بادشاہ کو حکومت کرتے برس ہا برس ہو گئے تو رعایا نے عرض کی کہ جہاں پناہ!
اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں! چہرہ جھریوں سے اٹ گیا ہے! رخساروں پر کھال ڈھلک گئی ہے! ابرو سفید ہو گئے ہیں یوں لگتا ہے دو سفید چھجے آنکھوں پر دھرے ہیں! دو گز چلنا دوبھر ہے۔ کرم فرمائیے اب آرام کیجیے اور بادشاہت کا تاج کسی اور کے سر پر رکھ دیجیے۔
مگر بادشاہ کو کسی پر اعتبار ہی نہ تھا! وہ تو اپنے سائے سے بھی ڈرتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جب تک اس کے دم میں دم ہے‘ وہی تخت و تاج کا مالک ہو!
رعایا صبر کر کے بیٹھ گئی! بادشاہ تخت پر براجمان رہا! زمانے گزر گئے!
پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا! دربار جانے کے لیے صبح صبح بادشاہ نے شاہی لباس پہنا۔ تلوار کمر سے لٹکائی۔ تاج سر پر رکھا۔ مگر تاج سر سے نیچے گر پڑا۔ بادشاہ نے تاج دوبارہ سر پر رکھا تاج پھر گر پڑا۔ بادشاہ نے ملکہ کو آواز دی۔ اس نے بھی تاج کئی بار شوہر کو پہنایا مگر ہر بار تاج سر سے گر جاتا۔یوں لگتا تھا کوئی غیبی طاقت‘ کوئی ان دیکھا ہاتھ‘ تاج کو سر سے اتارتا ہے اور نیچے پھینک دیتا ہے! بادشاہ کی عمر رسیدہ ماں نے بھی جسے سب بڑی ملکہ کہتے تھے‘ کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی۔ تھک ہار کر بادشاہ ننگے سر ہی دربار چلا آیا۔ درباریوں کو تعجب ہوا مگر کچھ خوف کے مارے اور کچھ پاس ادب سے خاموش رہے۔ اب بادشاہ کا معمول ہو گیا کہ شاہی لباس پہنتا اور تاج کے بغیر باہر نکلتا۔
کئی زمانے سر کی اس برہنگی کو گزر گئے۔ پھر ایک دن ایک اور عجیب واقعہ پیش آ گیا۔ بادشاہ جوتے پہنتا تو جوتے پائوں سے اتر جاتے۔ جوتوں کے کئی جوڑے ٹرائی کیے گئے۔ موچیوں نے نئے جوتے بنائے۔ کئی بیرونی ملکوں سے منگوائے گئے۔ سب نوکروں نے پہنانے کی کوشش کی مگر کوئی جوتا پائوں پر نہ ٹھہرا۔ اُدھر دربار میں جانا لازم تھا۔بادشاہ کسی اور کو اپنی جگہ دربار میں بھیجنا اور تخت پر بٹھانا سخت ناپسند کرتا تھا۔ بالآخر وہ پائوں سے ننگا ہی دربار میں پہنچا۔ اب یہ معمول ہو گیا کہ جہاں بھی جاتا‘ بادشاہ سر اور پائوں سے ننگا ہوتا!
پھر ایک دن شاہی چُغے نے بغاوت کر دی۔ جیسے یہ بادشاہ ریشمی چُغہ پہنتا‘ چُغہ اتر جاتا اور کھٹ سے نیچے گر پڑتا۔ پھر ایک دن پاجامے نے بغاوت کر دی۔ پھر قمیض اتری۔ آخر میں زیر جامہ نے بھی بدن پر ٹھہرنے سے انکار کر دیا۔ اب بادشاہ الف ننگا ہو گیا۔ مجبوراً اسی طرح دربار میں جاتا۔ غیر ملکی وفود کو بھی اسی حالت میں ملتا۔ سیرو تفریح کا بہت شوق تھا۔ صحت افزا پہاڑی مقامات پر اکثر جاتا۔ محلات ہر جگہ بنے ہوئے تھے۔ جہاں بھی جاتا‘ بدن پر پوشاک نہ ہوتی! رعایا فرطِ ادب سے‘ اور مارے خوف کے چُپ رہی!
پھر ایک دن رعایا کی حیرت کی انتہا نہ رہی! پہلے تو بادشاہ صرف ننگا تھا‘ اُس دن اس کا سارا وجود شفاف اور
Transparent
ہو گیا۔ دیکھنے والے بادشاہ کی انتڑیاں‘ گردے‘ پھیپھڑے سب اندرونی اعضا صاف صاف دیکھ رہے تھے! رعایا کونظر آ رہا تھا کہ کس طرح قسم قسم کی خوراک اُس کے معدے میں عملِ انہضام سے گزر رہی ہے۔ جگر‘ تِلی‘ پسلیاں سب نظر آنے لگیں! طبیب عاجز آ گئے۔ دوسرے ملکوں سے بھی اطبّا اور حکما آئے۔ نسخے آزمائے گئے‘ دم درود بھی کئے گئے۔ ایک اللہ والا تو باقاعدہ پیٹھ پر چھڑیاں مارتا تھا۔ مگر دوا دارو کام آیا نہ دم درود، نہ تعویز گنڈا نہ جادو ٹونہ!
