Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, July 26, 2017

کوئی ہے؟ جو سمجھائے!


نظم و نسق پاتال تک جا پہنچا ہے۔ ریاست اداروں سے چلتی ہے۔ ادارے معطل اعضا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بے بس! کارکردگی صفر سے کم۔
پیمرا کے سربراہ کے متعلق پرسوں جو کچھ عدالت عالیہ نے کہا‘ کیا اس کے بعد بھی حکمرانوں کی دوست نوازی کا دفاع کیا جاسکتا ہے؟ نہیں۔ مگر پھر بھی دفاع کرنے والے موجود ہیں۔ دلیل کوئی نہیں۔ ”میں اتفاق نہیں کرتا“، یہی واحد دلیل ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں طلوع ہوتا کہ ایک نہ ادارہ برسرعام برہنہ نہ ہو۔ ایک صاحب ولایت میں بوڑھوں کے لیے نرسنگ ہوم چلا رہے تھے‘ انہیں ریاست کے مرکزی بینک کا ڈپٹی گورنر لگا دیا گیا۔ کہا گیا کہ ان کے پاس فلاں ڈگری بھی ہے۔ کیا صرف ڈگری کی بنیاد پر مرکزی بینک کا دوسرا اہم ترین منصب دیا جاسکتا ہے؟ کیا تجربہ رکھنا ضروری نہیں۔ پھر نیشنل بینک آف پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ایس ای سی پی میں جو کچھ ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے مگر اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دانشور صحافی‘ لکھاری اس بدترین نظم و نسق کو بھی بہترین قرار دے سکتے ہیں۔ ثابت کرسکتے ہیں کہ نیشنل بینک‘ ایس ای سی پی اور لاتعداد دوسرے ادارے دوستوں‘ فرماں برداروں کو نہیں‘ بلکہ کرہ ¿ ارض کے لائق ترین افراد کو سونپے گئے ہیں۔ ظفر اقبال نے کہا تھا 
درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے
مگر یہاں معاملہ برعکس ہے۔ مایوسی نہیں‘ امید آنکھ مارتی ہے۔ تاریخ کے گزشتہ اوراق آنکھوں کے سامنے آتے ہیں اور پلٹتے ہیں۔ آخر کون سا زمانہ ہے جو شیخ مبارکوں سے خالی رہا۔ صفر کو ایک صد‘ شب تاریک کو روزِ روشن اور نحوست کو سعادت ثابت کرنے والے کب درباروں میں موجود نہ تھے۔ مگر امید پوچھتی ہے‘ وہ اب کہاں ہیں؟ اب کو تو چھوڑیے‘ اکبر کی آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا۔
وہ ”مقدس“ دستاویز جس نے مذہبی معاملات میں شہنشاہ کو مجتہدین اور علماءکرام سے برتر اتھارٹی دی تھی‘ شیخ مبارک ہی نے لکھی تھی۔
”اب جبکہ ہندوستان امن اور حفاظت کا گہوارہ اور انصاف اور فیض رسانی کا گڑھ بن چکا ہے‘ ہم بڑے علماءنے قرآن پاک کی اس آیت پر بہت غور کیا ہے: ”اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور اولی الامر کی۔“ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سلطان عادل کا مقام مجتہد سے برتر ہے۔ چنانچہ اگر مستقبل میں کسی مذہبی معاملے میں علما اور مجتہدین متفق نہ ہوئے تو شہنشاہ کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی رائے دے اور ہم فتویٰ دیتے ہیں کہ بادشاہ کی رائے پوری قوم کو قبول کرنا ہوگی۔“
یہ وہ وقت تھا جب ”اللہ اکبر“ کے نعرے کو سرکاری تقاریب میں خوب پذیرائی دی گئی اس لیے کہ یہ ذو معنیٰ تھا اور (نعوذ باللہ) اسے اکبر اور اس کے حواری‘ اکبر کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
اکبر گیا تو دین الٰہی بھی گیا اور شیخ مبارک کا نام تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک راتب خور‘ چاپلوس اور بے ضمیر دانشور کے سانچے میں فکس ہو گیا۔
