Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, July 23, 2017

یا نفاق! تیرا ہی آسرا

بھارتی نژاد سینو گپتا اپنے شوہر کے ساتھ لندن زیر زمین ریل میں سفر کر رہی تھی۔ گود میں تین ماہ کی بیٹی تھی۔ ریل ایک اسٹیشن پر رکی۔ ایک شخص سوار ہو کر‘ سینو گپتا کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے عورت سے مخاطب ہو کر کہا ’’تمہاری بچی یقینا خوبصورت ہے۔‘‘ پھر وہ ذرا ہٹ کر دوسرے مسافروں کے ساتھ کھڑا رہا۔ ایک ہاتھ سے اس نے چھت کے قریب والے ڈنڈے کو پکڑ رکھا تھا۔ سینو گپتا نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جو ہمارے بچے کی تعریف کر رہا تھا۔ شوہر نے بتایا کہ یہ برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔ بیوی نے سمجھا مذاق کر رہا ہے۔ شوہر نے سنجیدگی سے کہا کہ واقعی یہ وزیراعظم ہے۔ اس پر سینو گپتا سے نہ رہا گیا۔ وہ وزیراعظم کیمرون کے پاس گئی اور پوچھا۔ معاف کیجیے‘ کیا آپ وزیراعظم ہیں؟ اس نے جواب دیا‘ ہاں! سینو گپتا کی ہنسی نکل گئی۔ پھر اس نے وزیراعظم سے سوال پوچھنے پر معذرت کی۔ جنوبی ایشیا میں کوئی وزیراعظم‘ ٹرین میں کھڑا ہو کر سفر نہیں کرتا۔ کیمرون نے وضاحت کی کہ اس کا ٹائم ٹیبل بہت سخت اور مصروفیت سے اٹا ہوا ہے۔ ٹرین میں اس لیے سفر کررہا ہے کہ کار کی نسبت یہ جلد پہنچا دے گی۔ ساتھ صرف ایک باڈی گارڈ تھا۔
ایک بار وزیراعظم کیمرون نے ایک سو چالیس میل کا سفر فوجی ہیلی کاپٹر سے کیا۔ اس پر وہ شور مچا جیسے برطانیہ کا خزانہ اس سفر سے خالی ہو گیا تھا۔ اس دن صبح سویرے کی ایک تصویر پہلے ہی وائرل ہو چکی تھی جس میں وزیراعظم نے اپنی بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور اسے نرسری کلاس میں چھوڑنے جا رہے تھے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے لنکن میں ایک فیکٹری کے مزدوروں سے ملاقات کرنا تھی۔ وہ ٹرین سے جانے کے بجائے فوجی ہیلی کاپٹر میں گئے۔ مگر میڈیا میں شدید اعتراضات ظاہر ہوئے۔ حساب کرکے بتایا گیا کہ ٹرین میں جاتے تو ایک گھنٹہ زیادہ صرف ہوتا اور کرایہ 67 پائونڈ لگتا۔ فرسٹ کلاس کا ٹکٹ 120 پائونڈ کا ہوتا۔ اس کے بجائے وزیراعظم ہیلی کاپٹر پر گئے جس پر بارہ ہزار پائونڈ خرچ ہو گئے۔ میڈیا نے طعنے دیئے کہ اگر اس دن گرمی زیادہ تھی تو دوسرے مسافر بھی تو ٹرین ہی میں سفر کر رہے تھے۔ اس پر وزیراعظم کے ترجمان کو لمبی چوڑی تشریح کرنا پڑی اور بہت سے تیکھے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
فرانس کے صدر ہولاندے ملک میں کہیں بھی جانا ہو‘ ٹرین استعمال کرتے رہے۔ جب یورپی سربراہوں کی کانفرنس اٹنڈ کرنے کے لیے انہیں پیرس سے برسلز جانا تھا‘ تب بھی ٹرین کے ذریعے گئے۔ برسلز کے اس سفر پر تقریباً چھ ہزار یورو صرف ہوئے۔ اس کے برعکس ہیلی کاپٹر پر جاتے تو ساٹھ ہزار یورو (یعنی دس گنا زیادہ) خرچ ہوتے۔
