اسلم سومرو ایک مغربی ملک میں مقیم ہے۔ اکثریت اس ملک میں سفید فام باشندوں کی ہے۔ اسلم کا رنگ گندمی بلکہ ذرا سا مائل بہ سیاہی ہے۔ گویا رنگت کے اعتبار سے وہ اکثریت سے نہیں‘ اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔
مذہباً وہ مسلمان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد تین چار فیصد سے زیادہ نہیں۔ غالب اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس حوالے سے بھی اسلم اقلیت کا رکن ہے۔
رنگ اور مذہب کو چھوڑ کر‘ اگر ثقافت کا پوچھا جائے تو اس پہلو سے بھی اسلم کا اکثریت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ناچ گھر جاتا ہے نہ شراب پیتا ہے۔ سو ¿ر کا گوشت بھی نہیں کھاتا۔ گھر سے باہر کھانا کھانا ہو تو حلال ریستوران تلاش کرتا ہے یا کسی انڈین ریستوران میں دال سبزی کھا لیتا ہے۔ وہ اکثریت کے تہواروں سے بھی عملاً لاتعلق رہتا ہے۔ عیدین‘ محرّم اور میلاد اس کے ثقافتی مواقع ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حوالے سے بھی وہ اقلیت میں ہے تو غلط نہ ہو گا۔
مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود اسلم کی شناخت اس ملک میں اقلیت کے حوالے سے نہیں! اسے کبھی کسی نے نہیں باور کرایا کہ تم یہاں اقلیت سے تعلق رکھتے ہو۔مذہب ‘ رنگ ثقافت ہر لحاظ سے اکثریت سے الگ ہونے کے باوجود کسی فارم ‘کسی شناختی کارڈ‘ کسی دستاویز‘ کسی کاغذ پر اسے اقلیت نہیں کہا جاتا۔ ا س کے وہی حقوق ہیں جو اکثریت کے ہیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں اپنے شعبے کا سربراہ ہے۔ شہر کے اس حصے میں رہتا ہے جہاں رہائش گاہیں بڑی بڑی ہیں اور علاقہ امرا کا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں اس کا اپنا مکان ہے!
اس کے مقابلے میں مسلمان ملکوں کے اندر بالکل مختلف رویّے دیکھنے میں آتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی مسلمان وسائل کے اعتبار سے خوشحال ریاستوں میں غیر ملکی مسلمانوں کو اقلیت تو نہیں کہا جاتا مگر عملاً سلوک ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر کیا جاتا ہے۔وہ اپنے نام سے کوئی تجارتی سرگرمی دکھا سکتے ہیں نہ کوئی مکان دکان جائیداد ہی ان کے نام پر منتقل ہو سکتی ہے یہاں تک کہ ٹیکسی چلائیں تو وہ ٹیکسی بھی کسی مقامی کفیل کے نام پر رجسٹرڈ ہو گی!ان غیر ملکی مسلمانوں کے پاسپورٹ عام طور پر کفیل کے قبضے میں ہوتے ہیں۔لاتعداد ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ غیر ملکی مسلمان کا قریبی عزیز پیچھے وطن میں انتقال کر گیا مگر وہ اس کے جنازے پر پہنچ سکا نہ ہی تعزیت کے لیے آ سکا کیونکہ پاسپورٹ کفیل کے پاس تھا اور کفیل ملک سے باہر تھا!
