’’خدا کرے لاٹھی کے سہارے چلو!‘‘
کیا یہ بددعا ہے جو بڑھیا نے نوجوان کو دی؟ نہیں! یہ دعا ہے لیکن لطیف پیرائے میں دی ہوئی دعا!
بڑھیا کی دعا طویل عمر کے لیے تھی! اتنا عرصہ زندہ رہو کہ بوڑھے ہو جائو اور لاٹھی کے سہارے چلو!
یہ ادبی پیرا یہ‘ یہ لطافت‘ یہ گہرائی‘ یہ سب کچھ ہمارے قریوں بستیوں ہماری ڈھوکوں‘ گوٹھوں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں قدم قدم پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔ گلی میں معمر عورت جب کسی نوجوان کو روک کر پیٹھ تھپتھپاتی ہے اور صرف اتنا کہتی ہے ’’چاند نکل آیا ہے‘ پھول کھل اٹھے ہیں‘‘ تو وہ خوش آمدید کہہ رہی ہوتی ہے کہ تم شہر سے آئے ہوئے ہو۔ جب ماں بیٹے کو کہتی ہے کہ تمہیں گرم ہوا نہ لگے تو اس سے زیادہ جامع دعا آخر کیا ہوگی۔ یعنی ہوا معتدل ہو جس سے تم لطف اندوز ہو سکو۔ گرم ہوا سے مراد دنیا کی مصیبتیں بھی ہیں۔
پھر وہ ایک اور دعا دیتی ہے‘ ’’دونوں جہانوں کی کچہری میں سرخرو رہو۔‘‘ ہماری بستیوں کی روزمرہ زندگی میں کچہری کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے‘ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کسی گائوں یا قصبے میں پلا بڑھا ہو۔ عزت رکھنے اور عزت بچانے کے لیے‘ دشمن کو مات دینے کے لیے‘ اپنا حق ثابت کرنے کے لیے کچہری میں مقدمہ کیا جاتا ہے۔ وکیل بھرا جاتا ہے۔ تاریخوں پر تاریخیں لگتی ہیں‘ مدتیں اسی قانون جنگ میں گزر جاتی ہیں۔ پھر فیصلہ حق میں ہوتا ہے تو یہ ایک ایسی کامیابی ہوتی ہے جس پر مبارکیں وصول کی جاتی ہیں۔ یہ سب اچھا ہے یا برا‘ لیکن ہے حقیقت! اس حوالے سے ماں دعا دیتی ہے کہ وہ کچہری جو حشر کے دن قائم ہو گی‘ اس میں تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
جس زمانے میں جنگ عظیم نے برصغیر کے نوجوانوں کو ہڑپ کرنا شروع کیا تھا‘ مائیں دعائیں مانگا کرتی تھیں ’’خدا کرے لام ٹوٹے! اور سب کے بچے خیریت سے واپس آئیں۔‘‘ لام لڑائی کو کہتے تھے اور نوٹ کیجیے کہ ماں صرف اپنے بچے کے لیے نہیں ‘سب کے بچوں کے لیے دعا مانگ رہی تھی۔ اس میں اس کے دشمن بھی شامل تھے۔ پھر وہ ایک اور دعا مانگتی تھی ’’بچے وڈیرے اور دکھ پر پڑے ہوں۔ یعنی بچے پلیں بڑھیں اور دکھ دور رہیں۔
یہ ادب اور سخن سنجی صرف دعائوں میں نہیں‘ بددعائوں میں بھی موجود ہے۔ ’’خدا کرے روٹی آگے آگے ہو اور تم پیچھے پیچھے‘‘۔ یعنی روٹی کا نوالہ حاصل کرنے کے لیے تمہیں اس کی طلب میں محتاج ہونا پڑے۔‘‘ ایک اور بددعا دیکھیے۔ ’’کبھی اتنا نہ جمع ہو کہ بیٹھ کے کھا سکو!!‘‘ یعنی ہمیشہ لقمے لقمے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہو۔
’’تمہارا منہ مٹی تلے آئے‘‘ کون سی مٹی؟ یہاں بددعا یہ ہے کہ مرو‘ تمہیں قبر میں رکھیں اور تمہارے منہ پر مٹی ڈالیں۔
