپنے حضور حاضر ہونے کا حکم دے اور وہ جب حاضر ہو تو پوچھے کہ ایسا کیوں کیا ہے؟ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان کا گورنر ریٹائر ہوا۔ کسی کو نہ تعینات کیا گیا۔ پھر جب راتوں رات ڈالر مہنگا ہوا، کچھ افراد کی لاٹری نکلی تو دوسرے دن گورنر کی تعیناتی ہوئی۔ اس سے قطع نظر کہ کون لگایا گیا، اس سوال کا جواب کیا ہو گا کہ یہی کام وقت پر کیوں نہ کیا گیا؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آئینی اسامی مہینوں سے خالی پڑی ہے۔ ’’قائم مقام‘‘ سے کام چلایا جا رہا ہے! کیوں؟ کون پوچھے گا اور کون جواب دے گا؟ کوئی نہیں۔
ایس ای سی پی جیسے بڑے اور حساس ادارے کا سربراہ ضمانتیں کراتا پھر رہا ہے۔ اس کے کہنے پر اس کے ماتحتوں نے ریکارڈ میں ردوبدل کیا مگر وہ اپنے منصب پر تعینات ہے۔ کیا قانون پر چلنے والے کسی ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟
پہلے بھی عرض کیا کہ قبائلی نظمِ حکومت ہے جس کی بھینٹ یہ ملک چڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ کوئی نہیں! قطر کا وزیر خارجہ آتا ہے تو وزارت خارجہ اس کی آمد ہی سے لاعلم ہے، مقصد کا علم تو دور کی بات ہے۔پریس لکھتا ہے:
’’اس دورے کے حوالے سے دفتر خارجہ کو کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اور یہ دورہ براہِ راست وزیر اعظم ہائوس سے طے کیا گیا تھا…‘‘
وزیر اعظم کے ریاستی فرائض کہاں ختم ہو رہے ہیں اور ذاتی، خاندانی، کاروباری سلسلے کہاں سے آغاز ہو رہے ہیں؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! سب کچھ وہ خود اور ان کا آفس طے کر رہے ہیں۔ ستر سال سے قائم وزارت خارجہ لا علم ہے! ایک بار پھر پریس کی طرف پلٹتے ہیں:
’’ذرائع کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں پانامہ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی تحقیقات خاص طور پر قطری خط کے معاملہ پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔‘‘
ایسا تو کسی قبائلی نظامِ حکومت میں بھی نہیں ہوتا! قبائلی سردار، قبائلی معاملات الگ خانے میں رکھتے ہیں اور ذاتی الگ۔
پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس ہوتا ہے۔ حکومتی رکن پھٹ پڑتا ہے…
’’چار سال میں وزارت خزانہ اور وزارتِ تجارت نے ملک کو تباہ کر دیا۔ وزیر خزانہ کی کامیابی صرف یہ ہے کہ ادھر ادھر سے قرض لیا۔ وہ اکانومسٹ نہیں، اکائونٹنٹ ہیں‘‘
خاتون حکومتی رکن اس پر گرہ لگاتی ہے:
’’وزارت تجارت کی کارکردگی سے مایوس ہو گئی ہوں۔ وزارت تجارت نے برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔‘‘
ذاتی کاروبار میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ فیکٹریاں ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ ہو رہی ہیں۔ ملک کی برآمدات کا رخ کھائی کی طرف ہے۔ قرضے آسمان کی طرف لپک رہے ہیں۔ لے دے کے ریاست کے پاس ایک سٹیل مل ہے۔ اس کی حالت ایسی ہے جیسے کٹے پھٹے ساحل کی ہوتی ہے۔ کوئی کشتی وہاں سے روانہ ہو سکتی ہے نہ لنگر انداز۔
امور طے کہاں ہو رہے ہیں؟ وزارت خارجہ میں نہ پارلیمنٹ میں! کسی لڑکے کو راستے میں پڑا پیڈل ملا تو خوش ہوا کہ اس میں سائیکل فٹ کرا لے گا۔ مسلم ملکوں کی اتحادی فوج کا نام و نشان کہیں نہیں۔ مگر سپہ سالار کو بھجوا دیا گیا، مشیر خارجہ سینیٹ میں کیا بیان دیتے ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنیے:
’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے۔ اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آر کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ ٹی او آر کو حتمی شکل دینے کے لیے رکن ممالک اور وزیر دفاع کے درمیان ملاقات ہونی تھی جو تاحال نہیں ہو سکی۔‘‘
اب یہ کون پوچھے کہ راحیل شریف کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے تو کیا کر رہے ہیں؟ بعد میں بننے والے ٹی او آر پاکستان کے مفاد سے متصادم ہوئے تو پاکستان کیا کرے گا؟ سپہ سالار کو تو پہلے ہی بھیج دیاگیا ہے۔
پارلیمنٹ عضو معطل نہ ہوتی تو یہ معاملات وہاں طے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو سینیٹ کے چیئرمین کا کہ یہ سب کچھ پوچھ لیا، آپ کا کیا خیال ہے سپیکر صاحب یہ سب کچھ پوچھتے؟
پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو وہاں یہ بحث ہوتی کہ چودہ سو سال میں عالم اسلام کی متحدہ فوج نہیں بنی تو اب کیسے بنے گی؟ کون سی متحدہ فوج کی کمان کے لیے سابق سپہ سالار کو بھیجا جا رہا ہے؟ عالم اسلام کی متحدہ فوج؟ کیا کبھی ریزے جوڑ کر کسی نے آئینہ بنایا ہے؟ کیا کبھی زرد اُڑتے پتوں کو درخت کی شاخ پر سجایا گیا ہے؟ تین چار ملکوں کی فوج بن بھی گئی تو وہ عالم اسلام کی متحدہ فوج نہیں کہلا سکے گی۔ ترکی کی حالت یہ ہے کہ ایران کے معاملے میں وہ سعودی عرب کے ساتھ ہے اور قطر کے معاملے میں سعودی عرب کا مخالف! شام اور عراق کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ یمن کو ایک طرف سے سعودی عرب پکڑ کر کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایران۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔ کیا بنگلہ دیش اپنی فوج کے دستے ایک پاکستانی کی کمان میں بھیج دے گا؟ تاریخ میں اُس کنفیڈریشن کی صرف گرد باقی ہے جو شام اور مصر نے مل کر بنائی تھی۔ تڑق کر کے ٹوٹی۔ یوں کہ پھر کبھی نہ جُڑ سکی۔