حیرت و استعجاب اور ہنسی کے سوا کچھ نہیں بن پڑتا جب حکومتی عمائدین دعویٰ کرتے ہیں کہ ”ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ کر رکھ دی۔“ اگر پوچھا جائے کہ عساکر پاکستان نے جو کچھ کیا‘ اس کے علاوہ سول حکومت نے کیا کیا ایکشن لیے‘ ذرا نمبر وار گنوا دیجیے‘ تو آئیں بائیں شائیں ہونے لگتی ہے۔ کوئی ایک اقدام بھی سول حکومت کے دامن میں نہیں۔ وفاق میں جس ادارے نے وزارت داخلہ کے تحت کام کرنا تھا‘ وہ کہاں ہے؟ کیا کیا ہے اب تک؟ لاہور میں یہ عالم ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کی رو سے ”سیف سٹی پراجیکٹ“ کا منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ ہی نہیں سکا۔ اب تک صرف پندرہ سو کیمرے لگ سکے۔ فیروز پور روڈ پر پرسوں جو دھماکہ ہوا وہاں موجود چار سی سی ٹی وی کیمرے کام ہی نہیں کر رہے تھے۔
مذہب کے حوالے سے قائم تعلیمی اداروں تک کسی ادارے کی رسائی نہیں۔ یہاں کون رہ رہا ہے‘ کون آیا‘ کون گیا‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دہشت گرد آسمان سے نہیں ٹپکتے‘ اسی زمین پر ہیں‘ دوسرے ملک سے آئیں جب بھی مقامی تعاون کے بغیر بے دست و پا ہیں۔ انہیں دست و پا فراہم کرنے والوں کو تلاش کرنا اور کیفر کردار تک پہنچانا‘ سول حکومت کا کام ہے۔ گلیوں‘ مکانوں‘ بازاروں‘ تعلیمی اداروں میں ٹینک اور توپیں نہیں داخل ہوسکتیں۔ یہ انٹیلی جنس کا مسئلہ ہے‘ خفیہ اداروں کا کار منصبی ہے۔
تین ہزار پولیس کے جوان‘ صوبائی دارالحکومت میں شاہی محلات پر پہرے دے رہے ہیں‘ سینکڑوں گاڑیوں کے ساتھ! پولیس کا صوبائی سربراہ ریٹائر ہوا‘ اس کی جگہ کسی کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ عدالت نے دخل دیا تو ایسے افسر کو لگا کر‘ جو تین ماہ بعد ریٹائر ہورہا تھا‘ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ سربراہ کیوں نہیں تعینات کیا جاتا؟ اس لیے کہ خوش نیتی مفقود ہے۔ پولیس کا سربراہ نہیں‘ غلام چاہیے اور وفادار ترین غلام ڈھونڈنے میں وقت تو صرف ہوتا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے پولیس کے صوبائی سربراہ کے اختیارات سلب کر کے پوری فورس کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ وفاق کا فرض تھا کہ اپنی اتھارٹی اجاگر کرتا اور اس حرکت پر حرکت میں آتا مگر خاموشی ہے‘ اس لیے کہ اگر سندھ حکومت کو کچھ کہے گا تو وہ پنجاب کی طرف اشارہ کرے گی کہ وہاں جو کچھ ہورہا ہے‘ کیا نظر نہیں آرہا؟ اس لیے خاموشی ہی حکومت کرنے کا اور وقت گزارنے کا بہترین اسلوب ہے۔ تم ہماری طرف انگلی نہ اٹھاﺅ‘ ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے۔ رہے عوام تو وہ اپنی حفاظت خود کریں۔
جس ملک کے اندر بدانتظامی عروج پر ہو‘ اسے ملک سے باہر کون اہمیت دے گا؟ پرکاہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ ترکی قطر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے مگر سعودی عرب کی حکومت ترکی کے صدر کو پھر بھی سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے‘ اس لیے کہ ترک حکومت کے سربراہ پر کوئی مقدمہ نہیں چل رہا‘ اس نے دوران صدارت کسی دوسرے ملک سے اقامہ نہیں لیا‘ وہ ملزم نہیں! جس ملک کا وزیراعظم اور وزیراعظم کا پورا خاندان کٹہرے میں کھڑا ہو‘ الزامات کی بھرمار ہو‘ اس ملک کو اتنی ہی تکریم ملے گی جس کا وہ حقدار ہے۔