لوک سمجھ بوجھ کی ایک اور جھلک دیکھیے! ایک ان پڑھ چرواہا عقل مند بہت تھا۔ اس کا نام ہی سیانا تھا۔ بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا‘ اس نے پوچھا تم کون ہو‘ کہنے لگے جہاں پناہ! میں سیانا ہوں‘ بادشاہ نے طنز سے پوچھا کہ عقل بھی ہے یا صرف نام کے سیانے ہو؟ سیانے نے کہا حضور‘ عقل رکھتا ہوں جبھی تو تین سو مویشیوں کو گانے کی ایک لے سے کنٹرول کرتا ہوں۔ بادشاہ تھوڑا سا لاجواب ہو گیا۔ پوچھا تمہیں آتا کیا ہے؟ سیانے نے جواب دیا کہ میں نے اہل دنیا کے لیے کچھ فارمولے وضع کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ سناتا ہوں۔
اب سیانے کے فارمولے دیکھیے
٭ دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے۔
٭ دو آدمیوں سے بچ کے رہو‘ بسنتا نائی اور کم عقل قصائی۔
٭ دو کی بات کبھی نہ مانو‘ داڑھی والا کراڑ (ہندو) اور مونچھوں والی عورت۔
٭ بوڑھی بھینس اور کُند چُھرا! کیا حماقت ہے۔
٭ باگ پکڑنے والا جو گھوڑے کے پیچھے پیچھے چلے اور بیوی جو شوہر سے پہلے کھانا کھالے‘ دونوں نارمل نہیں۔
٭ میدان جنگ سے بھاگنے والا سورما اور سنار کا وہ بیٹا جو حساب کتاب میں مار کھا جائے‘ دونوں ٹھیک نہیں۔
٭ وہ شخص جو اندھے کے سامنے روئے‘ بہرے سے گفتگو کرے اور گونگے کے ذریعے پیغام بھیجے‘ احمق ہے۔
٭ گرمیوں کی دوپہر سخت ہوتی ہے۔ دریا کے کنارے شہر برا ہوتا ہے اور اندھا مارے تو خطرناک ہوتا ہے۔
٭ تین تباہی لاتے ہیں۔ تمباکو نوش عورت‘ رشوت خور حکمران اور لاڈ پیار میں پلا بیٹا۔
٭ راگ رنگ چونچلے رومان سب بھول جاتے ہیں‘ یاد کیا رہتا ہے۔ صرف نمک‘ تیل اور ایندھن کے لیے لکڑیاں۔
٭ تین قسم کے آدمیوں سے دور بھاگو۔ حکمران جسے عزت نفس کا پاس نہ ہو۔ چھوٹا جو بڑے کو دور سے آواز دے اور قلاش جسے اچانک ڈھیر ساری دولت مل جائے۔
٭ چار چیزیں میٹھی ہیں۔ گنڈیری‘ گڑ‘ بیٹے کی نسبت داماد اور بھائی کے مقابلے میں بیوی کا بھائی۔
٭ پانچ چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ بات نہ کرسکنے والا فرزند‘ ضدی بیٹی‘ بُڑبڑاتی بہو‘ آوارہ گرد عورت اور ژالہ باری والی بارش۔
٭ اب ان کہاوتوں پر غور کیجیے جو ہمارے بڑے بوڑھے اور ہماری نانیاں دادیاں گفتگو میں استعمال کرتی ہیں۔ ایک ایک کہاوت دانائی کا مینار ہے۔ زندگی کے تجربے ان مقولوں میں مہک اور لہک رہے ہیں۔ یہ کہاوتیں‘ یہ اقوال‘ ایک دن‘ ایک سال یا ایک صدی میں نہیں بنے‘ یہ صدیوں کے پیش آئے واقعات کے بعد ابھرے ہیں۔ مدتیں ان کی تشکیل میں لگیں۔ یہ دانش کے خزانے ہیں۔ ان میں ادبی چاشنی ہے اور ذہانت کی جھلکیاں بھی۔
٭ دھوبی کے گھر ڈاکہ پڑے تو نقصان اس کا نہیں دوسرے کا ہوگا۔