دوسرے ملکوں کے بادشاہ آتے تو انہیں میزبان بادشاہ کو دیکھ کر ابکائی آ جاتی! وہ مخاطب ہوتے وقت اُس کی طرف دیکھتے تو انہیں گردے پھیپھڑے اور آنتیں نظر آتیں!
رعایا نے پھر منت و زاری کی، کہا اب بادشاہ اس حال کو پہنچ گیا ہے تو تخت چھوڑ ہی دے۔ کسی اور کو‘ بے شک اپنے خاندان ہی سے ‘ بادشاہت سونپ دے۔ مگر بادشاہ نے صاف انکار کر دیا۔’’میں آخری دم تک تخت نہیں چھوڑوں گا‘‘ اُس نے واضح اعلان کیا۔
مہینے گزرتے گئے۔ برس آتے اور جاتے رہے۔ بادشاہ اسی عبرت ناک حالت میں بادشاہت کرتا رہا۔ ایک دن دربار میں پہنچا تو درباریوں نے دیکھا کہ بادشاہ کے پیچھے پیچھے اس کی انتڑیاں گھسٹتی آ رہی تھیں‘ بڑے بڑے سرجن اور جراح آئے اور انتڑیوں کو جسم کے اندر دوبارہ فِٹ کرنے کی کوشش کی مگر یہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ پھر گردے نکل آئے۔ پھر پھیپھڑے ‘ پھر جگر اور تِلی سو‘ اب حالت یہ تھی کہ تخت کے ایک کونے میں بادشاہ بیٹھتا۔ تخت کے باقی حصے پر اس کے جسم کے اعضا‘ جو کبھی اندرونی تھے، دھرے ہوتے۔ غلام اِن انتڑیوں گردوں پھیپھڑوں پسلیوں کو کپڑے سے ڈھانپ دیتے۔ بادشاہ اُٹھ کر جانے لگتا تو یہ سب گھسٹے گھسٹے‘ اس کے پیچھے ہوتے! رعایا دیکھ کر عبرت پکڑتی‘ کانوں کو ہاتھ لگاتی! مگر خاموش رہتی! جو بولتا گرفتار کر لیا جاتا!
آخری خبریں آنے تک بادشاہ بدستور تخت پر فائز تھا! (اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)
پس نوشت۔ جے آئی ٹی کے حوالے سے حکومت
اور اپوزیشن میں جو کشمکش جاری ہے‘ اس میں بدقسمتی سے حکومتی کیمپ نے مذہب
کو داخل کر لیا ہے۔ پہلے تو سوشل میڈیا پر مقتدر خاندان کے ایک فرد کے ضمن میں خاندانِ نبوت کی ایک مقدس ہستی کا ذکر کیا گیا۔ حالانکہ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک!دنیا کے تمام بادشاہ بھی اکٹھے ہو جائیں تو خاندانِ نبوت کے غلاموں کی سواری کی گرد کے ایک ذرے سے بھی زیادہ حقیر ہیں!
اب ایک حکومتی عہدیدار نے وزیر اعظم کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ موازنہ کر ڈالا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر ہیں جن کا قرآن پاک میں پچیس مرتبہ (یا اس سے زیادہ بار) ذکرِ مبارک ہوا ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے تمام پیغمبروں پر ایمان لانا فرض ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ اس ضمن میں شیعہ سنی بریلوی دیو بندی اہلِ حدیث تمام مسالک کا مکمل اتفاق ہے!بڑے سے بڑا ولی‘ قطب اور ابدال بھی پیغمبر کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔
سیاسی حالات ہنگامی ہوتے ہیں! کبھی مستقل نہیں رہتے۔ آج کے اتحادی کل کے مخالف اور آج کے مخالف کل کے ہم نوا ہو سکتے ہیں۔ آج کل کے ماحول میں سیاست کثافت سے خالی نہیں! اس کے برعکس مذہبی شعائر مستقل اہمیت کے حامل ہیں۔ مقدس ہستیوں کی عزت و حرمت آج بھی وہی ہے جو سینکڑوں ہزاروں سال قبل تھی اور مستقبل میں بھی کم نہ ہو گی!
سیاست دانوں اور امرا و عمائدین کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے ’’فرائض‘‘کی انجام دہی میں بے شک افلاک کی بلندیوں تک پہنچ جائیں۔ قلابے ملانے پر وطن عزیز میں کوئی پابندی نہیں ! جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے! مگر مقدس ہستیوں کو خدا را درمیان میں نہ لائیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مذہبی معاملات میں عوام اور خواص سب حد درجہ حساس ہیں۔ ظاہر ہے حکومت کے حمایتی بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں اور اتنے ہی پکے اور حساس مسلمان ہیں جتنا کوئی بھی ہو سکتا ہے! مگر احتیاط لازم ہے!
اس کا ایک پہلو بین الاقوامی بھی ہے۔پوری دنیا کے کیمرے پاکستان پر لگے ہیں۔ پاکستان سے باہر یہ تاثر کسی صورت میں نہیں جانا چاہیے کہ توہینِ مذہب کے قانون پر عملدرآمد میں امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور کہیں تو ایکشن فوراً لیا جاتا ہے اور کہیں معاملے کو کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا جاتا ہیٖ! پہلے ہی ہمارا امیج مثبت نہیں! اسے مزید منفی کرنے میں ملک کا فائدہ ہے نہ قوم کا ؎
ہم نیک و بد حضور کوسمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے!
No comments:
Post a Comment