سربراہ مملکت کا اولین فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد اٹھتے بیٹھتے عمائدین و امرا میں سے درست مشورہ دینے والوں کا انتخاب کرے اور ان لوگوں سے احتراز کرے جو اس کی ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہتے ہیں۔
گیارہویں صدی عیسوی میں ایک ایرانی امیر نے اپنے فرزند گیلانی شاہ کے لیے ایک کتاب لکھی جس میں حکومت کرنے کے آداب تحریر کیے۔ اس نے اس کتاب کا عنوان قابوس نامہ رکھا۔ مشرقی ادب میں ایسی کئی تصانیف ہیں جو جہاں بانی کے طریقے سکھاتی ہیں۔ جو سربراہان مملکت ادراک اور شعور رکھتے ہیں اور معاملات کی گہرائی میں جاتے ہیں‘ وہ ہمیشہ ایسے نسخہ ہائے عقل کو اپنی میز پر اور اپنے تکیے کے نیچے رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ قابوس نامہ کا مصنف ایک جگہ پر ملک کے سربراہ کوکہتا ہے:
”ہر شخص کے لیے کوئی نہ کوئی کام پیدا کر۔ انہیں اپنے کاروبار پر جانے سے نہ روک تاکہ جو نفع کاروبار سے حاصل ہو اسے وہ قسطوں میں خزانہ عامرہ میں جمع کراسکیں اور بے خوف زندگی گزاریں۔ جو خزانہ داری کے قابل نہ ہو اسے خزانہ دار نہ بنا۔ ہر کام ہر شخص کو نہیں دینا چاہیے تاکہ طعن کرنے والے کی زبان تم پر نہ کھل سکے اور تیرے انتظام میں خلل نہ پیدا ہو‘ کیونکہ جب تو کسی کو کوئی منصب دینا چاہے گا تو وہ شخص خواہ کام نہ بھی جانتا ہو‘ منصب کے لالچ میں سچ نہیں کہے گا اور کام کرنا شروع کردے گا جس کا نتیجہ فساد کی صورت میں نکلے گا۔کام‘ کام کے مستحق کے سپرد کرتا کہ دردِ سر سے بچے۔“
اس کے بعد جو کچھ کہتا ہے‘ کاش ہمارے حکمران اسے سمجھ سکیں:
”اگر تو سمجھتا ہے کہ کسی خاص شخص پر عنایت کرنی چاہیے تو بغیر منصب بھی اسے نعمت و حشمت اور اعزاز دیا جاسکتاہے۔ یہ اس سے اچھا ہے کہ اسے ایک ایسا منصب دیا جائے جس کا وہ مستحق نہیں اور جس سے محض تیری نادانی کا اظہار ہو۔“
یعنی ہزار سال پہلے بھی لوگوں کو معلوم تھا کہ نااہل کو منصب دینے کا مطلب ہے منصب عطا کرنے والا نادان ہے۔ پھر اگر حکمران کے پاس اپنے کاروبار‘ کارخانوں‘ فیکٹریوں‘ جائیدادوں اور پراپرٹی کی وسیع و عریض ایمپائر ہو جو اندرون ملک سے لے کر دساور تک پھیلی ہوئی ہو‘ تو عنایت کرتے وقت نااہل کی تعیناتی وہاں کیوں نہیں کی جاتی؟ اسے ریاستی ادارہ ہی کیوں سونپا جاتا ہے؟ اگر کسی کے پاس نرسنگ ہوم چلانے کا تجربہ ہے تو حکمرانوں کی ذاتی ایمپائر میں ہسپتال بھی موجود ہیں‘ اسے وہاں مامور فرمائیے۔ خزانہ آپ کے تصرف میں ہے۔ بیوروکریسی موم کی ناک ہے‘ اعتراض نہیں کرے گی۔ نااہل کا منہ بے شک موتیوں سے بھر دیجیے۔ اسے چاندی یا سونے میں تلوا دیجیے مگر خدا کے لیے ایک بار! صرف ایک بار!! ریاستی ادارے پر اسے بٹھائیں گے تو گویا آپ نے ترازو اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اب وہ دوسروں کو سونے چاندی میں تلواتا پھرے گا۔ خمیازہ آپ بھگتیں گے۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ‘ اس لیے کہ یہ اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے: ”امانتیں ان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔“

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com