تحریر میں کبھی کبھی کچھ تاریخی حوالے در آتے ہیں۔ ایسا غیر اختیاراتی طور
پر ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے کوئی ایسا تاریخی واقعہ یا حوالہ ذہن میں کوندنے لگتا ہے جو رواں صورت حال سے مشابہ نظر آتا ہے۔ کچھ عرصہ سے قارئین‘ انفرادی ای میلوں اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کے ذریعے تقاضا کر رہے ہیں کہ مطالعہ کے لیے کتابیں تجویز کی جائیں۔ شروع شروع میں کچھ حضرات کو جواب دیئے اور فرمائشوں کی تکمیل کی مگر لگتا ہے کہ یہ سلسلہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ استفسارات کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ کچھ گفتگو کتابوں کے ضمن میں کی جا رہی ہے۔
یہاں یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ کتابوں پر گفتگو کرنے اور کچھ موضوعات پر کتابیں تجویز کرنے کا مطلب کتاب دانی کا دعویٰ ہرگز نہیں۔ یہ سمندر ہے جس کا مکمل پیراک مشکل ہی سے ملے گا۔ بہت سے احباب کو اس سلسلے میں کالم نگار کی نسبت زیادہ اور کچھ کو بہت زیادہ معلومات حاصل ہوں گی۔ بہرطور‘ یہ تجاویز بہت سے قارئین کے لیے نئی بھی ہوں گی۔
برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے ابراہام ایرالی نے خوب کام کیا ہے۔ ابراہام کیرالہ میں پیدا ہوا۔ مدراس (موجودہ چنائی) پڑھاتا رہا۔ کچھ عرصہ مغربی ممالک کی کچھ بڑی یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ رہا۔ وصف یہ ہے کہ ہندوئوں کی طرف داری کرتا ہے نہ مسلمانوں کی۔ تحقیق اس نے بہت کی ہے اور جم کر گہرائی سے کی ہے۔ ’’مغل تھرون‘‘ اور ’’ہسٹری آف دہلی سلطانیٹ‘‘ اس کی معروف تصانیف ہیں۔ تاریخ یوں لکھتا ہے جیسے واقعات پڑھنے والے کی نظروں کے سامنے پیش آ رہے ہوں۔ تیسری کتاب جو اس کی پڑھنی چاہیے ’’انڈیا‘ پیوپل‘ پلیس‘ کلچر‘ ہسٹری‘‘ ہے۔ جس میں اجتماعی اور عمرانیاتی پہلوئوں پر اس نے خوب بحث کی ہے۔ جو حضرات زیادہ تفصیل میں جانا چاہتے ہیں وہ ایک تو ڈاکٹر برنیئر
(Bernier)
کا سفرنامہ ضرور پڑھیں۔ برنیئر فرانس کا ڈاکٹر تھا۔ پہلے داراشکوہ کا پرسنل فزیشن رہا پھر اورنگزیب سے وابستہ ہو گیا۔ 1665ء میں اورنگزیب کشمیر گیا تو برنیئر اس کے ساتھ تھا۔ دوسرے‘ اکبری دربار کے مشہور سکالر ابوالفضل نے فارسی زبان میں جو ’’اکبر نامہ‘‘ تصنیف کیا تھا‘ اس کا انگریزی ترجمہ چار جلدوں میں ’’مورتی کلاسیکل لائبریری آف انڈیا‘‘ نے شائع کر دیا ہے۔ اس میں فارسی متن بھی موجود ہے۔ شیر شاہ سوری پر جس قدر تحقیق ہندو مورخ کالکارنجن قانون گو نے کی ہے‘ کسی اور نے شاید ہی کی ہو۔ وہ معروف مورخ جادو ناتھ سرکار کا شاگرد خاص ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ مسلم ہسٹری کی طرف اسے اس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سہروردی صاحب نے راغب کیا۔ انیس سال تحقیق کرنے کے بعد اس نے ’’شیرشاہ اینڈ ہز ٹائمز‘‘ لکھنے میں دس برس صرف کیے۔ انگریزی میں اصل کتاب اس کالم نگار کو تلاش کے باوجود نہیں ملی۔ اردو ترجمہ (شیر شاہ سوری اور اس کا عہد) میسر ہوگیا۔
برصغیر پاکستان و ہند کے حوالے سے دو مزید کتابیں بھی دلچسپ ہیں۔ پنجاب۔ اے ہسٹری فرام اورنگزیب ٹو مائونٹ بیٹن‘ مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے لکھی ہے۔ دوسری کتاب معروف بھارتی مصنف شاشی طرور کی ہے جس کا عنوان ’’این ایرا آف ڈارک نس‘‘ ہے۔ اس کتاب کا موضوع وہ ظلم ہے جو برطانوی سامراج نے برصغیر کے ساتھ کیا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے شاشی کا اپنا نکتہ نظر ہے جس سے اتفاق مشکل ہے۔ مگر جس طرح منظم انداز کے ساتھ اس نے انگریزی عہد کے استحصال اور خود غرضی کا ٹھوس حقائق کی مدد سے تجزیہ کیا ہے‘ وہ حد درجہ دلچسپ ہے اور قابل تحسین بھی! اس سے پہلے اس موضوع پر کالم نگار نے قابل ذکر کتاب جو پڑھی تھی‘ اس کا نام ’’کمپنی کی حکومت‘‘ ہے۔ یہ باری علیگ نے لکھی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اب بازار میں کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ خواہش ہے کہ اپنی حقیر نام نہاد لائبریری میں ایک نسخہ اس کا بھی ہو۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جس طرح سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا‘ پھر اردن‘ اسرائیل وغیرہ کی ریاستیں وجود میں آئیں‘ اس پر دو کتابیں مبسوط ہیں اور دوسرے ذرائع سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ ایک سین مک میکن
Sean Mcmeekin
کی تصنیف ’’دی آٹو مان اینڈ گیم‘‘ ہے۔ یہ کتاب 2015ء میں چھپی ہے۔ دوسری کتاب نسبتاً پرانی ہے مگر معرکہ آرا کتاب ہے۔ یہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے جارج لینس زوسکی
(Lenc Zow Ski)
کی تصنیف ’’مڈل ایسٹ ان ورلڈ افیئرز‘‘ ہے۔ لینس زوسکی نے یہ 1952ء میں لکھی تھی۔ پھر وہ وقتاً فوقتاً تازہ ترین حقائق کے ساتھ اس پر نظرثانی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ 2000ء میں امریکہ میں اس کا انتقال ہوگیا۔
ولیم ڈال ریمپل
(William Dal Rymple)
یاد آ گیا۔ وہ کبھی لندن رہتا ہے کبھی دہلی۔ اس کی کتاب وائٹ مغلز
(Whit Mughals)
بظاہر تو ایک انگریز افسر اور ایک حیدر آبادی مسلمان خاتون کے معاشے کی حقیقی کہانی ہے مگر اصل میں سیاست‘ معیشت اور سفارت کاری کے میدان میں انگریزوں نے جو سلوک مقامی حکمرانوں کے ساتھ کیا‘ اس کا تجزیہ بھی ہے۔ ’’دی لاسٹ مغل‘‘ میں ڈال ریمپل نے 1857ء کی جنگ آزادی اور مغل سلطنت کے خاتمے کا حال بیان کیا ہے اور اکثر و بیشتر حوالے مسلمانوں‘ ہندوئوں اور انگزیوں نے روزنامچوں سے لیے ہیں۔ تیسری اہم کتاب اس نے پہلی افغان برٹش لڑائی پر لکھی ہے۔ اس کا نام ’’ریٹرن آف اے کنگ‘‘ ہے۔ اس کے ذرائع اور منابع بھی ذاتی ڈائریوں پر مشتمل ہیں۔ افغان نفسیات کو سمجھنے میں یہ تحقیقی تصنیف بہت مدد فراہم کرتی ہے۔
فارسی شاعری کے حوالے سے بھی قارئین سوالات کرتے ہیں۔ اس میدان کے ماہر تو دوست گرامی پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں جو اس سمندر کے شناور ہیں۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں شعبہ فارسی کے سربراہ تھے۔ اب ان کی خدمات
Lums
نے حاصل کر لی ہیں۔ یہ کالم نگار تو فارسی شاعری کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔ سکول کالج یونیورسٹی میں تو فارسی پڑھی نہیں۔ جد
امجد اور والد گرامی کے دستر خوان سے بچے ہوئے چند ریزے اپنا کل سرمایہ ہیں۔
اب یہ احساس اذیت دیتا ہے اور مسلسل اذیت دیتا ہے کہ جب گھر میں دریا بہہ رہا تھا تو فیض کیوں نہ اٹھایا۔
رومی کی غزلیات (دیوان شمس تبریز) اور قا آنی کے قصائد مسلسل زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ دیوان شمس تبریز کی غزلیات کا اپنا ذائقہ ہے جو دوسری دنیائوں کا پتہ دیتا ہے۔ قا آنی کے قصائد لغت کا دریا ہیں۔ ایسا دریا جس کا کنارا تاحد نظر نہیں دکھائی دیتا۔ فیضی کی غزلیات اب نایاب ہیں۔ کالم نگار کے پاس ایک فوٹو کاپی نسخہ ہے۔ فیضی میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہے اور یہ بات ڈاکٹر معین نظامی کو ہرگز پسند نہیں۔ اپنے چوتھے شعری مجموعے ’’پانی پہ بچھا تخت‘‘ کے آغاز پر جب میں نے فیضی کا یہ شعر لکھا ؎
من دفتر کون و مکان یک یک مفصل دیدہ ام
اوراق تقویم فلک جدول بہ جدول دیدہ ام