عالم اسلام کی متحدہ فوج؟ یہاں تو علاقائی اتحادوں کا وجود نہیں! وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں باہمی رابطہ ہوتا بھی ہے تو روس کے حوالے سے۔ عملاً یہ ریاستیں اب بھی روس کے کھونٹے سے بندھی ہیں۔ شرق اوسط کے عرب، ایران کے مقابلے میں اسرائیل کو ترجیح دیں گے۔ جنوب مشرق میں تین مسلمان ملک ہیں۔ انڈونیشیا، ملائشیا اور برونائی! زبانیں ملتی جلتی ہیں۔ ساحل مشترکہ ہیں۔ نسل وہی ہے! مگر اتحاد کا نام و نشان نہیں۔ خوابوں میں زندگی گزارنے والے رومان پسند یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ امت کا تصور روحانی ہے۔ جسمانی نہیں۔ یعنی سیاسی اور عسکری نہیں۔ جو یہ بات نہیں(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 مانتا، عملاً امت کے تصور ہی کی نفی کرتا ہے۔ اگر امت سے مراد آپ سیاسی اتحاد لیتے ہیں تو اس کا تو کبھی وجود ہی نہیں رہا۔
اپنے اپنے انفرادی حالات بھی سدھار لیں تو غنیمت ہے۔ تعلیم کی پالیسی ہی درست کر لیں۔ زرعی اصلاحات کرنے سے کیا یہودو ہنود نے روکا ہوا ہے؟ سرداری نظام بلوچستان سے ختم کرنے سے کیا بھارت حملہ کر دے گا؟ لاکھوں ٹیکس چوروں کو کیوں نہیں پکڑ رہے؟ ملاوٹ کرنے والے، خوراک، ادویات اور بچوں کے دودھ کو حرام کاری کی نذر کرنے والے کیوں محفوظ ہیں؟ پورے ملک کی شاہراہیں، چھوٹی سڑکیں، کوچے گلیاں، دکانداروں کے ناجائز تصرف میں ہیں۔ انہیں مار کر پیچھے ہٹانے سے کیا اسرائیل چڑھ دوڑے گا؟ ٹریفک کا سسٹم جنگل کے قانون سے بدتر ہے! کیوں نہیں ٹھیک کرتے۔ یہ سب کچھ تو ہو نہیں رہا اور امت کے اتحاد کے خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے ہیں۔ مشترکہ فوج بنائی جا رہی ہے۔ نالائقی، جمود اور ہڈ حرامی کی انتہا یہ ہے کہ ٹی او آر بنانے کے لیے جو میٹنگ ہونا تھی، وہی نہیں ہو رہی۔ جنرل صاحب وہاں مہینوں سے جانے کیا کر رہے ہیں۔
پاکستان واحد مسلمان ایٹمی طاقت بنا تو اسے ایک ماڈل مسلم ریاست بناتے۔ یہاں ٹیکس چوری، رشوت، وقت کے ضیاع، ملاوٹ، چور بازاری کا خاتمہ کیا جاتا۔ حکومت کا نظام صاف اور شفاف بنایا جاتا۔ تعلیم کا نظام مثالی ہوتا زرعی اصلاحات ایسی ہوتیں کہ پوری دنیا تعریف و تحسین کرتی۔ نظامِ تعلیم یوں ہوتا کہ مغرب مشرق کے ممالک اس کی تقلید کرتے۔ آپ اپنے ملک کو کمال تک پہنچاتے۔ پھر دوسرے ملکوں میں اپنے مشیر، ہنر مند، ماہرین بھیجتے۔ مسلمان ممالک آہستہ آہستہ قعر مذلت سے نکلتے۔ یہ ہوتا امت کے تصور کی طرف عملی سفر! مگر یہاں تو ابھی جوتے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حکمران اپنی ہی عدالتوں کو فریب دے رہے ہیں۔ دوسرے ملک کے وزیر خارجہ سے ملک کا سربراہ اپنے کورٹ کے مسائل پر بات چیت کر رہا ہے۔
پستی! جس کا کوئی انت نہیں۔ بطور قوم ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے۔ آئیے ڈوبنے کے لیے چلو بھر پانی تلاش کریں۔

Monday, July 17, 2017

کہانی اور پس نوشت


بادشاہ کو حکومت کرتے برس ہا برس ہو گئے تو رعایا نے عرض کی کہ جہاں پناہ! 
اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں! چہرہ جھریوں سے اٹ گیا ہے! رخساروں پر کھال ڈھلک گئی ہے! ابرو سفید ہو گئے ہیں یوں لگتا ہے دو سفید چھجے آنکھوں پر دھرے ہیں! دو گز چلنا دوبھر ہے۔ کرم فرمائیے اب آرام کیجیے اور بادشاہت کا تاج کسی اور کے سر پر رکھ دیجیے۔
مگر بادشاہ کو کسی پر اعتبار ہی نہ تھا! وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جب تک اس کے دم میں دم ہے‘ وہی تخت و تاج کا مالک ہو!
رعایا صبر کر کے بیٹھ گئی! بادشاہ تخت پر براجمان رہا! زمانے گزر گئے!
پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا! دربار جانے کے لیے صبح صبح بادشاہ نے شاہی لباس پہنا۔ تلوار کمر سے لٹکائی۔ تاج سر پر رکھا۔ مگر تاج سر سے نیچے گر پڑا۔ بادشاہ نے تاج دوبارہ سر پر رکھا تاج پھر گر پڑا۔ بادشاہ نے ملکہ کو آواز دی۔ اس نے بھی تاج کئی بار شوہر کو پہنایا مگر ہر بار تاج سر سے گر جاتا۔یوں لگتا تھا کوئی غیبی طاقت‘ کوئی ان دیکھا ہاتھ‘ تاج کو سر سے اتارتا ہے اور نیچے پھینک دیتا ہے! بادشاہ کی عمر رسیدہ ماں نے بھی جسے سب بڑی ملکہ کہتے تھے‘ کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی۔ تھک ہار کر بادشاہ ننگے سر ہی دربار چلا آیا۔ درباریوں کو تعجب ہوا مگر کچھ خوف کے مارے اور کچھ پاس ادب سے خاموش رہے۔ اب بادشاہ کا معمول ہو گیا کہ شاہی لباس پہنتا اور تاج کے بغیر باہر نکلتا۔
کئی زمانے سر کی اس برہنگی کو گزر گئے۔ پھر ایک دن ایک اور عجیب واقعہ پیش آ گیا۔ بادشاہ جوتے پہنتا تو جوتے پائوں سے اتر جاتے۔ جوتوں کے کئی جوڑے ٹرائی کیے گئے۔ موچیوں نے نئے جوتے بنائے۔ کئی بیرونی ملکوں سے منگوائے گئے۔ سب نوکروں نے پہنانے کی کوشش کی مگر کوئی جوتا پائوں پر نہ ٹھہرا۔ اُدھر دربار میں جانا لازم تھا۔بادشاہ کسی اور کو اپنی جگہ دربار میں بھیجنا اور تخت پر بٹھانا سخت ناپسند کرتا تھا۔ بالآخر وہ پائوں سے ننگا ہی دربار میں پہنچا۔ اب یہ معمول ہو گیا کہ جہاں بھی جاتا‘ بادشاہ سر اور پائوں سے ننگا ہوتا!
پھر ایک دن شاہی چُغے نے بغاوت کر دی۔ جیسے یہ بادشاہ ریشمی چُغہ پہنتا‘ چُغہ اتر جاتا اور کھٹ سے نیچے گر پڑتا۔ پھر ایک دن پاجامے نے بغاوت کر دی۔ پھر قمیض اتری۔ آخر میں زیر جامہ نے بھی بدن پر ٹھہرنے سے انکار کر دیا۔ اب بادشاہ الف ننگا ہو گیا۔ مجبوراً اسی طرح دربار میں جاتا۔ غیر ملکی وفود کو بھی اسی حالت میں ملتا۔ سیرو تفریح کا بہت شوق تھا۔ صحت افزا پہاڑی مقامات پر اکثر جاتا۔ محلات ہر جگہ بنے ہوئے تھے۔ جہاں بھی جاتا‘ بدن پر پوشاک نہ ہوتی! رعایا فرطِ ادب سے‘ اور مارے خوف کے چُپ رہی!