پاکستان میں صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں کی غیر مسلم آبادی رنگ نسل اور ثقافت کے حساب سے اکثریت جیسی ہی ہے۔ زبان بھی وہی بولتی ہے۔ لباس بھی وہی ہے۔ کھانا بھی تقریباً ایک جیسا ہے۔ مگر چونکہ مذہب مختلف ہے اس لیے اس کے ماتھے پر اقلیت کا نشان کُھدا ہے۔ اسے جو الفاظ دن میں کئی بار سننے پڑتے ہیں وہ کچھ اس قبیل کے ہیں۔اقلیتوں کے حقوق‘ اقلیتوں کی تعداد‘ اقلیتوں کی حفاظت اور بہت سے دوسرے! یہ غیر مسلم‘ ووٹ بھی صرف اپنے ہم مذہب کو دینے کا پابند ہے! اس کے برعکس ‘ مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمان‘ غیر مسلم‘ سفید فام باشندوں کے ووٹ لے کر منتخب اداروں میں براجمان ہیں! برطانیہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج ‘ کسی بھی مسلمان ملک کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں یہ اور بات کہ آنکھیں کھولنے کے لیے آنکھوں کا ہونا ضروری ہے۔
حکومتی پارٹی کے ایک ممتاز رکن نے حال ہی میں عمران خان پر ”الزام“ لگایا ہے کہ اس نے رفاہی سرگرمیوں کے لیے ”غیر مسلموں“ سے چندہ لیا ہے! گویا آپ نے کوئی ہسپتال سکول یا فلاحی ادارہ قائم کرنا ہے تو غیر مسلم ”اقلیت“ کو اپنی مالی خدمات پیش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے! خوب! بہت خوب! اس سے اگلا قدم یہ ہو گا کہ وہ ان فلاحی ہسپتالوں یا تعلیمی اداروں سے فائدہ اٹھانے کے اہل بھی نہیں! اس اندازِ فکر پر غور کیجئے! کیا اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور بودی بات کوئی ہو سکتی ہے کہ اپنے ہی ملک کے شہری کو‘ جس کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر اس کی قومیت”پاکستانی“ درج ہے‘ ایک ہسپتال کی تعمیر کے لیے چندہ دینے سے روک دیا جائے۔ اُسے کبھی اقلیت کہا جائے کبھی غیر مسلم کا نام دیا جائے‘ اسے کبھی اقلیت کہا جائے کبھی غیر مسلم کا نام دیا جائے۔ کیا ترقی یافتہ ملکوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو کسی نے ”نان کرسچین“ یا غیر عیسائی کے نام سے پکارا ہے؟
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں صرف دو اقلیتیں ہیں! پہلی اقلیت خوش نصیب ہے۔ یہ طبقہ ¿ بالا پر مشتمل ہے۔ اس میں جاگیردار‘ سردار‘ وڈیرے ‘ زمیندار‘ اور اربوں کھربوں میں کھیلنے والے صنعت کار شامل ہیں۔ یہی افراد سیاست میں دخیل ہیں۔ منتخب قومی اور صوبائی اداروں میں انہی کی اکثریت ہے۔ یہ مختلف سیاسی جماعتوں میں ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں‘ قبیلوں اور خاندانوں کے اعتبار سے جُڑے ہوئے ہیں۔اسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد وزیر بنتے ہیں اور ہر حکومت میں عمائدین اور امرا میں شامل ہوتے ہیں۔ ہالہ کے مخدوم ہوں یا بلوچستان کے سردار‘ یا ملتان کے گدی نشین‘ یا جھنگ کے پیر یا کے پی کا سیف اللہ یا ولی خاندان‘ یا گجرات کے چوہدری‘ یا رائے ونڈ کے شریف یا جنوبی پنجاب کے لغاری‘ مزاری اور کھوسے‘ یہ سب اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو اس ملک پر ستر سال سے حکومت کر رہی ہے! وزارتوں اور اسمبلیوں پر قابض ہے۔ یہ اپوزیشن میں ہوں تب بھی عملی طور پر مقتدر ہی رہتے ہیں۔
بالائی طبقے پر مشتمل اس خوش بخت اقلیت میں دو مزید اکائیاں شامل ہو گئی ہیں۔ ایک وہ مذہبی رہنما جو سیاست میں ہیں اور مذہب کو سیاست کے لیے خوب خوب استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں کا طرزِ زندگی اور معیارِ حیات اتنا ہی شاہانہ اور مراعات یافتہ ہے جتنا اس طبقے کے دوسرے ارکان کا۔ دوسری اکائی اس طبقے میں تاجروں بنکاروں اور مخصوص میڈیا کی شامل ہوئی ہے یہ لوگ بھی اب مراعات یافتہ طبقے کے کندھے سے کندھا رگڑتے ہیں اور اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت کرتے پھرتے ہیں۔ اس طبقے پر‘ اکثر و بیشتر‘ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تھانے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ شہر اور قصبے ہوں یا صوبائی اور وفاقی دارالحکومت ‘ یہ بادشاہوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔ ٹریفک کا ضابطہ اگر ان پر کوئی لاگو کرنے کی کوشش کرے تو منہ کی کھاتا ہے‘ ایئر پورٹوں پر جب عام شہری قطاروں میں کھڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں یہ‘ پروٹوکول افسروں کے جلو میں ‘ فرعونوں کی طرح اکڑ کر‘ وی آئی پی لاﺅنجوں سے گزرتے‘ باہر آ جاتے ہیں! اسلحہ کے قوانین ہوں یا ٹیکس کے یا درآمد برآمد کے‘ یا تعمیرات کے‘ ان پر کسی کا اطلاق نہیں ہوتا!