تو حضرت نے مذاق اڑایا‘ بدلہ لینے کی ایک ہی صورت ہے کہ بس چلے تو ایم اے فارسی کے نصاب میں فیضی کی ساری میسر تصانیف شامل کروا دی جائیں تاکہ نظامی صاحب کو پڑھانی پڑیں! جو اصحاب فارسی نہیں جانتے مگر فارسی ادب سے آشنائی کے خواہش مند ہیں انہیں شبلی کی شعرالعجم کا مطالعہ کرنا چاہیے جو پانچ جلدوں میں ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل‘ پروفیسر برائون کی تصنیف ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ بھی فارسی ادب کا ذائقہ بہت حد تک چکھا دیتی ہے۔ برائون نے یہ کتاب لکھنے میں ربع صدی لگا دی۔ جا بجا شبلی (شعرالعجم) کے حوالے دیتا ہے۔ یہ اور بات کہ علامہ اقبال برائون سے متاثر نہیں تھے۔ یہ بات ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی تصنیف ’’حیات اقبال عہد بہ عہد‘‘ پڑھ کر معلوم ہوئی۔
اب کچھ منتشر خیالات! یہ کالم نگار مولانا محمد حسین آزاد کا زبردست فین ہے۔ محب گرامی جناب اکرام چغتائی کا مجموعہ مقالات (مطالعہ آزاد) خاصے کی شے ہے۔ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد علم اور کتابوں کے کس قدر شائق تھے اور اس راستے میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں۔ جناب اکرام چغتائی کا وجود طالبان علم کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ وہ جرمن زبان کے ماہر ہیں۔ متعدد بار آسٹریا اور جرمنی جا چکے ہیں۔ انہیں آسٹریا کی حکومت نے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ لمحہ موجود میں وہ علامہ محمد اسد پر مستند اتھارٹی ہیں۔ اسد پر ان کی تصانیف نصف درجن کے قریب ہیں جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد اسد بندۂ صحرائی (اردو)‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی (اردو) ’’اسلام کی خدمت میں یورپ کا تحفہ‘‘ (دو جلدوں میں بزبان انگریزی)۔ ’’ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ محمد اسد کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے۔ (پہلا دی روڈ ٹو مکہ ہے)۔ اس دوسرے حصے کو چغتائی صاحب نے مرتب کیا ہے اور حواشی کا اضافہ کیا ہے۔ چغتائی صاحب تحقیق کے ان ثقہ علما میں سے ہیں جو خاموشی سے‘ کام کرتے رہتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا! ان کا ہر کام لائق تحسین اور علمی دنیا میں قابل قدر اضافہ ہے۔
’’امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ اس کالم نگار کی پسندیدہ کتاب ہے۔ یہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی تصنیف ہے۔ اس میں امام ابو حنیفہؒ کو ان کے علم و تفقہ سے قطع نظر‘ اس عہد کی سیاست (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
کے نکتہ نظر سے جانچا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں شبلی کی سیرت النعمان پڑھ کر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
حسین ہیکل کی تصنیف ’’عمرفاروق اعظمؓ ‘‘ کا جو ترجمہ حکیم حبیب اشعردہلوی نے کیا ہے وہ کمال کا ترجمہ ہے۔ ایسا ترجمہ جو طبع زاد سے بڑھ کر ہے۔ ادب کی چاشنی‘ اسلوب کی مٹھاس اور زبان پر حد درجہ مضبوط گرفت۔ اس ترجمہ کو اردو ادب کے نکتہ نظر سے بھی ضرور دیکھنا چاہیے۔ کتاب کا کچھ اور حضرات نے بھی ترجمہ کیا ہے مگر سخت پھیکا اور حوصلہ شکن۔
اس کالم نگار کو فکشن پڑھنے کا بھی شوق ہے مگر صرف وہ کتابیں جو شہکار ہیں۔ بورس پاسترناک کا ڈاکٹر زواگو کئی بار پڑھا۔ ہر بار نیا لطف آیا۔ پاستر ناک کی پچاس نظمیں درد میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
گبرائیل گارسیا مارکوئز کا ناول
Love in the Times of Cholera
پڑھا تو ایک عرصہ ہانٹ کرتا رہا۔ انگریزی میں ترجمہ کمال کا تھا۔ مترجم کا نام یاد نہیں۔ ناولوں کا تذکرہ الگ مضمون چاہتا ہے۔
یہ ایسا راستہ ہے جس کی سمت ہے نہ کنارا۔ کیا کلاسیکل اور کیا جدید‘ ہر عہد کی تصانیف میں ایسے ایسے جواہر دبے پڑے ہیں کہ طالب علم کو عمر نوح چاہیے۔ اردو شاعری‘ تاریخ‘ پانچوں فقہ کا تقابلی مطالعہ‘ فارسی کی جدید‘ ہم عصر شاعری‘ بین الاقوامی تعلقات‘ ہر طرف چمنستان کھلے ہیں۔ حد ہے نہ انت! مگر بات یہ ہے کہ ع
دو دن کی زندگانی میں کیا کیا کرے کوئی!
No comments:
Post a Comment