پھر ایک دن رعایا کی حیرت کی انتہا نہ رہی! پہلے تو بادشاہ صرف ننگا تھا‘ اُس دن اس کا سارا وجود شفاف اور 
Transparent
ہو گیا۔ دیکھنے والے بادشاہ کی انتڑیاں‘ گردے‘ پھیپھڑے سب اندرونی اعضا صاف صاف دیکھ رہے تھے! رعایا کونظر آ رہا تھا کہ کس طرح قسم قسم کی خوراک اُس کے معدے میں عملِ انہضام سے گزر رہی ہے۔ جگر‘ تِلی‘ پسلیاں سب نظر آنے لگیں! طبیب عاجز آ گئے۔ دوسرے ملکوں سے بھی اطبّا اور حکما آئے۔ نسخے آزمائے گئے‘ دم درود بھی کئے گئے۔ ایک اللہ والا تو باقاعدہ پیٹھ پر چھڑیاں مارتا تھا۔ مگر دوا دارو کام آیا نہ دم درود، نہ تعویز گنڈا نہ جادو ٹونہ!
دوسرے ملکوں کے بادشاہ آتے تو انہیں میزبان بادشاہ کو دیکھ کر ابکائی آ جاتی! وہ مخاطب ہوتے وقت اُس کی طرف دیکھتے تو انہیں گردے پھیپھڑے اور آنتیں نظر آتیں!
رعایا نے پھر منت و زاری کی، کہا اب بادشاہ اس حال کو پہنچ گیا ہے تو تخت چھوڑ ہی دے۔ کسی اور کو‘ بے شک اپنے خاندان ہی سے ‘ بادشاہت سونپ دے۔ مگر بادشاہ نے صاف انکار کر دیا۔’’میں آخری دم تک تخت نہیں چھوڑوں گا‘‘ اُس نے واضح اعلان کیا۔
مہینے گزرتے گئے۔ برس آتے اور جاتے رہے۔ بادشاہ اسی عبرت ناک حالت میں بادشاہت کرتا رہا۔ ایک دن دربار میں پہنچا تو درباریوں نے دیکھا کہ بادشاہ کے پیچھے پیچھے اس کی انتڑیاں گھسٹتی آ رہی تھیں‘ بڑے بڑے سرجن اور جراح آئے اور انتڑیوں کو جسم کے اندر دوبارہ فِٹ کرنے کی کوشش کی مگر یہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ پھر گردے نکل آئے۔ پھر پھیپھڑے ‘ پھر جگر اور تِلی سو‘ اب حالت یہ تھی کہ تخت کے ایک کونے میں بادشاہ بیٹھتا۔ تخت کے باقی حصے پر اس کے جسم کے اعضا‘ جو کبھی اندرونی تھے، دھرے ہوتے۔ غلام اِن انتڑیوں گردوں پھیپھڑوں پسلیوں کو کپڑے سے ڈھانپ دیتے۔ بادشاہ اُٹھ کر جانے لگتا تو یہ سب گھسٹے گھسٹے‘ اس کے پیچھے ہوتے! رعایا دیکھ کر عبرت پکڑتی‘ کانوں کو ہاتھ لگاتی! مگر خاموش رہتی! جو بولتا گرفتار کر لیا جاتا!
آخری خبریں آنے تک بادشاہ بدستور تخت پر فائز تھا! (اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)
پس نوشت۔ جے آئی ٹی کے حوالے سے حکومت 
اور اپوزیشن میں جو کشمکش جاری ہے‘ اس میں بدقسمتی سے حکومتی کیمپ نے مذہب 
کو داخل کر لیا ہے۔ پہلے تو سوشل میڈیا پر مقتدر خاندان کے ایک فرد کے ضمن میں خاندانِ نبوت کی ایک مقدس ہستی کا ذکر کیا گیا۔ حالانکہ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک!دنیا کے تمام بادشاہ بھی اکٹھے ہو جائیں تو خاندانِ نبوت کے غلاموں کی سواری کی گرد کے ایک ذرے سے بھی زیادہ حقیر ہیں!
اب ایک حکومتی عہدیدار نے وزیر اعظم کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ موازنہ کر ڈالا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر ہیں جن کا قرآن پاک میں پچیس مرتبہ (یا اس سے زیادہ بار) ذکرِ مبارک ہوا ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے تمام پیغمبروں پر ایمان لانا فرض ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ اس ضمن میں شیعہ سنی بریلوی دیو بندی اہلِ حدیث تمام مسالک کا مکمل اتفاق ہے!بڑے سے بڑا ولی‘ قطب اور ابدال بھی پیغمبر کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔
سیاسی حالات ہنگامی ہوتے ہیں! کبھی مستقل نہیں رہتے۔ آج کے اتحادی کل کے مخالف اور آج کے مخالف کل کے ہم نوا ہو سکتے ہیں۔ آج کل کے ماحول میں سیاست کثافت سے خالی نہیں! اس کے برعکس مذہبی شعائر مستقل اہمیت کے حامل ہیں۔ مقدس ہستیوں کی عزت و حرمت آج بھی وہی ہے جو سینکڑوں ہزاروں سال قبل تھی اور مستقبل میں بھی کم نہ ہو گی!
سیاست دانوں اور امرا و عمائدین کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے ’’فرائض‘‘کی انجام دہی میں بے شک افلاک کی بلندیوں تک پہنچ جائیں۔ قلابے ملانے پر وطن عزیز میں کوئی پابندی نہیں ! جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے! مگر مقدس ہستیوں کو خدا را درمیان میں نہ لائیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مذہبی معاملات میں عوام اور خواص سب حد درجہ حساس ہیں۔ ظاہر ہے حکومت کے حمایتی بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں اور اتنے ہی پکے اور حساس مسلمان ہیں جتنا کوئی بھی ہو سکتا ہے! مگر احتیاط لازم ہے!
اس کا ایک پہلو بین الاقوامی بھی ہے۔پوری دنیا کے کیمرے پاکستان پر لگے ہیں۔ پاکستان سے باہر یہ تاثر کسی صورت میں نہیں جانا چاہیے کہ توہینِ مذہب کے قانون پر عملدرآمد میں امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور کہیں تو ایکشن فوراً لیا جاتا ہے اور کہیں معاملے کو کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا جاتا ہیٖ! پہلے ہی ہمارا امیج مثبت نہیں! اسے مزید منفی کرنے میں ملک کا فائدہ ہے نہ قوم کا   ؎
ہم نیک و بد حضور کوسمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے!

Wednesday, July 12, 2017

انشا جی! اُٹھو اب کوچ کرو


ہر خاندان کے عروج کی ایک مدت ہوتی ہے۔ شریف خاندان اپنا عروج دیکھ چکا!