دوسری اقلیت اس ملک کی مڈل کلاس کا وہ بدقسمت طبقہ ہے جو اپنی ذہانت محنت اور دیانت داری کے طفیل‘ بالائی طبقہ کے نالائق اور بیساکھیوں پر چلنے والے سپوتوں کی نسبت کہیں زیادہ کامیاب ہے۔ یہ معزز پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ہیں اور انجینئر‘ سائنس دان ہیں اور پروفیسر‘ وکیل ہیں اور بیرون ملک کی مشہور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان! انہی میں سی ایس ایس کے افسران بھی ہیں جو عام خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف اور صرف مقابلے کی بنیاد پر اوپر آئے ہیں! مڈل کلاس کا یہ بدقسمت طبقہ جب اپنے حقوق‘ اپنی اہلیت کے تناسب سے مانگتا ہے تو اسے منہ کی کھانا پڑتی ہے کیونکہ حقوق دینے والے‘ اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو بالائی طبقے پر مشتمل ہے۔ یہ سفارش کے بغیر حق‘ حقدار کو نہیں دیتے۔ چنانچہ جو حق مڈل کلاس کا ہے‘ وہ یہ بالائی طبقہ اپنے طبقے کے بدشکلے اور بے عقلے نوجوانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ اس ظلم اور دھاندلی سے تنگ آ کر‘ مڈل کلاس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دوسرے ملکوں کو ہجرت کر جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ سارے پاکستانی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ ڈاکٹر ‘انجینئر ‘ سائنس دان اور پروفیسر ہیں‘ بیرون ملک سے واپس آ جائیں تو کیا اپنی اہلیت کی رو سے پذیرائی پائیں گے؟ نہیں! بالکل نہیں! کئی حب الوطنی کے شوق میں بیرونِ ملک سے واپس آئے۔ مگر سرخ فیتے اور پیچ در پیچ مکروہ سفارشی نظام سے اکتا کر‘ واپس چلے گئے۔
یہاں کے حکمران‘ اُن افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو ”اپنے“ ہوں اور ان کے نام اُن چٹوں پر درج ہوں جو ان کی جیبوں میں رکھی ہوتی ہیں۔ اِس میرٹ کُشی میں‘ اس بندر بانٹ میں‘ نام نہاداپوزیشن کے سیاست دان بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لین دین”بھاجی“ اور ”باہمی تعاون“ کے سوا کچھ نہیں!
آپ جے آئی ٹی کے ارکان پر غور کیجئے۔ سارے مڈل کلاس سے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ! اب حکومت ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے کہ انہیں اپنے کئے کا مزا چکھایا جائے۔ اگر یہ حکمرانوں کے رشتہ دار ہوتے یا جاگیردار یا سردار‘ تو کوئی ان سے بدلہ لینے کا سوچ بھی نہ سکتا!
خدا کے بندو! چند گنے چنے غیر مسلموں کے پیچھے نہ پڑو! ان پر اقلیت کی چھاپ نہ لگاﺅ! اقلیتیں تمہارے ہاں صرف اور صرف دو ہیں! ایک وہ جو تمہاری گردنوں پر مسلّط ہے۔ دوسری وہ جو کچھ بیرون ملک جا چکی ہے اور کچھ ڈگریاں
لیے‘ غیر ملکی سفارت خانوں کے
سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں-
No comments:
Post a Comment