Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, July 12, 2017

انشا جی! اُٹھو اب کوچ کرو


ہر خاندان کے عروج کی ایک مدت ہوتی ہے۔ شریف خاندان اپنا عروج دیکھ چکا!
ابن خلکان کی روایت ہے سعید بن سالم سے لوگوں نے پوچھا برامکہ کے زوال کا سبب کیا تھا؟ کہا ان کا زمانہ طول پکڑ گیا تھا اور ہر طوالت کا انجام رنج و غم ہے۔
مگر جو رائے ابن خلدون نے برامکہ کے زوال پردی‘ وہ شریف خاندان پر زیادہ منطبق ہوتی ہے۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ برامکہ دولت عباسیہ کے خاندان پر قابض ہو گئے تھے یہاں تک کہ خلیفہ کو خزانے سے کچھ ملتا ہی نہ تھا۔ شریف خاندان ملک کے خزانوں پر قابض ہو چکا۔ فولاد سے لے کر مرغی اور مرغی کے گوشت تک ہر خزانے پر ان کا تصرف ہے۔
مگر ایک سبب شریف خاندان کے زوال کا ستاروں کی گردش ہے اور یہی اصل سبب لگتا ہے۔ ان کے بخت کا ماتھا‘ تنگ ہو چکا۔ ان کا چاند گہنا چکا۔ ہما ان کے سر پر تیس سال بیٹھا رہا۔ مگر اب وہ اڑ کر جا چکا۔
برامکہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ جعفر برمکی نے عالی شان قصر تعمیر کرایا۔ اس کا باپ یحییٰ دیکھنے آیا تو جعفر نے پوچھا محل میں کوئی عیب آپ کو نظر آیا؟ یحییٰ نے کہا ہاں! عیب ہے اور وہ یہ کہ تمہارے قرب و جوار والوں کو اس سے تکلیف ہوگی! لہٰذا ان کے روزینے مقرر کرو تاکہ زبانیں بند ہو جائیں۔ جن کے گھر شکستہ ہیں انہیں بنوادو اور دستر خوان ہر وقت بچھا رہے۔
تعمیر اور آرائش ختم ہو چکی تو نجومیوں کو بلایا گیا کہ محل میں منتقل ہونے کے لیے سعید ساعت کا تعین کریں۔ زائچے بنے دست شناس کام میں لگ گئے۔ ستاروں کی چالیں جانچی گئیں۔ قرار پایا کہ رات کے وقت منتقل ہوا جائے۔ رات کو منتقل ہوا جارہا تھا۔ ہر جانب سناٹا تھا۔ لوگ گھروں میں سورہے تھے۔ مگر جعفر نے سنا کہ ایک شخص گلی سے گزرا اور وہ گا رہا تھا   ؎
تُدَبّرُ بِالنّجومِ وَلَسْتَ تَدْرِی
وَرَبُّ النَجمِ یَفْعَلُ مَا یَشَاء
’’تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ ستاروں سے تدبیر کرتے ہو۔ مگر اُدھر ستاروں کا خدا ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
شریف خاندان نے زبانیں بند کردیں۔ روزینے مقرر کردیئے۔ دوست نوازی کی حد کردی۔ یہاں تک کہ آصف زرداری کوسوں پیچھے رہ گئے۔ نیشنل بینک آف پاکستان‘ ایس ای سی پی‘ سٹیٹ بینک‘ ترقیاتی ادارے‘ وزیراعظم آفس کے مناصب‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیسیوں دیگر عہدوں پر میرٹ کے بغیر ’’اپنوں‘‘ کو تعینات کیا۔ مدتوں پہلے کے ریٹائرڈ نوکر شاہی کے مہرے بدستور ان کے یمین و یسار میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے قریب ترین دائرے میں‘ سوائے چوہدری نثار کے‘ سب وسطی پنجاب کے چار پانچ اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ وسطی پنجاب کے یہی چار پانچ اضلاع وزیراعظم کا پنجاب ہیں۔ یہی ان کا پاکستان ہیں۔ ڈار صاحب‘ خواجگان سعد رفیق اور آصف‘ ناروال کے احسن اقبال‘ فیصل آباد کے عابد شیر علی‘ گوجرانوالہ سے خرم دستگیر‘ ریلوے بھی انہی اضلاع کے پاس ہے۔ صحت کا قلم دان بھی‘ دفاعی پیداوار بھی‘ قانون بھی‘ اس اندرونی دائرے میں کوئی سندھی ہے نہ پٹھان‘ خاقان عباسی مری سے ہیں۔ وزارت اہم ہے مگر اندرونی سرکل میں وہ بھی نہیں۔