ابن خلکان کی روایت ہے سعید بن سالم سے لوگوں نے پوچھا برامکہ کے زوال کا سبب کیا تھا؟ کہا ان کا زمانہ طول پکڑ گیا تھا اور ہر طوالت کا انجام رنج و غم ہے۔
مگر جو رائے ابن خلدون نے برامکہ کے زوال پردی‘ وہ شریف خاندان پر زیادہ منطبق ہوتی ہے۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ برامکہ دولت عباسیہ کے خاندان پر قابض ہو گئے تھے یہاں تک کہ خلیفہ کو خزانے سے کچھ ملتا ہی نہ تھا۔ شریف خاندان ملک کے خزانوں پر قابض ہو چکا۔ فولاد سے لے کر مرغی اور مرغی کے گوشت تک ہر خزانے پر ان کا تصرف ہے۔
مگر ایک سبب شریف خاندان کے زوال کا ستاروں کی گردش ہے اور یہی اصل سبب لگتا ہے۔ ان کے بخت کا ماتھا‘ تنگ ہو چکا۔ ان کا چاند گہنا چکا۔ ہما ان کے سر پر تیس سال بیٹھا رہا۔ مگر اب وہ اڑ کر جا چکا۔
برامکہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ جعفر برمکی نے عالی شان قصر تعمیر کرایا۔ اس کا باپ یحییٰ دیکھنے آیا تو جعفر نے پوچھا محل میں کوئی عیب آپ کو نظر آیا؟ یحییٰ نے کہا ہاں! عیب ہے اور وہ یہ کہ تمہارے قرب و جوار والوں کو اس سے تکلیف ہوگی! لہٰذا ان کے روزینے مقرر کرو تاکہ زبانیں بند ہو جائیں۔ جن کے گھر شکستہ ہیں انہیں بنوادو اور دستر خوان ہر وقت بچھا رہے۔
تعمیر اور آرائش ختم ہو چکی تو نجومیوں کو بلایا گیا کہ محل میں منتقل ہونے کے لیے سعید ساعت کا تعین کریں۔ زائچے بنے دست شناس کام میں لگ گئے۔ ستاروں کی چالیں جانچی گئیں۔ قرار پایا کہ رات کے وقت منتقل ہوا جائے۔ رات کو منتقل ہوا جارہا تھا۔ ہر جانب سناٹا تھا۔ لوگ گھروں میں سورہے تھے۔ مگر جعفر نے سنا کہ ایک شخص گلی سے گزرا اور وہ گا رہا تھا   ؎
تُدَبّرُ بِالنّجومِ وَلَسْتَ تَدْرِی
وَرَبُّ النَجمِ یَفْعَلُ مَا یَشَاء
’’تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ ستاروں سے تدبیر کرتے ہو۔ مگر اُدھر ستاروں کا خدا ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
شریف خاندان نے زبانیں بند کردیں۔ روزینے مقرر کردیئے۔ دوست نوازی کی حد کردی۔ یہاں تک کہ آصف زرداری کوسوں پیچھے رہ گئے۔ نیشنل بینک آف پاکستان‘ ایس ای سی پی‘ سٹیٹ بینک‘ ترقیاتی ادارے‘ وزیراعظم آفس کے مناصب‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیسیوں دیگر عہدوں پر میرٹ کے بغیر ’’اپنوں‘‘ کو تعینات کیا۔ مدتوں پہلے کے ریٹائرڈ نوکر شاہی کے مہرے بدستور ان کے یمین و یسار میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے قریب ترین دائرے میں‘ سوائے چوہدری نثار کے‘ سب وسطی پنجاب کے چار پانچ اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ وسطی پنجاب کے یہی چار پانچ اضلاع وزیراعظم کا پنجاب ہیں۔ یہی ان کا پاکستان ہیں۔ ڈار صاحب‘ خواجگان سعد رفیق اور آصف‘ ناروال کے احسن اقبال‘ فیصل آباد کے عابد شیر علی‘ گوجرانوالہ سے خرم دستگیر‘ ریلوے بھی انہی اضلاع کے پاس ہے۔ صحت کا قلم دان بھی‘ دفاعی پیداوار بھی‘ قانون بھی‘ اس اندرونی دائرے میں کوئی سندھی ہے نہ پٹھان‘ خاقان عباسی مری سے ہیں۔ وزارت اہم ہے مگر اندرونی سرکل میں وہ بھی نہیں۔
ہمیشہ عروج کسی کو نہیں ملتا۔ اس خانوادے کے خوشہ چیں امیدیں باندھ رہے ہیں کہ میاں صاحب ہٹ بھی گئے تو انہی کا خاندان وزارت عظمیٰ کا مالک ہو گا۔ بیگم صاحبہ آئیں گی یا بھائی صاحب مگر اندازے لگانے والے اور خوش فہمیوں کے محل تعمیر کرنے والے یہ وفادار بھول رہے ہیں کہ جیسے ہی وزیراعظم تخت سے اترے‘ وفاداریاں بدل جائیں گی۔ ہمایوں کے امرا‘ راتوں رات‘ شیر شاہ سوری کے کیمپ میں جا بیٹھیں گے۔ طلال ہوں کہ دانیال‘ زاہد حامد ہوں کہ امیر مقام‘ سائبیریا سے آنے والے یہ پرندے‘ جنوب کی جھیلوں کے کنارے مستقل بیٹھنے والے نہیں‘ کبھی نہیں‘ یہ اڑ جائیں گے۔ ان کے پیروں میں وفا کی زنجیریں نہیں‘ ان کے جسموں پر ہرجائی پن کے بال و پر لگے ہیں۔ پارٹی تتر بتر ہو جائے گی۔
افسوس! پارٹی پر خاندانی اقتدار مسلط کرنے کے بجائے وزیراعظم پارٹی کی تہذیب و تربیت کو فوقیت دیتے‘ پارٹی اصولوں پر مستحکم کرتے‘ تو آج پارٹی نہ ٹوٹتی‘ مگر شخصی بنیادوں پر زندہ رہنے والی پارٹیاں شخصیت کے کمزور ہوتے ہی حصوں‘ بخروں میں بٹ جاتی ہیں۔ خاندان میں سے جانشین بننے والا‘ یا بننے والی‘ پارٹی کو ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔
وزیراعظم نے کراچی کا دورہ منسوخ کردیا۔ یہ آغاز ہے‘ دس جولائی کی شام کو سفیروں نے اپنے اپنے ملک کو رپورٹ بھیج دی۔ دنیا بھر کی حکومتیں جان گئیں کہ وزیراعظم کی پوزیشن خراب ہو گئی ہے۔ ریت پیروں تلے سے سرک رہی ہے۔ وزیراعظم بیرونی دوروں پر کیسے جائیں گے؟ دوسرے ملکوں کے سربراہوں کا کیسے سامنا کریں گے؟ اپنے ملک کے مختلف حصوں میں کیسے تشریف لے جائیں گے؟ صرف سازش کا الزام لگا کر کیسے بچیں گے؟ وفاقی وزیروں نے دس جولائی کی شام کوپریس کانفرنس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو ’’عمران نامہ‘‘ تو کہا‘ دھرنا نمبر تھری کا نام تو دیا مگر یہ نہ کہا کہ مریم بی بی دو کمپنیوں کی مالک نہیں ہیں اور وزیراعظم ایف زیڈ ای کمپنی کے مالک نہیں۔ ایک طرف سازش کا نعرہ ہے‘ دوسری طرف حقیقتیں ہیں۔ ثابت شدہ حقیقتیں۔
عمران خان نے کہا تھا ادارے تباہ کردیئے گئے۔ جو کچھ ایس ای سی پی کے چیئرمین نے کیا اور کرایا‘ جس طرح نیشنل بینک کا چیئرمین ملوث پایا گیا‘ اس سے عمران خان کا دعویً درست ثابت ہوا۔ جس میڈیا ہائوس پر وہ الزام لگاتا تھا‘ اسی میڈیا ہائوس کو عدالت نے توہین عدالت میں پکڑا ہے۔ اسی کے حوالے سے پوچھا ہے کہ حکومت نے کس کس کو کتنے کتنے اشتہار دیئے؟
