اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقت ور ہے کہ وہی سب کچھ کر رہی ہے اور کرا رہی
ہے، اگر یہاں پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تو پھر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خاندان تیس سال سے برسرِاقتدار ہے، اس کی پشت پر یقینا اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔
تو پھر پانامہ لیکس بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا کارنامہ ہے۔
تو پھر دو ججوں نے وزیر اعظم کے خلاف کیوں فیصلہ دیا؟ کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
تو پھر یہ جو وکلاء برادری ہڑتال کر رہی ہے، کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے؟
تو پھر لاکھوں کروڑوں عوام جو ٹیلی ویژن سیٹوں کے سامنے بیٹھے ہیں اور جنہیں مقتدر خاندان کی جائیدادوں کے اعداد و شمار تک حفظ ہو چکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیٹھے ہیں؟
اگر اسٹیبلشمنٹ کا اثر، خدانخواستہ عدلیہ تک آ پہنچا ہے تو پھر یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نہیں کوئی اور تھا جو گھنٹوں آرمی ہائوس میں ڈٹا رہا۔
اب یہ ایک فیشن ہے کہ دلیل دیئے بغیر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے دیں کہ سب کچھ وہی کرا رہی ہے۔ شہید بننے کے لیے ریت سے بنی ہوئی یہ بنیاد خوب ہے۔
معاملہ اور ہے۔ اقتدار کی پرستش کے کئی اسلوب اور کئی صورتیں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
اقتدار کی نظروں کو بھلا لگنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور تمام قوتِ تحریر و تقریر اس ایک نکتے پر صرف کر دی جائے کہ اصل میں فیصلہ ہو چکا ہے اور کہیں اور ہو چکا ہے۔
عسکری اقتدار کا زمانۂ عروج تھا جب شریف خاندان کو دریافت کیا گیا۔ یہ جنرل غلام جیلانی گورنر پنجاب کی دریافت تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنی عمر میاں محمد نواز شریف کو پیش کر دی۔ جنرل حمید گل سے لے کر جنرل اسلم بیگ تک اسٹیبلشمنٹ کے سب بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ میاں صاحب نے ٹیک لگائے رکھی۔ اصغر خان مقدمہ لے کر عدالت میں جا پہنچے۔ جنرل اسد درانی نے بیانات دیئے۔ رقوم تک بتا دی گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ تو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کی پشت پر رہی۔
کبھی بھٹو کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی خوب رہی۔ جیسے بھٹو بھی جیل سے باہر نکلنے کے لیے معاہدہ کر کے دساور چلا گیا تھا۔ جیسے اس پر بھی منی لانڈرنگ کے مقدمے بنے تھے۔ جیسے وہ بھی دبئی میں رہنے کے لیے اقامہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ تشبیہہ دینے کے لیے کوئی ایک آدھ مشابہت تو ہونی چاہیے۔ چلیے، یہی بتا دیجیے کہ وزیر اعظم نے جیل میں کتنی کتابیں لکھیں؟
ہاں! اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرنا ہے تو اس اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کیجیے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ محمد علی جوہر کو انگریز مجسٹریٹ نے غنڈہ کہا تو جواب دیا ہاں! میں غنڈہ ہوں مگر اللہ میاں کا غنڈہ ہوں۔ ملکہ برطانیہ کا غنڈہ نہیں۔ ایک اسٹیبلشمنٹ اور بھی ہے جو اس کائنات کا نظم چلا رہی ہے۔ یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو جابر و قاہر فاتحین کو چاروں شانے چت گرا دیتی ہے۔ تیمور نے دنیا زیر و زبر کر دی۔ سلطنتِ عثمانیہ کو بھی نہ بخشا۔ آج کا ترکی، شام، آرمینیا، آذر بائی جان، جارجیا، ترکمانستان، ازبکستان، کرغستان سب اس کی سلطنت کا حصہ تھے۔ قیاس ہے کہ ان مہمات میں دو کروڑ افراد ہلاک ہوئے جن کی زیادہ تعداد مفتوح قوموں سے تعلق رکھتی تھی۔ پھر اس نے چین کو زیرِ نگیں کرنے کا منصوبہ بنایا۔ نو مہینے دارالحکومت سمرقند سے نہ نکلا اور مسلسل تیاریاں کرتا رہا۔ ہمیشہ موسمِ بہار کی منصوبہ بندی کرنے والا یہ فاتح اب کے سرما میں پابہ رکاب ہوا۔ چین میں تب مِنگ خاندان برسرِ اقتدار تھا۔ تیمور نے ان کا سفیر اپنے پاس قید کر لیا۔ سیرِ دریا پار کیا کہ اُسے اُس بیماری نے آ پکڑا جو سرما کا تحفہ تھی۔ فاراب کے مقام پر، چین اور منگولیا کی فتح کا خواب بند آنکھوں میں لیے، چاروں شانے چت ہو گیا۔ چین کی سرحد ابھی بہت دور تھی کہ وہ ایک اور سرحد عبور کر گیا۔ اس کے پوتے خلیل سلطان نے چینی سفیروں کو رہا کر دیا۔ یہ ہے وہ اسٹیبلشمنٹ جس کی فکر کرنی چاہیے۔ افسوس! صد افسوس! اس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
خوشامد کا فن نیا نہیں! جب سے سرداری، بادشاہت، چوہدراہٹ، کھڑ پہنچی دنیا میں ظہور پذیر ہوئی، تب سے یہ فن بھی چل رہا ہے۔ سعدی نے کہا تھا ؎
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت اینک ماہ و پروین
کہ بادشاہ دن کو رات کہے تو کہنا چاہیے جہاں پناہ! وہ دیکھیے ستارے نکلے ہوئے ہیں! مگر کچھ تو انصاف کرنا چاہیے۔ تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے کہ ایک
ہی خاندان برسرِاقتدار ہے۔ ادارے اس کی مٹھی میں بند ہیں۔ ایس ای سی پی
کا حال دنیا نے دیکھ لیا۔ نیشنل بنک آف پاکستان کس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ سارے کا سارا پنجاب ایک شہر میں سمٹ کر رہ گیا۔ تو کیا ہمیشہ یہی خاندان برسرِاقتدار رہے گا؟ ؎
تو کیا اِن اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
خاندانوں کی، برسرِاقتدار شجرہ ہائے نسب کی، ایک طبعی عمر بھی ہوتی ہے۔ تاریخ کا عمل بھی ہے۔ تدبیر کند بندہ! تقدیر زند خندہ! تدبیریں انسان بھی کرتا ہے۔ پروردگار بھی کرتا ہے اور پروردگار بہترین تدبیریں کرنے والا ہے۔ دخترِ نیک اختر کو جانشین مقرر کیا جا رہا تھا۔ فنِ خوشامد کے ماہرین اس پر مسلسل کام کر رہے تھے۔ پرنٹ میڈیا میں بھی اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی۔ مگر درمیان میں ایک اور افتاد آن پڑی جو اب سنبھالے سنبھل نہیں رہی۔
کیا ہی اچھا ہوتا جس دن پانامہ لیکس نے راز افشا کیا تھا، وزیر اعظم اس دن اقتدار کو خیر باد کہہ دیتے۔ ملک بھر میں ان کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا۔ تاریخ میں ان کا صفحہ سنہری ہوتا۔ کہتے، جب تک یہ معاملہ صاف نہیں ہوتا، میں اقتدار سے الگ رہوں گا۔ پارٹی جسے چاہے میرا جانشین مقرر کر دے۔ یہی دوسرے ملکوں میں ہوا۔ مگر یہاں مشورہ دینے والے ’’خیر خواہ‘‘ ایک ہی بات بتاتے ہیں کہ آپ کو مینڈیٹ ملا ہے۔ آپ ووٹ لے کر آئے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جو سربراہانِ حکومت استعفیٰ دیتے ہیں کیا ان کی زنبیلوں میں ووٹ نہیں ہوتے؟ کیا مینڈیٹ ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب آپ قانون سے مبرا ہو گئے ہیں۔ جو چاہیں، کرتے پھریے؟
یہی مشورہ خود موجودہ وزیر اعظم نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو دیا تھا کہ مقدمہ چل رہا ہے۔ الگ ہو جائو، بری ہو گئے تو واپس آ جانا۔ کیا ان کے اردگرد عمائدین اور امرا میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو انہیں صائب مشورہ دے سکے؟
اقتدار سے بعض اوقات انسان خوف کی وجہ سے بھی چمٹا رہتا ہے۔ اقتدار کو وہی لات مار سکتا ہے جس کا دامن صاف ہو۔ نیلسن منڈیلا کی طرح! مہاتیر محمد کی طرح! بے نیازی کے ساتھ وہی تخت و تاج کو خدا حافظ کہتا ہے جس کی الماری میں ماڈل ٹائون اور ڈان لیکس کے ڈرائونے ڈھانچے نہ ہوں۔ یہ ڈھانچے راتوں کی نیند حرام کر دیتے ہیں۔ شیر کی سواری اسی لیے خطرناک ہے۔ اترتے ہی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ جسٹس(ر) باقر نقوی کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے لیے بے تاب ہے۔
پنجاب کی الماریوں میں نہ جانے کتنے ڈھانچے کھڑے ہیں۔ قدِ آدم ڈھانچے! ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
No comments:
Post a Comment