ہمیشہ عروج کسی کو نہیں ملتا۔ اس خانوادے کے خوشہ چیں امیدیں باندھ رہے ہیں کہ میاں صاحب ہٹ بھی گئے تو انہی کا خاندان وزارت عظمیٰ کا مالک ہو گا۔ بیگم صاحبہ آئیں گی یا بھائی صاحب مگر اندازے لگانے والے اور خوش فہمیوں کے محل تعمیر کرنے والے یہ وفادار بھول رہے ہیں کہ جیسے ہی وزیراعظم تخت سے اترے‘ وفاداریاں بدل جائیں گی۔ ہمایوں کے امرا‘ راتوں رات‘ شیر شاہ سوری کے کیمپ میں جا بیٹھیں گے۔ طلال ہوں کہ دانیال‘ زاہد حامد ہوں کہ امیر مقام‘ سائبیریا سے آنے والے یہ پرندے‘ جنوب کی جھیلوں کے کنارے مستقل بیٹھنے والے نہیں‘ کبھی نہیں‘ یہ اڑ جائیں گے۔ ان کے پیروں میں وفا کی زنجیریں نہیں‘ ان کے جسموں پر ہرجائی پن کے بال و پر لگے ہیں۔ پارٹی تتر بتر ہو جائے گی۔
افسوس! پارٹی پر خاندانی اقتدار مسلط کرنے کے بجائے وزیراعظم پارٹی کی تہذیب و تربیت کو فوقیت دیتے‘ پارٹی اصولوں پر مستحکم کرتے‘ تو آج پارٹی نہ ٹوٹتی‘ مگر شخصی بنیادوں پر زندہ رہنے والی پارٹیاں شخصیت کے کمزور ہوتے ہی حصوں‘ بخروں میں بٹ جاتی ہیں۔ خاندان میں سے جانشین بننے والا‘ یا بننے والی‘ پارٹی کو ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔
وزیراعظم نے کراچی کا دورہ منسوخ کردیا۔ یہ آغاز ہے‘ دس جولائی کی شام کو سفیروں نے اپنے اپنے ملک کو رپورٹ بھیج دی۔ دنیا بھر کی حکومتیں جان گئیں کہ وزیراعظم کی پوزیشن خراب ہو گئی ہے۔ ریت پیروں تلے سے سرک رہی ہے۔ وزیراعظم بیرونی دوروں پر کیسے جائیں گے؟ دوسرے ملکوں کے سربراہوں کا کیسے سامنا کریں گے؟ اپنے ملک کے مختلف حصوں میں کیسے تشریف لے جائیں گے؟ صرف سازش کا الزام لگا کر کیسے بچیں گے؟ وفاقی وزیروں نے دس جولائی کی شام کوپریس کانفرنس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو ’’عمران نامہ‘‘ تو کہا‘ دھرنا نمبر تھری کا نام تو دیا مگر یہ نہ کہا کہ مریم بی بی دو کمپنیوں کی مالک نہیں ہیں اور وزیراعظم ایف زیڈ ای کمپنی کے مالک نہیں۔ ایک طرف سازش کا نعرہ ہے‘ دوسری طرف حقیقتیں ہیں۔ ثابت شدہ حقیقتیں۔
عمران خان نے کہا تھا ادارے تباہ کردیئے گئے۔ جو کچھ ایس ای سی پی کے چیئرمین نے کیا اور کرایا‘ جس طرح نیشنل بینک کا چیئرمین ملوث پایا گیا‘ اس سے عمران خان کا دعویً درست ثابت ہوا۔ جس میڈیا ہائوس پر وہ الزام لگاتا تھا‘ اسی میڈیا ہائوس کو عدالت نے توہین عدالت میں پکڑا ہے۔ اسی کے حوالے سے پوچھا ہے کہ حکومت نے کس کس کو کتنے کتنے اشتہار دیئے؟
رہے یہ ساٹھ دن جن کے دوران جے آئی ٹی نے رپورٹ تیار کی‘ ان ساٹھ دنوں نے ہمارے سیاست دانوں اور ہمارے میڈیا کو بری طرح اور پوری طرح 
برہنہ کردیا ہے۔ ثابت ہو گیا کہ ہمارے اہل سیاست کو متانت اور شائستگی سے دور کا 