رہے یہ ساٹھ دن جن کے دوران جے آئی ٹی نے رپورٹ تیار کی‘ ان ساٹھ دنوں نے ہمارے سیاست دانوں اور ہمارے میڈیا کو بری طرح اور پوری طرح 
برہنہ کردیا ہے۔ ثابت ہو گیا کہ ہمارے اہل سیاست کو متانت اور شائستگی سے دور کا 
بھی واسطہ نہیں‘ قصائی کی دکان سے لے کر زیرو زیرو سیون تک ہر ابتذال سے بھرا ہوا فقرہ لڑھکایا گیا۔ سننے والوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہو گیا کہ حکومت کے عمائدین حد درجہ خوشامدی ہیں اور خاندان پرست۔ مریم نواز کی جے آئی ٹی آمد پر جس کروفر کا مظاہرہ کیا گیا جس طرح شہریوں کو پہروں ٹریفک کے عذاب سے گزارا گیا‘ اس سے بادشاہوں کے زمانے لوگوں کی نظروں میں پھرنے لگے۔ شان و شوکت‘ جاہ و جلال‘ تزک و احتشام‘ حد تھی نہ حساب‘ امریکہ برطانیہ فرانس کے حکمران خاندانوں کی بیٹیاں اس طمطراق کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتیں۔
میڈیا پر کثیر تعداد توازن نہ برقرار رکھ سکی‘ بہت سے باڑ پھلانگ کر دوسری طرف چلے گئے۔ شاہی خاندان کے دفاع میں ایسی اسی تاویلات اور توجیہات پیش کی گئیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ مگر یہ طے ہے کہ عوام‘ جان گئے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ سننے والوں کو اور پڑھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ کون غیر جانب دار ہے اور کون وابستگان میں سے ہے۔ خود کسی کو احساس نہ ہو تو بات الگ ہے۔ وابستگی کا نشہ معمولی نشہ نہیں کہ اتر جائے۔ شاہی خاندان سے قربت‘ حکومتی تقاریب میں شرکت‘ ہم سفری‘ ہم نشینی‘ کیسی میٹھی اور خوش ذائقہ چوری ہے جو یہ طوطے کھا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ساکھ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ یہ لوگ تو شاہی خاندان سے رات دن پوچھتے ہیں    ؎
یہ عزت ہے یہ جاں ہے اس طرف ایماں پڑا ہے
تو پھر فرمائیے! سودا کہاں سے چاہتے ہیں؟
تیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا۔ ہمیشہ کے لیے عروج صرف اس بادشاہ کو ہے جس کے اقتدار کا نقارہ حشر کے دن بجے گا۔ 
لِمَنِ الْمُلکُ الْیَوْم! 
ِللَّہِ الوَاحِدِ القَہَّار!
کس کی ہے آج بادشاہی! کس کے پاس ہے مکمل اختیار؟ صرف اللہ کے لیے جو قہار ہے۔ قہار کی صفت کا بیان یہاں قابل غور ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں جو اپنے آپ کو مالک و رازق سمجھتے ہیں‘ وہ قہر کو بھول جاتے ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کو تاریخ کا ادراک ہوتا تو باعزت راستہ اپناتے جو مشورہ انہوں نے ببانگ دہل یوسف رضا گیلانی کو دیا تھا‘ اس پر خود بھی عمل پیرا ہوتے۔ قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ قصور وار نکل آیا تو ’’ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر گھر چلا جائوں گا۔‘‘ گھر چلے  جاتے تو عزت سادات رہ جاتی۔ انگریز اسے 
Face Saving
 کہتے ہیں۔ چہرہ بچ جانا غنیمت ہوتا ہے۔
مگر آہ! مفاد پرست وزیراعظم کو غلط مشورہ دے رہے ہیں۔ 
Beneficiaries
 کے اپنے مسائل ہیں۔ ان کی دیہاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ بادشاہ تخت سے اترا تو دربارداری ختم ہو جائے گی۔ وہ کب چاہیں گے کہ دربار داری ختم ہو۔ اپنے مفادات کے لیے صائب مشورہ کبھی نہ دیں گے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

Monday, July 10, 2017

ایک ورق سجاد میر کے لیے


جناب سجاد میر نے عسکری صاحب کا ذکر کیا تو اُس زمانے کا کراچی یاد 
آگیا۔ جب کراچی کراچی تھا اور ابھی بیروت نہیں بنا تھا۔ عسکری صاحب کو نہیں دیکھا وہ اردو ادب کی عہد ساز شخصیت تھے۔ سجاد میر صاحب کی خدمت میں عرض کی ہے کہ حضور! یادداشتیں قلم بند کیجیے۔ ادب کے طالب علم کو ان یادداشتوں میں بہت کچھ ملے گا۔ سیاسی کالموں میں کچھ نہیں دھرا۔
ستر کی دہائی کا آغاز تھا جب یہ چوبیس سالہ نوجوان‘ سی ایس ایس کر کے‘ کراچی میں تعینات ہوا۔ قیام و طعام کے بندوبست سے فارغ ہوتے ہی مصباح الاسلام فاروقی صاحب سے ملنے کی سوجھی۔ ان کی ایک کتاب کا ان دنوں شہرہ تھا۔ بیمار تھے۔ گزر اوقات کے لیے چھت پر مرغیاں پال رکھی تھیں۔ جس مذہبی پارٹی سے وہ وابستہ رہے تھے‘ غالباً اس نے ان کی اس کٹھن زمانے میں کوئی مدد نہیں کی۔
سلیم احمد صاحب کے گھر کئی بار حاضری دینے کا موقع ملا۔ غلطی یہ ہوئی کہ ان حاضریوں کی (ملاقاتوں کی نہیں) روداد نہ لکھی! شعر سناتے تو ساتھ ساتھ بائیں ران پر ہاتھ مارتے جاتے    ؎
کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار
لومڑی نے کب کوئی دوہا سنا
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
جو فصل ابھی نہیں کٹی ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
لیکن کراچی میں جس شخصیت سے استفادہ کرنے کے زیادہ مواقع ملے وہ قمر جمیل تھے۔
