قے ہے کہ رک نہیں رہی! سر ہے کہ درد سے پھٹا جارہا ہے۔ پائوں سُوج گئے ہیں۔ ایک لقمہ تک نہیں کھایا جاتا۔ آنکھیں بند ہورہی ہیں۔
مگر آہ! یہ طبیب کیا کر رہے ہیں! قے روکنے کی عارضی دوا دیئے جا رہے ہیں۔ سر کے درد کے لیے پیرا سٹا مول کھلا رہے ہیں۔ پائوں پر پیاز اور ہلدی کا ملغوبہ لگا رہے ہیں۔ بند آنکھیں ہاتھوں سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیماری تو اندر ہے! یرقان ہے یا ملیریا‘ تپ دق ہے یا پھیپھڑوں کا مرض!! جو کچھ بھی ہے‘ علاج اس کا ہونا چاہیے۔ اصل بیماری کا علاج کارگر ہوا تو قے بھی رک جائے گی‘ سر درد بھی تھم جائے گا‘ پائوں کی سوجن بھی ٹھیک ہو جائے گی اور مریض آنکھیں بھی کھول لے گا۔
یہ کیسے طبیب ہیں! یہ کیسے لواحقین ہیں‘ مرض کی تشخیص نہیں کر رہے ہیں۔ ظاہری علامات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
مجید اچکزئی کا جو طرز عمل ہے اور زیارت کے ڈپٹی یا اسسٹنٹ کمشنر نے جو کچھ کیا‘ خدا کے بندو! وہ تو علامت ہے۔ ڈیوٹی پر کھڑا ہوا کانسٹیبل ایم پی اے نے گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ پھر پولیس اور میڈیا پر دھونس جمائی۔ زیارت کا افسر‘ دو لاکھ روپے لے کر مقتول کے گھر پہنچ گیا اور سادہ کاغذ پردستخط کرانے لگ گیا۔ بجا کہ محمود خان اچکزئی اس وقت وفاقی حکومت کا حمایتی ہے‘ بجا کہ اچکزئی خاندان صوبے پر حکمرانی کر رہا ہے مگر یہ قتل اچکزئی کے بجائے کسی اور سردار سے ہوتا تو اس کا بھی رویہ یہی ہوتا۔ افسر اور اہلکار اسے چھڑانے کے لیے بھی اسی طرح دوڑ دھوپ کرتے۔
یہ سب ظاہری علامتیں ہیں۔ اصل بیماری بلوچستان کا سرداری نظام ہے جس کی مثال مہذب دنیا میں شاید ہی کہیں ملے۔ یہ سردار ستر سال سے اقتدار میں ہیں۔ حزب اختلاف میں ہوں۔ تب بھی ان کے اختیارات وہی رہتے ہیں۔ یہ چیف منسٹر بن جائیں تو سارے ترقیاتی منصوبے صرف کاغذوں پر ہوتے
ہیں۔صوبہ تو ایک طرف رہا‘ اپنے علاقے میں بھی ترقیاتی کام نہیں کرانے نہ ہونے دیتے ہیں۔ کیوں؟ تاکہ قبیلے میں کوئی سر نہ اٹھا سکے! کوئی پڑھ لکھ کران کے سامنے بات نہ کرسکے۔
سردار‘ بلوچستان میں‘ قبیلے کا حکمران مطلق ہے۔ وہی عدالت ہے‘ وہی پولیس ہے‘ وہ قبائلیوں کے خانگی معاملات میں بھی دخیل ہے۔ اس کے علاقے میں تعینات افسر‘ اہلکار‘ اس کے اشارۂ ابرو پر چلتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کو تنخواہ اس کی پرچی کے بغیر نہیں ملتی۔ وہ چاہے تو جرم ثابت کرنے کے لیے ملزم کو سلگتے انگاروں پر پائوں دھرنے کا حکم دے دے۔ چاہے تو قبائلی کو حکم دے دے کہ بیوی کوطلاق دے دو! اُس کا علاقہ اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ سرکاری منصوبوں کے پائپ اچھے نہ لگیں تو حکم دیتا ہے کہ اڑا دو‘ مخالفت ہو تو اغوا کروا دیتا ہے۔ چاہے تو پورے قبیلے کے ہاتھ میں بندوقیں پکڑوا کر پہاڑوں پر چڑھا دے۔ علاقے کے سکولوں کالجوں کی سرکاری عمارتیں ان کے غلے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے چھت پر چڑھ کر‘ گلی میں چلتے کسی بھی انسان کے سر کا نشانہ لے سکتا ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف ادیب نے بتایا کہ ایک قبیلے کا ایک نوجوان کراچی چلا گیا اور کچھ پڑھ لکھ گیا۔ واپس آیا تو اپنے باپ کے ساتھ سردار کے حضور‘ حاضری کے لیے گیا۔ کپڑے ذرا اُجلے پہنے تھے۔ بالوں کو ذرا کنگھی کی ہوئی تھی‘ باپ بیٹا واپس ہورہے تھے کہ بیٹے کو پکڑ لیا گیا۔ اس کے جسم پر شہد ملا گیا۔ پھر اسے ایک ایسے غار میں پھینک دیا گیا جس میں لاکھوں چیونٹیاں تھیں۔ سردار کی ’’دُور رس‘‘ نگاہ خطرہ نہیں مول لے سکتی تھی کہ کوئی پڑھ لکھ کر‘ کسی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ بن جائے اور قبائلی بیدار ہو جائیں۔ کالا باغ کا سردار اپنے علاقے میں سکول بنوانے کا اسی لیے مخالف تھا۔ رعایا پڑھ لکھ جائے تو بے چون و چرا حکم نہیں مانتی ‘آگے سے سوالات پوچھتی ہے۔
یہ ہے بلوچستان کی اصل بیماری! ایم پی اے کے تکبر کا سرا اسمبلی کی ممبری تک نہیں‘ سرداری تک جارہا ہے‘ وہ حیران ہے کہ سرداروں سے باز پرس ہورہی ہے۔