خالہ‘ ماں سے مختلف تو نہ ہوگی‘ اس لیے کہ دیوار‘ بنیاد پر ہی اٹھتی ہے۔
٭ میں بھی رانی ہوں اور تم بھی رانی‘ پانی کون بھرے گا؟
٭ نیفے میں گاجریں چھپائی ہوئی ہیں اور نام خان صاحب ہے۔
٭ بھیڑ اس لیے رکھی تھی کہ اُون حاصل ہوگی مگر وہ تو کپاس کے پودے بھی کھا گئی۔
٭ بھیڑے نے ریوڑ پر حملہ کیا‘ عین اسی وقت حفاظت کرنے والے کتے کو بیت الخلا جانا پڑ گیا۔
٭ سنار اپنی ماں کے لیے زیور بنا رہا تھا۔ بے ہوش ہوگیا۔ کھوٹ ملا کر رہا‘ تب افاقہ ہوا۔
٭ بڑے شہر میں رہنا چاہیے‘ خواہ جھونپڑی میں رہیں۔ راستہ سیدھا چننا چاہیے بے شک لمبا ہی کیوں نہ ہو۔
٭ بہو آ گئی ہے۔ اب میرے سارے دلدر دور ہو گئے۔ دودھ بلوتے وقت ناک پونچھ رہی ہے اور تڑ تڑ جوئیں مار رہی ہے۔
٭ تالاب میں اترنا ہے تو پھر چھینٹوں سے ڈرنا کیسا؟
مگر حیرت ان بجھارتوں پر ہوتی ہے جو ہمارے عوام میں گردش کرتی ہیں۔ کیسے کیسے دور رس نکتے ہیں اور تخیل کی حیرت انگیز اڑانیں۔
٭ قبر چونے گچ اور مردہ دوزخی (گندا انڈا)
٭ ہوا سے زندگی پائے اور پانی سے موت (آگ)
٭ اوپر سے بکرا گرا۔ اس کے منہ سے میٹھی رال ٹپک رہی تھی۔ پیٹ پھاڑ کر دیکھا تو چھاتی پر بال تھے (آم۔ تب آم چوسنے والے ہوتے تھے)۔
٭ دو سگے بھائی کبھی اکٹھے‘ کبھی ایک دوسرے سے الگ (دروازے کے دو کواڑ)۔
٭ تم تو جا رہے ہو مگر یہ ساتھ کون ہے؟ (سایہ)
٭ پہلی نہ آخری! میں تو اس پر قربان جو درمیان میں ہے۔ (جوانی)
٭ ذرا سی چھوکری مگر سر پر راکھ کی ٹوکری (چلم)
٭ ہمارے گھر ایک بچی آئی۔ چٹیا نئی تھی۔ کوٹی ایسی تھی جس میں نو سو بٹن تھے۔ (مکی کا بُھٹہ)
٭ دیگچہ لاہور رکھا‘ آگ ملتان میں لگی۔ پھونک دلی میں ماری‘ جلا ہندوستان (حقہ) (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
٭ ماں ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی اور بیٹا چھت پر چڑھ گیا۔ (دھواں)
٭ ذرا سی بچی اور لمبا پراندا (سوئی دھاگہ)
٭ پیٹ سے نکالو‘ پسلی میں مارو (ماچس)
جا تو رہے ہو مگر پیچھے کسے چھوڑ کر جا رہے ہو (نقش پا)
اب آخر میں دو لوک لطیفے۔
ایک چودھری لیٹا ہوا تھا۔ نوکر اس کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ سامنے سے میراثی آتا دکھائی دیا۔ چوہدری نے نوکر کو حکم دیا کہ میراثی نزدیک آئے تو اس پر بھونکو۔ میراثی نزدیک آیا تو نوکر بھونکا۔ میراثی کہنے لگا۔ ’’جو مردہ سامنے پڑا ہے پہلے اسے تو بھبھوڑ لو۔‘‘
بنیا کسان کے پاس گدھا مانگنے آیا۔ کسان نے بہانہ بنایا کہ کوئی مانگ کر پہلے ہی لے گیا ہے۔ اتنے میں اندر سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز آئی۔ بنیا کہنے لگا تمہارا گدھا تو اندر موجود ہے۔ کسان نے جواب دیا کہ عجیب بدتمیز ہو‘ میری بات پر نہیں گدھے پر اعتبار کر رہے ہو۔
No comments:
Post a Comment