چھوٹا منہ بڑی بات اگر یہ کہوں کہ سلیم احمد کے بعد کراچی کے ادیبوں‘ شاعروں کا مرجع قمر جمیل تھے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ وہ ایک انجمن تھے۔ ایک ادارہ تھے۔ اس کالم نگار سے‘ شاعری کے حوالے سے‘ بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک برس رہنے کے بعد کراچی سے واپسی ہوئی مگر اس کے بعد جب بھی جانا ہوا‘ ان کی خدمت میں حاضری‘ کراچی کے پھیرے کا لازمی جزو تھی۔ پاکستان میں نثری نظم کے تعارف اور آغاز میں ان کا جاندار حصہ تھا۔ ثلاثی (تین مصرعوں کی نظم) کا سہرا حمایت علی شاعر صاحب کے سرباندھا جاتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ تین مصرعوں کی نظم قمر جمیل پہلے سے کہہ رہے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ حاضر ہوا تو اگلے دن انہوں نے کئی دوسرے اہل قلم کو گھر پر مدعو کر لیا۔ رسا چغتائی کو پہلی بار انہی کے ہاں دیکھا۔ بہت برس بعد تاشقند کے چغتائی محلہ میں گھومتے اور روایتی شش لیک کھاتے رساؔکا یہ شعر مسلسل ذہن پر سوار رہا    ؎
لڑ رہا ہوں رسا ؔقبیلہ وار
میر و مرزا کے خاندان سے دور
قمر جمیل نے ادبی رسالہ ’’دریافت‘‘ نکالا۔ کئی شمارے نکلے۔ پھر بند ہوگیا۔ اس فقیر کے تیسرے شعری مجموعے ’’پری زاد‘‘ کا دیباچہ انہی کا لکھا ہوا ہے۔ غزل بھی کہی۔ منفرد اور سب سے الگ    ؎
خواب میں جو میں نے دیکھا ہے اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے‘ ہاتھ لگانا مشکل ہے
اس کے قدم سے میں نے سنا ہے پھول کھلے ہیں چاروں طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے
شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے کل کچھ پریاں آئی تھیں
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
قمر جمیل کا اپنا منطقہ تھا‘ اپنی دنیا تھی اور اپنا سٹائل تھا۔ مرغابی کی تعریف یوں کی کہ مرغابی وہ ہوتی ہے جسے گولی مارتے ہیں۔ آج کے شعر و ادب کے طلبہ کو شاید معلوم نہ ہو کہ یہ غالباً ساٹھ کی دہائی تھی جب ایک کتاب چھپی جس کا نام ’’تین کتابیں‘‘ تھا۔ یہ تین شعرا کا مشترک مجموعہ کلام تھا۔ قمر جمیل‘ محبوب خزاں (اکیلی بستیاں) اور محب عارفی (چھلنی کی پیاس) اس دور میں یہ کتاب ہٹ ہوئی۔ پھر تینوں کے مجموعے الگ الگ بھی چھپے۔ المیہ یہ ہے کہ محبوب خزاں اپنی انوکھی افتادِ طبع کے باعث ’’اکیلی بستیاں‘‘ کے بعد دوسرا کوئی مجموعہ نہ لائے۔ ایک بار جب کراچی جانا ہوا تو حسب معمول قمر جمیل کے ہاں حاضر ہونا تھا۔ قمر صاحب نے حکم دیا کہ صدر سے آتے ہوئے راستے میں محبوب خزاں کی رہائش گاہ پڑتی ہے۔ انہیں لیتے آنا۔ قمر جمیل پہلے ایف بی ایریا کے نزدیک یو کے پلازا کے ایک فلیٹ میں مقیم تھے۔ پھر گلشن اقبال منتقل ہو گئے۔ ان کی یہ نئی قیام گاہ فاطمہ حسن کے گھر کے قریب تھی۔ محبوب خزاں کو ان کے گھر سے لیا۔ راستے میں انہوں نے ’’ہدایت‘‘ کی کہ قمر جمیل کے سامنے ان کے (یعنی خزاں کے) نئے شعری مجموعے کا ذکر نہ کرنا ورنہ قمر شروع ہو جائیں گے۔ خزاں صاحب کا ایسا ہی مزاج تھا۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’دیوارِ آب‘‘ (1982ء میں) چھپا تو جناب محمود لودھی نے انہیں پڑھنے کے لیے دیا۔ اس وقت تک خزاں صاحب سے ملاقات نہ تھی۔ ایک دن فون آیا کہ بھائی میں محبوب خزاں بول رہا ہوں۔ پھر تقریباً دس منٹ انہوں نے دیوارِ آب پر گفتگو کی۔ گفتگو کیا تھی‘ مغز تھا اور جوہر تھا اور زر و جواہر تھے۔ ان کا ہاتھ جیسے میری کتاب کی نبض پر تھا۔ دس بارہ منٹ کے بعد میں نے جسارت کی کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں‘ قلم بند کردیجیے‘ فوراً ان کا موڈ خراب ہو گیا۔ پھر زیادہ دیر بات بھی نہ کی۔ درست ہے یا غلط مگر سنا ہے کہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھے تو نتیجہ آنے سے پہلے بتا دیا تھا کہ ان کی پوزیشن اتنے نمبر پر ہوگی۔ ایسا ہی ہوا۔ غالباً اکائونٹنٹ جنرل پنجاب اور پھر اکائونٹنٹ جنرل سندھ رہے۔ ان کے کچھ اشعار تو ضرب المثل ہیں     ؎
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو 
خزاں کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
سنتے ہیں اک جزیرہ ہے کہ جہاں
یہ بلائے حواسِ خمسہ نہیں
معشوق ہیں کیا مدیر و نقاد؟
شاعر کو غلام جانتے ہیں!
’’اکیلی بستیاں‘‘ جس نظم کا عنوان ہے‘ اردو ادب میں اس نظم کی مثال مشکل ہی سے 
ملے گی۔ ادب کے نئے طالب علم کے لیے یہ نظم جیک پاٹ سے کم نہیں۔ یہاں نقل کرتے وقت ذہن میں جو نکتہ گردش کر رہا ہے یہ ہے کہ اب یہ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔ ’’اکیلی بستیاں‘‘ کا جو ایڈیشن میرے پاس ہے وہ اگست 1972ء کا ہے۔ البیان چوک انارکلی لاہور نے مکتبہ جدید پریس سے چھپوایا ہے۔ قیمت ایک روپیہ درج ہے۔ خریدنے کی تاریخ کتاب پر پانچ فروری 1976ء درج ہے۔ اب نظم پڑھیے     ؎
بے کس چمیلی پھولے اکیلی آہیں بھرے دل جلی
بھوری پہاڑی خاکی فصیلیں دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے‘ رستوں میں پتھر‘ پتھر پہ نیلم پری
لہریلی سڑکیں چلتے مناظر بکھری ہوئی زندگی
بادل‘ چٹانیں‘ مخمل کے پردے‘ پردوں پہ لہریں پڑی
کاکل پہ کاکل خیموں پہ خیمے سلوٹ پہ سلوٹ ہری
بستی میں گندی گلیوں کے زینے لڑکے دھماچوکڑی
برسے تو چھاگل ٹھہرے تو ہلچل راہوں میں اک کھلبلی
گرتے گھروندے اٹھتی امنگیں ہاتھوں میں گاگر بھری
کانوں میں بالے چاندی کے ہالے پلکیں گھنی کھردری
ہڈی پہ چہرے‘ چہروں میں آنکھیں‘ آئی جوانی چلی
ٹیلوں پہ جوبن‘ ریوڑ کے ریوڑ‘ کھیتوں پہ جھالر چڑھی
وادی میں بھیگے روڑوں کی پیٹی چشموں کی چمپا کلی
سانچے نئے اور باتیں پرانی مٹی کی جادوگری