زاغ کی اولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے؟
نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے؟
سرداری نظام کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں‘ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ستر سال میں صرف ایک ایسا شخص وزیراعلیٰ بنا جو سردار نہیں تھا۔ ترقی روکنے کے لیے یہ سردار‘ بلوچستان کے نوجوانوں کوقومیت کی پٹی پڑھاتے ہیں‘ کبھی ’’آزادی‘‘ کے خواب دکھاتے ہیں‘ کبھی پنجابی ’’سامراجیت‘‘ کے خلاف جذبات بھڑکاتے ہیں۔ ذہنوں کو مسخ کرتے ہیں۔ زبان‘ نسل اور قومیت کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تاکہ سرداری نظام میں کوئی رخنہ نہ پیدا کرسکے۔ یہ کالم نگار دارالحکومت کی ایک معروف یونیورسٹی میں بلوچستان سے آئے ہوئے اساتذہ سے لیکچر نما گفتگو کر رہا تھا۔ اساتذہ پرائمری سکولوں کے نہیں‘ کالجوں اور یونیورسٹی کے تھے۔ انہی دنوں بلوچستان کے ایک سردار زادے نے لاہور میں پریس کانفرنس کی تھی اور سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سلگتے انگاروں پر چلنے کی رسم کا دفاع کیا تھا۔ اُس کے خیال میں یہ بلوچی روایت تھی جس کا وہ دفاع کررہا تھا۔ کالم نگار نے اس کا ذکر کیا اور غلطی یہ کی کہ سردار زادے کا نام لے لیا۔ اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی کہ سردار کی عزت پر نہ ہاتھ ڈالا جائے۔
یہ ہے وہ نیم خوابیدہ کیفیت جس میں بلوچی نوجوانوں کو مبتلا کیا جارہا ہے۔ انہیں قبیلے کی ’’عزت‘‘ کا نشہ پلایا جاتا ہے۔ ان کے لیے معاشی ترقی‘ سماجی تبدیلی یا سیاسی ارتقا‘ سب کچھ قبیلے کے سامنے ہیچ ہے۔
سرحد پار‘ بھارت میں کیا ہوا؟ کاش اس سے سبق سیکھا جاتا‘ تقسیم کے بعد چار پانچ سال ہی گزرے تھے کہ نوابوں‘ راجوں‘ مہاراجوں‘ سرداروں سے جاگیریں اور سرداریاں ریاست نے لے لیں‘ شروع شروع میں پینشنیں دی گئیں۔ بعد میں وہ بھی ختم! اس سے اسمبلیوں کی پشتینی نشستیں خود بخود ختم ہوگئیں۔ کوئی اپنے محل کو ہوٹل بنا کر گزارہ کرنے لگا کسی نے کوئی اور پیشہ اختیار کیا۔
جمشید دستی کا اصل جرم یہ نہیں کہ وہ حزب اختلاف میں ہے اور کھڑک کربولتا ہے‘ فوری وجہ گرفتاری کی یہی جرم ہے مگر اصل جرم یہ ہے کہ وہ غریب اور عام آدمی ہے اور سیاست میں منہ مارتا ہے۔ وہ بھی اس علاقے میں جو
جاگیرداروں‘ زمینداروں اور پشتینی گدی نشینوں کا گڑھ ہے۔ انگریز سرکار سے ملی ہوئی خلعتوں اور جاگیروں کے مالک‘ ایسے عام شخص کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ جو سلوک دستی کے ساتھ ہورہا ہے‘ کسی خانزادے یا جاگیردار کے ساتھ ہوتا تو گوادر سے لے کر مظفر آباد تک سردار یک زبان ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہی کچھ منتخب ایوانوں میں اس وقت ہوتا ہے جب زرعی پیداوار پر ٹیکس کی بات ہوتی ہے۔ سارے کوے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کائیں کائیں کا وہ غلغلہ بلند کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔
سیاہ بختی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا تو اصلاحات سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہو گئیں۔ زمینداروں نے ترکیب نمبر چھ استعمال کی اور صاف بچ رہے! رہے آج کے حکمران اور سیاست دان تو ان کی سطحی ترجیحات میں ایسی بنیادی اصلاحات کی گنجائش ہے نہ انہیں اس کا ادراک ہے۔
عمران خان بہت سی بنیادی تبدیلیو ں کا ذکر کرتا ہے۔ جیسے صحت اور تعلیم کے میدان! مثلاً بدقسمتی سے سرداری نظام اور جاگیردارانہ تسلط کے ضمن میں اس نے بھی آج تک کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ اگر اسے اقتدار مل گیا تو کیا اس حوالے سے وہ کچھ کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔ سردست مجید اچکزیوں کے سردارانہ رویے اور جمشید دستیوں کی بے کسی کو گوارا کیجیے! اور فیض صاحب کی اس انقلابی نظم پر گزارا کیجیے جس کی مقبولیت کے پیچھے انقلابی خیالات کم اور اقبال بانو زیادہ ہے! ؎
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل پر لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
No comments:
Post a Comment