بھی واسطہ نہیں‘ قصائی کی دکان سے لے کر زیرو زیرو سیون تک ہر ابتذال سے بھرا ہوا فقرہ لڑھکایا گیا۔ سننے والوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہو گیا کہ حکومت کے عمائدین حد درجہ خوشامدی ہیں اور خاندان پرست۔ مریم نواز کی جے آئی ٹی آمد پر جس کروفر کا مظاہرہ کیا گیا جس طرح شہریوں کو پہروں ٹریفک کے عذاب سے گزارا گیا‘ اس سے بادشاہوں کے زمانے لوگوں کی نظروں میں پھرنے لگے۔ شان و شوکت‘ جاہ و جلال‘ تزک و احتشام‘ حد تھی نہ حساب‘ امریکہ برطانیہ فرانس کے حکمران خاندانوں کی بیٹیاں اس طمطراق کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتیں۔
میڈیا پر کثیر تعداد توازن نہ برقرار رکھ سکی‘ بہت سے باڑ پھلانگ کر دوسری طرف چلے گئے۔ شاہی خاندان کے دفاع میں ایسی اسی تاویلات اور توجیہات پیش کی گئیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ مگر یہ طے ہے کہ عوام‘ جان گئے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ سننے والوں کو اور پڑھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ کون غیر جانب دار ہے اور کون وابستگان میں سے ہے۔ خود کسی کو احساس نہ ہو تو بات الگ ہے۔ وابستگی کا نشہ معمولی نشہ نہیں کہ اتر جائے۔ شاہی خاندان سے قربت‘ حکومتی تقاریب میں شرکت‘ ہم سفری‘ ہم نشینی‘ کیسی میٹھی اور خوش ذائقہ چوری ہے جو یہ طوطے کھا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ساکھ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ یہ لوگ تو شاہی خاندان سے رات دن پوچھتے ہیں    ؎
یہ عزت ہے یہ جاں ہے اس طرف ایماں پڑا ہے
تو پھر فرمائیے! سودا کہاں سے چاہتے ہیں؟
تیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا۔ ہمیشہ کے لیے عروج صرف اس بادشاہ کو ہے جس کے اقتدار کا نقارہ حشر کے دن بجے گا۔ 
لِمَنِ الْمُلکُ الْیَوْم! 
ِللَّہِ الوَاحِدِ القَہَّار!
کس کی ہے آج بادشاہی! کس کے پاس ہے مکمل اختیار؟ صرف اللہ کے لیے جو قہار ہے۔ قہار کی صفت کا بیان یہاں قابل غور ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں جو اپنے آپ کو مالک و رازق سمجھتے ہیں‘ وہ قہر کو بھول جاتے ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کو تاریخ کا ادراک ہوتا تو باعزت راستہ اپناتے جو مشورہ انہوں نے ببانگ دہل یوسف رضا گیلانی کو دیا تھا‘ اس پر خود بھی عمل پیرا ہوتے۔ قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ قصور وار نکل آیا تو ’’ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر گھر چلا جائوں گا۔‘‘ گھر چلے  جاتے تو عزت سادات رہ جاتی۔ انگریز اسے 
Face Saving
 کہتے ہیں۔ چہرہ بچ جانا غنیمت ہوتا ہے۔
مگر آہ! مفاد پرست وزیراعظم کو غلط مشورہ دے رہے ہیں۔ 
Beneficiaries
 کے اپنے مسائل ہیں۔ ان کی دیہاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ بادشاہ تخت سے اترا تو دربارداری ختم ہو جائے گی۔ وہ کب چاہیں گے کہ دربار داری ختم ہو۔ اپنے مفادات کے لیے صائب مشورہ کبھی نہ دیں گے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com