یوں معلوم ہوتا ہے کہ محبوب خزاں نے یہ نظم سفر کے دوران کہی۔ جیسے جیسے مناظر‘ تیزی سے ان کی آنکھوں کے سامنے آئے اور گزرتے رہے‘ وہ ان کی صورت گری کرتے رہے۔ ہر منظر‘ دوسرے منظر سے مختلف تھا۔ اسی لیے نظم کا ہر شعر‘ ایک الگ منظر ہے۔ یہ منظر چلتی گاڑی کی وجہ سے‘ فوراً نظروں سے ہٹتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا منظر لیتا ہے۔ بظاہر منتشر اشعار پر مشتمل یہ نظم‘ اصل میں ایک اکائی ہے۔ سفر کے دوران نظر آنے والے مختلف مناظر کی اکائی! بستیاں‘ بستیوں میں دکھائی دیتی خوب صورت مگر مفلس قلاش حسینائیں‘ کھیلتے لڑکے‘ لینڈ سکیپ اور بہت کچھ اور۔
محبوب خزاں مجرّد رہے۔ اب کس سے کہا جائے کہ ان کا کلام یکجا کرے اور چھاپے۔
قمر جمیل اور محبوب خزاں کا یہ تذکرہ ادھورا ہے۔ کراچی کے حوالے سے بہت یادیں ہیں۔ محب عارفی پر ایک طویل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! خود نوشت ہے کہ چیونٹی سے بھی کم رفتار پر رینگ رہی ہے۔ تساہل! حد درجہ تساہل! مستقل مزاجی کہاں کہ یہاں مزاج ہی کہاں ہے کہ مستقل ہو۔
شعیب بن عزیز کہہ رہے تھے کہ خود نوشت کا معاملہ آگے بڑھائو ورنہ صادق نسیم جیسے شعرا کا ذکر تک نہ ملے گا۔ نئی نسل کو ان کے تذکرے اور تخلیقات سے آشنا کرنا ضروری ہے   ؎
فراق یوسف گم گشتہ کم نہ تھا صادق
کہ میرے ہاتھ سے کنعانِ کوئٹہ بھی گیا
محب عارفی‘ وفاقی دارالحکومت کے ساتھ ہی کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ پھر طویل عرصہ یہاں رہے۔ ہر ویک اینڈ پر ان کے ہاں ادیب اور شاعر جمع ہوتے۔ گفتگو بھی ہوتی‘ شاعری بھی اور سماجی گپ شپ بھی۔ یہ سلسلہ ان کی قیام گاہ پر اس وقت شروع ہوا جب وہ شملہ میں کلرک تھے۔ اسلام آباد میں وہ بڑے افسر تھے۔ یہ روایت ان کے ہاں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں بھی جاری رہی۔
محب ملی ہے مجھے ایک عمر سعی کے بعد
وہ مرگ لوگ جسے ناگہاں سمجھتے ہیں

Sunday, July 09, 2017

اک بھڑکتے ہوئے شعلے پر ٹپک جائے اگر


یہ 1993ء کا واقعہ ہے۔ سنگاپور میں عجیب و غریب سلسلہ رونما ہونے لگا۔ کاروں کی صورت بگاڑی جانے لگی۔ پارکنگ میں کھڑی ہوئی گاڑیوں پر کوئی آ کر ڈنڈے چلا جاتا‘ ان پر رنگ چھڑک جاتا۔ آگے پیچھے سے ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے! ٹیکسیوں کے ٹائر تیز دھار آلوں سے پھاڑ دیئے جاتے۔ ایک شخص نے بتایا کہ اسے اپنی کار چھ ماہ میں چھ بار ورکشاپ لے جانا پڑی‘ پولیس سرگرداں ہو گئی۔ بالآخر معلوم ہوا کہ ’’سنگاپور امریکی سکول‘‘ کے غیر ملکی طلبہ اس میں ملوث ہیں۔ ان کے ساتھ مقامی لڑکے بھی شامل تھے۔ سب سے بڑا مجرم اٹھارہ سالہ امریکی مائیکل فے تھا۔ جرم ثابت ہوگیا۔ سنگاپور کی عدالت نے سزا سنا دی۔ چار ماہ قید! ساڑھے تین ہزار سنگاپوری ڈالر جرمانہ اور بَید کی چھ ضربیں۔ بَید کی سزا سنگاپور کے قانون کا حصہ ہے۔
بَید کی سزا کا سن کر امریکہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ اُس وقت بل کلنٹن صدر تھا۔ اس نے ذاتی مداخلت کی اور سنگاپور حکومت سے کہا کہ چھڑیاں مارنے کی سزا ہٹا دی جائے۔ دو درجن سے زائد امریکی سینیٹرز نے سنگاپور حکومت کو مکتوب بھیجا اور مائیکل فے کو سزا سے استثنیٰ دینے پر زور دیا۔ سنگاپور نے جواب دیا کہ جو کوئی جرم کرے گا اسے سنگاپور کے قانون کے مطابق ضرور سزا دی جائے گی۔ اس سزا کا نتیجہ ہے کہ بقول سنگاپور حکومت‘ سنگاپور اس غنڈہ گردی اور تشدد سے بچا ہوا ہے جو نیویارک کا خاصہ ہے۔ سنگاپور کے میڈیا نے امریکی صدر پرشدید تنقید کی اور کہا کہ امریکہ کئی بحرانوں میں مبتلا ہے۔ امریکی صدر کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ گیا کہ ایک مجرم کی حمایت کرنے لگ جائیں۔
امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر سنگاپور ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہاں! سنگاپور کے صدر نے کلنٹن کی مداخلت کا پاس کرتے ہوئے بَیدکی ضربوں کو چھ سے چار کردیا۔ مائیکل فے کو بَید مارے گئے! چار ضربیں!!
امریکی میڈیا میں مذمت کا طوفان آ گیا۔ نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ لاس اینجلز ٹائمز اور دیگر بڑے اخبارات نے اداریے لکھے۔ کالم چھاپے گئے۔ سزا کے ڈانڈے ایشیائی اور مغربی تہذیب کے تفاوت سے ملائے گئے۔ بنیادی حقوق کا رونا رویا گیا۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر سنگاپور کے بجائے پاکستان ہوتا تو مزاحمت کرسکتا؟ کیا سنگاپور کی طرح خم ٹھونک کرکھڑا ہو جاتا۔ اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔
اب اسی مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں۔ اگر مائیکل فے پاکستانی شہری ہوتا تو کیا پاکستان میں اسی طرح تہلکہ برپا ہو جاتا جیسے امریکہ میں ہوا؟ کیا پاکستانی صدر یا وزیراعظم اپنے ایک عام شہری کے لیے‘ جس کا جرم ثابت ہو چکا تھا‘ ذاتی طور پر مداخلت کرتے؟ کیا ہمارے منتخب نمائندے سنگاپور کی حکومت کو خطوط لکھتے؟ اگر فے پاکستانی ہوتا تو کیا تب بھی اس کی سزا میں تخفیف ہوتی؟ بدقسمتی سے ان سوالوں کے جواب بھی ہم سب کو معلوم ہیں اور کسی شبہ یا ابہام کے بغیر معلوم ہیں۔
یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ کوئی کتاب کو سازش قرار دے رہا ہے کوئی اس وقت کے حکمرانوں پر امریکہ کے پالتو ہونے کا الزام لگا رہا ہے۔ کہیں جنرل پاشا سے لے کر شہباز شریف تک‘ آصف زرداری سے لے کر اس وقت کے عسکری سربراہ تک۔ سب کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ افسوس! اصل سبب کا کوئی نہیں ذکر کرتا۔ ادراک نہیں ہے یا تجاہل عارفانہ ہے!