گزشتہ ہفتے ہمارے صدر مملکت نے بھی ٹرین کا سفر کیا۔ یہ کسی کانفرنس وغیرہ کے لیے نہیں تھا۔ ان کا مقصد فقط یہ تھا کہ’’لوگ ریلوے پر زیادہ سفر کریں۔‘‘ اس مالی نقصان کو تو چھوڑیے جو کئی بوگیوں میں بکنگ نہ کرنے سے ہوا۔ اس کرب کا اندازہ لگائیے جو مسافروں کو ہوا۔ ٹکٹوں کو فروخت بند کردی گئی۔ مین لابی میں مسافروں کا داخلہ ممنوع ہو گیا۔ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد ٹریفک کا نظام اتھل پتھل ہو گیا۔ دو خاص سیلونوں کی حفاظت کے لیے بیس کمانڈوز اور تیس پولیس اہلکار متعین کیے گئے۔ راستے کے ہر اسٹیشن پر افسران کھڑے کئے گئے۔ میڈیا بتاتا ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر بیسیوں اہلکار اور درجنوں افسر سارا دن کھڑے رہے‘ متعدد گاڑیاں گھنٹوں لیٹ ہوئیں۔
اس سب کچھ کے ساتھ اب صدر مملکت کا یہ ارشاد پڑھیے کہ … ’’پی آئی اے میں بھی عام لوگوں کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔‘‘ صدر صاحب کا دوسرا ارشاد سن کر آپ کو مزید لطف اندوز ہونا پڑے گا… ’’ریلوے کا سفر آرام دہ اور بہتر ہورہا ہے۔‘‘
اس میں کیا شک ہے کہ اگر ٹریفک بند کردی جائے اور عام مسافروں کو ریلوے کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے۔ راستے میں ہر اسٹیشن پر خدام ایستادہ ملیں‘ خلق خدا کو جتنا ممکن ہے‘ دور رکھا جائے تو ریلوے کا سفر یقینا آرام دہ اور بہتر ہوگا۔
عام لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کا دعویٰ تھا تو لارڈ کرزن کی طرح سفر کرنے کے بجائے صدر صاحب پارلر میں دوسرے مسافروں کے ساتھ سفر کرتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے عوامی خزانے سے خرچ کروانے کے بعد ریلوے کے سفر کو آرام دہ قرار دینا معصومیت کی آخری حد ہے۔ اس کے علاوہ اور کہا بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا قومی نعرہ ہونا چاہیے ’’یا نفاق! تیرا ہی آسرا‘‘ نفاق کا یہ عالم ہے کہ رات دن تقریروں‘ خطبوں‘ وعظوں میں تذکرے ہوتے ہیں کہ جب امیرالمومنین عمر فاروقؓ بیت المقدس گئے تو راستے میں وہ اور ان کا خادم باری باری اونٹ پر سوار ہوتے۔ روایت یہ ہے کہ جب شہر میں داخل ہوئے تو خادم سوار تھا اور آپ پیدل۔ اونٹ پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو‘ دوسرے میں کھجوریں۔ مسلمانوں کی فوج کے کمانڈر نے جو وہاں متعین تھے‘ عرض کی کہ بوسیدہ اور پیوند زدہ لباس اتار کر شاہانہ لباس زیب تن کرلیں مگر آپ کا جواب تھا نہیں! اسلام کی عزت ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ بیت المقدس کے بڑے پادری نے سوچا تھا مسلمانوں کا ’’بادشاہ‘‘ ایک لشکر جرار کے جلو میں فاتحانہ شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوگا مگر دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہے اور دوسرا نکیل پکڑے آگے آگے چل رہا ہے۔ اس وقت آپ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے۔
ایک بھی مسلمان سربراہ ملک‘ پورے عالم اسلام میں ایسا نہیں جو حضرت عمرؓ کی پیروی کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کا تو کیا کہنا۔ ساحل کے ساحل بُک کرائے جاتے ہیں۔ ایک بادشاہ سلامت چند ماہ پہلے انڈونیشیا کے تفریحی جزیرے بالی تشریف لے گئے۔ پچیس شہزادے اور چودہ وزرا ساتھ تھے۔ دیگر شرکا سمیت وفد پندرہ سو افراد پر مشتمل تھا۔ چھ لگژی ہوٹل مکمل بک کرائے گئے تھے۔ گاڑیوں اور دیگر سازوسامان کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کئی پروازوں کے بعد سارا سامان پہنچا۔ ایک محتاط اندازے کی رُو سے اس تفریحی خرچ پر تین کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم صرف ہوئی۔