یہ جنرل پاشا یا آصف زرداری یا شہباز شریف کا معاملہ نہیں۔ یہ معاملہ ہے ایک کمزور ملک اور ایک طاقتور ملک کا۔ یہ معاملہ ہے بھیڑیے اور میمنے کا۔ جب آپ اندر سے کمزور ہوں تو مدافعت نہیں کرسکتے۔ کسی معاملے میں بھی مزاحمت نہیں کرسکتے۔ آپ ایک فون کال پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ آپ سفیروں کو پکڑ کر دشمن کے حوالے کردیتے ہیں۔ آپ اپنے شہریوں کو ڈالروں کے عوض دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔ آپ میں اتنی طاقت اور اتنی جرأت کہاں کہ آپ ریمنڈ ڈیوس کو واپس کرنے سے انکار کردیتے اور کہتے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہر حال میں سزا دی جائے گی۔ آپ میں اتنی سکت کہاں تھی کہ آپ سنگاپور کی طرح ڈٹ جاتے۔
سنگاپور کیوں ڈٹ گیا تھا؟ اس لیے کہ سنگاپور کے حکمران سب سے پہلے اپنے اوپر‘ اپنی ذات پر‘ اپنے خاندان پر قانون نافذ کرتے تھے۔ ان کے ذاتی مفادات صفر تھے۔ انہیں بینک بیلنس کی فکر تھی نہ اندرون ملک اور بیرون ملک بکھری ہوئی جائیدادوں‘ محلات‘ اپارٹمنٹوں اور کارخانوں کی۔ سنگاپور مضبوط تھا‘ اس لیے نہیں کہ اس کے پاس کوئی ایٹم بم تھا یا طاقت ور فوج تھی‘ اس لیے مضبوط تھا کہ وہاں قانون کی فرماں روائی تھی۔ پولیس آزاد اور مکمل غیر سیاسی تھی۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری کنٹرول نہیں کرتا تھا۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے ایک دلچسپ فارمولا وضع کیا ہے۔ اس فارمولے کے تین اجزاء ہیں:
1۔ اگر جھگڑا دو بڑے اور طاقت ور ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔
2۔ اگر جھگڑا ایک طاقت ور ایک کمزور ملک کے درمیان ہو تو کمزور ملک غائب ہو جاتا ہے۔
3۔ اور جھگڑا دو کمزور ملکوں کے درمیان ہو تو اصل مسئلہ جو جھگڑے کا باعث ہے‘ غائب ہو جاتا ہے۔
اس فارمولے کا آپ اپنی صورت حال پر انطباق کریں تو کیا منظر ابھرے گا؟ یہی کہ جب جھگڑا دو مضبوط ملکوں میں ہو تو مائیکل فے کو بیَدضرورمارے جاتے ہیں اور جب مسئلہ ایک مضبوط اور ایک ضعیف ملک کے درمیان ہو تو ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا جاتا ہے۔ امریکی صدر تک معاملہ پہنچتا ہی نہیں۔ سفیر ہی کافی رہتا ہے۔ جہاز تیار کھڑے ملتے ہیں۔ قوانین کالعدم ہو جاتے ہیں۔ وزیروں کی ضرورت پڑتی ہے نہ پاسپورٹوں کی۔
طاقت ور ملک کی دو نشانیاں ہوتی ہیں۔ اپنے ہر شہری کی بھرپور‘ آخر دم تک‘ حفاظت کرتا ہے۔ اپنے مجرم کو نہیں چھوڑتا۔ کیا کسی کو اجمل کانسی یاد ہے؟ وہ امریکہ کا مجرم تھا۔ جون 1997ء میں میاں محمد نوازشریف وزیراعظم تھے جب امریکہ نے اسے پاکستان کے اندر سے پکڑا اور لے گیا۔ نوازشریف کی جگہ بینظیر وزیراعظم ہوتیں یا گیلانی یا پرویز مشرف‘ زرداری صدر ہوتے یا پرویز مشرف‘ اجمل کانسی کو امریکہ نے پکڑنا ہی پکڑنا تھا۔ امریکہ کو کون کہتا کہ پاکستانی قانون لاگو ہو گا؟ امریکیوں نے جواب میں یہی کہنا تھا کہ کیا پاکستانی قانون آپ پر‘ یعنی پاکستان کے حکمرانوں پر لاگو ہوتا ہے؟
جب مسلمان سپر پاور تھے تو تب بھی بین الاقوامی ’’قانون‘‘ یہی تھا جو ریمنڈ ڈیوس پر لاگو ہوا۔ سری لنکا سے آنے والے بحری جہاز میں عورتوں نے یا حجاج کہا تو کیا ہوا؟ دنیا کی طاقت ور ترین منجنیق بھیجی گئی جس نے دیبل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ معاملہ دیبل تک نہ ٹھہرا‘ ملتان تک کا علاقہ فتح کرلیا گیا۔
آپ مضبوط ملکوں کی روایت دیکھیں۔ ایک عام شہری کے لیے ان کے سفارت خانے کس طرح جدوجہد کرتے ہیں۔ کئی پاکستانی نژاد لڑکیاں جب پاکستان میں واپس لائی جاتی ہیں اور زبردستی یا فریب کاری سے ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں تو وہ ’’اپنے‘‘ سفارت خانے سے رابطہ کرتی ہیں۔ سفارت خانے پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آتے ہیں۔ عدالتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو‘ بے شک وہ تارکین وطن ہی کیوں نہ ہوں‘ پوری امداد اور حفاظت مہیا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ’’اپنے‘‘ اس ملک پہنچا دی جاتی ہیں جہاں کی شہریت ان کے پاس ہوتی ہے۔
ملک فوجوں‘ ہتھیاروں اور بموں سے مضبوط نہیں ہوتے۔ بجا کہ دفاع کے لیے یہ سب کچھ لازم ہے مگر مضبوطی اور شے ہے۔ مضبوط آپ اس وقت ہوتے ہیں جب اپنے مجرموں کو کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑتے۔ جب آپ کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ اس مضبوطی کے لیے صرف دفاعی استحکام کافی نہیں ہوتا‘ عزت نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی عزت نفس اس کے شہریوں کی عزت نفس سے عبارت ہے۔ مضبوط ملک وہ ہوتے ہیں جہاں مجید اچکزئی اور جمشید دستی کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوتا ہے۔ جب کسی سردار کے سامنے قبائلی کی‘ کسی چودھری کے سامنے مزارع کی اور کسی سائیں کے سامنے ہاری کی عزت کا کوئی وجود نہیں ہوگا‘ تو ملک کی مجموعی عزت نفس بھی اس حقیر ذرے کی طرح ہو گی جسے خرد بین سے تلاش کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ملک ہیں جہاں حکمرانوں کی اولاد بھی حکمران ہوتی ہے اور عام شہریوں کی نسبت ہر حوالے سے ممتاز ہوتی ہے۔ یہ اپنے شہریوں کو تزک و احتشام دکھاتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے سامنے بات بھی گھگھیا کر کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے    ؎
میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا
رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے!

 

powered by worldwanders.com