پاکستان کے وزیراعظم لندن علاج کرانے کے لیے گئے تو انہیں واپس لانے کے لیے قومی ایئرلائن کا خالی جہاز گیا۔ دوسری پروازوں کو منسوخ یا تتر بتر کر دیا گیا۔ کل خرچ اس واپسی پر تقریباً چار لاکھ اسی ہزار ڈالر آیا۔ یعنی ساڑھے چار کروڑ روپے سے زیادہ۔
مگر خلفائے راشدینؓ کی اتباع کفار سربراہان مملکت کر رہے ہیں اور برابر کر رہے ہیں۔ صدر اوباما اپنے پالتو جانور کو ڈاکٹر کے پاس خود لے کر جاتے رہے۔ کھانا باہر سے کھانا پڑا تو قطار میں کھڑے ہو کر برگر خریدا۔ ان ملکوں کے صدر اور وزیراعظم پبلک بسوں اور ٹرینوں میں عام سفر کرتے پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کی ملکہ اپنے گھر کے لیے سبزی خود بازار جا کر خریدتی ہے۔ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ جرمنی اور کئی دوسرے ملکوں کے رہنما سائیکلوں پر دفتر آتے جاتے ہیں۔ سرکاری دعوتوں میں کئی کورس نہیں ہوتے۔ پہلے سلاد کی پلیٹ‘ پھر اصل کھانا یعنی مرغی یا مچھلی‘ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کیک کی صورت میں ایک میٹھا۔ فرانس کے صدارتی محل میں دعوت ہو تو غیر ملکی مہمان کو بتا دیا جاتا ہے کہ چار یا پانچ افراد کی گنجائش ہے۔
کہنے کو یہاں ہر شخص تبلیغ میں مصروف ہے۔ صبح سویرے ہی فیس بک‘ ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع بروئے کار لانے شروع کردیئے جاتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد کوئی حدیث‘ کوئی آیت‘ اولیا کا کوئی قول زریں وصول ہوتا ہے۔ آخرت سے ڈرایا جاتا ہے اور ساتھ دھمکی دی جاتی ہے کہ اتنے افراد کو آگے نہ بھیجا تو تمہارے ساتھ یہ بھی ہوسکتا ہے اور وہ بھی۔ کسی کو فون کریں تو رنگ ٹون میں آیات قرآنی ہوں گی یا نعت۔ دوسری طرف صبح ہی سے جھوٹ‘ منافقت‘ وعدہ خلافی اور اَکل حرام کی کارروائیاں آغاز ہو جاتی ہیں۔ دکاندار گاہک سے‘ افسر ماتحتوں سے‘ ماں باپ بچوں سے‘ اساتذہ شاگردوں سے اور سیاست دان پبلک سے جھوٹ بولنا شروع کردیتے ہیں۔ کون سی برائی ہے جو روا نہیں رکھی جاتی۔ اگر وقت کو روپے میں ڈھالنا ممکن ہوتا تو معلوم ہوتا کہ ہر روز کھربوں روپے کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ دفتروں کے چکر‘ میٹر لگوانے کے لیے چکر‘ درزی کے چکر‘ کوئی بھی مقررہ وقت پر کام ڈیلیور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ذہنی طور پر یہ طے ہے کہ جو وعدہ کیا ہے‘ وہ تو محض بات تھی جو کر دی گئی۔ اس کا مفہوم یہ تھوڑی ہے کہ اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔
اب اگر کسی دن صدر صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈائیوو میں سفر کریں گے تو جو کچھ ہو گا‘ اس کا اندازہ کر لیجیے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com